سنا ہے میرے شہر میں پھر سے عید آئی ہے
پہلے لوگ کئی کئی چیزیں خریدتے تھے، اب کوئی ایک چیز خریدتے وقت بھی کئی مرتبہ سوچتے ہیں۔
ٹی وی پر ایک بوڑھی عورت کی باتیں سن کر میرا دل اُداس ہوگیا، جب اُس نے کہا کہ ہم اپنی افطاری کے دسترخوان پر سجے بیشمار کھانوں میں یہ کیسے بھول جاتے ہیںکہ کچھ لوگوں کا مغرب کے بعد بھی روزہ ہوتا ہے،یہ کہہ کر وہ رونے لگ گئی کیوں کہ اُس کے گھر کا واحد کفیل بیٹا بیمار ہو کر فوت ہوگیا تھا، جب کہ اُس کے تین بچے، بیوہ اور بوڑھی ماں اب کسی کے زیر کفالت نہیں تھے، کئی کئی دن سے ایک ہنڈیا پر گزارہ کرنا پڑتا۔ عید کے نئے کپڑے تو دور کی بات عید پر دو وقت کی روٹی ملنے کے آثار بھی کم دکھائی دے رہے تھے۔ اس بوڑھی عورت کو دیکھنے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ اس ملک میں کتنے ایسے خاندان ہوں گے جنھیں ٹی وی پر آنے کا موقع نہ ملا ہوگا اور وہ گھر بیٹھے حکمرانوں سے آس لگائے بیٹھے ہوں گے کہ اے کاش کوئی اُن کا مسیحا بنے۔کوئی اُن کے لیے بھی عید کا ساماں پیدا کرے کیوں کہ بقول شاعر
غریب ماں اپنے بچوں کو بڑے پیار سے یوں مناتی ہے
پھر بنا لیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آ تی ہے
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ پرسان حال عوام کو اس نہج پر لانے والا کون ہے؟ کیا ہم اس کے ذمے دار خود ہیں یا کوئی اور؟اگر خود ہیں تو ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم سے پہنچاننے میں بھول ہو جاتی ہے؟ اور ہم پھر انھی آزمائے ہوئوں کو کیوں چن لیتے ہیں جنہوں نے عوام کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ اور خود اربوں ڈالرز کے محلوں میں رہتے ہیں جن کی عیدیں بھی دیار غیر میں گزرتی ہیں۔ جو صرف پاکستان میں بریف کیس لے کرآتے جاتے ہیں۔جن کے فارن اکائونٹس میں پڑے پڑے اربوں روپے کھربوں میں بدل جاتے ہیں۔
آج وہ سر بازار کہہ رہے ہیں کہ ''ایک روپے کی کرپشن ثابت نہیںہوئی'' یا ڈھٹائی ترا آسرا۔ ابھی تو رکھ رکھائو وضعداریوں کا ماراہوا چوہدری نثار علی خان چپ ہے، زیادہ سے زیادہ بولا تو صرف اتنا کہ..... اگر میں نے منہ کھولا تو نواز شریف منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ خیر ان کی عیدین بھی اچھی ، ان کا ہر تہوار عید، ان کا ہر گزرا دن عید مگر میرے چاروں سمت تو دکھوں، فاقوں، زخموں اورآنسوئوں کے گدلے پانیوں کی رات ہے۔ اس ''جھیل'' کی تہہ میں مجھے تو خوشی کا کوئی دمکتا موتی دکھائی نہیںدیتا۔ اس معاشرہ میں جہاں 98فیصد گھروں میں غربت، عسرت، تنگدستی، فاقہ مستی، خود سوزی اور خودکشی کی وارداتوں نے آج بھی صف ماتم بچھا رکھی ہے، حیران ہوں کہ ان تیرہ و تاریک گھروں کے 22کروڑ مکین کیونکر عید منائیں گے؟ بقول ساغر صدیقی
حاکمان وقت دیکھیں قوم کا کیا حال ہے
چند لوگوں کی ہیں عیدیں معاشرہ کنگال ہے
آٹا گھی چینی کا بھائو اور کہاں تک جائے گا
قیمتیں ہیں آسماں پر کون نیچے لائے گا
بجلی پانی اور سوئی گیس کے بل دیکھ کر
قوم کے ہر فرد کا چکرا رہا ہے آج سر
حد تو یہ ہے کہ ان حکمرانوں کے ساتھ ساتھ میرے ملک کی صاحب حیثیت عوام بھی اپنے قرب وجوار میں فاقوں سے سسکتے انسانوں کو،بے گھر لوگوں کو، بے لباس بچوں کو، چھوڑ کر جو لوگ کئی کئی حج کرتے ہیں سال میں کئی کئی بار عمرہ کرنے جاتے ہیں، ہر ماہ رمضان مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھتے ہیں، وہ اپنی مہنگی ترین عبادتوں میں کیسے روحانی سکون کے متلاشی ہیں۔ رب کی تلاش میں لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں،رب تو ان لوگوں میں بھی بستا ہے جو ان کے قرب وجوار میںموجود ہیں۔اور پھر درست کہا گیا ہے کہ جیسے عوام ہوں اُن پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ اسی لیے آپ ان حکمرانوں کی اہلی اور نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہر سال عید آتی ہے اور ہر سال مہنگائی کا رونا رویا جاتاہے ۔
ہر سال سیلاب آتے ہیں اور ہرسال سیکڑوں لوگ مرتے ہیں لیکن کوئی سدباب نہیں کیا جاتا۔ دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ مذہبی تہواروں کے مواقعوں پر عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے۔ حکومتیں ہی نہیں ہر طبقے کے افراد دیگر طبقات کے لوگوں کو ہرممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً یورپ و امریکا میں لوگوں کی اکثریت،ایسی چیزیں جو عام دنوں میں گراں ہونے کے باعث نہیں خریدی جاسکتیں، ان کی خریداری کے لیے کرسمس کا انتظار کرتی ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں عید اور رمضان المبارک کے موقع پر تو بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ ایک روپے کی چیز پندرہ روپے میں فروخت کی جاتی ہیں اور اس صریحاً لوٹ مار کو جائز بھی سمجھا جاتا ہے۔
یاد کریں، ایک وقت ایسا بھی ہوا کرتا تھا جب عید کا یہ تہوار خوشیوں، مسرتوں، رونقوں، قہقہوں اور روشنیوں کا نقیب ہوا کرتا تھا لیکن آج مارے خوف کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ عید آئی کہ قیامت آئی۔عید کے دن جیسے جیسے قریب آتے جاتے ہیں، عام لوگوں کا بلڈپریشر بڑھنے لگتا ہے، اس سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح مارکیٹوں اور شاپنگ سینٹرز میں خریداروں کا ہجوم نظر آرہا ہے، لیکن چیزوں کے دام پوچھنے کے بعد چہرہ کا رنگ ماندپڑ جاتا ہے۔
پہلے لوگ کئی کئی چیزیں خریدتے تھے، اب کوئی ایک چیز خریدتے وقت بھی کئی مرتبہ سوچتے ہیں۔ یہ وہ حکمران ہیں جو اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ''رمضان بازاروں '' کا ڈرامہ لگاتے ہیں، اگر یہی حکمران مارکیٹوں میں موجود اشیاء خورونوش پر اپنا مکمل کنٹرول دکھائیں تو ایسے بازاروں کی ضرورت ہی نہ پڑے لیکن قسمت اس قوم کی کہ انھیں شعبدہ باز حکمران میسر ہوئے ہیں ورنہ عوام کا ہر دن عید کا دن ہو اور کوئی بوڑھی ماں اپنی بیوہ بہو اور یتیم پوتے پوتیوں کے ساتھ فاقوں کے خوف اور بے گھر ہونے کے ڈر سے روتی نظر نہ آئے!