شہدادکوٹ پیپلز پارٹی پہلی بارآزمائش سے دوچار
این اے 207 سے محترمہ بینظیر بھٹو چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں،دوبار وزارت عظمیٰ سنبھالی.
قمبر شہدادکوٹ سندھ کا انتہائی اہم سیاسی اہمیت کا حامل ضلع ہے۔
2004میں اس وقت کے پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر مرحوم نواب شبیر احمد چانڈیو کی مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کے بعد لاڑکانہ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نئے ضلع کا قیام عمل میں لایا گیا، اس حلقہ انتخاب این اے 207 (اولڈ 166) شہدادکوٹ رتو ڈیرو سے سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔
انہوں نے یہاں سے منتخب ہونے کے بعد دوبار وزارت عظمیٰ کا تاج سنبھالا جبکہ 2008کے عام انتخابات میں انہوں نے پانچویں بار بھی اس حلقے سے الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے مگر پولنگ ڈے سے کچھ دن قبل وہ دہشتگردی کا نشانہ بن کر خالق حقیقی سے جاملیں، انکی شہادت کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال کے باعث دسمبر 2007ء کے بجائے فروری 2008 ء میں انتخابات کرائے گئے، انکی شہادت کے اثرات ضلع کی سیاست پر اس طرح مرتب ہوئے کہ ضلع کی تمام دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے کلین سویپ کرلیا۔
یہ کامیابی امیدواروں کی کارکردگی نہیں بلکہ محترمہ کی شہادت کے مرہون منت تھی، ضلع میں قومی اسمبلی کے دو حلقے این اے 206 اوراین اے 207 ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے چار حلقے پی ایس 38میرو خان، پی ایس 39قمبر، پی ایس 40شہدادکوٹ اور پی ایس 42وارہ ہیں ۔جیسا کہ اس ضلع کو ماضی میں پیپلز پارٹی کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا اور عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ پیپلز پارٹی اگر کسی درخت کو بھی اپنا امیدوار نامزد کرے تو لوگ اس کو آنکھیں بند کرکے ووٹ دیں گے اورلوگوں نے پارٹی امیدواروں کو آنکھیں بند کرکے ووٹ دیئے بھی یہ الگ بات ہے کہ منتخب کرنے کے بعد وہ تمام عرصہ اپنے نمائندوں کو بددعائیں دیتے رہے۔ یہ لوگوں کی پارٹی یا اس کی قیادت سے والہانہ محبت یا سیاسی شعور کی کمی تھی۔
1988ء سے 2008ء تک ہونیوالے تمام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے صرف 2002 ء کے عام انتخابات میں پی ایس 40شہدادکوٹ سے آزاد حیثیت سے انتخابات لڑنے والے سلطان احمد کھاوڑ نے کامیابی حاصل کی، یہ امر افسوسناک ہے کہ پیپلز پارٹی جو 88ء سے 2008ء تک تین بار اقتدار میں رہی مگر شہدادکوٹ کی حالت بہتر ہونے کے بجائے کئی گنا زیادہ ابتر ہوگئی۔ 5سال کے دوران ملنے والے کئی ارب روپے کے فنڈز ترقیاتی کاموں کے بجائے کرپشن کی نذر ہوگئے، ملازمتوں اور ریلیف پیکیجز میں بندر بانٹ کی گئی، عام شہریوں کو نظر انداز کرکے منظور نظر افراد اور برادریوں کے لوگوں کو نوازا گیا جسکی وجہ سے سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ لوگوں کی بڑی تعدادپیپلز پارٹی سے متنفر ہوکر مسلم لیگ (ن)، فنکشنل لیگ اور دیگر پارٹیوں میں شمولیت کررہی ہے حالانکہ ان پارٹیوں کا پہلے علاقے میں وجود نہیں تھا ۔پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندوں اور ان کے کارندوں کے کردار اور عمل کی وجہ سے مذکورہ جماعتیں متحرک دکھائی دے رہی ہیں۔
اس کے علاوہ ماضی میں پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں کو اس بار ٹکٹ نہ دیئے جانے کے باعث وہ پارٹی کے نامزد امیدواروں کے مد مقابل الیکشن لڑرہے ہیں اور غیر جانبدارانہ جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات پیپلز پارٹی کے لیے بھاری ثابت ہوں گے۔ بہرحال 2013ء کے عام انتخابات کے اعلان اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی لوگوں نے سکون کاسانس لیا ہے اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالہ کیلئے ووٹ کی پرچی ڈالنے کے منتظر ہیں۔ ضلع قمبر شہدادکوٹ کی تاریخ میں پہلی بار اتنی تعداد میں لوگوں نے قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے نامزدگی فارم جمع کرائے ہیں کہ ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے، ان امیدواروں میں اکثر غیر معروف اور غیر سیاسی لوگ بھی ہیں جنہوں نے صرف نام کیلئے دو یا تین ہزار روپے فیس ادا کرکے بڑے بڑے سیاسی ناموں کی فہرست میں خو دکو شامل کیا ہے۔
قومی اسمبلی کے این اے 206 قمبر سے 13، این سے 207 شہدادکوٹ سے 37، پی ایس 38 میرو خان سے 28، پی ایس 39قمبر سے 24، پی ایس 40شہدادکوٹ سے 35اور پی ایس 42 وارہ سے 16امیدوار الیکشن لڑرہے ہیں۔این اے 206قمبر پر 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے میر عامر خان مگسی کو 49524 ووٹوں سے کامیابی نصیب ہوئی تھی ان کے مد مقابل حال ہی میں پی پی پی میں شامل ہونیوالے چانڈیو قبیلے کے نواب سردار احمد خان چانڈیو جو مسلم لیگ ق کے نامزد امیدوار تھے کو23545 ووٹ ملے تھے۔2002ء کے الیکشن میں اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے خالداقبال میمن کامیاب ہوئے تھے ۔انہوںنے 36929 ووٹ لیے تھے جبکہ ان کے مدمقابل نیشنل الائنس کے سیداصغرحسین راشدی کو31841 ووٹ ملے تھے۔
اس بار مگسی برادران کی مخالفت کے باوجود صدر مملکت آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نواب سردار احمد خان چانڈیو کوپیپلز پارٹی میں شامل کیا لیکن این اے 206کے ٹکٹ کیلئے چانڈیو اور مگسی رہنمائوں میں تنازع کھڑا ہوگیا۔ پارٹی قیادت نے میر عامر خان مگسی کو ہی ٹکٹ دے دیا ہے جس پردونوں ایک دوسرے کو دل سے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ان کی اندرون خانہ نفرت کے منفی اثرات الیکشن رزلٹ جاری ہونے پر دکھائی دینگے۔ پارٹی قیادت کو اس کا ادراک ابھی سے ہے، تاہم وہ اس نفرت کو ختم کرانے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ گیارہ مئی کے انتخابات کیلئے اس حلقہ سے 13امیدوار میدان میں ہیں لیکن اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے عامر خان مگسی اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی و 20جماعتی اتحاد کے نامزد امیدوار سینئرسیاستدان سید اصغر حسین شاہ راشدی میں ہوگا۔
اصغر شاہ راشدی کا خاندان پیر پگارو کے انتہائی قریب ہے، اور ان کے بڑے بھائی سید اکبر شاہ راشدی کا شمار ف لیگ کے ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جو پارٹی فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اصغر شاہ نے 2002ء کے الیکشن میں پی پی پی کے خالد اقبال میمن سے مقابلہ کیا تھا تاہم انہیں صرف تین ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی تھی، اس بار انکی کامیابی کے امکانات اس لئے واضح دکھائی دے رہے ہیں کہ 2008ء میں کامیاب ہونیوالے میر عامر مگسی سے لوگ متنفر ہیں۔ انہوں نے کامیابی کے بعد علاقے کے لوگوں کو وہ رسپانس نہیں دیا جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی، دوسرا پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی پارٹی امیدواروں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ اصغر شاہ راشدی سمیت دیگر امیدواروں نے الیکشن مہم شروع کردی ہے تاہم پی پی پی ماضی کے برعکس اس بار جوش و خروش سے اس حلقے میں الیکشن مہم چلانے سے محروم دکھائی دے رہی ہے۔
مگسی برادران کے سیاسی حریف چانڈیو نواب سردار احمد سیاسی رنجشوں کے باعث میرعامر مگسی کی مہم چلانے سے گریزاں ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پیپلز پارٹی کو اس حلقے میں نہ صرف سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ اس کو نشست سے ہاتھ دھونا بھی پڑسکتے ہیں۔ این اے 207شہدادکوٹ جو ماضی میں پی پی پی کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کا روایتی حلقہ انتخاب رہا ہے 2002ء کے عام انتخابات میں محترمہ کی عدم موجودگی میں انکی برادری کے شاہد حسین بھٹو نے اس حلقہ سے انتخاب لڑکر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2008ء میں محترمہ کی شہادت کے بعد انکی نند میڈم فریال تالپور نے حصہ لیا تاہم ان کے مد مقابل تمام امیدواروں کو دستبردار ہونے کے باعث وہ بلامقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔
فریال تالپور کو صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے مکمل طور پر فری ہینڈ دیا گیا تھا مگر انہوں نے اپنے حلقے کے عوام کی تقدیر بدلنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اس دوران انہوں نے ایک آدھ بار شہدادکوٹ کا دورہ کیا لیکن وہ عوام سے دور ہی رہیں، کروڑوں روپے کے منصوبے شروع کرائے مگر ان کی تکمیل کی طرف توجہ نہ دیئے جانے کی وجہ سے وہ آج تک ابتدائی مراحل میں بند ہیں، ملنے والے فنڈز کی بندر بانٹ کی گئی، 2008ء کے انتخابات میں ماضی کی طرح صورتحال نہیں ہے، پہلے محترمہ بینظیر کے مقابلے میں آنے کیلئے لوگ سوبار سوچتے تھے مگر اس بار اس حلقہ سے 37امیدوار میدان میں اترے ہیں تاہم مقابلہ پی پی پی کی میڈم فریال تالپور، جے یو آئی کے ڈاکٹر خالد سومر، پی پی شہید بھٹو کی میڈم غنویٰ بھٹو کے درمیان متوقع ہے، خالد سومرو اس حلقے سے تین بار انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور ہر الیکشن میں ان کے ووٹوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے، الیکشن میں چند روز باقی ہیں مگر فریال تالپور اور غنویٰ بھٹو کی جانب سے وہ سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی ہے جو انتخابات قریب آنے پر امیدواروں کی دکھائی دیتی ہے۔
فریال تالپور نے بھی الیکشن مہم کے سلسلے میں صرف ایک جلسہ کیا جس میں بھی مخصوص لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا جبکہ غنویٰ بھٹو نے بھی ایک جلسہ اور چند تعزیتوں پر اپنی مہم کو محدود رکھا ہے جبکہ خالد سومرو نے صرف شہدادکوٹ میں نصف سنچری کے قریب پروگرام کیے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر غنویٰ بھٹو اور خالد سومرو کے درمیان انتخابی تصفیہ ہوجاتا ہے تو پھر فریال تالپور کو نہ صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا بلکہ ان کے مخالف امیدواروں کی فتح کے امکانات بھی بڑھ جائیںگے کیونکہ خالد سومرو کا اپنا ذاتی ووٹ بنک ہونے کے ساتھ انکو 10جماعتی اتحاد کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ پی پی پی اور مخالف جماعتیں کامیابی کیلئے کیا حکمت عملی طے کرتی ہیں۔
پی ایس 38میرو خان پر بھی ماضی میں پی پی کے امیدوار حاجی منور علی عباسی کامیاب ہوتے رہے ہیں مگر اس بار پی پی پی کی قیادت نے ان سے ٹکٹ چھین کر سابق ضلع ناظم لاڑکانہ خورشید جونیجو کو دیا ہے جس کی وجہ سے اس نشست کا رزلٹ بھی عوام کی توقعات کے برعکس دکھائی دے رہا ہے۔اس حلقہ سے 28امیدوار قسمت آزمائی کررہے ہیں مگر مقابلہ پی پی پی کی جانب سے نظر انداز ہوکر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے حاجی منور علی عباسی، پی پی کے نامزد امیدوار خوشید احمد جونیجو، فنکشنل لیگ کے سید رافع اکبر راشدی کے درمیان متوقع ہے۔ اس حلقے سے بھی مختلف سیاسی و دینی جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں، وہ ووٹ لے سکتے ہیں مگر ووٹوں کا تناسب زیادہ نہیں ہوگا اور جو ووٹ وہ لیں گے ان سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو نقصان پہنچے گا۔
2008 ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے 10 امیدواروں نے حصہ لیا تھا جبکہ مقابلہ پیپلزپارٹی کے حاجی منور علی عباسی اور فنکشنل لیگ کے سید رافع کے درمیان ہوا تھا تاہم محترمہ کی شہادت کی وجہ سے پیپلزپارٹی مخالف امیدوار کو اتنی پذیرائی نہیں ملی تھی ۔ اس بار بھی مقابلہ حاجی منور علی عباسی اور سید رافع اکبر کے درمیان ہی ہوگا ۔کہا جاتا ہے کہ اس بار فنکشنل لیگ کے امیدوار کی کامیابی کے امکانات اس لیے زیادہ ہیں کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ خورشید جونیجو اور حاجی منور عباسی میں تقسیم ہوجائیگا اور ماضی میں پیپلزپارٹی کو ملنے والے ووٹ اس بار دیگر ایسے امیدواروں کوبھی ملیں گے جو ان ووٹ دینے والوں کی برادری یا تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ فنکشنل لیگ کے امیدوار کو 10 جماعتی اتحاد کی حمایت بھی حاصل ہے اور اب تک پیپلزپارٹی قیادت حاجی منور عباسی کو اس حلقے سے دستبردار کرنے کیلیے راضی نہیں کرسکی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی مضبوط سیٹ بچاتی ہے یا اندرونی اختلافات کے باعث کھونے پر مجبور ہوتی ہے۔
پی ایس 39 قمبر پر بھی اس بار سخت مقابلہ متوقع ہے، ضلع کے دیگر حلقوں کی طرح اس نشست پر بھی پیپلزپارٹی کے اندرونی اختلافات واضح دکھائی دے رہے ہیں، 2008ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے غلام مجدد اسران نے 27014 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مدمقابل حال ہی میں پیپلزپارٹی میں شامل ہونیوالے چانڈیو برادری کے نواب سردار خان چانڈیو تھے، اس بار سردار خان کی سفارش پر غلام مجدد اسران کی جگہ ان کے بڑے بھائی غلام مجتبیٰ اسران کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے، اس حلقے پر 24 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ اصل مقابلہ پیپلزپارٹی کے غلام مجتبیٰ اسران، فنکشنل لیگ کے سردار فدا حسین گوپانگ، پیپلزپارٹی سے بغاوت کرکے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے علی حسن ہکڑو، مسلم لیگ کے خوشحال خان بروہی میں ہوگا۔
علی حسن ہکڑو کو پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر خوراک میر نادر علی خان مگسی کی حمایت حاصل ہے، ان کو دستبردار کرانے کے لیے پارٹی قیادت نے میر نادر خان کو واضح ہدایات جاری کی ہیں مگر اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ اگر وہ دستبردار ہوئے تو ٹھیک ورنہ وہ بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہونگے، ان کے دستبردار نہ ہونے کا نقصان بھی پیپلزپارٹی کو ہی ہوگا، اگر وہ دستبردار ہوکر پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں تو پھر پیپلزپارٹی کے غلام مجتبیٰ اسران اور فنکشنل لیگ کے سردار فدا حسین گوپانگ کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ فدا حسین گوپانگ کی برادری کا یہاں اچھا خاصا ووٹ بینک ہے جبکہ فنکشنل لیگ اور10 جماعتی اتحاد کی بھی ان کو حمایت حاصل ہے۔
پی ایس 40 شہدادکوٹ پیپلزپارٹی کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے اور 2002ء کے عام انتخابات کے دوران عوامی غیض و غضب اور نفرت نے آزاد امیدوار سلطان احمد کھاوڑ کو پیپلزپارٹی کے امیدوار اکبر مگسی کے مقابلے میں کامیاب کرکے دراڑیں ڈالی تھیں مگر سلطان کھاوڑ سیاسی ناعاقبت اندیشی کے باعث پانچ سال کے دوران اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے ایک بارپھر 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے امیدوار نادر علی مگسی کو کامیابی نصیب ہوئی اورانہیں محکمہ خوراک کی وزارت کے ساتھ ضلع کے سیاہ و سفید کی چابی بھی مل گئی لیکن انہوںنے عام لوگوں کو اس طرح نظرانداز کیا کہ عام لوگ بچارے ملازمتوں، فنڈز اور دیگر سہولتوں سے محروم رہے۔
ماضی میں ان کے مقابلے میں آنے سے لوگ اسی طرح گریز کرتے تھے جس طرح محترمہ بینظیر سے الیکشن میں مقابلہ کرنے سے گریز کرتے تھے مگر اس بار ان کے مقابلے میں 34 امیدوار سامنے آئے ہیں۔ تمام 34 امیدوار کھل کر یہ اعلان کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کا اصل مقابلہ میر نادر مگسی اور پیپلزپارٹی سے ہے۔ اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے امیدوار میر نادر علی خان مگسی، ن لیگ اور 10 جماعتی اتحاد کے نامزد میر غیبی خان مغیری، آزاد امیدواروں سابق تعلقہ ناظم حاجی سردار خان جروار کے درمیان مقابلہ متوقع ہے، سردار خان کو حال ہی میں پیپلزپارٹی میں شامل ہونیوالے نواب سردار خان چانڈیو کی حمایت حاصل ہے تاہم سردار خان جروار سیاست کے میدان میں ہر فن مولا سمجھے جاتے ہیں۔
ماضی میں انہوں نے میر نادر خان مگسی کے بھائی و این اے 206 کے امیدوار عامر خان مگسی کو قمبر شہدادکوٹ کی ضلع ناظمی پر سردار خان چانڈیو کے والد مرحوم نواب شبیر احمد خان چانڈیو سے شکست دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ 2002 ء کے عام انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کے امیدوار کو شکست دلانے میں ان کا بھرپور کردار رہا۔ لوگوں کی خواہشات کے مطابق اگر میر نادر علی خان مگسی سے ون ٹو ون مقابلے کی فضا قائم کی گئی تو نتائج ماضی کے برعکس ہونگے اور لوگوں کی خواہش ہے کہ حاجی سردار خان جروار یا میر غیبی خان مغیری میں سے کوئی ایک متفقہ امیدوار کے طور پر مقابلہ کرے، اس کیلیے پیپلزپارٹی مخالف قوتیں انتہائی سرگرم ہوگئی ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں سیاسی صورتحال تبدیل ہونے کے امکانات ہیں
پی ایس 42 وارہ بھی ضلع کے دیگر حلقوں کی طرح پیپلزپارٹی کی ذاتی ملکیت رہا ہے، اس حلقے سے گزشتہ عام انتخابات میں نجم الدین ابڑو نے کامیابی حاصل کی تھی اور ان کا مقابلہ حال ہی میں پیپلزپارٹی میں شامل ہونیوالے اور اس حلقے سے پارٹی ٹکٹ ہولڈر نواب سردار احمد خان چانڈیو کے چھوٹے بھائی نوابزادہ برہان خان چانڈیو سے تھا، نواب سردار احمد خان چانڈیو کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سے ضلع میں خاص طور پر سابق صوبائی وزیر میر نادر علی مگسی ناخوش تھے لہٰذا ان کو ٹکٹ ملنے پر انہوں نے سردار چانڈیو کے کزن میر شاہنواز خان چانڈیو کو ان کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے۔
اس حلقے میں 16 امیدوار میدان میں ہیں لیکن پیپلزپارٹی کے نواب سردار خان چانڈیو کا مقابلہ قومی عوامی تحریک کے سرتاج احمد چانڈیو، پیپلزپارٹی کے باغی نوابزادہ شاہنواز چانڈیو اور مسلم لیگ ن کے امداد حسین چولیانی کے درمیان متوقع ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ جن کے درمیان مقابلہ ہونے کا امکان ہے وہ تمام ایک ہی قبیلے چانڈیو برادری سے تعلق رکھتے ہیں، قومی عوامی تحریک کے سرتاج چانڈیو کو 10 جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے جبکہ امداد چولیانی ن لیگ سے تعلق رکھتے ہیں تاہم ان کو پارٹی ٹکٹ جاری نہ کیے جانے کے باعث وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے ہیں مگر غیرجانبدارانہ جائزہ لینے سے یہ بات واضح دکھائی دے رہی ہے کہ نواب سردار خان چانڈیو کی پوزیشن مستحکم ہے کیونکہ ان کے قبیلے کے ووٹروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے اور پیپلزپارٹی کے ووٹروں کی اکثریت بھی ان کی کھلی حمایت کررہی ہے تاہم ضلع کے دیگر حلقوں کی طرح ان کو بھی میر نادر مگسی کی طرف سے پارٹی کے اندرونی اختلافات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
علاقے کی تاریخ میں پہلی بار قومی سطح کی سیاست میں4 خواتین پی ایس 38 پر رافعہ خان، این اے 207 پر غلام فاطمہ، زینت کلہوڑو اور پی ایس 40 پرایک خاتون الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں ۔ایک خاتون مہتاب راشدی جو معروف ادیبہ اور دانشور ہیں اپنے بیٹے رافع اکبر راشدی کے حق میں دستبردار ہوگئی ہیں، اب دیکھنا ہے کہ 11 مئی کا دن کس کے لیے خوشی کا پیغام لاتا ہے۔
2004میں اس وقت کے پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر مرحوم نواب شبیر احمد چانڈیو کی مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کے بعد لاڑکانہ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نئے ضلع کا قیام عمل میں لایا گیا، اس حلقہ انتخاب این اے 207 (اولڈ 166) شہدادکوٹ رتو ڈیرو سے سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔
انہوں نے یہاں سے منتخب ہونے کے بعد دوبار وزارت عظمیٰ کا تاج سنبھالا جبکہ 2008کے عام انتخابات میں انہوں نے پانچویں بار بھی اس حلقے سے الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے مگر پولنگ ڈے سے کچھ دن قبل وہ دہشتگردی کا نشانہ بن کر خالق حقیقی سے جاملیں، انکی شہادت کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال کے باعث دسمبر 2007ء کے بجائے فروری 2008 ء میں انتخابات کرائے گئے، انکی شہادت کے اثرات ضلع کی سیاست پر اس طرح مرتب ہوئے کہ ضلع کی تمام دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے کلین سویپ کرلیا۔
یہ کامیابی امیدواروں کی کارکردگی نہیں بلکہ محترمہ کی شہادت کے مرہون منت تھی، ضلع میں قومی اسمبلی کے دو حلقے این اے 206 اوراین اے 207 ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے چار حلقے پی ایس 38میرو خان، پی ایس 39قمبر، پی ایس 40شہدادکوٹ اور پی ایس 42وارہ ہیں ۔جیسا کہ اس ضلع کو ماضی میں پیپلز پارٹی کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا اور عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ پیپلز پارٹی اگر کسی درخت کو بھی اپنا امیدوار نامزد کرے تو لوگ اس کو آنکھیں بند کرکے ووٹ دیں گے اورلوگوں نے پارٹی امیدواروں کو آنکھیں بند کرکے ووٹ دیئے بھی یہ الگ بات ہے کہ منتخب کرنے کے بعد وہ تمام عرصہ اپنے نمائندوں کو بددعائیں دیتے رہے۔ یہ لوگوں کی پارٹی یا اس کی قیادت سے والہانہ محبت یا سیاسی شعور کی کمی تھی۔
1988ء سے 2008ء تک ہونیوالے تمام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے صرف 2002 ء کے عام انتخابات میں پی ایس 40شہدادکوٹ سے آزاد حیثیت سے انتخابات لڑنے والے سلطان احمد کھاوڑ نے کامیابی حاصل کی، یہ امر افسوسناک ہے کہ پیپلز پارٹی جو 88ء سے 2008ء تک تین بار اقتدار میں رہی مگر شہدادکوٹ کی حالت بہتر ہونے کے بجائے کئی گنا زیادہ ابتر ہوگئی۔ 5سال کے دوران ملنے والے کئی ارب روپے کے فنڈز ترقیاتی کاموں کے بجائے کرپشن کی نذر ہوگئے، ملازمتوں اور ریلیف پیکیجز میں بندر بانٹ کی گئی، عام شہریوں کو نظر انداز کرکے منظور نظر افراد اور برادریوں کے لوگوں کو نوازا گیا جسکی وجہ سے سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ لوگوں کی بڑی تعدادپیپلز پارٹی سے متنفر ہوکر مسلم لیگ (ن)، فنکشنل لیگ اور دیگر پارٹیوں میں شمولیت کررہی ہے حالانکہ ان پارٹیوں کا پہلے علاقے میں وجود نہیں تھا ۔پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندوں اور ان کے کارندوں کے کردار اور عمل کی وجہ سے مذکورہ جماعتیں متحرک دکھائی دے رہی ہیں۔
اس کے علاوہ ماضی میں پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں کو اس بار ٹکٹ نہ دیئے جانے کے باعث وہ پارٹی کے نامزد امیدواروں کے مد مقابل الیکشن لڑرہے ہیں اور غیر جانبدارانہ جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات پیپلز پارٹی کے لیے بھاری ثابت ہوں گے۔ بہرحال 2013ء کے عام انتخابات کے اعلان اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی لوگوں نے سکون کاسانس لیا ہے اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالہ کیلئے ووٹ کی پرچی ڈالنے کے منتظر ہیں۔ ضلع قمبر شہدادکوٹ کی تاریخ میں پہلی بار اتنی تعداد میں لوگوں نے قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے نامزدگی فارم جمع کرائے ہیں کہ ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے، ان امیدواروں میں اکثر غیر معروف اور غیر سیاسی لوگ بھی ہیں جنہوں نے صرف نام کیلئے دو یا تین ہزار روپے فیس ادا کرکے بڑے بڑے سیاسی ناموں کی فہرست میں خو دکو شامل کیا ہے۔
قومی اسمبلی کے این اے 206 قمبر سے 13، این سے 207 شہدادکوٹ سے 37، پی ایس 38 میرو خان سے 28، پی ایس 39قمبر سے 24، پی ایس 40شہدادکوٹ سے 35اور پی ایس 42 وارہ سے 16امیدوار الیکشن لڑرہے ہیں۔این اے 206قمبر پر 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے میر عامر خان مگسی کو 49524 ووٹوں سے کامیابی نصیب ہوئی تھی ان کے مد مقابل حال ہی میں پی پی پی میں شامل ہونیوالے چانڈیو قبیلے کے نواب سردار احمد خان چانڈیو جو مسلم لیگ ق کے نامزد امیدوار تھے کو23545 ووٹ ملے تھے۔2002ء کے الیکشن میں اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے خالداقبال میمن کامیاب ہوئے تھے ۔انہوںنے 36929 ووٹ لیے تھے جبکہ ان کے مدمقابل نیشنل الائنس کے سیداصغرحسین راشدی کو31841 ووٹ ملے تھے۔
اس بار مگسی برادران کی مخالفت کے باوجود صدر مملکت آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نواب سردار احمد خان چانڈیو کوپیپلز پارٹی میں شامل کیا لیکن این اے 206کے ٹکٹ کیلئے چانڈیو اور مگسی رہنمائوں میں تنازع کھڑا ہوگیا۔ پارٹی قیادت نے میر عامر خان مگسی کو ہی ٹکٹ دے دیا ہے جس پردونوں ایک دوسرے کو دل سے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ان کی اندرون خانہ نفرت کے منفی اثرات الیکشن رزلٹ جاری ہونے پر دکھائی دینگے۔ پارٹی قیادت کو اس کا ادراک ابھی سے ہے، تاہم وہ اس نفرت کو ختم کرانے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ گیارہ مئی کے انتخابات کیلئے اس حلقہ سے 13امیدوار میدان میں ہیں لیکن اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے عامر خان مگسی اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی و 20جماعتی اتحاد کے نامزد امیدوار سینئرسیاستدان سید اصغر حسین شاہ راشدی میں ہوگا۔
اصغر شاہ راشدی کا خاندان پیر پگارو کے انتہائی قریب ہے، اور ان کے بڑے بھائی سید اکبر شاہ راشدی کا شمار ف لیگ کے ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جو پارٹی فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اصغر شاہ نے 2002ء کے الیکشن میں پی پی پی کے خالد اقبال میمن سے مقابلہ کیا تھا تاہم انہیں صرف تین ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی تھی، اس بار انکی کامیابی کے امکانات اس لئے واضح دکھائی دے رہے ہیں کہ 2008ء میں کامیاب ہونیوالے میر عامر مگسی سے لوگ متنفر ہیں۔ انہوں نے کامیابی کے بعد علاقے کے لوگوں کو وہ رسپانس نہیں دیا جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی، دوسرا پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی پارٹی امیدواروں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ اصغر شاہ راشدی سمیت دیگر امیدواروں نے الیکشن مہم شروع کردی ہے تاہم پی پی پی ماضی کے برعکس اس بار جوش و خروش سے اس حلقے میں الیکشن مہم چلانے سے محروم دکھائی دے رہی ہے۔
مگسی برادران کے سیاسی حریف چانڈیو نواب سردار احمد سیاسی رنجشوں کے باعث میرعامر مگسی کی مہم چلانے سے گریزاں ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پیپلز پارٹی کو اس حلقے میں نہ صرف سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ اس کو نشست سے ہاتھ دھونا بھی پڑسکتے ہیں۔ این اے 207شہدادکوٹ جو ماضی میں پی پی پی کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کا روایتی حلقہ انتخاب رہا ہے 2002ء کے عام انتخابات میں محترمہ کی عدم موجودگی میں انکی برادری کے شاہد حسین بھٹو نے اس حلقہ سے انتخاب لڑکر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2008ء میں محترمہ کی شہادت کے بعد انکی نند میڈم فریال تالپور نے حصہ لیا تاہم ان کے مد مقابل تمام امیدواروں کو دستبردار ہونے کے باعث وہ بلامقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔
فریال تالپور کو صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے مکمل طور پر فری ہینڈ دیا گیا تھا مگر انہوں نے اپنے حلقے کے عوام کی تقدیر بدلنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اس دوران انہوں نے ایک آدھ بار شہدادکوٹ کا دورہ کیا لیکن وہ عوام سے دور ہی رہیں، کروڑوں روپے کے منصوبے شروع کرائے مگر ان کی تکمیل کی طرف توجہ نہ دیئے جانے کی وجہ سے وہ آج تک ابتدائی مراحل میں بند ہیں، ملنے والے فنڈز کی بندر بانٹ کی گئی، 2008ء کے انتخابات میں ماضی کی طرح صورتحال نہیں ہے، پہلے محترمہ بینظیر کے مقابلے میں آنے کیلئے لوگ سوبار سوچتے تھے مگر اس بار اس حلقہ سے 37امیدوار میدان میں اترے ہیں تاہم مقابلہ پی پی پی کی میڈم فریال تالپور، جے یو آئی کے ڈاکٹر خالد سومر، پی پی شہید بھٹو کی میڈم غنویٰ بھٹو کے درمیان متوقع ہے، خالد سومرو اس حلقے سے تین بار انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور ہر الیکشن میں ان کے ووٹوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے، الیکشن میں چند روز باقی ہیں مگر فریال تالپور اور غنویٰ بھٹو کی جانب سے وہ سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی ہے جو انتخابات قریب آنے پر امیدواروں کی دکھائی دیتی ہے۔
فریال تالپور نے بھی الیکشن مہم کے سلسلے میں صرف ایک جلسہ کیا جس میں بھی مخصوص لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا جبکہ غنویٰ بھٹو نے بھی ایک جلسہ اور چند تعزیتوں پر اپنی مہم کو محدود رکھا ہے جبکہ خالد سومرو نے صرف شہدادکوٹ میں نصف سنچری کے قریب پروگرام کیے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر غنویٰ بھٹو اور خالد سومرو کے درمیان انتخابی تصفیہ ہوجاتا ہے تو پھر فریال تالپور کو نہ صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا بلکہ ان کے مخالف امیدواروں کی فتح کے امکانات بھی بڑھ جائیںگے کیونکہ خالد سومرو کا اپنا ذاتی ووٹ بنک ہونے کے ساتھ انکو 10جماعتی اتحاد کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ پی پی پی اور مخالف جماعتیں کامیابی کیلئے کیا حکمت عملی طے کرتی ہیں۔
پی ایس 38میرو خان پر بھی ماضی میں پی پی کے امیدوار حاجی منور علی عباسی کامیاب ہوتے رہے ہیں مگر اس بار پی پی پی کی قیادت نے ان سے ٹکٹ چھین کر سابق ضلع ناظم لاڑکانہ خورشید جونیجو کو دیا ہے جس کی وجہ سے اس نشست کا رزلٹ بھی عوام کی توقعات کے برعکس دکھائی دے رہا ہے۔اس حلقہ سے 28امیدوار قسمت آزمائی کررہے ہیں مگر مقابلہ پی پی پی کی جانب سے نظر انداز ہوکر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے حاجی منور علی عباسی، پی پی کے نامزد امیدوار خوشید احمد جونیجو، فنکشنل لیگ کے سید رافع اکبر راشدی کے درمیان متوقع ہے۔ اس حلقے سے بھی مختلف سیاسی و دینی جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں، وہ ووٹ لے سکتے ہیں مگر ووٹوں کا تناسب زیادہ نہیں ہوگا اور جو ووٹ وہ لیں گے ان سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو نقصان پہنچے گا۔
2008 ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے 10 امیدواروں نے حصہ لیا تھا جبکہ مقابلہ پیپلزپارٹی کے حاجی منور علی عباسی اور فنکشنل لیگ کے سید رافع کے درمیان ہوا تھا تاہم محترمہ کی شہادت کی وجہ سے پیپلزپارٹی مخالف امیدوار کو اتنی پذیرائی نہیں ملی تھی ۔ اس بار بھی مقابلہ حاجی منور علی عباسی اور سید رافع اکبر کے درمیان ہی ہوگا ۔کہا جاتا ہے کہ اس بار فنکشنل لیگ کے امیدوار کی کامیابی کے امکانات اس لیے زیادہ ہیں کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ خورشید جونیجو اور حاجی منور عباسی میں تقسیم ہوجائیگا اور ماضی میں پیپلزپارٹی کو ملنے والے ووٹ اس بار دیگر ایسے امیدواروں کوبھی ملیں گے جو ان ووٹ دینے والوں کی برادری یا تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ فنکشنل لیگ کے امیدوار کو 10 جماعتی اتحاد کی حمایت بھی حاصل ہے اور اب تک پیپلزپارٹی قیادت حاجی منور عباسی کو اس حلقے سے دستبردار کرنے کیلیے راضی نہیں کرسکی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی مضبوط سیٹ بچاتی ہے یا اندرونی اختلافات کے باعث کھونے پر مجبور ہوتی ہے۔
پی ایس 39 قمبر پر بھی اس بار سخت مقابلہ متوقع ہے، ضلع کے دیگر حلقوں کی طرح اس نشست پر بھی پیپلزپارٹی کے اندرونی اختلافات واضح دکھائی دے رہے ہیں، 2008ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے غلام مجدد اسران نے 27014 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مدمقابل حال ہی میں پیپلزپارٹی میں شامل ہونیوالے چانڈیو برادری کے نواب سردار خان چانڈیو تھے، اس بار سردار خان کی سفارش پر غلام مجدد اسران کی جگہ ان کے بڑے بھائی غلام مجتبیٰ اسران کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے، اس حلقے پر 24 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ اصل مقابلہ پیپلزپارٹی کے غلام مجتبیٰ اسران، فنکشنل لیگ کے سردار فدا حسین گوپانگ، پیپلزپارٹی سے بغاوت کرکے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے علی حسن ہکڑو، مسلم لیگ کے خوشحال خان بروہی میں ہوگا۔
علی حسن ہکڑو کو پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر خوراک میر نادر علی خان مگسی کی حمایت حاصل ہے، ان کو دستبردار کرانے کے لیے پارٹی قیادت نے میر نادر خان کو واضح ہدایات جاری کی ہیں مگر اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ اگر وہ دستبردار ہوئے تو ٹھیک ورنہ وہ بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہونگے، ان کے دستبردار نہ ہونے کا نقصان بھی پیپلزپارٹی کو ہی ہوگا، اگر وہ دستبردار ہوکر پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں تو پھر پیپلزپارٹی کے غلام مجتبیٰ اسران اور فنکشنل لیگ کے سردار فدا حسین گوپانگ کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ فدا حسین گوپانگ کی برادری کا یہاں اچھا خاصا ووٹ بینک ہے جبکہ فنکشنل لیگ اور10 جماعتی اتحاد کی بھی ان کو حمایت حاصل ہے۔
پی ایس 40 شہدادکوٹ پیپلزپارٹی کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے اور 2002ء کے عام انتخابات کے دوران عوامی غیض و غضب اور نفرت نے آزاد امیدوار سلطان احمد کھاوڑ کو پیپلزپارٹی کے امیدوار اکبر مگسی کے مقابلے میں کامیاب کرکے دراڑیں ڈالی تھیں مگر سلطان کھاوڑ سیاسی ناعاقبت اندیشی کے باعث پانچ سال کے دوران اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے ایک بارپھر 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے امیدوار نادر علی مگسی کو کامیابی نصیب ہوئی اورانہیں محکمہ خوراک کی وزارت کے ساتھ ضلع کے سیاہ و سفید کی چابی بھی مل گئی لیکن انہوںنے عام لوگوں کو اس طرح نظرانداز کیا کہ عام لوگ بچارے ملازمتوں، فنڈز اور دیگر سہولتوں سے محروم رہے۔
ماضی میں ان کے مقابلے میں آنے سے لوگ اسی طرح گریز کرتے تھے جس طرح محترمہ بینظیر سے الیکشن میں مقابلہ کرنے سے گریز کرتے تھے مگر اس بار ان کے مقابلے میں 34 امیدوار سامنے آئے ہیں۔ تمام 34 امیدوار کھل کر یہ اعلان کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کا اصل مقابلہ میر نادر مگسی اور پیپلزپارٹی سے ہے۔ اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے امیدوار میر نادر علی خان مگسی، ن لیگ اور 10 جماعتی اتحاد کے نامزد میر غیبی خان مغیری، آزاد امیدواروں سابق تعلقہ ناظم حاجی سردار خان جروار کے درمیان مقابلہ متوقع ہے، سردار خان کو حال ہی میں پیپلزپارٹی میں شامل ہونیوالے نواب سردار خان چانڈیو کی حمایت حاصل ہے تاہم سردار خان جروار سیاست کے میدان میں ہر فن مولا سمجھے جاتے ہیں۔
ماضی میں انہوں نے میر نادر خان مگسی کے بھائی و این اے 206 کے امیدوار عامر خان مگسی کو قمبر شہدادکوٹ کی ضلع ناظمی پر سردار خان چانڈیو کے والد مرحوم نواب شبیر احمد خان چانڈیو سے شکست دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ 2002 ء کے عام انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کے امیدوار کو شکست دلانے میں ان کا بھرپور کردار رہا۔ لوگوں کی خواہشات کے مطابق اگر میر نادر علی خان مگسی سے ون ٹو ون مقابلے کی فضا قائم کی گئی تو نتائج ماضی کے برعکس ہونگے اور لوگوں کی خواہش ہے کہ حاجی سردار خان جروار یا میر غیبی خان مغیری میں سے کوئی ایک متفقہ امیدوار کے طور پر مقابلہ کرے، اس کیلیے پیپلزپارٹی مخالف قوتیں انتہائی سرگرم ہوگئی ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں سیاسی صورتحال تبدیل ہونے کے امکانات ہیں
پی ایس 42 وارہ بھی ضلع کے دیگر حلقوں کی طرح پیپلزپارٹی کی ذاتی ملکیت رہا ہے، اس حلقے سے گزشتہ عام انتخابات میں نجم الدین ابڑو نے کامیابی حاصل کی تھی اور ان کا مقابلہ حال ہی میں پیپلزپارٹی میں شامل ہونیوالے اور اس حلقے سے پارٹی ٹکٹ ہولڈر نواب سردار احمد خان چانڈیو کے چھوٹے بھائی نوابزادہ برہان خان چانڈیو سے تھا، نواب سردار احمد خان چانڈیو کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سے ضلع میں خاص طور پر سابق صوبائی وزیر میر نادر علی مگسی ناخوش تھے لہٰذا ان کو ٹکٹ ملنے پر انہوں نے سردار چانڈیو کے کزن میر شاہنواز خان چانڈیو کو ان کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے۔
اس حلقے میں 16 امیدوار میدان میں ہیں لیکن پیپلزپارٹی کے نواب سردار خان چانڈیو کا مقابلہ قومی عوامی تحریک کے سرتاج احمد چانڈیو، پیپلزپارٹی کے باغی نوابزادہ شاہنواز چانڈیو اور مسلم لیگ ن کے امداد حسین چولیانی کے درمیان متوقع ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ جن کے درمیان مقابلہ ہونے کا امکان ہے وہ تمام ایک ہی قبیلے چانڈیو برادری سے تعلق رکھتے ہیں، قومی عوامی تحریک کے سرتاج چانڈیو کو 10 جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے جبکہ امداد چولیانی ن لیگ سے تعلق رکھتے ہیں تاہم ان کو پارٹی ٹکٹ جاری نہ کیے جانے کے باعث وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے ہیں مگر غیرجانبدارانہ جائزہ لینے سے یہ بات واضح دکھائی دے رہی ہے کہ نواب سردار خان چانڈیو کی پوزیشن مستحکم ہے کیونکہ ان کے قبیلے کے ووٹروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے اور پیپلزپارٹی کے ووٹروں کی اکثریت بھی ان کی کھلی حمایت کررہی ہے تاہم ضلع کے دیگر حلقوں کی طرح ان کو بھی میر نادر مگسی کی طرف سے پارٹی کے اندرونی اختلافات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
علاقے کی تاریخ میں پہلی بار قومی سطح کی سیاست میں4 خواتین پی ایس 38 پر رافعہ خان، این اے 207 پر غلام فاطمہ، زینت کلہوڑو اور پی ایس 40 پرایک خاتون الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں ۔ایک خاتون مہتاب راشدی جو معروف ادیبہ اور دانشور ہیں اپنے بیٹے رافع اکبر راشدی کے حق میں دستبردار ہوگئی ہیں، اب دیکھنا ہے کہ 11 مئی کا دن کس کے لیے خوشی کا پیغام لاتا ہے۔