تمام نان الیکٹ ایبلز کو عید مبارک
یہی الیکٹ ایبلز اس قابض طاقت کے وائسرائے کے ایجنٹوں کے آگے کھڑے ہو کر کشکول میں اپنی آنکھیں رکھ دیں گے۔
پچھلے ہفتے میں نے بی بی سی کے معروف ٹی وی شو ''ہارڈ ٹاک''میں عمران خان اور پھر بلاول بھٹو زرداری کو پروگرام کی میزبان زینب بداوی کے تند و تیز سوالات کا سامنا کرتے دیکھا۔عمران خان نے شائد پوری تیاری نہیں کی تھی۔ اس کا اندازہ ان کے جوابات سے بھی ہو رہا تھا۔ گئے تو وہ بیٹنگ کرنے تھے مگر پچ ان کے اندازوں سے زیادہ باؤنسی نکلی۔صرف دو تین گیندیں ہی پوری طرح بلے پر آ سکیں۔باقی وقت وہ پیڈز اور وکٹ ہی بچاتے رہے۔
بلاول بھٹو کوئی کرکٹر نہیں مگر وہ یہ ہنر سیکھ گئے ہیں کہ تیز گیند کو اچھے سے کیسے ڈیفلیکٹ کیا جائے۔شائد یہ ہنر انھیں اپنے ننہیالی ڈی این اے سے ملا ہو۔انہتر سالہ عمران خان کی اکتائی ہوئی پرفارمنس کے برعکس انتیس سالہ بلاول نے ہر آتی بال پر کوئی چوکا چھکا نہیں لگایا مگر دوڑ دوڑ کے کچھ رنز ضرور بنا لیے اور '' ہارڈ ٹاک'' کی پچ سے ناٹ آؤٹ بااعتماد پویلین لوٹے۔
مسئلہ یہ ہے کہ بلاول کے اندر قیادت کے ضروری وراثتی گن موجود ہیں مگر وہ پارٹی نہ رہی جس پے آشیانہ تھا۔عمران خان میں قیادتی گن ہوں نہ ہوں مگر قیادت کرنے کی بے پناہ خواہش ضرور ہے اور سیاسی پرندوں کے لیے آب و دانے کا انتظام بھی خوب ہے۔اس وقت عمران خان بھی چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر محوِ پرواز ہیں اور کسی کو حوصلہ بھی نہیں کہ عمران خان کو یہ بتائے کہ ادھار کی اینٹوں سے اٹھائی دیوار اپنی نہیں ہوتی۔
کنونشن لیگ کے تالاب پر بھی ایسے ہی ڈار در ڈار پیاسے سیاسی پرندے جمع ہوئے تھے بادشاہ بدلا تو پرندوں کی آنکھیں بھی بدل گئیں اور وہ کسی اور زرخیز کھیتی کی تلاش میں اڑ گئے۔
بھٹو نے پارٹی کی بنیاد تو پیشہ ور سیاسی پرندوں کو دانہ ڈالنے کے بجائے جینوئن پولٹیکل ورکرز کی مدد سے اٹھائی۔لیکن جیسے ہی اقتدار کی ہما سر پے بیٹھی ادھر ادھر منڈلانے والے پرندے بھی کھیتی پر اترنے لگے۔پھر کھیتی یوں اجڑتی چلی گئی کہ جولائی ستتر کے بعد چوری کھانے والا ایک مجنوں بھی دکھائی نہ دیا مگر خون دینے والے مجنوں اپنی جگہ ڈٹے رہے۔تب ہی تو ادھ کتری وراثت محترمہ بے نظیر بھٹو کو مل پائی۔جب کہ پرندوں نے جنرل ضیا کے اڈے پر ڈیرہ ڈال دیا اور پھر اسی ڈیرے میں ایک بار پھر مسلم لیگ کو پیدا کیا گیا اور اسے خون دینے والے مجنوؤں کے روبرو کھڑا کر دیا گیا۔
جنرل ضیا کی موت کے بعد گہوارے کے عادی سیاسی پرندے پہلی بار کنفیوز ہو گئے۔آدھے ادھر آدھے ادھر۔اور پھر پاکستان کی سیاسی ڈکشنری میں الیکٹ ایبلز کے نام سے پرانی پروڈکٹ نئے برانڈ نام سے لانچ ہو گئی۔ بلاول ہاؤس کے باہر ٹکٹ کے خواہش مند الیکٹ ایبلز نے بستر بچھا لیے تو دوسری جانب ماڈل ٹاؤن لاہور کے ایک گھر کے باہر بھی یہی الیکٹ ایبلز ٹولیوں کی شکل میں اندر سے آنے والی اچھی خبر کا ایسے انتظار کرتے نظر آئے جیسے بے صبرے باپ آپریشن تھیٹر کے باہر لڑکے کی خوشخبری کا انتظار کرتے ہیں۔
ٹکٹ پیپلز پارٹی نے بھی دیے اور آئی جے آئی نے بھی۔مگر ٹکٹ ہولڈرز کی وفاداریوں پر اعتبار کسی کو نہیں تھا۔ لہذا پاکستانی سیاست میں بفضلِ الیکٹ ایبلز یہ مناظر بھی پہلی بار دیکھنے میں آئے کہ کرسی الٹنے والوں اور کرسی بچانے والوں کو اپنے ہی بے اعتبار ارکانِ اسمبلی کو نہ صرف ایک ریوڑ کی صورت دور افتادہ مقامات اور چھانکا مانگا میں رکھنا پڑا بلکہ انھیں خوش رکھنے کے لیے ہر طرح کی فرمائشیں بھی پوری کرنا پڑیں۔یہ ثبوت تھا کہ پاکستان میں اگر آنے والے دنوں میں جمہوریت رہی بھی تو وہ روائیتی سیاسی ورکرز کے بل پر نہیں رہے گی بلکہ کون کتنے ووٹ لینے کے لیے کتنا پیسہ لگا سکتا ہے کی شرط پر ہی چلے گی۔
اب ایسے ریوڑ سے یہ توقع باندھنا کہ وہ کڑا وقت آنے پر اصولوں کا ساتھ دے گا ، گرمی میں سڑک پر نکل کے گرفتاری پیش کرے گا ، نعرے لگاتا ہوا جیل جائے گا اور اپنے ضمیر کی کوئی بھی قیمت نہیں لگنے دے گا نری بے وقوفی کے سوا کیا ہے۔
ایسے ہجومِ ہوس کے بل بوتے پر اگر کوئی جماعت مطلق اکثریت بھی حاصل کر لے تو کیا فرق پڑتا ہے۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو دوتہائی اکثریت لینے والی جماعت کے ساتھ کیا ہوا۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ دو برس بعد ادھر سے کاٹ ، ادھر سے پکڑ یہاں سے خرید وہاں سے بیچ کی بنیاد پر ایک اور ریپبلیکن پارٹی مسلم لیگ قاف کے نام سے وجود میں لائی گئی۔
یہ پہلی سیاسی جماعت تھی جو سو فیصد الیکٹ ایبلز پر مشتمل تھی اور اس کا صلہ پانچ برس تک برسرِاقتدار رہنے کی شکل میں سود سمیت ادا کیا گیا۔مگر دو ہزار آٹھ میں اس الیکٹ ایبل کلب کا وہی حشر ہوا جو اس سے پہلے ریپبلیکن پارٹی اور کنونشن لیگ کا ہو چکا تھا۔لیکن روزمرہ کی بنیاد پر کام چلاؤ اسٹیبلشمنٹ اور ہریالی کی تلاش میں اڑنے والی پرندہ صفت سیاسی کلاس کا حافظہ بھی تو عارضی ہی ہوتا ہے۔
آج پھر ان ہی الیکٹ ایبلز کا غلغلہ ہے۔اور بچہ جمورا اسی پر خوش ہے کہ کچھ بھی ہو مگر دو جمہوری ادوار تو تسلسل کے ساتھ مکمل ہو گئے۔مسلسل تیسرا الیکشن تو ہونے جا رہا ہے۔جمہوریت کا منہ بھلے تھپڑ کھا کھا کر لال ہو گیا مگر وہ راستے میں تھک کے بیٹھ تو نہیں گئی۔ پھر ریوڑ ہنکال کر پولنگ اسٹیشنوں پر لائے جائیں گے اور پھر وہ ان ہی الیکٹ ایبلز کو سیاسی کنوارپنے کا سرٹیفکیٹ تھما دیں گے جو جانے کس کس سیاسی جماعت کے ساتھ سو چکے ہیں۔
اگر جمہوریت محض الیکٹ ایبلز کی میوزیکل چئیر کا ہی نام ہے تو پھر آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کو ایک نجی کارپوریشن میں بدل کے کیا گناہ کیا۔مسلم لیگ ن کو اگر پرندے چھوڑ چھوڑ کے اڑ رہے ہیں تو انھیں گالیاں کیوں دی جائیں۔تحریکِ انصاف کی بس کے اندر اور چھت پر اور دروازوں سے لٹکے الیکٹ ایبلز کے لیے اصول پسند عمران خان کو برا بھلا کس برتے پر کہا جائے۔ یہی تو وہ نیا پاکستان ہے جو بننے جا رہا ہے۔
کل کلاں خدانخواستہ پاکستان پر کوئی بیرونی قوت قبضہ کر کے کوئی کٹھ پتلی حکومت تشکیل دیتی ہے تو اسے خام مال ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں۔یہی الیکٹ ایبلز اس قابض طاقت کے وائسرائے کے ایجنٹوں کے آگے کھڑے ہو کر کشکول میں اپنی آنکھیں رکھ دیں گے۔
بات بلاول بھٹو کی صلاحیتوں سے شروع ہو کر جانے کہاں سے کہاں نکل گئی۔گویا بات نہ ہو گئی پاکستانی سیاست ہو گئی۔میری جانب سے تمام نان الیکٹ ایبل پاکستانیوں کو دلی عید مبارک۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)