’’اب کوئی کسی کو عید کارڈ نہیں بھیجتا‘‘
وقت بدل گیا، زمانہ بدل گیا مگر رمضان گزارنے کے بعد عید کی خوشیاں مذہبی عقیدت کے ساتھ اُسی طرح منائی جاتی ہیں۔
کتنے خوش نصیب ہیں وہ گھرانے جہاں بزرگ موجود ہوں۔ خاص طور پر ان کی موجودگی عید کے موقع پر خوشیوں کو دوبالا کردیتی ہے۔
گھر میں بزرگ کی موجودگی ایسے ہی ہے جیسے کسی باغیچے میں پھول اور پھلواریوں کے درمیان کوئی گھنا سایہ دار درخت موجود ہو۔ آج جب میں اپنے پوتا پوتی نواسا نواسیوں کے درمیان موجود ہوں تو ان غنچوں کے درمیان اپنے آپ کو ایک سایہ دار درخت محسوس کرتا ہوں۔ آج جب میں اپنے بزرگوں کو یاد کرتا ہوں تو وہ کب کے خلد نشین ہوگئے۔
میرے والدین نے اپنے بزرگوں کا ذکر اور قصے کچھ اس طرح سناتے تھے گویا کہ میں خود اس دور میں موجود تھا۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں گھر کے بزرگ اور موجودہ جوان نسل میں دو صورتیں درپیش ہوتی ہیں یا تو بزرگ وقت کے تقاضے کے تحت اپنے اور نوجوان نسل میں زیادہ فرق محسوس ہونے نہیں دیتے۔ میرے دادا ہم سب کو ایک ساتھ لے کر عید کی نماز کے لیے جاتے تو اہل محلہ کے بچوں کو بھی لے کر جاتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد بزرگوں کو جھک کر سلام کرنا اور ان کا بچوں کو گلے لگانا ایک خوشگوار نظارہ ہوتا تھا۔ چھوٹوں کو عیدی دینا بھی ضروری تھا۔ گھر میں مہمانوں کی آمدورفت کا سلسلہ سارا دن جاری رہتا تھا۔
آج بزرگ اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ بیٹھے موجودہ دور کی خرافات اور اپنے زمانے کی قدروں کا ذکر کرتے ہیں۔ درمیان میں نئی نسل کو اخلاق و تہذیب کا درس بھی دیتے جاتے ہیں۔وہ اس بات سے بھی نالاں رہتے ہیں کہ چھوٹے اپنے بزرگوں کو وقت نہیں دیتے۔ ایک دور تھا کہ عید کے موقع پر نوجوان گھر کے بزرگوں سے چھپ کر تفریح کے لیے گھر سے باہر جاتے تھے۔ اب نئی نسل باہر نہیں جاتی بلکہ اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی، انٹرنیٹ اور واٹس اَپ سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ بزرگ اس بات پر حیران اور افسردہ ہیں کہ اب کوئی کسی کو عیدکارڈ نہیں بھیجتا ساری مبارک بادیں شیشے کے پردے پر اُبھرتی ہیں۔
گھر کے بزرگ عید پر گھر کی بنی ہوئی سویّاں شیرخرما استعمال کرتے تھے۔ نئی نسل کے لوگ اَب عید کے موقع پر کیک کاٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بزرگوں کی بہت سی باتیں آج کے دور کے تقاضے پر پوری نہیں اُترتیں، مگر نئی نسل کو کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اگر مناسب طور پر بغیر کسی گستاخی کے بزرگ کو قائل کرسکیں تو علیحدہ بات ہیں۔ اختلاف سے بہتر ہے کہ ان کی دعائیں لیں۔
خورونوش میں بزرگوں کی روایتی سوچ موجودہ دور کے فاسٹ فوڈ سے مختلف ہو مگر ان کا برسہا برس کا تجربہ حقائق پر مبنی ہوتا ہے۔ اچھے گھرانے کی شان و شوکت اسی میں ہے کہ بزرگوں کو اہمیت دی جائے۔ آج کے دور میں گھروں میں روایتی بزرگوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ بدقسمت ہیں وہ گھرانے جہاں بزرگ حیات نہیں یا اگر ہیں تو انہیں دُور old House میں رکھا گیا ہے۔ ایسے حالات واقعی پیدا ہوجاتے ہیں کہ بحالت مجبوری گھر سے دور بزرگوں سے دور رہنا پڑتا ہے، مگر ہر ممکن طریقے سے بزرگوں سے رابطہ رکھنا اولین فرض ہے۔
میں نے اپنے ایک دوست سے تعلقات اس لیے کم کرلیے تھے کہ وہ میرے سامنے اپنے بزرگوں سے حقارت آمیز انداز سے پیش آتا تھا۔ ایک بہت ہی عبرت ناک واقعہ یہ ہوا کہ میں اپنے اس دوست کے الٹرا ماڈرن ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا کہ اس کی اماں جھوٹی شان و شوکت سے مبرّا اپنے ہاتھوں میں جھاڑو لے کر کمرے میں آگئیں۔ میں نے اس سے پہلے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ اُس ناعاقبت اندیش شخص نے اپنی سگی ماں کو یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکال دیا کہ جاؤ ماسی یہاں بعد میں جھاڑو لگادینا۔ ایسی جھوٹی شان و شوکت میں مبتلا بندوں پر اللہ لعنت بھیجتا ہے۔
شکر الحمدللہ ایسے گھرانے بھی موجود ہیں جہاں کے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ جائیں تو آپ اُٹھنے کا نام نہیں لیں گے۔ یہ بزرگ اپنی بذلہ سنجی سے محفل کو کشت زعفران بنادیتے ہیں۔ ایسے اگلے وقتوں کے لوگ اب نایاب ہیں۔ اُن کی یادیں اور باتیں بازگشت کرتی ہیں اور کہتی ہیں نایاب ہیں ہم۔گھر میں بزرگ ایک نعمت ہیں بالخصوص اسلامی تہوار کے مواقع پر چاہے عید ہو یا بقرعید ، رمضان یا محرم وہ اپنے اسلامی شعائر سے ہمیں متعارف رکھتے ہیں۔
اب گھر میں وہ روایتی بزرگ نظر نہیں آتے جو گھر کی رونق ہوا کرتے تھے۔ مخصوص شخصیت کے مالک علی گڑھ یا حیدرآبادی کٹ کا پاجامہ، ململ کا کرتا، واسکٹ یا شیروانی، گھنی ڈاڑھی، رعب دار تحکمانہ آواز، ہر آنے جانے والے پر نظر، ان کی حرکات و سکنات پر بازپرس۔ اسی طرح گھر کے اندر خواتین میں دادی یا نانی چوڑی دار پاجامہ یا غرارے میں تخت پر گاؤ تکیہ لگائے بیٹھی ہوتی تھیں ساتھ ہی بڑا سا نقش و نگار والا پاندان رکھا ہوتا تھا۔ ہاتھ میں گھومنے والا پنکھا، منہ میں پان، گھر کی لڑکی بالیوں پر نظر، ڈانٹ ڈپٹ، پند ونصیحت کرتی تھیں،''اے لڑکیو! شرم کرو بڑی ہورہی ہو دوپٹہ غائب ہے، ہرنیوں کی طرح چوکڑیاں بھرتی ہو۔ ہر وقت ہنسی ٹھٹھا، اتنی زور سے چہکتی ہو کہ آواز باہر تک جاتی ہے، کچھ گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹاؤ ، کل کو دوسرے گھر جاؤ گی تو وہ پوچھیں گے امّاں دادی نے کوئی تہذیب نہیں سکھائی۔ ''
یہ وہ بزرگ ہستیاں ہوتی تھیں جو ایک مشرقی مسلمان گھر میں خاص طور پر تہوار کے موقع پر گھر کی رونق کا باعث ہوتی تھیں۔ ایک ایسے بزرگ گھرانے کا نقشہ پیش کرتا ہوں جہاں کی رونقیں دادا دادی کی وجہ سے ہیں۔ عید کی صبح ہے۔ دادا فجر کی نماز سے فارغ ہوکر بیٹے اور پوتے کو اُٹھا رہے ہیں کہ جلدی اٹھو عید کی نماز کے لیے جانا ہے۔ ادھر دوسری طرف دادی بہو کے ساتھ باورچی خانے میں موجود ہیں، شیر خرما، پلاؤ، قورما، کباب کی تیاری ہورہی ہے۔ بچوں کے نئے جوڑے تیار ہیں۔ دادا کا بیٹے اور پوتے کے ساتھ عید گاہ جارہے ہیں۔ نماز کے بعد سب کو عید کی مبارک باد دی جارہی ہے۔ گھر واپس آکر مہمانوں کی روایتی پکوان سے خاطر مدارات ہورہی ہے۔ بچوں کا بزرگوں سے عیدی کا تقاضا۔ اندرون خانہ دادی یا نانی کی بچیوں کے لیے دعائیں۔ کہتی تھیں کہ اللہ نصیب اچھا کرے جلد اپنے اپنے گھروں کی ہوجاؤ ۔ دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔
میرے پڑوس میں بیشک ہر گھر میں بزرگ موجود نہیں ہیں مگر وہ گھرانے بزرگ سے محروم نہیں کیوں کہ ایک عمر رسیدہ خاتون جو اہل محلہ میں نانی اماں کے نام سے مشہور ہیں وہ میاں کے انتقال کے بعد اپنے گھر کی اوپر کی منزل کرائے پر دے کر تنہا زندگی گزار رہی ہیں، محلے کے بچوں کو قرآنی تعلیم دیتی ہیں ۔ عید کے موقع پر محلہ کے تمام بچوں کو اپنے گھر میں جمع کرتی ہیں۔ اپنے ہاتھ سے پکائی ہوئی سویّاں کھلاتی ہیں۔ سب کو حسب توفیق عیدی بھی دیتی ہیں۔ عید کے موقع پر بچوں کے درمیان عیدی کے معاملے پر نوک جھونک ہوجاتی ہے۔ ایسے میں گھر کے بزرگ اپنے پاس سے حساب برابر کردیتے ہیں۔ بعض بزرگ عید کے موقع پر اپنی جولانئی طبع کے تحت بچوں میں گھل مل جاتے ہیں۔
وقت بدل گیا، زمانہ بدل گیا مگر رمضان گزارنے کے بعد عید کی خوشیاں مذہبی عقیدت کے ساتھ اُسی طرح منائی جاتی ہیں جیسے بزرگ مناتے تھے۔ عید کی خوشی میں مذہبی عقیدت کے ساتھ شکرانے کی نماز کے بعد ہم جس طرح باہمی محبت و اخوت کا اظہار کرتے ہیں، خدا کرے ہم یہ رویہ بعد میں بھی اسی طرح قائم رکھیں۔
گھر میں بزرگ کی موجودگی ایسے ہی ہے جیسے کسی باغیچے میں پھول اور پھلواریوں کے درمیان کوئی گھنا سایہ دار درخت موجود ہو۔ آج جب میں اپنے پوتا پوتی نواسا نواسیوں کے درمیان موجود ہوں تو ان غنچوں کے درمیان اپنے آپ کو ایک سایہ دار درخت محسوس کرتا ہوں۔ آج جب میں اپنے بزرگوں کو یاد کرتا ہوں تو وہ کب کے خلد نشین ہوگئے۔
میرے والدین نے اپنے بزرگوں کا ذکر اور قصے کچھ اس طرح سناتے تھے گویا کہ میں خود اس دور میں موجود تھا۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں گھر کے بزرگ اور موجودہ جوان نسل میں دو صورتیں درپیش ہوتی ہیں یا تو بزرگ وقت کے تقاضے کے تحت اپنے اور نوجوان نسل میں زیادہ فرق محسوس ہونے نہیں دیتے۔ میرے دادا ہم سب کو ایک ساتھ لے کر عید کی نماز کے لیے جاتے تو اہل محلہ کے بچوں کو بھی لے کر جاتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد بزرگوں کو جھک کر سلام کرنا اور ان کا بچوں کو گلے لگانا ایک خوشگوار نظارہ ہوتا تھا۔ چھوٹوں کو عیدی دینا بھی ضروری تھا۔ گھر میں مہمانوں کی آمدورفت کا سلسلہ سارا دن جاری رہتا تھا۔
آج بزرگ اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ بیٹھے موجودہ دور کی خرافات اور اپنے زمانے کی قدروں کا ذکر کرتے ہیں۔ درمیان میں نئی نسل کو اخلاق و تہذیب کا درس بھی دیتے جاتے ہیں۔وہ اس بات سے بھی نالاں رہتے ہیں کہ چھوٹے اپنے بزرگوں کو وقت نہیں دیتے۔ ایک دور تھا کہ عید کے موقع پر نوجوان گھر کے بزرگوں سے چھپ کر تفریح کے لیے گھر سے باہر جاتے تھے۔ اب نئی نسل باہر نہیں جاتی بلکہ اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی، انٹرنیٹ اور واٹس اَپ سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ بزرگ اس بات پر حیران اور افسردہ ہیں کہ اب کوئی کسی کو عیدکارڈ نہیں بھیجتا ساری مبارک بادیں شیشے کے پردے پر اُبھرتی ہیں۔
گھر کے بزرگ عید پر گھر کی بنی ہوئی سویّاں شیرخرما استعمال کرتے تھے۔ نئی نسل کے لوگ اَب عید کے موقع پر کیک کاٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بزرگوں کی بہت سی باتیں آج کے دور کے تقاضے پر پوری نہیں اُترتیں، مگر نئی نسل کو کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اگر مناسب طور پر بغیر کسی گستاخی کے بزرگ کو قائل کرسکیں تو علیحدہ بات ہیں۔ اختلاف سے بہتر ہے کہ ان کی دعائیں لیں۔
خورونوش میں بزرگوں کی روایتی سوچ موجودہ دور کے فاسٹ فوڈ سے مختلف ہو مگر ان کا برسہا برس کا تجربہ حقائق پر مبنی ہوتا ہے۔ اچھے گھرانے کی شان و شوکت اسی میں ہے کہ بزرگوں کو اہمیت دی جائے۔ آج کے دور میں گھروں میں روایتی بزرگوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ بدقسمت ہیں وہ گھرانے جہاں بزرگ حیات نہیں یا اگر ہیں تو انہیں دُور old House میں رکھا گیا ہے۔ ایسے حالات واقعی پیدا ہوجاتے ہیں کہ بحالت مجبوری گھر سے دور بزرگوں سے دور رہنا پڑتا ہے، مگر ہر ممکن طریقے سے بزرگوں سے رابطہ رکھنا اولین فرض ہے۔
میں نے اپنے ایک دوست سے تعلقات اس لیے کم کرلیے تھے کہ وہ میرے سامنے اپنے بزرگوں سے حقارت آمیز انداز سے پیش آتا تھا۔ ایک بہت ہی عبرت ناک واقعہ یہ ہوا کہ میں اپنے اس دوست کے الٹرا ماڈرن ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا کہ اس کی اماں جھوٹی شان و شوکت سے مبرّا اپنے ہاتھوں میں جھاڑو لے کر کمرے میں آگئیں۔ میں نے اس سے پہلے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ اُس ناعاقبت اندیش شخص نے اپنی سگی ماں کو یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکال دیا کہ جاؤ ماسی یہاں بعد میں جھاڑو لگادینا۔ ایسی جھوٹی شان و شوکت میں مبتلا بندوں پر اللہ لعنت بھیجتا ہے۔
شکر الحمدللہ ایسے گھرانے بھی موجود ہیں جہاں کے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ جائیں تو آپ اُٹھنے کا نام نہیں لیں گے۔ یہ بزرگ اپنی بذلہ سنجی سے محفل کو کشت زعفران بنادیتے ہیں۔ ایسے اگلے وقتوں کے لوگ اب نایاب ہیں۔ اُن کی یادیں اور باتیں بازگشت کرتی ہیں اور کہتی ہیں نایاب ہیں ہم۔گھر میں بزرگ ایک نعمت ہیں بالخصوص اسلامی تہوار کے مواقع پر چاہے عید ہو یا بقرعید ، رمضان یا محرم وہ اپنے اسلامی شعائر سے ہمیں متعارف رکھتے ہیں۔
اب گھر میں وہ روایتی بزرگ نظر نہیں آتے جو گھر کی رونق ہوا کرتے تھے۔ مخصوص شخصیت کے مالک علی گڑھ یا حیدرآبادی کٹ کا پاجامہ، ململ کا کرتا، واسکٹ یا شیروانی، گھنی ڈاڑھی، رعب دار تحکمانہ آواز، ہر آنے جانے والے پر نظر، ان کی حرکات و سکنات پر بازپرس۔ اسی طرح گھر کے اندر خواتین میں دادی یا نانی چوڑی دار پاجامہ یا غرارے میں تخت پر گاؤ تکیہ لگائے بیٹھی ہوتی تھیں ساتھ ہی بڑا سا نقش و نگار والا پاندان رکھا ہوتا تھا۔ ہاتھ میں گھومنے والا پنکھا، منہ میں پان، گھر کی لڑکی بالیوں پر نظر، ڈانٹ ڈپٹ، پند ونصیحت کرتی تھیں،''اے لڑکیو! شرم کرو بڑی ہورہی ہو دوپٹہ غائب ہے، ہرنیوں کی طرح چوکڑیاں بھرتی ہو۔ ہر وقت ہنسی ٹھٹھا، اتنی زور سے چہکتی ہو کہ آواز باہر تک جاتی ہے، کچھ گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹاؤ ، کل کو دوسرے گھر جاؤ گی تو وہ پوچھیں گے امّاں دادی نے کوئی تہذیب نہیں سکھائی۔ ''
یہ وہ بزرگ ہستیاں ہوتی تھیں جو ایک مشرقی مسلمان گھر میں خاص طور پر تہوار کے موقع پر گھر کی رونق کا باعث ہوتی تھیں۔ ایک ایسے بزرگ گھرانے کا نقشہ پیش کرتا ہوں جہاں کی رونقیں دادا دادی کی وجہ سے ہیں۔ عید کی صبح ہے۔ دادا فجر کی نماز سے فارغ ہوکر بیٹے اور پوتے کو اُٹھا رہے ہیں کہ جلدی اٹھو عید کی نماز کے لیے جانا ہے۔ ادھر دوسری طرف دادی بہو کے ساتھ باورچی خانے میں موجود ہیں، شیر خرما، پلاؤ، قورما، کباب کی تیاری ہورہی ہے۔ بچوں کے نئے جوڑے تیار ہیں۔ دادا کا بیٹے اور پوتے کے ساتھ عید گاہ جارہے ہیں۔ نماز کے بعد سب کو عید کی مبارک باد دی جارہی ہے۔ گھر واپس آکر مہمانوں کی روایتی پکوان سے خاطر مدارات ہورہی ہے۔ بچوں کا بزرگوں سے عیدی کا تقاضا۔ اندرون خانہ دادی یا نانی کی بچیوں کے لیے دعائیں۔ کہتی تھیں کہ اللہ نصیب اچھا کرے جلد اپنے اپنے گھروں کی ہوجاؤ ۔ دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔
میرے پڑوس میں بیشک ہر گھر میں بزرگ موجود نہیں ہیں مگر وہ گھرانے بزرگ سے محروم نہیں کیوں کہ ایک عمر رسیدہ خاتون جو اہل محلہ میں نانی اماں کے نام سے مشہور ہیں وہ میاں کے انتقال کے بعد اپنے گھر کی اوپر کی منزل کرائے پر دے کر تنہا زندگی گزار رہی ہیں، محلے کے بچوں کو قرآنی تعلیم دیتی ہیں ۔ عید کے موقع پر محلہ کے تمام بچوں کو اپنے گھر میں جمع کرتی ہیں۔ اپنے ہاتھ سے پکائی ہوئی سویّاں کھلاتی ہیں۔ سب کو حسب توفیق عیدی بھی دیتی ہیں۔ عید کے موقع پر بچوں کے درمیان عیدی کے معاملے پر نوک جھونک ہوجاتی ہے۔ ایسے میں گھر کے بزرگ اپنے پاس سے حساب برابر کردیتے ہیں۔ بعض بزرگ عید کے موقع پر اپنی جولانئی طبع کے تحت بچوں میں گھل مل جاتے ہیں۔
وقت بدل گیا، زمانہ بدل گیا مگر رمضان گزارنے کے بعد عید کی خوشیاں مذہبی عقیدت کے ساتھ اُسی طرح منائی جاتی ہیں جیسے بزرگ مناتے تھے۔ عید کی خوشی میں مذہبی عقیدت کے ساتھ شکرانے کی نماز کے بعد ہم جس طرح باہمی محبت و اخوت کا اظہار کرتے ہیں، خدا کرے ہم یہ رویہ بعد میں بھی اسی طرح قائم رکھیں۔