عیدالفطر اتحاد و یگانگت کے عملی اظہار کا دن

اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی اس لیے عطا کی ہے کہ وہ ہمیں آزمائے کہ ہم کس طرح عمل کرتے ہیں۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

جس طرح ایک طالب علم دن رات محنت کرتا ہے، امتحان کے وقت اپنی بہترین ذہنی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے۔ نتیجے کے دن اس کی حالت اور غیر ہوجاتی ہے، لیکن جب وہ امتحان میں نمایاں کامیابی کی نوید مسرت سنتا ہے تو اس کی خوشی کا پیمانہ بھر کر آنسوؤں کی صورت چھلکنے لگتا ہے۔

اسی طرح ایک مسلمان ماہ رمضان میں عبادت و ریاضت کے ذریعے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے۔ وہ تلاوت قرآن، قیام، رکوع و سجود اور دیگر طریقوں سے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن تقاضائے بشری کے تحت اس کا دل دھڑکتا رہتا ہے کہ کہیں نفس اور شیطان کھیل نہ گیا ہو، کہیں ریاکاری، خودنمائی اور کسی اور ان جانے شر نے اس کی محنت پر پانی نہ پھیر دیا ہو۔ جوں جوں نتیجے کی گھڑیاں قریب آتی ہیں، اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جاتی ہے، لیکن جب پہلی شوال کو نتیجے کا اعلان بہ زبان ناطق قرآن سنتا ہے۔

''جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور تراویح میں پابندی کی اور صدقہ ادا کیا اور پھر عید گاہ کو گیا، وہ مغفور ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر توجہ فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے بندو، تم نے میرے لیے روزے رکھے، میرے لیے نمازیں پڑھیں، اب تم اپنے گھروں کو اس حال میں لوٹ جاؤ کہ تم بخش دیے گئے ہو۔''

اللہ رب کریم کی طرف سے رحمت اور مغفرت کا پروانہ ملنے پر ایک مسلمان کی خوشی کا کیا عالم ہوگا۔ وہ خوشی اور مسرت کی کیفیت محسوس تو کی جاسکتی ہے لیکن الفاظ اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ ہر چہرہ خوشی سے دمکتا ہوا اپنے رب کی بڑائی، پاکی، تعریف اور کبریائی کا ورد کرتے ہوئے رب کعبہ کے حضور دو رکعت نماز بشکل نماز عید، برادران اسلام کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ اللہ کی وحدانیت اور معبودیت اور شمع توحید کے پروانوں کی عبدیت، وحدت و اخوت کا عالمی سطح پر روح پرور منظر دیکھ کر دشمنان اسلام انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

عیدالفطر روح کا مادے پر فتح کا جشن ہے، ہر ادا نفس کی آلودگی سے مبرا اور روح کی پاکیزگی سے منزہ ہوتی ہے۔ مادی تقاضوں کی تکمیل کو اسلام یکسر ختم نہیں کرتا، کیونکہ اسلام دین فطرت ہے، لیکن وہ مادی خوشیوں کی تکمیل میں روحانی اور اخلاقی قیود کو پیش نظر رکھنے کی سختی سے تاکید کرتا ہے۔


اسلام میں ہر مسرت جھوٹی ہے، اگر روح تسکین نہ پائے۔ یہی بنیادی، اصولی اور جوہری فرق ہے، اسلامی اور غیر اسلامی جشن و تہوار میں۔ اسلام، روحانی اور اخلاقی خوشی اول، مادی اور نفسانی خوشی آخر کا قائل ہے۔ غیر اسلامی تہواروں میں مادے کا پرچم فضا میں لہراتا ہے اور روح کا پرچم سرنگوں رہتا ہے۔ لذت نفس و شہوت کا بھوت سروں پر سوار رہتا ہے۔ روحانیت پر اداسی چھا جاتی ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان غیر اسلامی تہذیب و تمدن کے متوالوں کی حرکات و سکنات سے اجتناب کرنا چاہیے۔

کیونکہ ہم اللہ کے لیے ہیں، اللہ کے آگے جواب دہ ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف لوٹ کر جانا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی اس لیے عطا کی ہے کہ وہ ہمیں آزمائے کہ ہم کس طرح عمل کرتے ہیں۔ قوم رسول ہاشمی کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں یا یہود و ہنود کا انداز فکر و عمل۔ اسلامی اخلاقی اقدار کے حصار میں رہ کر مادی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کی کھل کر اجازت دیتا ہے، لیکن اس میں مادر پدر آزادی کی قطعاً اجازت نہیں۔ قوم رسول ہاشمی کا عیدالفطر کے مبارک اور مقدس دن کو غیر اسلامی اقوام کی طرز پر منانے سے کیا ہم اپنے کلمہ طیبہ کے اقرار کی عملی طور پر نفی نہیں کرتے۔ کیا اللہ ہماری جفا پر، خفا ہونے میں حق بجانب نہ ہوگا؟

عیدالفطر درد دل کا پیغام اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اسلام معاشرتی اور سماجی فلاح کا سب سے بڑا داعی ہے۔ وہ آسودہ حال مسلمانوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ معاشی طور پر بدحال مسلمانوں کا سہارا بنیں۔ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، جینا وہ ہے جو دوسروں کی خاطر ہو۔ عیدالفطر کے مبارک دن رسول اکرمؐ کے دو ارشادات اگر ہماری زندگی کے لیے مشعل راہ بن جائیں تو واقعی ہماری عید ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا ''مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ وہ محبوب ہے جو اس کی عیال سے محبت کرے۔'' اسی طرح آپؐ نے فرمایا ''خدا کی قسم وہ مومن نہیں، جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوک سے کروٹیں بدلتا رہے۔''

اسلام اپنے ماننے والوں میں اجتماعیت کا احساس شدت سے پیدا کرتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر انفرادیت کو اجتماعیت کی خاطر قربان کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہے۔ جو مخلوق کو نظر کرم سے نہیں دیکھتا، خالق بھی اس پر ابرِ کرم نہیں برساتا۔ عیدالفطر کے مقدس دن ہمیں دکھی انسانیت کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے۔ غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں اور دکھ درد میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو تلاش کرکے ان کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ عید کی مادی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ یہی ہے عبادت، یہی دین و ایمان اور یہی پیغام عید ہے۔

رحمۃ اللعالمینؐ کا رحمت بھرا اسوہ حسنہ امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ نے فرمایا ''عید کے دن غریبوں کو خوشحال اور غنی کرو۔'' اس لیے صدقہ فطر کو آپ نے عیدالفطر کا جزو لاینفک قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا ''روزوں کی عبادت اس وقت تک زمین و آسمان میں معلق اور بارگاہ ایزدی میں قبول نہیں ہوتی جب تک ہر وہ شخص صدقہ فطر ادا نہیں کرتا، جو صاحب نصاب ہو۔'' اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اسے درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا ہے، جو انسان رحم دل نہیں، سنگ دل ہے، اپنی ہی ذات میں مگن رہتا ہے۔ دوسروں کی دنیاوی ضروریات کا خیال نہیں رکھتا۔ بھوکے، پیاسے، غربت کے مارے انسانوں کو دیکھ کر اس کا دل نہیں روتا، وہ کسی کے درد کی دوا نہیں بنتا۔ وہ مسلمان تو بڑی بات انسان کہلانے کا حق دار بھی نہیں۔ عید صرف ایک رسمی تہوار نہیں بلکہ ایک عبادت ہے، دین داری میں دنیاداری ہے۔ اپنی خوشیوں کے ساتھ دوسروں کی خوشیوں کا سامان کرنا ہی عید کا حقیقی مقصد ہے۔

یورپی مصنف سر تھامس آرنلڈ لکھتا ہے ''اسلام میں مشترکہ عبادات کا ایک عظیم عمل ہے، یہاں افریقا کے مغربی ساحل کا نیگرو، مشرق بعید کے چین سے ملتا ہے، امیر اور مہذب ترک ملایا کے بعید ترین حصے سے آنے والے غیر مہذب جزیرے کے رہنے والے اپنے (مسلمان) بھائی کو پہچانتا ہے، وہ عیدین مناتے ہیں، نمازی کسی بھی رنگ و نسل اور مرتبے کا ہو، اس کا ماضی کیسا ہی کیوں نہ ہو، اسے اسلامی برادری میں قبول کر لیا جاتا ہے اور وہ مساوی درجہ پاتا ہے۔ اسلام ایک زبردست سیاسی قوت ہے، جیسے کرہ ارض کے فاصلے سمٹتے چلے جائیں گے، ویسے ویسے اس قوت کا اثر زیادہ محسوس ہونے لگے گا۔''
Load Next Story