کراچی سے بوسٹن تک
9/11 کا واقعہ القاعدہ کی طرف سے فلسطین کے حوالے سے امریکا کی جانبدارانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج تھا۔
پسماندہ ملکوں کے عوام کی بدقسمتی تو یہ ہے کہ انھیں ان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے درندوں سے بھرے جنگلوں میں بے آسرا اور غیر محفوظ چھوڑ دیا ہے کیونکہ اہل سیاست کو غریب عوام کی جان و مال سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اگر انھیں کسی چیز سے دلچسپی ہے تو اپنی اور اپنے خاندان کی سیکیورٹی اور عیش و عشرت کی زندگی سے ہے، اس کا اندازہ اس ہیبت ناک حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر روز صرف پاکستان کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر کراچی میں درجنوں لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ان کے اہل و عیال مستقبل کے سیاہ اندھیروں میں ڈوب رہے ہیں، کسی حاکم وقت، کسی اہل سیاست کو عوام کی اس حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
یہی نہیں بلکہ اس سے بدتر حال پاکستان کے شمال مغربی علاقوں کا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہماری اشرافیہ کی اس مفاد پرستی اور عوام کی جان و مال سے لاتعلقی نے ہمارے ملک میں تو دہشت گردی کی جڑیں مضبوط کردی ہیں لیکن اب یہ وبا تیزی کے ساتھ مغربی ملکوں میں جڑ پکڑتی جارہی ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے امریکا کے شہر بوسٹن میں ایک میراتھن ریس کے اختتام پر جو دو دھماکے کیے گئے ان میں تین افراد ہلاک اور 170 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے، اس تباہ کاری کو دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ امریکا ہی کے ایک علاقے ٹیکساس میں دھماکوں سے 15 افراد ہلاک، سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ امریکا کے دوسرے علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں اور اطلاعات کے مطابق ان کی ذمے داری بھی ان ہی لوگوں پر عائد کی جارہی ہے جو پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کی بہیمانہ وارداتوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
امریکا کے علاوہ روس اور افریقہ کے کئی ممالک بھی آہستہ آہستہ دہشت گردی کے مرکز بنتے جارہے ہیں۔ یہی حال عرب ممالک کا ہے، ان ملکوں میں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ایک تازہ اطلاع کے مطابق عرب امارات میں القاعدہ کا ایک خفیہ سیل پکڑا گیا ہے جو عرب امارات میں دہشت گرد بھرتی کرنے کا کام خفیہ طریقے سے انجام دے رہا تھا۔ اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ پکڑے جانے والے 7 دہشت گردوں نے عرب امارات کی حساس تنصیبات مقامی شہریوں اور تارکین وطن کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ روس کے ایک صوبے داغستان میں بڑی دہشت گردی کی خبر بھی میڈیا کی زینت بن چکی ہے۔ عراق مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کا ایک بڑا اڈہ بن چکا ہے۔ شام میں آزادی کی جنگ کے نام پرانتہاپسند طاقتیں عوام کا خون پانی کی طرح بہا رہی ہیں اور بدقسمتی سے امریکا کی سرپرستی میں بعض محترم عرب ملک شام کی ''جنگ آزادی'' کو ہوا اور سرپرستی دے رہے ہیں۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں تو سیاسی اشرافیہ کو اگر دہشت گردی سے دلچسپی ہے تو اس حد تک ہے کہ وہ ہر بڑی سے بڑی دہشت گردی کی واردات پر ایک مذمتی بیان دے دیتی ہے اور اس کی تحقیقات کا حکم جاری کردیتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں کی سیاسی اشرافیہ کو عوام کے جان و مال سے کوئی دلچسپی ہے نہ اس کی روک تھام کے حوالے سے کوئی پروا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا جیسے سب سے معروف اینٹی دہشت گرد ملک میں دہشت گردی کی لگاتار کارروائیوں کے باوجود نہ کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جارہی ہے نہ دہشت گردی کے محرکات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔
بوسٹن اور ٹیکساس کے دھماکوں کے بعد جن میں بیس کے لگ بھگ افراد ہلاک اور تین سو کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔ امریکی صدر اوباما نے ایف بی آئی کو تحقیقات کا حکم دیا ہے اور ان دھماکوں کی اسی طرح مذمت کی ہے جیسے پسماندہ ملکوں کے حکمران کرتے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بوسٹن دھماکوں میں ملوث دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن وہ پولیس مقابلوں میں کام آگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دو تین افراد کی گرفتاری سے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے یا بین الاقوامی سطح پر ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے؟
9/11 کے بعد دہشت گردی کو اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور ختم کرنے کے لیے افغانستان پر چڑھ دوڑنے والا امریکا اس کے اتحادی اور دنیا کا سب سے بڑا فوجی ادارہ نیٹو خود افغانستان میں دہشت گردی کو تو ختم نہ کرسکے اور وہاں سے ناکامی اور رسوائی کے ساتھ واپس جارہے ہیں لیکن حیرت اور عبرت کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی افغانستان سے نکل کر امریکی شہروں اور مغربی ملکوں تک پہنچ گئی ہے۔ کیا یہ فوجی طاقت اور اقتصادی وسائل کی ناکامی ہے یا منصوبہ بندی اور دنیا کو اپنے ساتھ ملانے میں ہونے والی ناکامی ہے؟
بلاشبہ یہ ناکامی نہ فوجی طاقت کی ناکامی ہے نہ مادی وسائل کی کمی کا مسئلہ ہے بلکہ دنیا کی واحد سپر پاور اور اس کے تھنک ٹینکوں کی غلط منصوبہ بندی کی ہی ناکامی ہے۔ پسماندہ ملکوں میں اس قسم کی ناکامیوں کا کوئی نوٹس اس لیے نہیں لیا جاتا کہ ان ملکوں میں حکمرانوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا لیکن امریکا جیسے ترقی یافتہ اور جمہوری ملک میں حکمران نہ صرف عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں بلکہ قانون ساز اداروں میں بھی انھیں اپنی نااہلی کا جواز پیش کرنا ہوتا ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ امریکا کے شہر ایک کے بعد ایک دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں اور ان ناکامیوں اور نااہلیوں کا کوئی حساب لینے والا نظر نہیں آتا؟
اصل مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ نہ اس عذاب کی خونخواری اور مضمرات کو پسماندہ ملکوں میں سمجھنے کی کوشش کی گئی نہ ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں ہی اسے پوری طرح سمجھنے اور اس کے خاتمے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی گئی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پوری دنیا دہشت گردی کی زد میں ہے اور کوئی ملک ایسا دکھائی نہیں دیتا جو اس مسئلے پر خود بھی سنجیدگی سے غور کرے اور دنیا کو بھی اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنے اور کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی طرف راغب کرسکے۔ اس کے برخلاف ہر جگہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت پاکستان پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات لگاتا آرہا ہے اور یہی کام امریکا کر رہا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک کے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتا ہے۔
9/11 کا واقعہ القاعدہ کی طرف سے فلسطین کے حوالے سے امریکا کی جانبدارانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج تھا۔ 9/11 کے وقت دہشت گردی صرف مسلمانوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے خلاف احتجاج تھا لیکن امریکا، بھارت اور مغربی ملکوں کی نااہلی نے اس احتجاج کو دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی خواہش میں بدل دیا ہے۔ دہشت گردی کا کسی حوالے سے نہ دفاع کیا جاسکتا ہے نہ حمایت کی جاسکتی ہے لیکن دہشت گردی اب اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جتنی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے اس کو کیا غیر منظم اور غیر منصوبہ بند طریقے سے روکا جاسکتا ہے؟
بدقسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہی آتا ہے۔ اس بلا کی روک تھام کے لیے سب سے پہلے فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کو وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنا ہوگا، اس طرح دہشت گردی کے دو بڑے جواز ختم ہوجائیں گے جب یہ جواز ختم ہوجائیں گے تو پھر دنیا اس بلائے عظیم کے خلاف کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہوسکتی ہے، لیکن اس طرف آگے بڑھنے سے پہلے امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں کو جانبداری امتیازات اور مفادات کی پالیسیوں اور سیاست سے نکلنا ہوگا۔ دہشت گردی کے مضمرات اور پھیلاؤ کو سنبھالنا ہوگا۔