پرویز مشرف کا مقدمہ
چوہدری شجاعت نے کہا کہ انھوں نے ہمیشہ انتقامی سیاست کی مخالفت کی ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ تمام متعلقہ لوگ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے ایسے اقدامات سے باز رہیں جن کے نتائج پر بعد میں قابو نہ پایا جا سکے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے جس کے بڑے اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں انتخابی مہم عروج پر ہے، جلد بازی میں اس طرح کے کسی بھی اقدام کا وقت نہیں کیونکہ یہ قومی مفاد اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، اس لیے ماضی کے ہاتھوں یرغمال بننے کے بجائے ہمیں عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے اکٹھے ہو کر مستقبل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔
چوہدری شجاعت نے کہا کہ انھوں نے ہمیشہ انتقامی سیاست کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ یہ صرف مشرف کی ذات کا معاملہ نہیں بلکہ اس سے ایک نیا ''پنڈورا باکس'' بھی کھل سکتا ہے۔ ہم سب کو اپنے ذاتی اور پارٹی مفادت سے بالا تر ہو کر عوام کے وسیع تر مفاد اور بھلائی کے بارے میں سوچنا ہے ورنہ یہاں کوئی ''فاتح'' نہیں بلکہ سب ناکام ہو جائیں گے۔چوہدری شجاعت اس ملک کے انتہائی بردبار اورصبروتحمل والے سیاستدان ہیں۔ ان کی باتیں سب کے لیے قابل غور ہونی چاہیں، کیونکہ انھوں نے اشاروں میں بہت کچھ کہہ دیا ہے۔انھیں یقینی طور پر بہت سی باتوں کا علم ہوگا لیکن انھوں نے صرف اشاروں میں بات کرنا مناسب سمجھا ہے۔
ادھرسابق صدر پرویز مشرف کے وکیل اور آل پاکستان مسلم لیگ کے نائب صدر نے کہا ہے کہ دنیا کے کسی ڈکٹیٹر نے آج تک خود کو عدالت کے سامنے سرنڈر نہیں کیا۔ پرویز مشرف رضا کارانہ طور پر عدالتوں کے سامنے پیش ہوئے۔ہم مشرف کا دفاع کریں گے۔ پرویز مشرف کا دفاع کرنا ان کی جماعت، ان کے حامیوں اور وکلا کا بیناد آئینی حق ہے اور کوئی انھیں اس سے روک نہیں سکتا۔پرویز مشرف عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں اور قانونی تقاضے پورے کررہے ہیں۔
ادھر پرویز مشرف کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس عارف حسین خلجی نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں واضح طور پر تحریر کر چکی ہے کہ آمروں' ڈکٹیٹروں کے کسی اقدام کی توثیق نہیں کی جائے گی۔ ایسا کرنے کا پارلیمنٹ کو بھی اختیار نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ انصاف کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھا جائے گا۔ پرویز مشرف کے وکیل نے بھی اپنے موکل کے حق میں دلائل دیے۔ بلاشبہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے اور وہ آئین اور قانون سے سرمو انحراف نہیں کرے گی۔ اگر پرویز مشرف کو کہیں ریلیف ملتا ہوا تو عدالت انھیں ضرور فراہم کرے گی۔
سابق صدر پرویز مشرف کا مقدمہ انتہائی غیرمعمولی نوعیت کا ہے۔ اس پر یکطرفہ تبصرہ کرنا انتہائی آسان کام ہے لیکن اس مقدمے میں موجود آئینی وقانونی پیچیدگیوں سے کسی کو آگاہی نہیں ہے البتہ آئینی ماہرین ان سے ضرور واقف ہوں گے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی صورت حال کو بغور دیکھ رہی ہے۔ لال مسجد کمیشن کی رپورٹ بھی سامنے آ چکی ہے۔ جوں جوں مقدمات آگے بڑھیں گے چھپے ہوئے اسرار سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ ان حالات میں سب کو احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات اس نہج پر پہنچ جائیں جہاں سے واپسی کا راستہ نہ ہو۔ ہمیں کسی ایک ادارے یا فرد کو ٹارگٹ نہیں بنانا چاہیے۔ مشرف کا کیس اسٹیبلشمنٹ کے لیے امتحان بن چکا ہے۔ ان کے دور میں جو کچھ ہوا یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت اس میں شریک تھی۔
یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ ان کا دور غیرمعمولی واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت اور امریکا کے درمیان محاذآرائی شروع ہوئی، اس وقت طالبان اگر القاعدہ ا ور اسامہ بن لادن کے حوالے سے ایسا فیصلہ کر لیتے جیسا سوڈان نے کیا تھا تو شاید امریکا کو افغانستان پر حملہ کرنے کا موقع نہ ملتا۔ اس وقت پاکستان نے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی کہ صورت حال قابو میں رہے لیکن طالبان حالات کی نزاکت اور سنگینی کو نہ سمجھ سکے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان میں داخل ہو گی۔ اس کا ملبہ پرویز مشرف پر ڈالنا بہت آسان کامہے، حالات کا مقابلہ کرنا مشکل کام ہے۔ ایک جمہوری حکومت گزر گئی ہے اور اگلی آنے والی ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا پوزیشن لیتی ہے ۔
حرف آخر یہ کہ مستقبل ہمارے لیے کیا لے کر آ رہا ہے، اس کا انحصار بحیثیت قوم ہمارے رویوں پر ہے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر جہاں پاکستان میں جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے اور ہم ایک دور سے نکل کر دوسرے دور میں داخل ہو رہے ہیں، سوچ کی پختگی ہی ہمیں کسی انہونی سے بچا سکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں ان تمام ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے جہاں سویلین بالادستی کی جدوجہد کامیاب ہوئی۔ سویلین بالادستی پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے سے راتوں رات نہیں آجائے گی۔ اس منزل کے حصول میں ابھی کئی پل صراط ہیں۔ ذرا سی لغزش اور چوک ہمیں تباہی سے دوچار کرسکتی ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف 24 مارچ کو پاکستان آئے اور اپنی آمد کے ''چوتھے ہفتے'' حالات کے بدترین دور میں داخل ہو گئے۔ مئی کا دوسرا اور تیسرا ہفتہ ان کے مستقبل کے بارے میں بتائے گا۔ اس سے پہلے 30 اپریل سے 2 مئی اہم وقت ہے۔ ٹیلی فون:۔0346-4527997