عفو و درگزر معاشرتی ترقی کی ضمانت
تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کی صفتِ ’’عفو ‘‘ کے مکمل نمونہ اور آئینہ دار تھے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ''عفو'' بھی ہے۔ جس کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ مجرم، خطاکار اور سزا و عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں سے درگزر کرنے والا۔ جرم ، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتاؤ کے بہ جائے نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔
تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کی صفتِ ''عفو '' کے مکمل نمونہ اور آئینہ دار تھے۔ آپ ﷺ کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سب سے بڑی، روشن اور واضح دلیل و برہان ہے۔
سیرت کی تمام کتب میں ہے کہ آپ ﷺ کو دکھوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکل حالات سے دوچار کرنے والے، آپ ﷺ کی ذات اقدس کو رنج و غم اور تکالیف میں مبتلا کرنے والے، آپؐ کو ہر طرح کی اذیتیں دینے والے، مارنے پیٹنے والے، گردن مبارک میں کپڑے اور رسیاں ڈال کر بھینچنے اور بَل دینے والے، آپ ﷺ کے مقدس جسم کو تیر و تفنگ، نیزوں اور پتھروں سے لہولہان کرنے والے، آپ ﷺ کو ذہنی کوفت دینے والے، آپ ﷺ پر ساحر، مجنون اور دیوانہ جیسے ناپاک جملے کسنے والے، آپ کو اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور کرنے والے، آپ ﷺ کے آل و اصحاب علیہم الرضوان کو خاک و خون میں تڑپا تڑپا کر شہید کرنے والے، حتی کہ آپ ﷺ کی جان کے پیاسے کھانے میں زہر دینے والے لوگ جب مفتوح، جنگی قیدی اور بے بس ہو کر مکمل طور پر آپ ﷺ کی دست رس میں آئے تو آپ ﷺ نے انہیں نہ صرف یہ کہ دل و جان سے معاف کردیا بل کہ ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو کبھی اسلام کو دیس نکالا دینا چاہتے تھے اسلام نے خود انہی کے دلوں میں ڈیرہ ڈال دیا۔
انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خوش گوار ماحول بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے عفو و درگزر پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت، اجر و ثواب، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو واضح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔
اللہ کے برگزیدہ نیک بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی عفو و درگزر جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے۔ چوں کہ غصے کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرہ میں خون خرابہ، قتل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اس کا حل عفو و درگزر کو قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رہے کہ عفو و درگزر کا حکم ایسے معاملات میں ہے جن کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اور اگر معاملہ دین اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی عزت و حرمت کا ہو تو وہاں غصہ کا نہ آنا مذموم و ناپسند ہے۔ وہ کفار اور دین دشمن قوتیں جو اسلام اور اہل اسلام کو مٹانے کے درپے ہوں ان کے بارے میں ہرگز عفو و درگزر کا حکم نہیں۔ اسی طرح سماجی برائیوں کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے قانونی سزائیں جاری کرنے میں بھی عفو و درگزر سے کام نہیں لیا جائے گا ورنہ بدامنی مزید پھیلے گی۔
قرآن کریم کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جہاں آپ ﷺ کے اپنے عفو و درگزر کے سیکڑوں بل کہ ہزاروں واقعات ملتے ہیں، وہاں پر آپ ﷺ نے اس کی تعلیم اور خوب ترغیب بھی دی ہے۔
1: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' معاف کرنے والے کی اللہ تعالیٰ عزت بڑھا دیتے ہیں۔''
(صحیح مسلم ، باب استحباب العفو والتواضع)
2: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے منبر پر تشریف فرما ہو کر فرمایا: '' تم مخلوق پر رحم کرو اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا۔'' (مسند احمد، مسند عبداللہ بن عمرو)
3: حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنت میں اس کے لیے محلات تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کردیے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے والے سے صلۂ رحمی کا سلوک کرے۔'' (مستدرک حاکم، تحت تفسیر سورۃ آل عمران)
4: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔''
(مستدرک حاکم، کتاب البر والصلۃ)
5: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اور اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں وہ کون سی تین عادات ہیں ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو و درگزر سے کام لو۔ جب تم یہ کام کر لو تو جنت میں داخل ہو جانا۔'' (مستدرک حاکم ، تحت تفسیر سورۃ اذا السماء انشقت)
6: حضرت انس بن مالکؓ روایت ہے کہ ایک بار ہماری مجلس میں رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ مسکرائے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک نظر آنے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ سے عرض کی یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان کس وجہ سے آپ مسکرا رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : '' میری امت کے دو آدمیوں نے اللہ رب العزت کے ہاں کسی معاملے پر بحث و مباحثہ کیا۔ ایک ان میں سے کہنے لگا کہ اے اللہ میرے بھائی نے جو مجھ پر زیادتی کی مجھے اس کا بدلے میں اس کی نیکیاں عطا کر۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کہا: اس کی نیکیاں تمہیں کیسے بدلے کے طور پر دوں وہ تو ختم ہو چکی ہیں ؟ وہ شخص کہنے لگا اے میرے رب پھر میرے گناہ اس پر ڈال دے۔
یہ بات کہتے ہوئے آپ ﷺ کی آنکھیں بہہ پڑیں، آپ روئے پھر فرمایا: بے شک وہ دن بہت بڑا دن ہے اس دن لوگ یہ چاہیں گے کہ ان کے گناہ ان سے ہٹا کر دوسروں پر ڈال دیے جائیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیکیاں طلب کرنے والے شخص سے فرمایا : آنکھ اٹھاؤ اور دیکھو۔ اس نے آنکھ اٹھائی اور کہا : اے میرے رب میں سونے کے شہر اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں، جس میں موتی جڑے ہوئے ہیں، یہ کسی نبی کے لیے ہیں ؟ یا کسی صدیق یا کسی شہید کے لیے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ اس کے لیے جو اس کی قیمت ادا کرے گا۔
وہ شخص کہنے لگا کہ اس کی قیمت کون ادا کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اس کا مالک ہو سکتا ہے۔ وہ شخص پوچھنے لگا کہ وہ کیسے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تو اپنے بھائی کو معاف کر دے تو تُو اس کا مالک بن سکتا ہے۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اے میرے رب میں نے اپنے بھائی کو معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل ہو جا۔ آپ ﷺ نے اس واقعہ کو آیت کی تفسیر کے طور پر ذکر فرمایا کہ جس کا ترجمہ یہ ہے : اللہ سے ڈرو اور باہمی صلح صفائی سے معاملات طے کرو ، بے شک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔'' (مستدرک حاکم ، کتاب الاحوال)
آج ہمارے معاشرے کو بدلے، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے، ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے، ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے، افسوس کہ آج ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یک سر خالی ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر کر پارہ پارہ ہو چکا ہے، باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔
آئیے عزم کریں! محض ارادے نہیں بل کہ فیصلے کریں کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند ہو، معاشرے کو خوش گوار، محبت افزاء اور پُرامن بنانے کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں گے اور اپنے اندر دیگر اعلی اوصاف کی طرح عفو و درگزر کی صفت بھی پیدا کریں گے۔ آئندہ اس امید بل کہ پختہ یقین کے ساتھ لوگوں کی غلطیاں اور جرائم کو معاف کریں گے کہ کل قیامت میں اللہ کریم عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے گا۔
تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کی صفتِ ''عفو '' کے مکمل نمونہ اور آئینہ دار تھے۔ آپ ﷺ کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سب سے بڑی، روشن اور واضح دلیل و برہان ہے۔
سیرت کی تمام کتب میں ہے کہ آپ ﷺ کو دکھوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکل حالات سے دوچار کرنے والے، آپ ﷺ کی ذات اقدس کو رنج و غم اور تکالیف میں مبتلا کرنے والے، آپؐ کو ہر طرح کی اذیتیں دینے والے، مارنے پیٹنے والے، گردن مبارک میں کپڑے اور رسیاں ڈال کر بھینچنے اور بَل دینے والے، آپ ﷺ کے مقدس جسم کو تیر و تفنگ، نیزوں اور پتھروں سے لہولہان کرنے والے، آپ ﷺ کو ذہنی کوفت دینے والے، آپ ﷺ پر ساحر، مجنون اور دیوانہ جیسے ناپاک جملے کسنے والے، آپ کو اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور کرنے والے، آپ ﷺ کے آل و اصحاب علیہم الرضوان کو خاک و خون میں تڑپا تڑپا کر شہید کرنے والے، حتی کہ آپ ﷺ کی جان کے پیاسے کھانے میں زہر دینے والے لوگ جب مفتوح، جنگی قیدی اور بے بس ہو کر مکمل طور پر آپ ﷺ کی دست رس میں آئے تو آپ ﷺ نے انہیں نہ صرف یہ کہ دل و جان سے معاف کردیا بل کہ ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو کبھی اسلام کو دیس نکالا دینا چاہتے تھے اسلام نے خود انہی کے دلوں میں ڈیرہ ڈال دیا۔
انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خوش گوار ماحول بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے عفو و درگزر پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت، اجر و ثواب، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو واضح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔
اللہ کے برگزیدہ نیک بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی عفو و درگزر جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے۔ چوں کہ غصے کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرہ میں خون خرابہ، قتل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اس کا حل عفو و درگزر کو قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رہے کہ عفو و درگزر کا حکم ایسے معاملات میں ہے جن کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اور اگر معاملہ دین اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی عزت و حرمت کا ہو تو وہاں غصہ کا نہ آنا مذموم و ناپسند ہے۔ وہ کفار اور دین دشمن قوتیں جو اسلام اور اہل اسلام کو مٹانے کے درپے ہوں ان کے بارے میں ہرگز عفو و درگزر کا حکم نہیں۔ اسی طرح سماجی برائیوں کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے قانونی سزائیں جاری کرنے میں بھی عفو و درگزر سے کام نہیں لیا جائے گا ورنہ بدامنی مزید پھیلے گی۔
قرآن کریم کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جہاں آپ ﷺ کے اپنے عفو و درگزر کے سیکڑوں بل کہ ہزاروں واقعات ملتے ہیں، وہاں پر آپ ﷺ نے اس کی تعلیم اور خوب ترغیب بھی دی ہے۔
1: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' معاف کرنے والے کی اللہ تعالیٰ عزت بڑھا دیتے ہیں۔''
(صحیح مسلم ، باب استحباب العفو والتواضع)
2: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے منبر پر تشریف فرما ہو کر فرمایا: '' تم مخلوق پر رحم کرو اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا۔'' (مسند احمد، مسند عبداللہ بن عمرو)
3: حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنت میں اس کے لیے محلات تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کردیے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے والے سے صلۂ رحمی کا سلوک کرے۔'' (مستدرک حاکم، تحت تفسیر سورۃ آل عمران)
4: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔''
(مستدرک حاکم، کتاب البر والصلۃ)
5: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اور اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں وہ کون سی تین عادات ہیں ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو و درگزر سے کام لو۔ جب تم یہ کام کر لو تو جنت میں داخل ہو جانا۔'' (مستدرک حاکم ، تحت تفسیر سورۃ اذا السماء انشقت)
6: حضرت انس بن مالکؓ روایت ہے کہ ایک بار ہماری مجلس میں رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ مسکرائے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک نظر آنے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ سے عرض کی یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان کس وجہ سے آپ مسکرا رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : '' میری امت کے دو آدمیوں نے اللہ رب العزت کے ہاں کسی معاملے پر بحث و مباحثہ کیا۔ ایک ان میں سے کہنے لگا کہ اے اللہ میرے بھائی نے جو مجھ پر زیادتی کی مجھے اس کا بدلے میں اس کی نیکیاں عطا کر۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کہا: اس کی نیکیاں تمہیں کیسے بدلے کے طور پر دوں وہ تو ختم ہو چکی ہیں ؟ وہ شخص کہنے لگا اے میرے رب پھر میرے گناہ اس پر ڈال دے۔
یہ بات کہتے ہوئے آپ ﷺ کی آنکھیں بہہ پڑیں، آپ روئے پھر فرمایا: بے شک وہ دن بہت بڑا دن ہے اس دن لوگ یہ چاہیں گے کہ ان کے گناہ ان سے ہٹا کر دوسروں پر ڈال دیے جائیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیکیاں طلب کرنے والے شخص سے فرمایا : آنکھ اٹھاؤ اور دیکھو۔ اس نے آنکھ اٹھائی اور کہا : اے میرے رب میں سونے کے شہر اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں، جس میں موتی جڑے ہوئے ہیں، یہ کسی نبی کے لیے ہیں ؟ یا کسی صدیق یا کسی شہید کے لیے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ اس کے لیے جو اس کی قیمت ادا کرے گا۔
وہ شخص کہنے لگا کہ اس کی قیمت کون ادا کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اس کا مالک ہو سکتا ہے۔ وہ شخص پوچھنے لگا کہ وہ کیسے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تو اپنے بھائی کو معاف کر دے تو تُو اس کا مالک بن سکتا ہے۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اے میرے رب میں نے اپنے بھائی کو معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل ہو جا۔ آپ ﷺ نے اس واقعہ کو آیت کی تفسیر کے طور پر ذکر فرمایا کہ جس کا ترجمہ یہ ہے : اللہ سے ڈرو اور باہمی صلح صفائی سے معاملات طے کرو ، بے شک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔'' (مستدرک حاکم ، کتاب الاحوال)
آج ہمارے معاشرے کو بدلے، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے، ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے، ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے، افسوس کہ آج ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یک سر خالی ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر کر پارہ پارہ ہو چکا ہے، باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔
آئیے عزم کریں! محض ارادے نہیں بل کہ فیصلے کریں کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند ہو، معاشرے کو خوش گوار، محبت افزاء اور پُرامن بنانے کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں گے اور اپنے اندر دیگر اعلی اوصاف کی طرح عفو و درگزر کی صفت بھی پیدا کریں گے۔ آئندہ اس امید بل کہ پختہ یقین کے ساتھ لوگوں کی غلطیاں اور جرائم کو معاف کریں گے کہ کل قیامت میں اللہ کریم عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے گا۔