’’فلسفہ اور سامراجی دہشت‘‘ ایک تعارف…

نئی کتاب ’’فلسفہ اور سامراجی دہشت:ما بعد الطبیعات جدلیات اور مابعد جدیدیت‘‘ سات ابواب اور ایک طویل دیباچے پر مشتمل ہے۔


Shabana Yousuf April 29, 2013

فلسفہ مابعد جدیدیت کے بعد عمران شاہد بھنڈر کی 328 صفحات کی نئی کتاب ''فلسفہ اور سامراجی دہشت:ما بعد الطبیعات جدلیات اور مابعد جدیدیت'' سات ابواب اور ایک طویل دیباچے پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں عہد حاضر کی دہشت گردی کا مذہبی، معاشی، سیاسی اور فلسفیانہ خیالیات کی روشنی میں جامع اور پُر فکر تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے انتہائی مربوط انداز میں اس کتاب کے بابِ اول میں ان بنیادی معاشی، سماجی سیاسی تضادات کو عیاں کیا ہے جن کی وجہ سے نہ صرف استحصال،ظلم وجبر پروان چڑھ رہا ہے بلکہ یہ ہر طرح کی دہشت گردی کا سبب بن رہے ہیں۔

ان تضادات کی تحلیل کا امکان اس کتاب کے آخری باب ''فلسفۂ بُعد(Reification) : تھیوری اور عمل کی جدلیات'' میں دکھایا گیا ہے۔ تیسرا باب'' جدلیات شعور اور مابعد جدید فاشزم'' انتہائی اہم باب ہے اس میں کانٹ، ہیگل، ہائیڈیگر، ہیبرماس، لیوٹارڈ اور دریدا کے فلسفۂ سبجیکٹ سے بحث کرتے ہوئے مارکسی تھیوری کے تحت تشکیل پانے والے اس فرد کی وضاحت کی گئی ہے جس کا کرداربورژوا فلسفوں میں پائے جانے والے متصورہ فرد کی بجائے تاریخی ،حقیقی اورعملی ہے، جو کل سماج سے اپنے رشتے کا عملی سطح پرشعور رکھتا ہے۔اس شعور کو یہ حقیقی فردبُعد کے شکار بورژوا سماج میں کس طرح اپنی عملی سرگرمی سے حقیقی سماج کی تخلیق کے لیے بروئے کار لاسکتاہے۔ اس کی وضاحت اس کتاب کے بابِ ششم ''محنت کش: سماج کا خالق'' میں مدلل انداز میں کی ہے۔

مصنف نے مسلمان خصوصا تیسری دنیا کے اس مذہبی انسان کی کمزوریوں اور خامیوں کو نمایاں کیا ہے جن کی وجہ سے سرمایہ دار کو اپنے مفادات کے حصول میں کچھ مشکل پیش نہیں آرہی۔ مصنف کے مطابق سرمایہ دار کا آسان ہدف وہ مذہبی انسان ہے جو 'الٰہیات ' سے تو وابستہ رہنا چاہتا ہے مگر 'علم الوجود' اور منطق سے بے خبر ہے اور جس دنیا میں وہ رہتا ہے اس سے اس کے وجود کا کیا رشتہ ہے اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے قدیم اور جدید دہشت گردی کے درمیان فرق کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مصنف کے نزدیک'' جدید دہشت گردی'' روشن خیال اور سیکولر ہے، یہ قدیم الٰہیات کے محدود مقولات پر مشتمل نہیں، بلکہ وسیع سطح پر علم الوجود، منطق اور الٰہیات پر مشتمل ہیں۔

مصنف کا خیال ہے کہ پوری دنیا میں اس وقت مسلمان ریاستوں کا کردار قابلِ مذمت ہے جن کے رہنے والے اس بات سے بے خبر ہیں کہ کس طرح سے سامراج نے فلسفیانہ علوم کی بنیاد پر نہ صرف سرمایہ داری نظام کو ترقی دی ہے، بلکہ انھی علوم نے سامراج کو اور بھی مکار اور عیار بنادیا ہے کہ وہ انھی علوم کے ذریعے پہلے سے زیادہ مہذب طریقے سے انسانیت کا استحصال کر رہا ہے۔ اس نے انسان کوتقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ سرمایہ داری نظام جو فردیت کی نشونما کا دعویدار ہے اسی نے درحقیقت انسان کی اصل انفرادیت کو چھین کراسے نہ صرف پارہ پارہ کردیا ہے، بلکہ سرمایہ داری نظام اور فرد کی انفرادیت کا سفر دو مختلف سمتوں میں جاری ہے، جسے عہدِ حاضر کا انسان جبر تلے آکر طے کرنے پر مجبور ہے، جب کہ سامراج اپنے سفر کو جاری رکھنے کے لیے مختلف ''نظریاتی'' راستے ہموار کرتا رہتا ہے۔

آج کی ریڈیکل اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی بھی اسی نظریاتی جنگ کی ایک کڑی ہے اور موجودہ بنیاد پرستی کا اصل ذمے دار سامراج ہے وہ چاہے ہندو ہے مسیحی یا یہودی ہے اور ان کا معاون و مددگار مسلمان ہے جس کی شناخت ایک زر خرید سے زیادہ نہیں ہے ۔اس کو سامراج نے اپنا آلۂِ کار بنایا ہوا ہے۔ مصنف اپنے آخری تجزیے میں اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ روشن خیالی فلسفیوں کے فلسفوں میں انسان دوستی کا عنصر نمایاں تھا ۔ ان کے فلسفوں میں علمیاتی کے برعکس اخلاقی پہلو فطرتِ انسانی کے قریب تر تھا۔ روشن خیالی فلسفے حقیقی تضادات کی تحلیل کرتے ہوئے ان کو دباتے تھے، لیکن اس کو خالصتاََ علمیاتی پہلو قرار دیتے تھے۔

علمیاتی پہلو جس میں تعقل کی سربلندی کا پہلو نکلتا ہے، اسے سرمایہ داری نظام میں ''انتظامی معاشرے'' کے قیام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔تاہم بیسویں صدی کے فلسفی و دانشور مغربی درسگاہوں میں بھاری معاوضوں کے عوض سرمایہ داری کے فروغ کے لیے ایسی ایسی تھیوریوں کی تشکیل میں مصروف ہیں جو سامراج کے ظلم کو جواز فراہم کرتی ہیں اور ان میں سرِ فہرست ''مابعد جدیدیت ''اور '' لاتشکیل'' ہے۔ ان کے تحت مسیحی و یہودی بنیاد پرستی کو خصوصاََ نظریاتی مضبوطی بخشی گئی ہے۔

مصنف کا دعویٰ ہے کہ نظریاتی بنیاد پر استحصال کا آغاز ''عقلیت'' کے فلسفوں سے ہوا تھا جن کے تحت دنیا کو پہلے یہ یقین دلایا گیا کہ اس کائنات کا اصل مرکز خود مختارانسان ہے اور اس خیال کو تقویت دی گئی، مگر مسیحی ویہودی اپنے عقائد کے مطابق اپنی الٰہیات کا دائرہ توڑنے کو کبھی تیار نہیں ہوئے، بلکہ انھوں نے بڑی عیاری کے ساتھ 'عقلیت' کو مسیحی و یہودی الٰہیات کے دائرے میں گھسیٹ کر، مسیحی و یہودی نظریے کو فلسفے کی پوشاک پہنا دی۔ ایسے میں عمران شاہد بھنڈر مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ ان کو اپنے مکار دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے ، الٰہیات، وجودیت اور منطقیت کے فلسفوں میں وہ مشترک قدر تلاش کرنی چاہیے جو مسیحی و یہودی شناختوں کی گہرائی میں پائی جاتی ہے، جن کی بناء پر انھیں حقیقی ''بنیاد پرست'' کہا جاسکتا ہے۔

مصنف نے واضح کیا ہے کہ دریدا نے مابعد جدید عہد میں مذہب کو بغیر مذہبیت کے مذہب کہا تھا اور مسیحی و یہودی سامراج کی شناخت میں یہی عوامل کارفرما ہیں۔ایسا ایمان جو بغیر ایمان کے ایمان کہلائے۔یہاں یہ نکتہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ یہ کتاب اسلام کا مؤقف پیش نہیں کرتی، بلکہ بنیاد پرست مسیحیت اور یہودیت کی اسلام کے ساتھ پیکار لڑائی دکھا کر انھیں حقیقی تضادات کے بالائی اظہار کے طور پر پیش کرتی ہوئی مارکسی مؤقف کو تقویت عطا کرتی ہے۔ کتاب کا آخری باب اسی خیال کے پیش نظر لکھا گیا ہے۔

اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مصنف سوال اُٹھاتا ہے کہ اگر سامراج کی تشریح کے مطابق موجودہ 'دہشت گردی' کی وجہ ریڈیکل اسلام ہے تودوسری جنگِ عظیم کیوں ہوئی؟ جو مغربی مسیحیوں نے خود ایک دوسرے کے ساتھ کی تھی، مصنف اس مثال سے واضح کرتا ہے کہ ہر دور میں سامراج نے اپنے اقتصادی مفادات کے لیے ہر قسم کا ظلم روا رکھنے کے لیے علوم کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ ''فلسفہ اور سامراجی دہشت '' میں مصنف نے سامراج کے اس مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ہے جس پر وہ اپنی ضرورت کے تحت بدلتے وقت کے ساتھ مختلف فلسفوں کا نہ صرف نقاب پہن لیتا ہے، بلکہ ان کا کوئی ایک معنی بھی متعین نہیں ہونے دیتا تاکہ وہ اپنی ضرورت اور مفاد کے تحت ،اس کو اپنی مرضی کی لمحاتی'شناخت' عطا کرسکے، جسے دوسرے لمحے آسانی سے تبدیل کیا جاسکے۔

اس کے لیے بیسویں صدی میں تشکیل پانے والی 'لاتشکیل' نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت مصنف نے اپنی اس کتاب کے ابواب ''تھیوری اور فلسفہ شناخت '' '' لاتشکیل تصوف اور فسطائیت'' میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ کی ہے، اور ان تھیوریوں کے اصل کردار کے گھنائونے نتائج سے خصوصاََ تیسری دنیا کے ان دانشوروں کو خبردارکیا ہے جو مغربی نظریات اور تھیوریوں کو بنا کسی تنقیدی زاویے سے دیکھتے ہوئے، اپنے ممالک میں تجریدی سطح پر،صرف فیشن کے طور پر ہی پروان چڑھانا شروع کردیتے ہیں۔

ان ابواب میں مصنف نے مغربی بنیاد پرستوں اور سامراج کی بین المربوط چالوں کا پردہ چاک کیا ہے جن کے ذریعے وہ ایک طرف تو مسلمانوں اور تیسری دنیا کے لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنا کر اپنے اقتصادی و معاشی مفادات حاصل کر رہے ہیں تو دوسری طرف مسیحی و یہودی نظریے کو بھی تحفظ فراہم کر رہے ہیں، اس کے برعکس مصنف سمجھتا ہے کہ مسلمان عملی نہیں صرف نظری حد تک ہی مذہبی 'خیالیات' پر انحصار کیے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بنیاد پرست نہ ہوکر بھی مسیحی و یہودی بنیاد پرستوں کے نرغے میں''دہشت گرد'' بنا ہوا ہے اور اپنی شناخت کو ' 'التوا'' میں اس لیے رکھے ہوئے ہے کہ اس نے علوم کو ترقی دے کر الٰہیات کے ساتھ وجود اور منطق کے رشتے کو، مشترک قدر پر نہ تو دریافت کیا ہے اور نہ ہی کبھی اس بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔

جب کہ ان علمی اقدار کی 'وحدت' کو سامراج بروئے کار لاتے ہوئے ''لبرل جمہوریت'' کی تشکیل کرکے ہر قسم کے ظلم کو آزادی، انسانیت اور اخلاقیات کا نام دے کر ،اپنی انتہا تک لے گیا ہے۔مصنف نے ان تمام حقائق کو دلائل اور ثبوت کے ساتھ مختلف فلسفوں اور تھیوریوں کی روشنی میں تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے عیاں کیا ہے۔ یہ کتاب یقیناََ اردو زبان میں ایک اہم پیش رفت ہے جو نہ صرف نئے علوم کی تشکیل کا تقاضا کرتی ہے بلکہ'' پہلے''(مغربی سامراج) کے مقابل''دوسرے''(استحصال زدہ طبقات) کی حیثیت کو اپنائے رکھنے کی بجائے ''پہلے'' کی حیثیت پر آکر نہ صرف اپنی شناخت کی تشکیل کا فلسفیانہ اور عملی جواز پیش کرتی ہے، بلکہ استحصال، ظلم و جبر سے نجات کا حل بھی پیش کرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں