ابھی بہت سفرباقی ہے
جمہوریت دشمن قوتیں ہر طرح سے انتخابات کو سبوتاژکرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔
KARACHI:
پھر ایک سانحہ،ایم کیو ایم پر ایک ہفتے میں چوتھا حملہ۔ جمہوریت دشمن قوتیں ہر طرح سے انتخابات کو سبوتاژکرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ جب کہ ہر درد مند شہری کی خواہش ہے کہ انتخابات اپنے معینہ وقت پر ہوں،تاکہ ایک سیاسی حکومت سے دوسری سیاسی حکومت کو اقتدار کی منتقلی کی روایت پڑسکے۔یوںکم ازکم حکمرانی کی حد تک جمہوریت کے مستحکم ہونے کی امیدکی جاسکتی ہے۔ رہ جاتاہے سماج کو جمہوریانے (Democratise) کا مرحلہ،تووہ وقت کے ساتھ خود ہی آگے کی جانب بڑھتاہے۔غالباًیہی وہ خوف ہے،جو ریاستی اور غیر ریاستی غیر جمہوری قوتوں کو انتخابات کے التواء کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔
اس امکان کے باوجود کہ کوئی سیاسی جماعت حالیہ انتخابات میں واضح اکثریت نہیں لے سکے گی اورایک بار پھر مخلوط حکومت تشکیل پائے گی، غیر جمہوری کو قوتوں کو خدشہ ہے کہ اس مرتبہ پارلیمان زیادہ اعتمادکے ساتھ خود کوassertکرنے کی کوشش کرتے ہوئے منصوبہ سازی پر حاوی قوتوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبورکردے گی۔ شاید یہی سبب ہے کہ وہ جمہوری عمل کے تسلسل میں غیر فطری اندازمیں روڑے اٹکانے کی کوشش کررہی ہیں۔معاملہ صرف اسٹبلشمنٹ کی مداخلت تک محدود ہوتا توشاید لڑائی کی سمت کا تعین آسان ہوتا۔مگر جمہوری عمل کو لاحق خطرات کثیر الجہتی ہیں۔دراصل سماج کے اندر موجود فکری تضادات جمہوری اقدار کے پنپنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
جمہوریت اورجمہوری اقدار کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں مغربی ممالک کے تجربات کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے،مگر تیسری دنیا کے ان ممالک کے تجربات کا مشاہدہ لازمی طورپر کرنا چاہیے جنہوں دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد جمہوریت کو اپنے مخصوص ماحول سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ان میں بھارت اور جنوبی افریقہ اہم نظیر ہیں۔ لیکن بھارت کے ساتھ ہمارا مضبوط تاریخی ،سماجی اور ثقافتی تعلق رہا ہے،اس لیے اس کی نظیر کا مطالعہ اور مشاہد ہ ہمیں بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ بدقسمتی سے بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ہم نے اس کے اچھے برے تجربات پرتوجہ دینے کی زحمت گوارانھیں کی۔حالانکہ بھارت میں ہونے والا سیاسی ارتقاء میں ہمارے ملک میں نظم حکمرانی کو صحیح سمت میں استوار کرنے کے لیے خاصا مواد مہیا کرتا ہے۔
سب سے پہلے تو اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ نوآبادیات میںنوآبادی حکمران سول اور ملٹری بیوروکریسی کی ایک خاص انداز میں تشکیل کرتے ہیں تاکہ ملک کے نظم ونسق پر کنٹرول برقرار رہے۔مغلیہ دور ہو یا اس سے پہلے کے سلاطین کا ،سبھی نے کثیرالقومی، کثیرالمذہبی اورکثیر الثقافتی ہندوستان کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے مخصوص انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا۔جب کہ برطانیہ، چونکہ صنعتی انقلاب کے نشیب وفراز سے بتدریج گذراتھااور اس نے نظم حکمرانی میں تبدیلیوں کا طویل سفر طے کیا تھا، اس لیے اس نے اپنی نوآبادات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے بعض انتہائی اہم اور دورس اقدامات کیے۔خاص طورپر برصغیر کی پیچیدہ اور گنجلک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے انتظامی بیوروکریسی کاجو نظام ترتیب دیا ،اس کی بدولت اس نے خاصے اطمنان کے ساتھ اس خطے پر حکمرانی کی۔اسی طرح فوج کی تربیت بھی ان خطوط پر کی گئی تھی کہ وہ بیرونی مداخلت سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ اندرونی خلفشار اور شورشوں پر قابوپانے میں معاون ثابت ہوسکے۔
آل انڈیا کانگریس کی قیادت نے 1933 کے آنے تک آزاد ہند کے لیے وسیع البنیاد پالیسی ترتیب دے لی تھی،حالانکہ اس وقت آزادی محض خواب وخیال تھی۔ اس حوالے سے اس نے بعض اعلیٰ اختیاراتی کمیٹیاں بھی تشکیل دیدی تھیں۔ جن میں ڈاکٹر امبیدکر کی نگرانی میں آئین کمیٹی، مولانا ابوالکلام آزاد کی سربراہی میں تعلیمی اصلاحات کی کمیٹی اور ولبھ بھائی پٹیل کی زیر نگرانی انتظامی ڈھانچہ میں مناسب اصلاحات کے لیے قائم کمیٹی۔ 1937ء میں انڈیا ایکٹ1935ء کے تحت ہونے والے انتخابات کے بعد کانگریس کو دوبرس کے لیے حکومت سازی کا موقع ملا ۔جس نے اسے نوآبادیاتی طرزحکمرانی کی خوبیوں اور خامیوں کا موازنہ کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا۔ اس طرح کانگریس آزادی کے بعد ہر سطح پرحکومتی نظام کو چلانے کے لیے فکری اور عملی طورپر تیار ہوچکی تھی۔
ان کمیٹیوں کی تحقیق اور مطالعے کے علاوہ ان کی انتھک محنت کی بدولت اگست1947 میں تقسیم ہند کے بعد کانگریس کو بھارتی ریاست کی سمت کے تعین میں کوئی خاص دشواری پیش نہیں آئی۔ آئین کا مسودہ جلد ہی تیار کرلیاگیا،جسے پارلیمان کی منظوری سے26جنوری1950 کو نافذ کردیا گیا۔ مولانا ابوالکلام آزادی اور ڈاکٹر نسیم السیدین پر مشتمل کمیٹی نے مستقبل کے بھارت کی تعلیمی پالیسی مرتب کی جس میں دیگر اہل علم ودانش بھی شامل تھے۔اس کمیٹی کی سفارشات پر1952 سے عملدرآمد شروع ہوگیا۔
لیکن سب سے اہم کام ولبھ بھائی پٹیل کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی نے سرانجام دیا۔اس کمیٹی نے بھارت کی سول سروس کے نظام میں بعض اہم اور کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں تجویزکیں۔ جن کی بدولت بھارتی نوکرشاہی ایک حقیقی جمہوری معاشرے میں سیاسی قیادت کے معاون ادارے کے طورپر کام کرنے کے لیے تیار کی جاسکی۔اس کمیٹی نے انگریز دور سے رائج سول بیوروکریسی کے انتخاب کے طریقہ کار کو تبدیل نہیں کیا، بلکہ ان کے تربیتی ماڈیولز (Modules) تبدیل کرکے انھیں نوآبادیاتی کے بجائے قومی نوکرشاہی میں تبدیل کردیا۔جس نے بھارت میں جمہوریت کے استحکام میں کلیدی کردار اداکیا۔
بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے تحریکی صلاحیت کا تو بھرپور مظاہرہ کیااور پورے برصغیر کے مسلمانوںکو بہت اچھے اندازمیں موبلائز کیا، لیکن بحیثیت ایک سیاسی جماعت نئی ریاست کے آئین،انتظامی ڈھانچہ اور سماجی نظام کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا۔ اسی طرح ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں بھی کوئی واضح پارٹی پالیسی موجود نہیں تھی۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہر رہنماء اپنی سیاسی بصیرت اور طبقاتی وابستگی کی بنیادپر اپنے خیالات کا اظہار کررہاتھا۔
اس حوالے سے مولاناحسین احمد مدنیؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ،مولانا مودودیؒ اور مولانا عطااللہ شاہ بخاری ؒ جیسے جید علماء اسوقت جو سوالات اٹھارہے تھے، مسلم لیگ نے ان پر بھی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔نتیجتاً قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ جو خود ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں ابہام کا شکار تھی، آئین سازی جیسے اہم مسئلے کو تقریباً نو برس تک حل نہیں کرسکی۔ اس اثناء میں نوآبادیاتی طرز فکر کی حامل سول اور ملٹری بیوروکریسی ریاستی منصوبہ سازی اورانتظامی ڈھانچہ پر حاوی ہوتی چلی گئی۔جس کے نتیجے میں سیاسی عمل مزید ابتری اور خلفشار کا شکار ہوکر زوال کی راہ پر لگ گیا۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پانچ سالہ دور میں بیوروکریسی میں بعض تبدیلیاں لانے کی کوشش کی، مگر یہ تبدیلیاں بیوروکریسی کی نوآبادیاتی سرشت کو تبدیل کرکے قومی شکل دینے کا سبب نہیں بن سکیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نوکرشاہی کے انتخاب کے طریقہ کار کو میرٹ کے بجائے کوٹا سسٹم میں تبدیل کردیا گیا ،جس سے منتخب ہونے والے امیدواروں کی قابلیت اور اہلیت کا معیار گرگیا۔ لیکن تربیتی موڈیولز نوآبادیاتی ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی کے مزاج میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آسکی۔
انگریز نے ضلعی انتظامی ڈھانچے میں کلکٹر(ہمارے یہاں ڈپٹی کمشنر)اور سپرٹنڈنٹ پولیس کے انسٹیٹیوشن کو بے تحاشہ اختیارات دیے تھے۔ اسی طرح تھانہ اور پٹواری کے مخصوص اختیارات تھے،اس کا مقصدنچلی سطح تک نوآبادیاتی نظام کو تقویت دینا تھا۔ پاکستان میں ان اداروں کے انتظامی کے بجائے سیاسی مقاصدکے لیے استعمال نے انھیںسیاسیا(Politicise)دیا،جس کی وجہ سے نظم حکمرانی میں مزید ابتری پیداہوئی۔
آج سول اور ملٹری بیوروکریسی کا نوآبادیاتی طرز عمل اور سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی فکری فرسودگی حقیقی جمہوری نظام کے فروغ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ریاستی ادارے تقریباً منہدم ہوچکے ہیں اوران میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔جس کی وجہ سے ان میں قومی مفادات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اور ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی صلاحیت کافقدان پیدا ہوگیاہے۔فکری پسماندگی کے مظاہر پوری دنیا نے نامزدگی فارموں کی جانچ پڑتا ل کے وقت دیکھے۔ 32 برسوں پر محیط چار فوجی آمریتوں نے سیاسی جماعتوں کی فکری تربیت میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کیا۔ ان کے طرز عمل میں کوئی بنیادی فرق نہیں آیا ہے۔ اب انتخابات کے حوالے سے جو مظاہر سامنے آرہے ہیں وہ بھی انتہائی مایوس کن ہیں۔ ملک کے تین صوبوں میں انتخابی سرگرمیوں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔
صرف پنجاب میں انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں۔مگر وہاں جس اندازمیں انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں ،اس کے نتیجے میں نئے تضادات کے جنم لینے اور نئی دشمنیوں کے فروغ پانے کے امکانات کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔ انتخابات میں چند پارٹیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تحفظات بھی سامنے آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ انتخابات کے نتیجے میں جن تبدیلیوں کی توقع کی جارہی تھی،وہ بھی اب دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ایسے میں ترقیاتی اہداف کاتعین و تکمیل تو دور کی بات ہے، ملکی سلامتی دائو پر لگی نظر آرہی ہے۔ کسی نے درست کہا ہے کہ بیرونی دشمن وہ سب نہیں کرسکتا جو اندرونی دشمن کرتا ہے۔لگتاہے ابھی سفر بہت باقی اور منزل بہت دور ہے۔یہ سفر کیسے طے ہوگا؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔