روز آئی لینڈ ’’کالا پانی‘‘ کے آسیبی کھنڈرات

یہ روز آئی لینڈ اس حوالے سے اتنا زیادہ بدنام تھا کہ اسے سوویت گلاگز اور نازی ڈیتھ کیمپ کے برابر قرار دیا جاتا تھا۔

یہ روز آئی لینڈ اس حوالے سے اتنا زیادہ بدنام تھا کہ اسے سوویت گلاگز اور نازی ڈیتھ کیمپ کے برابر قرار دیا جاتا تھا۔ فوٹو : فائل

QUETTA:
روز آئی لینڈ ''کالا پانی'' کے وہ آسیبی کھنڈرات ہیں جو بہت بڑے بڑے درختوں کی جڑوں اور سانپوں کی طرح الجھی ہوئی شاخوں اور ٹہنیوں کے جال میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔

یہ روز آئی لینڈ آج کا نہیں بلکہ لگ بھگ 80سال پرانا ایک دور افتادہ جزیرہ ہے جو خلیج بنگال کے درمیان میں واقع جزائر انڈومان میں آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح لگ بھگ ایک صدی پہلے تھا۔

یہ جزیرہ کسی زمانے میں انڈیا پر برسراقتدار انگریز حکومت کے سزا یافتہ مخالفین اور باغیوں کے لیے ایک ایسی جیل کی حیثیت سے استعمال ہوتا تھا جنہوں نے انڈیا میں برطانوی راج کے خلاف بغاوت کی تھی اور مسلسل اس کے خلاف سرگرم رہتے تھے۔ غاصب برطانوی یہاں اپنے مخالفین کو رکھتے بھی تھے اور انہیں سخت ترین سزائیں بھی دیتے تھے اور انہیں مستقل طور پر قید کردیتے تھے۔ یہ روز آئی لینڈ سائز میں بہ مشکل ایک مربع کلومیٹر کا تہائی تھا اور اس حوالے سے خاصا بدنام تھا کہ یہاں قابض برطانوی ہزاروں مجرموں اور بالخصوص سیاسی قیدیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ اس طرح توڑا کرتے تھے کہ دیکھنے اور سننے والے لرز اٹھتے تھے۔

یہ سمجھ لیجیے کہ یہ روز آئی لینڈ اس حوالے سے اتنا زیادہ بدنام تھا کہ اسے سوویت گلاگز اور نازی ڈیتھ کیمپ کے برابر قرار دیا جاتا تھا۔ یہاں قیدیوں کے ساتھ خوف ناک انداز کا وحشیانہ سلوک کیا تھا، ان پر بے پناہ تشدد کیا جاتا تھا، ان سے جبری مشقت لی جاتی تھی اور یہاں ان مظلوم اور بے سہارا قیدیوں پر میڈیکل تجربات بھی کیے جاتے تھے یعنی ان تمام قیدیوں سے نہایت خوف ناک انداز کا خراج وصول کیا جاتا تھا، چاہے اس میں ان کی جان بھی چلی جائے۔ یہ مقام جس کا دوسرا مشہور اور تاریخی نام ''کالا پانی'' ہے، انڈین جزیرہ نما سے کوئی 1100کلومیٹر دور بحر ہند کے بیچوں بیچ جزائر انڈومان میں واقع ہے۔ بلاشبہہ یہ جزائر ایک پینل کالونی یا قیدیوں کے رہنے کے لیے نہایت مناسب جگہ تھی جہاں شاہ برطانیہ کے دشمنوں اور باغیوں کو رکھا جاتا تھا۔

یہ بات ہے 1856کی یعنی 1857کے غدر سے ایک سال پہلے کی جب انڈیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے باغی منظر عام پر آگئے تھے جس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو اپنے تمام اختیارات بہ حالت مجبوری تاج برطانیہ کو منتقل کرنے تھے۔

یہ پلان کافی پہلے سے تیار کرلیا گیا تھا اور یہ طے کرلیا گیا تھا کہ مجرموں اور باغیوں کو اسی روز آئی لینڈ پر قید رکھا جائے گا جو بعد میں ''کالا پانی'' بننے والا تھا۔ دوسری جانب برطانوی حکم راں ان تمام قید مجرموں اور باغیوں کو سمندروں کے پار منتقل کرنے کے خواہش مند تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں قدیم ہندو مذہبی کتابوں کے مطابق سمندر پار سفر ممنوع تھا جس کے باعث کسی کی سماجی حیثیت، عزت و ناموس مکمل طور پر ختم ہوجاتی تھی۔ ہندو مت کے مطابق یہ ایک غیرروایتی عقیدہ تھا جس کی وجہ سے متعدد انڈین تاجروں پر پابندی لگادی گئی تھی کہ وہ کبھی بحری تجارت اور جہازرانی میں حصہ نہیں لیں گے، یہ ایک ایسا رویہ تھا، جس کی وجہ سے پرتگیزی جہازراں بھی بہت الجھ گئے تھے۔

اس وقت ایسے جرائم کے تحت ایسے باغیوں کو جو سزا ملتی تھی، اس فرمان کو اس دور میں کالا پانی بھی کہا جاتا تھا۔ بعد میں یہ جگہ بھی بہ ذات خود کالا پانی کہلانے لگی۔

برطانیوں کو امید تھی کہ کالا پانی کا یہ لفظ لوگوں اور خاص طور سے پوری سلطنت کے ہندوؤں میں خوف پیدا کردے گا۔ وہ امید کرتے تھے کہ کالے پانی میں یعنی اس مقام پر اس جیل میں اسیری یا قید کی وجہ سے قیدی اور مجرم ایک طرف تو اپنی عزت اور آبرو سے محروم ہوں گے، دوسری ان کی اپنی ذات اور حیثیت پر بھی بٹا لگ جائے گا اور پھر سماج انہیں اچھی حیثیت اور تکریم سے محروم کردے گا، تاہم اس سے پہلے کہ تعمیراتی کام شروع ہوتا، 1857 کا غدر پھوٹ پڑا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ بہت سارے باغی برطانوی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ ہزاروں کی تعداد میں جنگ آزادی کے سپاہی حراست میں لے لیے گئے۔ اب تو اس پینل کالونی کی تعمیر اور بھی اہم ہوگئی جسے فوری طور پر تعمیر کرنا تھا۔ جب برطانوی 1858 میں 200 مجرموں کے ساتھ پہلی بار جزائر انڈومان پہنچے تو اس وقت یہ تمام سمندری جزائر ناقابل یقین جھاڑجھنکار سے بھرے ہوئے تھے۔ اس موقع پر روز آئی لینڈ کو مجرموں کی پہلی بستی کے طور پر چنا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں پانی میسر تھا۔

یہاں کے گھنے جنگل اور خود رو جھاڑیوں کو صاف کرنے کا دشوار گزار اور سخت کام بھی کافی مشکل بلکہ ناممکن تھا، چناں چہ اس کام کے لیے نہ تو مقامی لوگوں نے کوئی مدد کی اور نہ ہی بحری افسر اپنے بحری جہازوں اور کشتیوں سے نیچے اترے۔ البتہ ان کے ساتھ آنے والے قیدی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور جن کی گردنوں میں کالر بھی پڑے ہوئے تھے، وہ بے چارے اس استوائی گرمی کے علاقے میں اتر گئے جن کی حالت اس شدید گرمی نے بگاڑ دی تھی اور پھر مونسون کی بارشوں نے صورت حال اور بھی خراب کردی تھی۔ پھر آنے والے ان تمام قیدیوں کو اسی جگہ پر اپنے قیام اور رہائش کے لیے چھوٹے چھوٹے گھر بھی بنانے تھے اور اس جیل کے افسران اور نگرانوں کے رہنے کے لیے بھی ہاسٹل یا بڑی عمارتیں بھی بنانی تھیں۔ اس جزیرے پر تمام سڑکیں بنانے کی ذمے داری بھی ان قیدیوں کی ہی تھی۔


یہ جگہ یعنی کالا پانی کی جیل یا قید خانہ آخر بن کر تیار ہوگیا اور اس میں رہنے کے لیے قیدی بھی آگئے جن کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھتی چلی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ ماضی کے 200قیدی بڑھتے بڑھتے 15,000سے بھی زیادہ ہوگئے۔ لیکن یہ سب کے سب قیدی اس جگہ کے خراب ماحول کی وجہ سے کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہوچکے تھے اور طرح طرح کی بیماریوں سے فیصلہ کن جنگ لڑ رہے تھے۔ ان وبائی امراض میں ملیریا، نمونیہ اور پیچش شامل تھے اور یہ امراض مسلسل ان قیدیوں کے لیے موت کا بنیادی سبب بھی بن رہے تھے۔ کچھ اور دیگر قیدی مسلسل ٹارچر کی وجہ سے یا تو غذائیت کیکمی کا شکار ہورہے تھے یا پھر دیگر موذی امراض کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ ان قیدیوں کے علاوہ کھیتوں اور کھلے میدانوں میں کام کرنے والے قیدی مقامی جنگلی لوگوں کی وحشت اور بربریت کا شکار بھی ہوجاتے تھے۔

ان قیدیوں میں سے کچھ قیدیوں پر تو اس قدر ظلم ہوا کہ وہ تنگ آکر آدم خور بن گئے اور اپنے ہی ساتھیوں پر حملے کرکے ان کا گوشت کھانے لگے۔ پھر روز آئی لینڈ پر میڈیکل تجربے بھی کیے جانے لگے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب برطانوی اتھارٹیز کی فورس نے اس جزیرے پر قید لگ بھگ دس ہزار قیدیوں کو زبردستی کونین استعمال کرائی اور اس موذی دوا کا تجربہ بھی کرایا، تاکہ ان تمام قیدیوں پر اس دوا کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔ پھر کیا ہوا؟ کونین استعمال کرنے کا نتیجہ کیا نکلا کہ کچھ قیدی اسہال، پیچش اور دستوں کی بیماری میں مبتلا ہوگئے اور کچھ شدید ڈیپریشن کا شکار ہوگئے، اس کا بھی ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام قیدی ایک دوسرے پر حملے کرنے لگے اور ایک دوسرے کو زخمی کرنے لگے۔

اس پر متعلقہ عہدے داران حرکت میں آگئے اور انہوں نے مذکورہ جرائم کے مرتکب افراد کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔

کچھ عرصے بعد ہی اس جگہ کا منظرنامہ بدل گیا اور کالے پانی کا یہ قیدخانہ یا خوف ناک جیل مسلسل پھیلتی چلی گئی اور آس پاس کے یا متصل جزائر بھی اس کی حدود میں شامل ہوتے چلے گئے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب اس روز آئی لینڈ یا کالے پانی کی جیل کے انتظامی ہیڈ کوارٹرز میں بدل گیا اور یہاں اس جیل کے اعلیٰ عہدے داران اور نگراں افسران اور ان کی فیملیوں کے لیے عمدہ قسم کی رہائش گاہیں تعمیر ہوتی چلی گئیں۔ تبدیلی کا یہ عمل اتنی عمدگی اور مہارت سے کیا گیا تھا کہ روز آئی لینڈ کا دورہ کرنے والے خود بھی یہ سب دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔

ماضی کی اس جیل کی جگہ تعمیر ہونے والی پرشکوہ عمارتوں میں بڑے بڑے مینشنز بڑی شان اور وقار سے سر اٹھائے کھڑے دکھائی دیتے تھے جن میں اس دور کا فرنیچر بھی ہوتا تھا اور نہایت مہارت اور سلیقے سے تراشے ہوئے گھاس کے لان بھی اور ساتھ ساتھ شان دار اقسام کے ٹینس کورٹ بھی تعمیر کرائے گئے تھے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ اس جزیرے پر بازار بھی آباد ہوگئے تھے اور بیکریاں، اسٹورز، اسپتال، چرچ یا گرجا گھر بھی دکھائی دیتے تھے، یہاں تک کہ اس علاقے کی قسمت اس حد تک بدل گئی تھی کہ یہاں پینے کے لیے پانی صاف کرنے والا ایک واٹر پلانٹ بھی لگادیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس جزیرے پر زندگی مشکل ہونے کے بجائے اب بہت آسان اور پرسکون ہوگئی تھی اور ممکن حد تک ہر سہولت فراہم کردی گئی تھی۔

آج اس جگہ تعمیر ہر عمارت کو ہر طرف سے خس و خاشاک نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ خود رو اور لمبی لمبی گھاس بڑی تیزی سے ان عمارتوں اور دیگر جگہوں کو ہڑپ کرے چلی جارہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں یہاں صرف جنگل کا منظر دکھائی دے گا۔ پھر رہی سہی کسر جزائر انڈومان میں 1941 میں آنے والے اس خوف ناک زلزلے نے نکال دی جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.7 ریکارڈ کی گئی تھی۔

اس تباہ کن زلزلے کے بعد Ross Island لگ بھگ اجاڑ اور ویران ہوگیا۔ پھر بھی جو لوگ یہاں باقی رہ گئے تھے، انہیں دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فوج نے مار بھگایا۔ وہ خود تو یہاں سے چلے گئے لیکن جاتے جاتے بنکرز کی شکل میں اس جزیرے پر اپنے نشان ضرور چھوڑ گئے۔

پھر وہ وقت آیا جب 1947ء میں انڈیا اور پاکستان دو آزاد اور خودمختار ملکوں کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے، اس سے کچھ ہی عرصے پہلے کالا پانی کی کالونی ختم ہوگئی۔ لگ بھگ تیس سال تک اس جزیرے کے کھنڈرات ایسے ہی پڑے رہے، نہ کسی نے انہیں چھیڑا اور نہ یہاں کوئی صفائی ستھرائی کا کام کیا گیا۔

پھر 1979میں اس جگہ انڈین بحریہ نے قبضہ کرلیا۔

آج یہ جزیرہ موجود تو ہے لیکن اب اس میں سیاحوں کی دل چسپی زیادہ ہے، وہ یہاں آتے ہیں اور پورٹ بلیئر سے کشتی کے ذریعے اس جگہ کا سفر کرتے ہیں، واضح رہے کہ پورٹ بلیئر جزائر انڈومان اور نکوبار کا دارالحکومت ہے جہاں کالے پانی کی بدنام زمانہ جیل واقع ہے۔
Load Next Story