پاکستانی فلموں کی عید
1947 میں پاکستان بنا اور انڈیا پاکستان کے درمیان کئی چیزیں جو ہمیشہ سےایک تھیں ایک ہی رات میں الگ ہونے پر مجبور ہوگئیں
ISLAMABAD:
1947 میں پاکستان بنا اور انڈیا پاکستان کے درمیان کئی چیزیں جو ہمیشہ سے ایک تھیں ایک ہی رات میں الگ ہونے پر مجبور ہوگئیں، کچھ چیزوں سے دونوں طرف کو فائدہ ہوا اور کچھ سے نقصان۔ جس ایک چیز سے انڈیا کو بڑا نقصان ہوا وہ تھا لاہور فلم انڈسٹری کا علیحدہ ہوجانا کیوں کہ وہ ہندوستانی فلم ہیڈکوارٹر تھا نارتھ سرکٹ کا، ممبئی کے علاوہ وہ واحد جگہ جسے فلم ڈسٹری بیوشن کا ستون مانا جاتا تھا نہ صرف یہ بلکہ پنجابی فلمیں پروڈیوس کرنے کا سب سے بڑا مرکز بھی لاہور تھا۔
پارٹیشن کے وقت جہاں لاکھوں عام لوگوں نے ہجرت کی وہیں ایسے لوگوں نے بھی ملک بدلا جو برصغیر کی فلم انڈسٹری کے مشہور نام تھے ملکہ ترنم نورجہاں اور ان کے فلم ڈائریکٹر، ایڈیٹر شوکت حسین رضوی یا پھر ایکٹر ڈائریکٹر نذیر، کمپوزر ماسٹر غلام احمد اور کئی ایسے نام تھے جو ممبئی سے لاہور آگئے۔
ممبئی کے الگ ہوجانے سے لاہور فلم انڈسٹری کو کئی مشکلات کا سامنا تھا، پاکستان بننے سے پہلے شوٹ لاہور میں ہوتیں تو ایڈٹ ممبئی ہوتیں، گانے ریکارڈ ممبئی میں کیے جاتے اور پکچرائز لاہور میں۔ الگ ہوجانے کی وجہ سے لاہور میں رہنے والے ٹیکنیشن نے بھی ممبئی کا رخ کیا جہاں فلم اسٹوڈیوز زیادہ تھے۔
وہ لوگ جو انڈیا سے پاکستان آگئے انھوں نے ہمت نہیں ہاری، کم وسائل کے باوجود نورجہاں اور ان کے شوہر نے 1950 کے اوائل میں پہلا فلمی اسٹوڈیو قائم کیا جس کا نام تھا ''شاہ نور''۔ 1948 میں پاکستان میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم ''تیری یاد'' تھی جس پر پارٹیشن سے پہلے سے کام چل رہا تھا، پارٹیشن کی وجہ سے کئی مصیبتوں سے گزری اور ستمبر 1948 میں ریلیز ہونے کے پہلے ہی دن دیکھنے والوں کی طرف سے بری طرح ریجیکٹ کردی گئی لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری نے جو ابھی پوری طرح کھڑی بھی نہیں ہو پائی تھی اس دھکے سے دم نہیں توڑا، وہ سانس لیتی رہی اور اٹھ کر کھڑے ہونے کی کوشش کرتی رہی۔
ہچکولے، شاہدہ، سچائی، غلط فہمی، پھیرے اور مندری وہ کچھ ابتدائی فلمیں ہیں جو مکمل طور پر پاکستان میں پروڈیوس کی گئیں۔
1950 کی دہائی میں کم سازوسامان اور محض تین اسٹوڈیوز ہونے کے باوجود پاکستانی فلم میکرز اپنے جذبے سے فلمیں بناتے رہے۔ 1960 فلموں کے لیے بہتر ثابت ہوا جب کئی نئے نام جس میں پرویز ملک جو امریکا سے پڑھ کر آئے تھے فلم میکنگ میں شامل تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی دو رنگین فلمیں نائلہ اور سنگم بھی ریلیز ہوئیں اور 1970 سے رنگین فلمیں بننا عام ہوگئیں۔ اسی زمانے میں ہیروز اور آئی کون بننے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وحید مراد، ندیم، محمد علی، سلطان راہی اور ان سے پہلے سنتوش کمار، درپن، حبیب جیسے فلم ایکٹروں پر لوگ ایسے ہی ری ایکٹ کرتے جیسے ہندوستانی دلیپ کمار، راج کپور یا پھر دھرمیندر جیسے فلم آرٹسٹ۔
پاکستانی فلم انڈسٹری ابھی اپنے پیروں پر کھڑی ہو ہی رہی تھی کہ ملٹری راج آگیا۔ جنرل ضیاء الحق کی زبردست سنسر شپ ،جس میں فلم میکرز کو گریجویٹ ہونے کا پابند بھی کردیا گیا، یہ وہی زمانہ تھا جب ہندوستان میں آٹھویں فیل لڑکے ''یش چوپڑہ'' بنتے جارہے تھے اور ہمارے یہاں کے بنے بنائے یش چوپڑہ گریجویٹ نہ ہونے کی وجہ سے فلمیں چھوڑ کر نوکریاں ڈھونڈ رہے تھے۔
اسکرپٹ، سین اور گانے جیسی ہر چیز میں حکومتی دخل سے فلم میکرز کے تخلیقی ذہن اور باکس آفس کی دکان کو پاکستان بھر میں تالے لگنے شروع ہوگئے، ساتھ ہی وی سی آر کے ذریعے خاموشی سے 80 کی دہائی میں چیختے چلاتے امیتابھ بچن اپنی کئی فلموں کے ساتھ ہمارے ٹی وی لاؤنج میں آدھمکے جس سے پاکستانی فلموں کو انڈیا سے مقابلہ کرنے سے پہلے ہی ہار جانا پڑا۔ انڈیا سے نفرت اور ان کی فلموں سے پیار کرنے والے پاکستان نے اگلے کچھ برسوں میں اپنے کلچر کی کھچڑی بناکر رکھ دی۔
پاکستانی فلم میکرز نے کوئی بھی فلم بنانے کی کوشش کی تو اپنے ہی پاکستانیوں نے اس کے بارے میں سوچا اور رائے دی۔۔۔۔۔ مت بناؤ۔ سیلیوٹ ہے سید نور اور عمر شریف جیسے لوگوں پر جنہوں نے 90 کی دہائی میں حالات برے ہونے کے باوجود پیسہ، وقت اور محنت داؤ پر لگاکر پہلے سے دم توڑتی پاکستانی فلم انڈسٹری میں پھر جان ڈال کر Ventilator پر رکھا تاکہ وہ چلتی رہے۔پرائیویٹ ٹی وی چینلز آجانے کی وجہ سے جو تخلیقی ذہن رکھنے والا شخص کوئی کہانی دکھانا چاہتا وہ ڈرامہ بناکر اپنا شوق پورا کرلیتا۔ ڈراموں پر ڈرامے بنتے گئے اور ہم نے ڈراموں کو ''ہمسفر'' بناکر ''زندگی گلزار کرلی'' اور اپنی فلموں کو وینٹی لیٹر پر ہی رہنے دیا۔
2005 کے آس پاس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی آگئی جس سے دنیا بھر میں فلم پروڈکشن بہت سستی ہوگئی جہاں پہلے دو لاکھ ڈالر سے کم فلم کا کیمرہ نہیں آتا تھا آج تین ہزار ڈالر کا کیمرہ اسکرین پر وہی رزلٹ لاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں تجرباتی فلمیں بننا شروع ہوئیں اور بڑی بڑی ہٹ بھی ہوئیں ۔ Blairwitch پروجیکٹ اور Paranormal ایکٹیوٹی جیسی بیس ہزار ڈالر سے کم بجٹ میں بننے والی فلموں نے سو ملین ڈالرز سے زیادہ کا بزنس کیا اور اس ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھانے ہماری نئی نسل کے فلم میکرز نے کئی سال سے وینٹی لیٹر پر پڑی پاکستانی فلم انڈسٹری میں پھر جان ڈالنے کی کوشش کی۔
دو سال پہلے عید پر تین پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں، سب کو بہت امید تھی کہ یہاں سے پاکستانی فلم انڈسٹری پھر فعال ہوجائے گی لیکن افسوس اس سال عید پر سب سے زیادہ چلنے والی فلم کا نام سلمان خان کی ''باڈی گارڈ'' تھا، اگلے دو سال پھر تاریکی۔۔۔۔۔ پاکستان میں کوئی خاص فلم ریلیز نہیں ہوئی، لیکن اس سال پھر ایک امید کی کرن جاگی ہے، اس سال اگست میں عیدالفطر کے موقع پر چار پاکستانی فلمیں ریلیز کی جائیں گی لیکن پاکستانی فلم میکرز کو ڈر ہے کہ اس سال بھی لوگ ہندوستانی فلمیں ہی دیکھنے نہ چلے جائیں۔ اس لیے انھوں نے پاکستانی فلم ڈسٹری بیوٹرز سے اپیل کی ہے کہ اس مہینے آنے والی شاہ رخ خان کی چنائے ایکسپریس اور اکشے کمار کی ''ونس اپان اے ٹائم ان ممبئی'' پارٹ ٹو پاکستان میں ریلیز نہ کی جائے۔
جتنا ہم چاہتے ہیں کہ پاکستانی فلمیں بھی نام کریں اتنا ہی ہم چاہتے ہیں کہ ان ہندوستانی فلموں کو پاکستان میں ریلیز سے نہ روکا جائے۔ وہ مقابلہ ہی کیا جو دوسری ٹیم کو میدان سے باہر نکال کر جیتا جائے۔ ہم یہاں تک آگئے ہیں تو آگے تک جاسکتے ہیں، یہ اعتماد ہمارے فلم میکرز کو ہونا چاہیے۔
پاکستان کے صف اول کے فلم ڈسٹری بیوٹر عبدالرشید یہ کنفرم کرچکے ہیں کہ وہ پاکستانی فلم میکرز کی اپیل پر یہ دونوں فلمیں عید پر ریلیز نہیں کریں گے۔ لیکن 1980 میں خاموشی سے وی سی آر کے ذریعے ہمارے دماغوں میں گھسنے والے بالی وڈ سے مقابلہ کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ خود کو کمزور سمجھ کر اگر مقابلہ ہی نہیں کرتے تو کیا آج پاکستان ہوتا؟ 1992 کا ورلڈ کپ ہوتا؟
ہماری پاکستانی فلم میکرز سے اپیل ہے کہ یہ دونوں فلمیں پاکستان میں ریلیز ہونے دیں۔ اگر ہماری پاکستانی فلم انڈسٹری کے پاس ہمت، محنتی لوگ اور قسمت میں کامیابی لکھی ہے تو کوئی دوسرے ملک کا ''بازی گر'' یا ''کھلاڑی'' ہمیں روک نہیں پائے گا۔