جدہ اور مکہ پہلا حصہ
اس مقدس شہر میں غیر مسلموں کی آمد ممنوع ہے، جس پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔
''جدہ'' بحیرہ احمر پر واقع مشہور سعودی بندرگاہ دنیا کی قدیم ترین بحری تجارتی راستوں اور مراکز میں سے ایک ہے۔ ''جدہ'' کے معنی ''وادی'' ہے۔ چونکہ یہاں سے مکہ مکرمہ جانے کے لیے پروازوں کے شیڈول نے یہاں مختصر قیام کا موقع دے ہی دیا۔ اپنی بزرگ ترین ماں اماں حوا کے مدفن کی زیارت کا فیصلہ کیا، جس کی بدولت رب کریم کو زمین کی خلافت کا چارج انسان کے حوالے کرنے کا فیصلہ ذرا فوری کرنا پڑ گیا۔
جدہ کے اس تاریخی قبرستان کے دروازے سعودی قانون کے تحت ہر شخص کس و ناکس کے لیے نہیں کھولے جاتے لیکن قدرتی طور پر مجھے یہ دروازہ گارڈ نے کھول دیا، لیکن اس کی نگاہ مجھ پر گڑی رہی، وہ یہ دیکھ رہا تھا یہ یہاں تصویر کشی نہ کریں۔ میں نے ایسا نہ کیا۔ اس قدیم ترین قبرستان میں لوح مبارک سے محروم کس قبر پر نشان نہ تھا۔
بتایا جاتا 1928ء تک قبر کا نشان جسے حجاز کے اس وقت کے گورنر شہزادہ فیصل کے حکم سے مٹا کر زمین کے برابر کردیا گیا رہے سہے آثار مٹانے کے لیے 1975ء میں قبرستان کے اس حصے کی زمین کو کنکریٹ سے پختہ کردیا گیا، جہاں روایتی کہانیوں کے مطابق اماں حوا آسودہ خاک ہیں۔ بے نشان قبروں کی ان طویل قطاروں میں حوا کی قبر کی شناخت کے لیے کوئی حتمی ثبوت نہیں، صرف آثار قدیم کے حوالے سے بھی اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہی مقام بی بی حوا کا مدفن ہے۔
صرف قدیم تاریخ دانوں اور مہم جو سیاحوں کی بیان کردہ روایات جن کا ماخذ یقینی طور پر مقامی لوگوں کی سینہ بہ سینہ باتیں اور کہانیاں ہوں گی، اس روایات کو تقویت دیتی ہیں کہ بی بی حوا کی آرام گاہ یہاں پر واقع ہے۔ ان روایات کی تصدیق مشہور عرب سیاح ''ابن بطوطہ'' نے بھی کی ہے اور آخر میں ''حضور محمدؐ'' کے بعض صحابہ کرام کے بیان کردہ اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ اماں حوا اسی جگہ مدفن ہیں۔بحیرۂ احمر پر واقع قدیم بندرگاہ ''جدہ'' آج کل ''سعودی عرب'' کے مغربی ساحل کے وسط میں واقعہ ایک خوشحال جدید شہر ہے۔ دنیا کے قدیم ترین تجارتی راستوں پر واقع اس شہر میں جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اور مزین بندرگاہ اور ہوائی اڈہ جو دنیا بھر سے آنے والے روزمرہ مسافروں کے علاوہ حج کے زمانے میں لاکھوں عازمین حج کو سفر کے دوران آرام اور سہولت فراہم کرتا ہے۔
اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جدہ ہی سعودی عرب کا سب سے ''بڑا کثیر القومیت'' شہر ہے۔ میں شہر میں جہاں بھی گیا شاندار بلند و بالا عمارات دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ تاریخ دانوں کے مطابق جدہ ایک قدیم ماہی گیر بستی تھی، جس کی بنیاد یمنی مچھیروں نے پانچ سو بائیس قبل مسیح میں رکھی۔ اس شہر کی حقیقی ترقی کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب بحیرہ ہند کے تجارتی راستوں پر ایک مرکزی مقام کی حیثیت سے نمودار ہوکر مستحکم ہوا ہر قسم کا تجارتی سامان اسی راستے سے مکہ مکرمہ پہنچتا تھا اس کے علاوہ بحری راستے سے آنے والے عازمین حج اسی بحری بندرگاہ پر اترتے تھے۔ اس دوہری حیثیت نے جدہ کو ایک کثیر جہتی ثقافت کا مرکز بنا دیا۔ اس کی نمایاں خصوصیت ایک منفرد، روایتی طرز تعمیر ہے تاریخی اہمیت کا حامل جدہ شہر بحیرہ ہند کی تجارتی گزرگاہوں کے راستوں پر ہونے والی اس تجارتی ترقی کا آئینہ دار ہے۔
جو 1869ء میں نہر سوئز کے افتتاح کے بعد ہوئی اور دخانی کشتیوں کے تعارف اور عام استعمال نے یورپ، ایشیا اور ہندوستان کو مضبوطی سے منسلک کردیا۔ اس صورتحال میں بعض تاجروں نے بے تحاشا دولت کمائی، اس کے علاوہ بحری ذرایع آمد و رفت کی ترقی کے باعث عازمین حج کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا جن کے قیام و طعام کی خاطر کیے جانے والے انتظامات کو بڑے پیمانے پر وسعت دینے کی ضرورت میں روزگار اور تجارت کو فروغ دیا اور مقامی ترقی کی زبردست لہر نے شہر کو ٹھوس معاشی استحکام بخشا۔ 1970ء کے آخر تک جدہ کی آبادی کا تخمینہ دس لاکھ افراد تھا جو 1993ء میں ڈبل ہوگئی۔
اس وقت جدہ چونتیس لاکھ آبادی کے ساتھ سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر، معاشی میدان میں جدہ کی توجہ کا مرکز سائنس اور انجینئرنگ کے میدان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہے، تاکہ ان میدانوں میں سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کو قیادت فراہم کی جاسکے۔ انفرادی طور پر افریقہ میں جدہ کی چوتھی پوزیشن ہے۔ اس شہر نے بہت کم وقت میں غیر معمولی ترقی کی جو مملکت کے ترقیاتی منصوبوں کا تقاضا تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ عوامی ترقی کے جذبے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جو ترقیاتی منصوبوں کی سب سے زیادہ پشت پناہی کرتا ہے۔ اس وقت جدہ جدید فن تعمیر کے خوبصورت ترین نمونوں کا حامل ہے سڑکوں کے کنارے کھجور کے درختوں کی قطاریں اور شہر میں جابجا کانسی کے مجسمے شہر کو خوبصورت بنانے میں سرکاری منصوبوں کی کامیابی کی تصدیق کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سعودی فن تعمیر کبھی بھی اس اختلافی صورتحال سے نجات نہیں پاسکتا کیونکہ اپنے مقصود تفاخر میں تعمیری نمونے کے عملی پہلو اور روحانیت ایک دوسرے سے الگ نہیں کیے جاسکتے۔ وہ روحانی تقاضے جو لاطینی معاشرے کے تقاضوں سے یکسر مختلف ہیں اور جن پر قوم انحصار کرتی ہے اس ضمن میں باقی دنیا اسلام کے ساتھ تہذیبی رابطہ رکھنے کا بھی۔میں جدہ سے جلد ازجلد مکہ روانہ ہونا چاہتا تھا، اس غرض سے مجھے ''میقاۃ'' پہنچنا تھا تاکہ احرام باندھ سکیں اور مکہ جاکر عمرہ ادا کیا جاسکے۔ ''میقاۃ'' سے مراد وہ مقام ہے جہاں حج یا عمرہ کے لیے احرام پہن سکیں۔ ڈرائیور نے مجھے بتایا بحیرہ احمر کے کنارے واقع میقاۃ ہے، جس کے گرد و نواح میں ایک اہم تاریخی مقام ''غدیر'' واقع ہے، میں نے پہلے غدیر جانے کا ارادہ کیا، چونکہ ڈرائیور راستے سے واقف تھا اس لیے اس نے خود یہ بتایا اور وہ مجھے غدیر لے گیا۔
اسے بدقسمتی کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے اس نمایاں اہمیت کے حامل مقام ''خم غدیر'' کو رہنمائی کرنے والے تمام آثار آتشزدگی کے ذریعے مٹا دیے گئے ہیں، کھجور کے درخت جلا دیے گئے ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں ایک چھوٹی سی عمارت ہوا کرتی تھی، جو تباہ کردی گئی تھی، یہاں تک کہ کنواں بھی ختم کردیا گیا تھا۔ غدیر کے مقام کی تاریخی اہمیت اللہ کے آخری نبیؐ کے پہلے اور آخری حج کے حوالے سے ہے، جو آپ نے دس ہجری میں ادا کیا۔
''حجۃالوداع'' کے نام سے مشہور اس تاریخی حج کے بعد آپؐ مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے۔ 18 ذی الحجہ اتوار کا دن تھا، جب آپؐ اس مقام پر پہنچے۔ یہاں حضورؐ نے خطبہ فرمایا، ہر سال 18 ذی الحجہ کو شیعہ مسلمان اس دن کی یاد میں عید غدیر مناتے ہیں۔عربی زبان میں عمرہ کے معنی دورہ کرنے کے ہیں، جب کہ اسلامی اصطلاح میں عمرہ حج کے خاص دن کے علاوہ سال کے کسی بھی حصے میں احرام باندھ کر خانہ کعبہ میں حاضری دینے، خانہ کعبہ کا طواف کرنے اور صفا و مروہ کے درمیان دوڑ کر سات چکر لگانے کا نام ہے۔
جسے اسلامی اصطلاح میں ''سعی'' کہتے ہیں، اس موقع پر مخصوص خاص لباس احرام کہلاتا ہے، مرد اور خواتین کا احرام الگ ہوتا ہے۔ احرام باندھ لینے کے بعد جو چیزیں عام زندگی میں حلال ہیں وہ حج یا عمرہ کی نیت سے احرام باندھ لینے کے بعد حرام ہوجاتی ہیں۔
خوشبو لگانا، مردوں کا سر ڈھانکنا یا سلا ہوا لباس پہننا، شکار کرنا، کیڑے مکوڑے مارنا، عورتوں کا چہرہ چھپانا، شیشہ دیکھنا، بننا سنورنا، ہتھیار رکھنا، سایہ دار جگہ تلاش کرنا، ازدواجی تعلق، بند جوتے یا موزے پہننا، ناخن تراشنا، خواتین صرف پاکیزگی کے ایام میں ہی عمرہ ادا کرسکتی ہیں۔ اس مقدس شہر میں غیر مسلموں کی آمد ممنوع ہے، جس پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔
مکہ پہنچتے ہی میں ہوٹل میں گیا، وہاں کمرے میں اپنا سامان چھوڑا اور مسجد الحرام یعنی خانہ کعبہ کا رخ کیا تاکہ طواف کیا جا سکے، جوکہ عمرہ کا دوسرا اہم رکن ہے، طواف کرنے میں سات چکر لگائے جاتے ہیں، طواف گھڑی کے الٹے رخ کی جانب کیا جاتا ہے، جس کو اینٹی کلاک وائز موومنٹ کہتے ہیں، طواف کے دوران کعبہ میری بائیں جانب تھا ہر بار ''حجر اسود'' کی جانب گزرتے میں اس کی جانب ہاتھ سے اشارہ کردیتا اور زبان سے بسم اللہ اور اللہ اکبر کے الفاظ ادا کرتا۔ (جاری ہے-)