تلسی داس ہندوستان کا مشہرو شاعر وفلسفی گزرا ہے۔ وہ کہتا ہے ''نفرت ایک کمزور جذبہ ہے اور ناکامی کی علامت۔'' تلسی داس کا یہ قول حال ہی میں ہونے والے کیرانہ الیکشن میں سچ ثابت ہوا اور نفرت کے مبلغ، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو خجالت وشرمندگی سے عرق آلود کر گیا۔
الیکشن 2014ء میں نریندر مودی کی جیت میں نفرت کی سیاست نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت پورے بھارت میں بھارتی مسلمانوں کو ایک ایسا ہوّا اور خطرہ بنا کر پیش کیا جو ہندو قوم کے مذہب، تہذیب وثقافت اور رسوم ورواج قلع قمع کرنا چاہتے تھے۔
اس شرانگیز پروپیگنڈے نے کروڑوں ہندوؤں کو بی جے پی کے پلیٹ فارم پر جمع کر دیا اور پارٹی الیکشن 2014ء جیتنے میں کامیاب رہی۔برسراقتدار آ کر نریندر مودی اینڈ کو نے نفرت کی سیاست کو مزید فروغ دیا کیونکہ اسی نے ان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ چنانچہ مسلمانان بھارت پر مختلف حیلے بہانوں سے حملے ہونے لگے۔ درسی کتب سے مسلم اکابر وحکمران غائب ہوگئے اور ان کی جگہ ہندو باغیوں اور سرکشوں نے لے لی ۔
غریب مسلمانوں کو لالچ و تحریض دے کر ہندو بنایا جانے لگا۔ گائے کے گوشت کی فروخت پر پابندی لگ گئی۔ گائے لے جانے والے مسلمان مشتعل ہندوؤں کے ہاتھوں بے دردی سے مارے جانے لگے۔ عوامی مقامات پر اسلامی لباس میں ملبوس مسلمانوں کو مارا پیٹا جانے لگا۔ غرض نفرت کی سیاست مودی دور میں اپنا وحشیانہ برہنہ ناچ دکھانے لگی اور انسانیت کی تذلیل ہوتا دیکھ کر شیطان خوشی سے پاگل ہو گیا۔
نفرت کے جذبے کی اصل مگر منفی ہے، اس لیے نیکی وخیر کی قوتیں آخرکار اس پر غالب آ جاتی ہیں۔ یہی مظہر بھارت میں جنم لے چکا ہے۔ اب بھارت میں عوام بی جے پی اور آر ایس ایس کی نفرت انگیز سیاست کو مسترد کر رہے ہیں ۔حتیٰ کہ جنوبی بھارت میں حالیہ ضمنی انتخابات کے موقع پر لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازوں پر ایسے بورڈ لگا لیے جن پر لکھا تھا: ''سنگھی (قوم پرست ہندو) لیڈر یہاں سے دور رہیں۔'' انقلابی عمل یہ ہے کہ شمالی بھارت میں بھی عام ہندو بی جے پی کی نفرت والی سیاست سے برگشتہ اور بور ہو رہے ہیں۔شمالی بھارت میں یو پی (اترپردیش) بی جے پی کا گڑھ ہے اور اسی ریاست میں پچھلے چار سال کے دوران نفرت کی سیاست زوروں پر رہی ہے۔ وجہ یہ کہ یوپی کے اکیس کروڑ باشندوں میں تقریباً دو کروڑ مسلمان ہیں۔
لہٰذا ان مسلمانوں کے خلاف محاذ بنا کر قومی اور ریاستی الیکشنوں میں بی جے پی کثیر تعداد میں ہندو ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ بھارتی قومی اسمبلی (لوک سبھا) کی سب سے زیادہ نشستیں یعنی ''80'' یوپی سے تعلق رکھتی ہیں اور الیکشن 2014ء میں یوپی کی ''71'' سیٹیں بی جے پی نے جیتی تھیں۔یو پی میں 71سیٹیں حاصل کرنے کی وجہ سے ہی نریندر مودی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہا ورنہ اسے مقامی جماعتوں کی مدد لینا پڑتی اور وہ اتنا طاقتور حکمران نہ ہوتا جو اسے ہندو ووٹ نے بنا دیا۔ اس فتح نے مودی اور موصوف کے ساتھیوں کو غرور وتکبر میں بھی مبتلا کر دیا۔ وہ سمجھنے لگے کہ نفرت کی سیاست، گڈ گورننس کے سحر اور کرپشن کے خاتمے کے دعویٰ کی بنیاد پر وہ پورے بھارت پر قبضہ کر سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ فی الحال نریندر مودی کے دامن پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں لگ سکا مگر اس کی گڈگورننس یا عمدہ انتظام حکومت عام بھارتیوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی نہیں لا سکا۔ عام بھارتی آج بھی غربت، جہالت اور بیماری سے نبردآزما ہے۔ دراصل دنیا بھر میں عام آدمی کا پہلا مسئلہ پیٹ بھرنا اور اپنے اہل خانہ کی بنیادی ضروریات پوری کرنا ہے۔ جب پیٹ بھرا ہو تبھی وہ زندگی کے دیگر شعبوں مثلاً سیاست، مذہب، کھیل وغیرہ کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔
چونکہ مودی حکومت بھارتی عوام کے معاشی مسائل حل نہیں کر سکی لہٰذا وہ جلد نفرت کی سیاست سے بیزار ہو گئے جس میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔انہیں محسوس ہوا کہ مودی حکومت میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے سارا انتظام سنبھال لیا ہے اور بااثر وامیر طبقہ ہی معاشی ترقی کے بیشتر فوائد سمیٹ رہا ہے۔ ان حقائق نے عوام کو مودی حکومت اور بی جے پی سے دور کر دیا۔اب مودی کا سحر کافور ہوا اور عوام نے جانا کہ یہ آدمی دراصل ہندو قوم پرست اور انتہاپسند جماعتوں اور امیر صنعت کاروں کے مفادات کو تحفظ دینے والا محض ایک آلہ کار ہے جس کے گرد تقدس ودیانت داری کا مصنوعی ہالہ بنا دیا گیا۔ یہ ہالہ دھوکا اور کافی حد تک میڈیا کا کرشمہ ہے جو پروپیگنڈے کے بل پر ٹرمپ جیسے غیرسنجیدہ اور متلون مزاج آدمی کو بھی دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا حکمران بنا سکتا ہے۔
2018ء کے اوائل تک بھارتی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ چنانچہ بھارتی معاشرے کے مختلف طبقے اپنے حقوق کی خاطر مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے۔ اسی دوران بی جے پی کی نفرت انگیز پالیسیوں نے اپوزیشن کی مختلف پارٹیوں کو اپنے اختلافات پس پردہ رکھ کر اتحاد کرنے پر ابھار دیا۔بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست نے معاشرے کے تاروپود ہلا دئیے اور سبھی سیکولر سیاسی لیڈروں نے مناسب جانا کہ مل کر اس بلا کا مقابلہ کیا جائے۔ ایسا پہلا اتحاد وسط مارچ میں یوپی میں لوک سبھا کی دو سیٹوں... گورکھ پور اور پھول پور کے ضمنی الیکشن کے دوران سامنے آیا۔
الیکشن 2014ء میں ان دونوں نشستوں سے بی جے پی کے امیدوار، یوگی ادتیہ ناتھ اور کیشو پرشاد کامیاب ہوئے تھے۔ جب ادتیہ ناتھ وزیراعلیٰ یوپی اور کیشو پرشاد اس کا نائب بنا تو نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونا قرار پایا۔ اس ضمنی الیکشن کے لیے یوپی کی دونوں بڑی ریاستی جماعتوں، سماج وادی پارٹی اور بھوجن سماج پارٹی نے اتحاد کر لیا۔ یہ اتحاد کامیاب ثابت ہوا اور دونوں نشستوں پر بی جے پی کے امیدوار ہار گئے۔
یہ پہلا دھچکا تھا جو بی جے پی اور نریندر مودی کی نفرت پر مبنی سیاست کو لگا۔ خاص طور پر گورکھ پور سے بی جے پی 1989ء سے الیکشن جیت رہی تھی مگر اس بار وہ اپنی پکی سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس ضمنی الیکشن نے دنیا والوں کو دکھا دیا کہ مودی اور اس کے شاطر نائب، امیت شاہ کا گٹھ جوڑ بھی اپنی تمام تر عیاری اور سیاست بازی کے باوجود شکست سے آشنا ہو سکتا ہے۔اس کے بعد 28 مئی کو لوک سبھا کی مزید تین نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوا۔ ان میں کیرانہ کے الیکشن نے سب سے زیادہ اہمیت حاصل کر لی کیونکہ یہاں نفرت کی سیاست کے ہرکاروں اور ان کی مخالف سیکولر قوتوں کا پھر جوڑ پڑ گیا۔کیرانہ کے حلقہ انتخاب میں 35 تا 40 فیصد مسلمان آباد ہیں۔کیرانہ اور اس کے قریبی علاقے مثلاً تھانہ بھون، شاملی، مظفر نگر وغیرہ مسلمانان ہند کی تاریخ میں اہم مقامات شمار ہوتے ہیں۔یہاں مشہور علما اور مجاہد گزرے ہیں۔ان میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ قابل ذکر ہیں۔ لیکن اکثر اوقات یہاں کے مسلمانوں کا ووٹ مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اس حلقہ انتخاب سے کبھی مسلمان امیدوار جیتتا ہے کبھی غیرمسلم۔
الیکشن 2014ء میں کیرانہ سے بی جے پی کا امیدوار ،حکم سنگھ دو لاکھ چھتیس ہزار ووٹوں کی زبردست برتری سے جیتا تھا۔ الیکشن سے عیاں ہے کہ حلقے میں آباد سبھی غیرمسلموں نے حکم سنگھ کو ووٹ دیئے۔ یہ حکم سنگھ بڑا فرقہ پرست تھا اور مسلمانوں کا دشمن۔ غیرمسلموں کو مسلمانوں کے خلاف ابھار کر ہی اس نے لاکھوں ووٹ لیے۔حکم سنگھ مگر فروری 2018ء میں چل بسا تو صورت حال بدل چکی تھی۔ یوپی کے باشندے مودی سرکار اور یوگی حکومت دونوں سے بددل ہو چکے تھے کیونکہ ان کے معاشی مسائل جوں کے توں تھے۔
دونوں حکومتیں بلند وبالا دعویٰ کرنے کے باوجود انہیں حل نہیں کر سکیں۔جب ضمنی الیکشن کا موقع آیا تو بی جے پی نے پرانی چال چلی اور مسلمانوں کے خلاف واویلا مچا کر ہندوؤں کو اپنے گرد جمع کرنا چاہا۔ اسی بار بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو ٹارگٹ بنایا گیا۔ ہوا یہ کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک جگہ قائد کی تصویر لگی ہے۔ بی جے پی کے قائدین نے مطالبہ کیا کہ جناح کی تصویر ہٹائی جائے کیونکہ وہ بھارت دشمن لیڈر تھا۔ مسلمانانِ علی گڑھ نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ معاملہ خاصا بڑھ گیا اور میڈیا نے بھی اسے اچھال دیا۔
اس دوران گنے کا معاملہ بھی سامنے آ گیا۔ یوپی میں حکومت گنے کی قیمت طے کرتی ہے۔ کاشت کاروں کو شکایت تھی کہ یوپی حکومت نے گنے کی نئی فصل کی قیمت صحیح نہیں لگائی اور نہ ہی انہیں رقم کی ادائیگی کر رہی ہے۔ اس معاملے پر یوگی حکومت کے خلاف ان علاقوں میں غم وغصّہ پھیل گیا جہاں گنا کاشت ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں کیرانہ بھی شامل ہے۔بی جے پی نے حکم سنگھ کی بیٹی، مرگنگا سنگھ کو ٹکٹ دیا جبکہ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام اپوزیشن پارٹیوں نے ایکا کر لیا اور ''مہاگٹھ بندھن'' تشکیل دیا۔ اس سیاسی اتحاد نے بڑا خطرہ مول لے کر علاقے کی ایک بااثر مسلمان خاتون، تبسم حسن کو ٹکٹ دے دیا۔ یہ ایک اہم فیصلہ تھا کیونکہ بی جے پی نے بھارت کا معاشرتی وسیاسی ماحول زہرآلود کر دیا ہے۔ چنانچہ ایسے میں یہ فیصلہ الٹا بھی جا سکتا تھا اور کیرانہ کے ہندو ایک مسلمان امیدوار کو ہرانے کی خاطر پھر بی جے پی کو ووٹ دے ڈالتے ۔
الیکشن 2014ء میں نریندر مودی نے اتنی زبردست مسلم مخالف مہم چلائی تھی کہ یوپی سے ایک مسلمان امیدوار بھی کامیاب ہو کر لوک سبھا نہیں پہنچ سکا تھا۔ اب اپوزیشن نے ایک مسلمان خاتون کو کھڑا کر کے بی جے پی کو چیلنج دیا تھا کہ اسے شکست دے کر دکھاؤ تو تم کو جادوگر مانیں۔ اسی چیلنج کے باعث کیرانہ کا الیکشن بی جے پی اور مہاگٹھ بندھن کے مابین کانٹے دار میچ کی صورت اختیار کر گیا۔بی جے پی نے یہ الیکشن جیتنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔حتیٰ کہ نریندر مودی ایک شاہراہ کا افتتاح کرنے کے بہانے نزدیکی علاقے باغپت چلے آئے... حالانکہ وہ ابھی مکمل ہی نہیں ہوئی تھی۔
مودی اپنی تقریر میں حسب دستور اپنے اور اپنی حکومت کے کارنامے گنواتے رہے مگر اس بار مودی کی چمک بھی کام نہ آئی کیونکہ ہندو عوام کو احساس ہو چکا تھا کہ مودی اینڈ کو فرقہ واریت اور نفرت کی سیاست پر پلتا بڑھتا ہے۔جبکہ عوام کے مسائل حل کرنا اس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔28 مئی کو الیکشن ہوا تو اس بار بازی پلٹ گئی۔ تبسم حسن نے چار لاکھ اکاسی ہزار ووٹ پائے جبکہ مرگنگا سنگھ چار لاکھ چھتیس ہزار ووٹ ہی لے سکی۔ اسی بار تبسم حسن کو لاکھوں ہندو جاٹوں نے بھی ووٹ دیا جو مودی سے متنفر ہو چکے تھے۔ یوں بی جے پی اور آر ایس ایس کی نفرت پر مبنی سیاست کیرانہ میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ مودی اور اس کے چیلے چانٹے بدستور نفرت انگیز سیاست کرتے رہے، تو مئی 2019ء کا الیکشن وہ کبھی جیت نہیں پائیں گے۔ نفرت کبھی دائمی اور پائیدار نہیں ہوتی... یہ خاصیتیں فطرت نے صرف محبت کو ودیعت کی ہیں۔
پاکستان میں جو سیاست داں نفرت پہ مبنی سیاست کرتے ہیں،انھیں مودی اینڈ کو کی رسوائی سے سبق لینا چاہیے۔شرانگیز سیاست شاید وقتی طور پر تو اقتدار دلا دے مگر جلد ہی وہ موت کا پھندا بھی بن جاتی ہے۔سیاست وہی ہے جو خیر پر مبنی ہو اور اس کا مقصد عوام کی ترقی وبہبود ہونا چاہیے۔