مشکلات

آدمی ایک حقیر چیز ہے مگر وہ اسقدر اتراتا ہے کہ بعض اوقات ساری حدوں کو پار کر جاتا ہے۔

moosaafendi@gmail.com

KARACHI:
آدمی ایک حقیر چیز ہے مگر وہ اسقدر اتراتا ہے کہ بعض اوقات ساری حدوں کو پار کر جاتا ہے۔ ایسا شخص جب مُنہ کے بل گرتا ہے تو سوائے مایوسی اور ناکامی کے کچھ بھی دیکھ نہیں پاتا۔ اگر ذرا سا غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ آدمی جب بھی مصیبت اور پریشانی میں گھر جاتا ہے تو وہ اپنے ہی کرتوتوں کے باعث گھرتا ہے۔ یہ قدرت کا اصول ہے۔ اس کا تعلق نہ صرف کائنات کے طبعی مزاج سے بھی وابستہ ہے بلکہ انسان کے مابعد الطبیعاتی رجحانات نظریات اور اخلاقیات سے بھی وابستہ ہے۔

ظلم عدل کی ضد کو کہتے ہیں جب بھی عدل نہیں ہوگا اس کے خلا کو ظلم ہی پُر کر یگا۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ آدمی اکثر اوقات اپنے ساتھ ہی عدل نہیں کرتا اور ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ زندگی بھر بعض لوگ خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن رہتے ہیں لیکن سمجھ نہیں پاتے۔ اس کے باوجود بہت سارے لوگ انھیں بہت عقلمند اور ہوشیار سمجھتے ہیں وہ خود اپنے کو کسقدر عقلمند، ہوشیار، چالاک اور ہوشمند سمجھتے ہوں گے۔ اس کا اندازہ ہم سب کو ہے۔

زندگی بھر ہم جن باتوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اگر ان کے مضمرات اور بالآخر انجام پر ذرا سا بھی غور کرلیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بظاہر اس قدر پڑھے لکھے اور دانشور قسم کے لوگ ہوتے ہوئے بھی ہم کتنے جاہل مطلق ہیں اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں مثالیں دینی پڑیں گی کیونکہ اس کے بغیر یہ بات سمجھ میں آنا ذرا مشکل ہوگا۔

ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ہم وہ بدبخت لوگ ہیں جو گناہ بھی اپنے لیے نہیں کرتے۔ وہ بھی دوسروں کے لیے کرتے ہیں۔ اللہ کے قہر و غضب کو دعوت ہم اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کے لیے دیتے ہیں۔ مثلاً رشوت لیتے ہیں تاکہ بیٹی کے لیے جہیز بن سکے، شریک حیات کے لطف وکرم کو جاری و ساری رکھنے کے لیے اس کی مرضی کے مطابق اشیاء کی خریداری ہوسکے، بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے اخراجات پورے ہوسکیں، والدین سے زیادہ سسرال کی فرمائشیں پوری کی جاسکیں دوست و احباب کے لیے قیمتی تحائف خریدے جاسکیں۔ اپنے اور بچوں کے لیے کارنر پلاٹ اور کروفر کو قائم رکھنے اور حاسدوں کی تعداد میں اضافے کے لیے بہترین گاڑیاں حاصل کی جاسکیں وغیرہ وغیرہ۔

اس میں کوئی شک نہیں یہ سب ہمارے پیارے ہوتے ہیں ہماری خوشیوں کے محور اور ہمارے غموں کے شریک ہوتے ہیں۔ لیکن گناہ کے مرتکب ہم ہوتے ہیں۔ گناہ کا حساب ہمیں دینا ہوگا۔ جس وقت حساب لیا جائے گا اس وقت ہمارے پکے پکے مکان اور ہماری اولاد اور ہماری حاصل کردہ آسائشیں ہمارے کسی کام نہ آسکیں گی۔ جہنم کی آگ ہمیں جلائے گی انُھیں نہیں کیونکہ ہم نے ان کی خوشیوں اور رضا کو پیدا کرنے والے کی مرضی پر ترجیح دی۔ ہم روزانہ اُس کے بہکاوے میں آتے ہیں جسے دھتکارا گیا ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں ''کنجوس شخص دو طرح کی مصیبتوں کا شکار رہتا ہے۔ زندگی وہ غریبوں کی طرح گذارتا ہے کیونکہ پیسے ہوتے ہوئے اپنے اوپر خرچ نہیں کرتا جب کہ حساب اُس نے امیروں کا دینا ہوگا کیونکہ دولت اس کے پاس تھی جسے اس نے خرچ نہیں کیا'' اب بتائیے کہ ہمارے بڑے بڑے عقلمندوں کی عقل کہاں ہے غالباً اس لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔


کبھی عقلمند بھی خسارے کا سودا کرتا ہے کبھی ہوشیار بھی نقصان اٹھاتا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ہو رہا ہے۔ چلو یہ باتیں شاید ان لوگوں کو پسند نہ آئیں جو سمجھتے ہیں کہ بس جو کچھ ہے اسی دنیا سے متعلق ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی دنیا میں اپنی کُرسی سے ہٹ جانے والے لوگ جس طرح اپنی اہمیت اپنی ہی نظروں میں کھو بیٹھتے ہیں وہ کونسے فائدے میں رہتے ہیں جب آگے پیچھے پھرنے والے اچانک کترانے لگ جاتے ہیں اور اکثر غائب ہی ہو جاتے ہیں تو وہ کس فائدے کے سودے کا نتیجہ ہوتا ہے۔

جب بھاری بھرکم جہیز والی بچیاں طلاق نامے ہاتھ میں لیے گھروں کو لوٹتی ہیں تو وہ کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہوتا ہے جب بچے غیر ملکوں میں بھاری بھر کم فیسیں دینے کے باوجود فیل ہوجاتے ہیں تو رشوت کا پیسہ کیوں کام نہیں آتا۔کسی زمانے میں، میں ایک ایسے دفتر میں کام کررہا تھا جو رشوت ستانی اور سائلین جو سرکاری ملازم تھے کو ستانے میں مشہور ومعروف تھا۔ ایک روز ایک صاحب نے مجھے کہا کہ خدا تھانے کچہری اور آپ کے دفتر سے بچائے کیونکہ ان دفتروں میں لوگ ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں۔

میں نے اسے کہا کہ ہمارے ہاں جب ایک باپ کی موت ہوتی ہے تو اس کی ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والی اولاد ایک ایک مرلے زمین پر ایک ایک چوڑی اور انگوٹھی پر ایک ایک قیمتی جوڑے پر اور اسی طرح حقیقت میں اور بہت ساری حقیر اور بے توقیر چیزوں پر کتوں کی طرح آپس میں لڑتی ہے اور ایک دوسرے کو ذلیل وخوار کرتی ہے وہاں کونسی کچہری ہوتی ہے اور کونسا تھانہ ہوتا ہے اور میرا دفتر ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اسی قماش کے لوگ ہیں ہمارا تھانہ اور ہماری کچہری اور میرا وہ دفتر جس میں اُس وقت میں کام کرتا تھا ہماری ہی طرح کے ہیں نہ وہ ادارے ہم سے جدا ہیں اور نہ ہم ان سے جدا ہیں۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ انسان کی مرضی اور اللہ کی مرضی کے فرق کا نام غم ہے۔

جتنا فرق کم ہوگا اتنے غم کم ہونگے میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ غموں کو مانپنے کا اس سے بڑا پیمانہ نہ کوئی ہے اور نہ ہی کوئی ہوسکتا ہے۔ ہمارے سارے غم ہماری ان خوشیوں سے متعلق ہوتے ہیں جنھیں ہم نے اللہ کی مرضی کے خلاف حاصل کیا ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہر شخص کی اپنی عقل اور اپنا تجربہ کافی ہے اس میں کسی قسم کی جنسی یا علاقائی تخصیص کی گنجاش نہیں یہ بات ہر عمر کے بچے بڑے بوڑھے عورت و مرد پر لاگو آتی ہے۔ اگر ہم آج بھی اللہ کی مرضی اور اپنی مرضی کے درمیان فرق کو کم کرنا شروع کردیں تو ہمارے انگنت غموں کی تعداد تیزی سے کم ہوسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم اپنی لاتعداد مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں جو دراصل ہماری اپنی ہی پیدا کردہ ہیں۔

خدا ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
Load Next Story