سمندر کے سنگ دوستین ذیر مچھیرے کی زندگی

اسے سمندر نے مصور کرکے زندگی کی گیلری میں لٹکا رکھا ہے۔

اسے سمندر نے مصور کرکے زندگی کی گیلری میں لٹکا رکھا ہے۔ فوٹو : فائل

مجھے بہت عرصے اس کی واپسی کا انتظار کرنا پڑا۔ جفاکش، محنتی، سادہ لوح اور خود دار نذیر ملک کا انتظار۔ وہ سمندر کا سینہ چیر کر اپنا رزق نکالتا ہے، اپنا ہی نہیں دوسروں کا بھی۔ اس کی زندگی سمندر کے سنگ بسر ہو رہی ہے۔ اس دشوار زندگی نے اس کے چہرے پر اپنی خراشیں یوں کندہ کر ڈالی ہیں جیسے کوئی مصور اپنا شاہ کار کینوس پر اتار دیتا ہے اور پھر وہ کینوس کسی گیلری میں لٹکا، لوگوں کی نظروں اور تبصروں کو سہتا رہتا ہے۔

اسے بھی سمندر نے مصور کرکے زندگی کی گیلری میں لٹکا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے دیکھنے والوں سے داد اور تحقیر دونوں وصول کرتا رہتا ہے۔ صابر و ایثار کیش نذیر ملک، اس کی ساری زندگی سخت محنت کے سنگ گزرگئی وہ یہی کہتا ہے حالاں کہ اس کی عمر صرف 32 سال ہی ہے مگر وہ جب بھی بات کرتا ہے تو یہی کہتا ہے میں نے تو اپنی زندگی گزار لی ہے۔ اس کے اندر بلا کا تحمل ہے، صبر، برد باری، ایثار، جفاکشی، خلوص و وفا کی خوش بُو میں رچا بسا نذیر ملک، جس سے بات کرکے خوشی ہی نہیں سکون بھی ملتا ہے۔ منافق رویوں اور جھوٹی باتوں سے دور نذیر ملک۔ وہ دانش وروں کی طرح کتابی باتیں نہیں جانتا، خود پر بیتی ہوئی دہراتا ہے، اس لیے نہیں کہ اس پر ترس کھایا جائے، بل کہ اس لیے کہ آپ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اگر آپ اس سے ہم دردی جتانے لگیں، اس پر ترس کھانے لگیں تو اس شعر کی مجسم تصویر بن جاتا ہے:

مرے صبر پر کوئی اجر کیا، مری دوپہر پہ یہ ابر کیوں

مجھے اوڑھنے دے اذیتیں، مری عادتیں نہ خراب کر

مجھے پڑھنے کا شوق ہی نہیں تھا۔ 12 سال کا تھا کہ مزدوری کرنے لگا۔ ایک شیٹرنگ کے ٹھیکے دار کے ساتھ میں ہیلپر بن گیا۔ بس یہی چھوٹا موٹا کام کرتا تھا، چائے لا دیتا تھا، پانی پلا دیتا تھا، جو سیمنٹ کی خالی تھیلیاں ہوتی ہیں انھیں جمع کردیتا تھا، بس یہی چھوٹے موٹے کام۔ میں جس محلے میں رہتا ہوں، وہاں بہت سارے لوگ مچھیرے ہیں، وہ لانچوں پر ہی کام کرتے ہیں۔ مجھے بھی شوق ہوگیا کہ میں بھی یہی کام کروں گا۔ میری عمر 16 برس تھی جب میں نے لانچ پر کام کرنا شروع کیا وہاں بھی ابتدا میں بس چھوٹے چھوٹے کام تھے، برتن دھونا، پانی پلانا، جال صحیح کرنا پھر آہستہ آہستہ میں بھی دوسرے مچھیروں کی طرح ماہر ہوگیا بس سمجھو میری نوکری پکی ہوگئی۔ ابھی بھی مزدوری ہی ہے بل کہ کام بڑھ گیا ہے۔

جال ڈالنا، نکالنا، لانچ آہستہ آہستہ چلتی ہے تو ہم جال ڈال دیتے ہیں، پھر جال لانچ کے ساتھ باندھ کر سوجاتے ہیں۔ صبح اٹھ کر جال نکالتے ہیں اور مچھلی اسٹور کرتے ہیں، بعض مچھلیوں کو نمک لگا کر رکھتے ہیں۔ مچھلی کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں انھیں علیحدہ بھی کرنا پڑتا ہے، کوئی برف میں صحیح رہتی ہے، کوئی نمک کے ذریعے محفوظ رہتی ہے۔ ہم لانچ میں صبح چار بجے اٹھ جاتے ہیں اور شام چھے بجے تک کام کرتے ہیں، بہت سے کام ہوتے ہیں اکثر جال پھٹ جاتا ہے تو اسے بھی بنانا پڑتا ہے، جال پر سے کوئی جہاز یا لانچ گزر جائے تو وہ پھٹ جاتا ہے۔

مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں ہے بس مجبوری ہے کرنا پڑتا ہے، کوئی اور نوکری ملتی نہیں ہے اسے چھوڑ کر کیا کروں گا۔ میں تو بہت تنگ ہوں اس کام سے، غصہ بہت آتا ہے ایک جیسی زندگی آدم بے زار لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھ میں صبر بھی پیدا ہوا ہے کیوں کہ یہ بہت صبر والا کام ہے ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ ہم تو وہاں رات آٹھ بجے سوجاتے ہیں کیوں کہ صبح چار بجے پھر اٹھنا پڑتا ہے۔ بس کام کرو، جان ماری کرو، مچھلی پکڑو اور سوجاؤ، کوئی سہولت نہیں ہے، زندگی پانی کی نذر ہے۔ مچھلیوں سے بھرا ہوا سمندر مثلاً دھوتر، سارم، گور، سرمئی، سووا، سولی، شارک، ڈاون، دوڑ، چونگ، گھوڑا۔ اگر قسمت اچھی ہو، شکار لگ جائے اور ہم اپنا اسٹور بھرلیں تو 15،20 دن تک لگ جاتے ہیں۔ اگر قسمت میں خواری ہو تو پھر دو مہینے بھی لگ جاتے ہیں اور بہت مایوسی ہوتی ہے۔


بیوی بچے یاد آتے ہیں، بہت یاد آتے ہیں۔ انھیں کون بھول سکتا ہے انہی کے لیے تو اتنی جان ماری کر رہے ہیں ورنہ اگر اکیلا پیٹ ہو تو پھر یہ خوار کام کیوں کریں۔ یہ سب محنت انہی کے لیے کرتے ہیں۔ لوگ دنیا میں سچ جھوٹ، دھوکا فریب سب کچھ بیوی، بچوں اور گھر والوں کے لیے تو کرتے ہیں۔ وہاں وہ یاد بھی بہت آتے ہیں، لیکن بس صبر شکر کرکے بیٹھ جاتے ہیں، اور بور ہوجائیں تو سب لوگ آپس میں گپ شپ کرتے ہیں۔ ہنسی مذاق کرتے ہیں کوئی گانا سناتا ہے، کوئی کچھ سناتا ہے، بس جس کو جو یاد آتا ہے وہ سناتا ہے اس طرح وقت پاس ہوجاتا ہے۔

اکثر لانچ اپنی حدود چھوڑ کر دوسروں کی حدود میں چلی جاتی ہے اس کی بھی وجہ ہوتی ہے۔ کبھی لانچ کا انجن خراب ہوجاتا ہے، لنگرانداز صحیح طریقے سے نہیں ہوتی تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے دوسروں کی حدود میں نکل جاتی ہے کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یہاں شکار نہیں لگا تو دوسروں کی حدود میں چلے گئے لیکن ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی اطلاع نہیں مل سکتی اور نہ ہی ہم اپنی اطلاع کسی کو دے سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑی خرابی ہے لیکن میں نے کہا ناں کہ یہ بہت مجبوری کا کام ہے۔ رمضان والی عید پر تو اتنا خیال نہیں رکھتے لیکن بڑی عید پر ضرور گھر پہنچتے ہیں اس لیے کہ وہ بڑی عید ہوتی ہے۔ ویسے ہماری کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ تہوار اپنے گھر پر ہی گزاریں اکیلے تہوار میں کیا مزا ہے۔

اس کام میں محنت بہت زیادہ ہے اور آمدن بہت ہی کم ہے اگر شکار لگ جائے تو مہینے کے دس ہزار روپے فی کس تک بن جاتے ہیں اور اگر شکار نہ لگے تو تم اﷲ پر یقین کرو، ڈیڑھ ہزار روپے بھی نہیں بنتے۔ جب یہ صورت حال ہو تو بہت مشکل ہوتی ہے جناب! اکثر ادھار لینا پڑتا ہے اور آپ کو پتا ہے آج کل کون دیتا ہے ادھار۔ ہر آدمی اپنے غم اور مسئلے میں ڈوبا ہوا ہے ہم تو بہت مشکل میں ہیں اگر ہم کام کریں تو معاوضہ کم ہے اور نہ کریں تو بچے بھوکے رہیں گے۔ نہ ہم اس کام کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی کرسکتے ہیں۔ بچوں کو بھی پتا ہے کہ حالات اچھے نہیں ہیں، اس لیے وہ بھی چپ ہیں۔

میں نے اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کیا ہے ان سے یہی کہتا ہوں کہ پڑھو، تمہارے کام آئے گا، وہ محنت بھی کرتے ہیں اور میری خواہش بھی ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جائیں، زندگی آسان ہوجائے۔ صاحب! بڑا آدمی اس کو کہتے ہیں کہ جس کے پاس پیسہ ہو، نوٹ ہوں، ابھی کون نہیں چاہتا ہے کہ اس کے پاس جیب بھری ہوئی ہو، میری تو جیب خالی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے بچوں کی جیب بھری رہے۔ ادھر اگر پیسے نہ ہوں تو انسان کو جانور بھی نہیں سمجھتے پیسے ہیں تو جاہل کی بات کو بھی بہت عزت سے سنتے ہیں۔ مجھے خود پر بہت افسوس ہوتا ہے بہت دکھ پہنچتا ہے، پر وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے ابھی افسوس کرنے سے کیا ہوتا ہے بس اب خواہش ہے کہ بچے پڑھ جائیں۔

لوگوں کو سمندر اچھا لگتا ہے لیکن ہم کو تو زہر لگتا ہے، لیکن ہمیں سمندر سے محبت بھی بہت ہے اس سے ہم کو روزی ملتی ہے اگر ہمیں کیپٹن کہے کہ آج چلنا ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایک دو دن اور ٹھہر جائیں لیکن پھر جانا پڑتا ہے۔ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو ہم کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہماری لانچ جھولا بن گئی ہو ہم اسے وہیں لنگرانداز کردیتے ہیں اور طوفان کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ طوفان میں ہوا بہت تیزی چلنے لگتی ہے، اس کی وجہ سے لہریں بڑی ہوجاتی ہیں، پورا سمندر غصے میں ہوجاتا ہے جیسے آدمی کو غصہ آجائے تو قابو میں نہیں رہتا اسی طرح سمندر کو بھی غصہ آجاتا ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے بہت بڑی مچھلی پکڑی، پھر اس کو ساحل پر لائے تھے اس کو ٹی وی میں بھی دکھایا تھا ادھر سمندر میں اتنی بڑی بڑی مچھلیاں ہوتی ہیں کہ کیا بتاؤں۔

بڑی مچھلی، چھوٹی کو کھا جاتی ہے ابھی انسان بھی ایسا ہی ہوگیا ہے اپنے سے چھوٹے کو کھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر بڑا چھوٹے کا حق دبا کر بیٹھ گیا ہے، اس لیے کہ اس کے پاس دولت ہے، اور دولت سے تو آدمی انسان کو خرید لیتا ہے، ہمارے تمہارے جیسا کیا بیچتا ہے۔ اس ظلم کے خلاف ابھی آواز کیا اٹھائیں، پیٹ میں روٹی نہیں ہو، بچے بھوکے ہوں تو آواز بھی ختم ہوجاتی ہے، کوئی آواز اٹھاتا ہے تو وہ لوگ بھی اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اس کو پاگل بولتے ہیں، جن کے لیے اس نے آواز اٹھایا ہو، پھر جس بڑے کے خلاف آواز اٹھاؤ وہ دوسرے دن اس کو غائب کرا دیتا ہے دوسرے اس کا انجام دیکھ کر سب خاموش ہوجاتے ہیں۔

میں کیا بولوں ہمارے معاشرے میں چور، ڈاکو، ہر غلط آدمی کی عزت ہے جو لوگوں کو لڑائے وہ عزت دار، فن کار کہلاتا ہے اور جو واقعی عزت والے ہیں ان کی لوگ بے عزتی کرتے ہیں۔ ہم ادھر لانچ پر سب مل جل کر رہتے ہیں مگر سب اتحاد سے رہتے ہیں اور لانچ کا حفاظت کرتے ہیں۔ ابھی دیکھو پاکستان بھی لانچ ہے سب اس میں رہتے ہیں اگر کوئی سوراخ کرتا ہے تو اس کو منع کرنا چاہیے کیوں کہ اگر سوراخ ہوگیا تو ہم سب ڈوب جائے گا، ابھی اس سے زیادہ کچھ نہیں بول سکتا آپ سب لوگ تو پڑھا لکھا ہے ہم تو پھر ان پڑھ ہے۔
Load Next Story