الوداع اے ماہ رمضان الوداع جمعۃ المبارک اور شبِ عید

حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لیے جاگ کر گزارے اس کے واسطے جنت واجب ہو جائے گی۔

حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لیے جاگ کر گزارے اس کے واسطے جنت واجب ہو جائے گی۔ فوٹو : فائل

مسلمانوں کے نزدیک رمضان المبارک ہی وہ واحد مہینہ ہے کہ جس کی ہر ایک ساعت باعث برکت ہے۔ خواہ وہ گھڑی دن کی ہو یا رات کی۔ اس کے فیوض اور برکات حاصل کرنے کی ہمیں ہر لمحے کوشش کرنا چاہیے۔

اس ماہ مبارک میں ہمیں اپنے پروردگار سے ایک عہد کرنا ہوتا ہے کہ ہم ہر وقت تیری اطاعت میں گزاریں گے اور سرکشی نہیں کریں گے۔ سرکشی انسانی نہیں، ایک شیطانی فعل ہے۔ جس کا ثبوت ہمیں آنحضورؐ کی ایک حدیث مبارک سے ملتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور سرکش جن قید کیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور دوزخ کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور پھر اعلان کیا جاتا ہے کہ اے نیکی کے طالب متوجہ ہو' نیکی کی طرف اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے باز رہ برائی سے۔ اللہ اس مبارک مہینے میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے اور ایسا ہر رات کو ہوتا ہے۔ یعنی منادی کرنے والا ( رمضان کی) روزانہ رات کو یہ اعلان کرتا ہے۔'' (ترمذی۔ ابن ماجہ)

رسول کریمؐ نے فرمایا: ''جس شخص نے رمضان کا روزہ عقیدت و ایمان کے ساتھ اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رکھا تو اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جو شخص کھڑا ہوا یعنی عبادت کی (تراویح پڑھی عقیدت اور ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے) تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔''

سورہ بقرہ کی آیت 183میں روزہ رکھنے کا مقصد تقویٰ کا حصول بتایا گیا ہے۔ روزے کی عبادت نفس کی طہارت اور تزکیے کے لیے بہت اہم ہے یہ پچھلی امتوں پر بھی فرض تھا اور اب مسلم امہ کے لیے تاقیامت فرض ہے۔ جیسے ہی روزے کی فرضیت کا حکم ہوا آنحضورؐ اس حکم پر فوراً عمل پیرا ہوئے اور امت کو بھی اس امر کی جانب راغب کیا۔

حضرت سہل بن ساعدؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا: ''جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک کا نام باب الریان ہے اور اس دروازے سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔ بقیہ اعمال و عبادات کرنے والے ان سات دروازوں سے داخل ہوں گے۔''

اس ماہ مبارک کو تین عشروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا نار جہنم سے آزادی ہے۔ حضور اکرم ؐ فرماتے ہیں کہ (اس ماہ مبارک میں ) ''انسان کے ہر نیک عمل کا ثواب اس طرح زیادہ کیا جاتا ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ملتا ہے۔ یہاں تک کہ یہی ثواب سات سو گُنا تک پہنچ جاتا ہے۔'' اس ماہ مبارک کا آخری عشرہ نار جہنم سے آزادی کا ہے جو مسلمانوں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ اس عشرے میں لوگ اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنے کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ کر اعتکاف کی خاطر مساجد میں قیام کرتے ہیں۔ اسی عشرے کی طاق راتوں میں وہ شب قدر کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اس عشرے میں ان کی بدنی عبادات میں غیرمعمولی اضافہ پروردگار سے قربت حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

اسی عشرے میں ایک جمعتہ الوداع بھی آتا ہے جو مسلمانوں کے لیے ایک نعمت عظمیٰ سے کم نہیں۔ تمام دنیا کے مسلمان اس دن اللہ کے بھیجے ہوئے اس مہمان کو نم آنکھوں سے الوادع کہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ اس ماہ مبارک کا آخری جمعتہ المبارک ہے۔ اس لیے وہ اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر اپنی اور اپنے عزیز و اقارب کی مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اس دن ہمیں اپنے رب سے نہایت عاجزی و انکساری سے دعائیں کرنی چاہییں خصوصی طور پر یہ دعا، ترجمہ: ''اے اللہ مجھے نار دوزخ سے بچا۔'' یہ دعا اس دن کی خاص دعا ہے آج کے ان مبارک لمحات کو ضایع کیے بغیر جہنم سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کیجیے اور صدق دل سے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیجیے۔ اس ذات گرامی سے امید ہے کہ وہ ہمارے گناہ ضرور معاف کردے گا۔


حق تعالیٰ رمضان المبارک میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ اپنی عبادت کو چھوڑو اور روزہ داروں کی دعا پر آمین کہو۔'' (مشکوٰۃ کتاب الصوم)

اس حدیث کی روشنی سے معلوم ہو رہا ہے کہ اس دن بندے کی دعا پر فرشتوں سے آمین کہلوا کر ان کی بخشش کا سامان کرایا جارہا ہے ۔ جمعہ کو سید الایام بھی کہا گیا ہے یعنی تمام دنوں کا سردار۔ اس دن کی عام مہینوں میں اتنی اہمیت و فضیلت ہے کہ ظہر کی نماز ختم کرکے اس کی جگہ نماز جمعہ قائم کی گئی اور اس کی شرط خطبہ رکھی گئی۔ اب سوچیے ماہ رمضان المبارک کا جمعہ اور پھر وہ بھی آخری جمعہ کتنی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس دن صدقات، خیرات اور عبادات کا درجہ 10گنا سے بڑھا کر 70گنا کر دیا جاتا ہے جب کہ رمضان المبارک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس دن یہ درجات 700گنا تک بڑھا دیے جاتے ہیں۔ نوافل کا ثواب فرائض کے برابر کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ مبارک میں بہت مہربان ہوجاتا ہے اور قدم قدم پر اجر کے بہانے وہ امت مسلمہ کو نوازتا رہتا ہے۔

پھر آخری روزے کو عید کی رات آتی ہے اگر کسی نے کسی مجبوری کے تحت کوئی عبادت یا اپنے لیے دعائے مغفرت نہ کی ہو تو اس کے لیے آج کی رات ایک مژدہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں عیدین کی رات کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ عیدالفطر کی رات کو انعام کی رات سے پکارا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رات بندوں کو انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ اس لیے بندوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس رات کی قدر کریں۔ عوام تو کیا خواص بھی پورے ماہ کے تھکے ماندے ہوتے ہیں اس لیے میٹھی نیند سو جاتے یا بازاروں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ رات بھی خاص ہونے کی وجہ سے عبادت میں صرف کرنی چاہیے۔

ارشاد نبویؐ ہے کہ جو شخص ثواب کی نیت سے دونوں عیدین کی رات شب بیداری میں گزارے اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن سب کے دل مرجائیں گے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لیے جاگ کر گزارے اس کے واسطے جنت واجب ہو جائے گی۔ وہ راتیں لیلتہ الترویہ آٹھ، نو ذی الحج، لیلتہ العرفہ اور لیلتہ النحر10ذی الحج، عیدالفطر کی شب اور 15شعبان المعظم کی رات۔

فقہاء نے عیدین کی رات میں جاگنا مستحب لکھا ہے اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ بندہ سر بہ سجود ہو کر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو مالک الملک کی عدالت میں پیش کردے یقینا وہ رب کائنات رمضان المبارک کی اس آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کر دے گا۔ انشاء اللہ۔

حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ''جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر ''یوم الجائزہ '' انعام کی رات سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہو تی ہے تو فرشتوں کو روئے زمین پر بھیج دیا جاتا ہے ۔ جو راستوں پر کھڑے ہو کر آواز سے پکارتے ہیں جسے انسان اور جنات کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے وہ کہتے ہیں: اے محمد ﷺ کی امت اس کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور قصور معاف کرنے والا ہے۔''

کعب بن عجرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ''منبر کے قریب ہو جاؤ ہم لوگ حاضر ہوگئے۔ جب حضورؐ نے منبر کے پہلے درجے یعنی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین۔ دوسرے درجے پر چڑھے تو بھی آمین کہا اور جب تیسرے درجے پر چڑھے تب بھی آمین فرمایا۔ جب آپؐ خطبے سے فارغ ہوکر اترے تو ہم نے عرض کیا: آج آپؐ سے (منبر پر چڑھتے ہوئے) ایسی بات سنی جو اس سے قبل کبھی نہیں سنی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس وقت جبرائیل میرے سامنے تھے جب میں پہلے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔

میں نے کہا: آمین۔ پھر دوسرے درجے پر چڑھتے ہوئے انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپؐ کا ذکر آئے اور وہ درود نہ پڑھے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر تیسرے درجے پر چڑھتے ہوئے انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائیں اور وہ اس کو جنت میں نہ داخل کروائیں۔ (یعنی والدین کی خدمت ) میں نے کہا: آمین۔ '' (بخاری)

وہ شخص جس نے پورا رمضان غفلت اور گناہوں میں گزارا، اب اس کی ہلاکت میں کیا شک و شبہہ رہ جاتا ہے۔ اس حدیث میں جبرائیل جیسے مقرب فرشتے نے تین بددعائیں فرمائیں، جس پر ہمارے پیارے نبی ﷺ نے تینوں بار آمین کہہ کر اس کی شدت میں اور اضافہ کردیا۔ اللہ ہمیں محفوظ اور اپنی امان میں رکھے۔ آمین
Load Next Story