دہشت گردوں کے جمہوریت پرحملے

جوں جوں انتخابی مہم میں تیزی اورانتخابات کےدن قریب آ رہے ہیں توں توں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔


Editorial April 28, 2013
جمعہ کو کراچی میں اے این پی کے انتخابی دفتر کے قریب بم دھماکے سے11 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہو گئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

اس وقت جب عام انتخابات میں چند روز باقی رہ گئے ہیں، ملک بھر میں انتخابی جنگ زور و شور سے جاری ہے۔ سیاسی جماعتیں مختلف علاقوں میں انتخابی جلسے منعقد کر کے اپنا منشور' نظریات اور مستقبل کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے عوامی ہمدردیاں حاصل کر کے اپنا ووٹ بینک زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں مگر دوسری جانب دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں کی آڑ میں خوف و ہراس کی فضا پھیلا کر انتخابی مہم میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ امیدواروں کے انتخابی دفاتر دہشت گردوں کے نشانے پر آچکے ہیں۔

اتوار کو پشاور میں این اے 46' باڑہ خیبر ایجنسی میں آزاد امیدوار کے انتخابی دفتر میں دھماکا ہوا جس میں پولیس کے مطابق 3 افراد جاں بحق اور 8 زخمی ہو گئے۔ اسی طرح کوہاٹ میں بھی بم دھماکا ہوا جس سے مجموعی طور پر 8 افراد ہلاک اور 29 زخمی ہو گئے۔ ہفتہ کو کراچی اورنگی ٹاؤن قصبہ کالونی میں ایم کیو ایم کے انتخابی یونٹ اور لیاری میں پیپلز پارٹی کی کارنر میٹنگ کو بھی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جہاں تین بم دھماکوں میں 5 افراد جاں بحق اور 75 زخمی ہو گئے۔ ان دھماکوں کے خلاف حیدرآباد' سکھر' نوابشاہ اور دیگر علاقوں میں یوم سوگ منایا گیا۔ جمعہ کو کراچی میں اے این پی کے انتخابی دفتر کے قریب بم دھماکے سے11 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہو گئے تھے جن کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کر لی تھی۔

جوں جوں انتخابی مہم میں تیزی اور انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں توں توں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔گزشتہ چار پانچ روز سے دہشت گردی انتخابی دفاتر اور جلسوں کو مسلسل نشانہ بنا کر انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں۔ دہشت گرد گزشتہ چند ماہ سے جمہوریت اور جمہوری عمل میں شریک امیدواروں کے خلاف اپنی کھلی جنگ کا اعلان کر چکے ہیں۔ انھوں نے اے این پی کے رہنما بشیر احمد بلور کو نشانہ بنا کر تمام جمہوریت پسندوں کی زندگیوں کو چیلنج کر دیا تھا۔ اس کے بعد صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ کی بھاری ذمے داری تھی کہ وہ سیاسی رہنماؤں کی زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے دہشت گردو ں کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کرتی۔

دہشت گردوں کی جانب سے اب تک کی جانے والی کارروائیوں سے ایسے محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ اس کھلی لڑائی میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور انتظامیہ کی تمام کارروائیاں ان کے مقابل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہیں۔ اب تک ہونے والے دھماکوں سے جو صورت حال سامنے آئی ہے اس کے مطابق دہشت گرد ایم کیو ایم' اے این پی اور پیپلز پارٹی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گرد ان جماعتوں کے خلاف اس قدر ہولناک کارروائیاں کیوں کر رہے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ دہشت گرد سمجھتے ہیں کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی یہ جماعتیں حامی چلی آ رہی ہیں اور وہ دہشت گردوں کے خلاف عزائم رکھتی ہیں لہٰذا وہ اب ان جماعتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

صدر زرداری' نگراں وزیراعظم میر ہزار کھوسو' نگراں وزیر داخلہ' گورنر و نگراں وزیر اعلیٰ سندھ' نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب' نواز شریف اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی شدید مذمت کی ہے۔ دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں کے نتیجے میں انتخابی عمل کو سبوتاژ کر کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں مگر خوش آیند امر یہ ہے کہ بم دھماکوں اور جانی نقصانات کے باوجود سیاسی جماعتیں جرأت اور حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر قیمت پر انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر رہی ہیں۔ اے این پی جو اس وقت دہشت گردوں کا خاص نشانہ ہے' کے رہنما میاں افتخار نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ وہ ہر حال میں الیکشن میں حصہ لیں گے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما غفور حیدری نے بھی ہر صورت انتخابی میدان میں ڈٹے رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن وقت پر چاہتے ہیں۔ حالیہ واقعات دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ دہشت گردوں کے انتخابی دفاتر اور جلسوں پر حملوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور الیکشن کے انعقاد تک آنے والے ہر روز دہشت گرد ی کی کارروائیوں کا خطرہ موجود رہے گا۔ خدانخواستہ ان دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ جاتی یا کوئی بڑا قومی لیڈر ان کی زد میں آ جاتا ہے اور انتخابی عمل التوا میں پڑ جاتا ہے تو یہ بہت بڑا قومی سانحہ ہو گا۔ اگرچہ اب نواز شریف اور عمران خان بھی دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کر رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے دہشت گردانہ کارروائیوں پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن و امان کا قیام صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ انتظامیہ ہر واقعے کے بعد مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے اس کا سخت نوٹس لیتی ہے مگر اس سخت نوٹس لینے کے اگلے ہی روز دہشت گردی کا نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ آج جو پارٹیاں دہشت گردی کا نشانہ بننے کے بعد نگراں حکومتوں پر ناکامی کے الزامات لگا رہی ہیں، انھیں یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ واقعات انھی کے دور حکومت کا تسلسل ہیں۔ ان کے دور حکومت میں ہی دہشت گردوں نے ان کے خلاف کارروائیاں کیں اور وہ تمام تر دعوؤں کے باوجود دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے اور انھیں قابو کرنے میں ناکام رہیں۔ دہشت گرد منظر عام پر نہیں وہ چھپ کر حملے کر رہے ہیں۔

وہ انتظامیہ کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔ وہ جماعتیں جو دہشت گردوں کی مذمت سے گریز کرتی رہی ہیں، انھیں بھی اب اپنے لائحہ عمل میں تبدیلی لاتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کھل کر میدان میں آنا ہو گا۔ نواز شریف اور عمران خان دہشت گردوں کی مذمت تو کر رہے ہیں مگر انھیں اس امر کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے کہ اگر ان کی مخالف سیاسی جماعتیں آج دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں تو اس سے جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور ملک کا امن و امان داؤ پر لگا رہے ہیں۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں پر لازم آتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں اور اس بات کا عزم کریں کہ ملک میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے وہ سب دہشت گردوں کے خلاف اکٹھے ہو کر میدان میں اتریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں