انتخابات قومی خدمت اور یونیورسٹی اساتذہ

عملے کو، جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، کئی کئی دن تک ریٹرننگ افسروں کے دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔

tauceeph@gmail.com

یونیورسٹی کی خواتین اساتذہ سے علاقہ کے ڈپٹی کمشنر کہہ رہے ہیں کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کو منظم کرنے کی ذمے داری آپ کی بھی ہے۔ انتخابی قوانین اور طریقہ کار سے آگہی کے لیے پریزائیڈنگ افسروں کی تربیت شروع ہوچکی ہے، آپ کی اس پروگرام میں شرکت لازمی ہے۔

کراچی یونیورسٹی کی اساتذہ کی انجمن کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ کسی مرد استاد کو کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ خواتین اساتذہ اس صورتحال سے خوفزدہ ہیں۔ کچھ میں ڈپریشن کے مرض کے اثرات پائے جانے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی استاد کو نقصان ہوا تو یہ پریشان کن صورتحال ہو گی۔

اساتذہ کی انجمن کو کراچی ایسٹ کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے جاری کردہ نوٹس پر بھی اعتراض ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے جاری کردہ اس نوٹس میں یاد دلایا گیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے فریضے سے روگردانی کرنا جرم ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ (C)184 کی خلاف ورزی ہے۔ اس دفعہ کی خلاف ورزی پر دو سال قید بامشقت اور جرمانہ کی سزا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح کا رویہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 174 کی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان پینل کوڈ سرکاری اور خودمختار اور نیم مختار اداروں کے ملازمین فوجداری مقدمہ میں سزا یافتہ ہونے کے بعد اپنی ملازمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایک اور عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ صرف کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ ہی نہیں بلکہ دیگر یونیورسٹی کے اساتذہ انتخابی ڈیوٹی سے 1992 سے مستثنیٰ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ یونیورسٹی کے غیر تدریسی عملے کے ایک ہزار کے قریب ملازمین انتخابی فرائض کی ادائیگی کے لیے متعلقہ محکمے کو رپورٹ کرچکے ہیں۔

بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے ایک سینئر پروفیسر پنجاب کی یونیورسٹیوں کی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اساتذہ انجمن اپنے اراکین کے مفاد کی خاطر الیکشن ڈیوٹی کے خلاف مزاحمت کرتی رہی ہیں اور مختلف نوعیت کے دباؤ کی بناء پر بعض اوقات سارے اساتذہ انتخابی کام سے بچ بھی جاتے ہیں۔ بعض دفعہ جونیئر اساتذہ کو ڈیوٹی دینی پڑتی ہے۔

پاکستان میں الیکشن کمیشن ایک ایسا ادارہ ہے، اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں صوبائی دفاتر اور چاروں دارالحکومتوں میں قائم ہیں۔ پھر اب ہر ضلع میں الیکشن کمیشن کا دفتر موجود ہے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہورہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا عملہ پورے سال انتخابی معاملات میں مصروف رہتا ہے، مگر اس دفعہ قومی اسمبلیوں اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں 80 ہزار سے زیادہ پولنگ اسٹیشن قائم ہوں گے۔

ان پولنگ اسٹیشنوں کو متحرک کرنے کے لے کئی لاکھ پریزائیڈنگ افسران، اسسٹنٹ پریزائیڈنگ اور پولنگ افسران کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ اس بنا پر الیکشن کمیشن وفاقی اور صوبائی وزارتوں، خودمختار اور نیم خودمختار اداروں کے افسروں اور دیگر عملے کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ سرکاری عمارتیں خاص طور پر اسکول اور کالجوں کی عمارتیں پولنگ اسٹیشن بنانے کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔ الیکشن کے لیے ڈیوٹی دینے والے عملے کو تھوڑا سا معاوضہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔

پہلے الیکشن مکمل ہونے کے بعد عملے کو ادائیگی کی جاتی تھی۔ اس طریقہ کار کی بنا پر ہزاروں افراد کو معاوضہ نہیں ملتا تھا، مگر سابق صدر پرویز مشرف نے 2002ء میں ریفرنڈم کے ذریعے خود کو پانچ سال تک منتخب کرانے کا فیصلہ کیا تو یہ حکم دیا کہ انتخابی عملے کو ووٹنگ والے دن سے پہلے رقم ادا کردی جائے۔ الیکشن کمیشن انتخابی عملے کے لیے پہلے اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کو طلب کرتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر دیگر محکموں کے افسروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

اس ضمن میں پولیس کے محکمے اور اسپتالوں میں طبی فرائض انجام دینے والے عملے کو مستثنیٰ رکھا جاتا ہے۔ پولیس والے ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل ویسے ہی انتخابات کے موقع پر ایمرجنسی ڈیوٹی پر موجود ہوتا ہے۔

انتخابات کے موضوع پر تحقیق کرنے والے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر دفعہ منتخب ہونے والے عوامی نمائندے انتخابی عمل اور انتخابی عملے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ برسر اقتدار آنے والی حکومتوں کے اراکین اسمبلی یہ کوشش کرتے ہیں کہ جب اساتذہ کی اسامیاں خالی ہوں تو اپنے حامیوں کو استاد کا منصب دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ایک تو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے حلقے کے ووٹر ان کی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہیں، پھر یہی اساتذہ انتخابی عملے میں شامل ہوتے ہیں۔ مگر الیکشن کمیشن والے کہتے ہیں کہ اسکولوں کے اساتذہ فوری طور پر کمیشن کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں اور ڈیوٹیوں پر حاضر ہو جاتے ہیں۔


یہ لوگ اتنے اثر و رسوخ والے نہیں ہوتے کہ احکامات کی تابعداری نہ کریں۔ پھر انھیں معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کالجوں کے اساتذہ بھی کم و بیش اس قومی ڈیوٹی پر آ ہی جاتے ہیں۔ باقی سرکاری محکموں کے افسروں کو الیکشن ڈیوٹی پر آمادہ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ جب اساتذہ اور دوسرا عملہ مختلف نوعیت کے خدشات کی بناء پر الیکشن ڈیوٹی کے لیے تیار نہیں ہوتا، تو ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ افسران اور ان کا عملہ بہت زیادہ منظم انداز میں کام نہیں کرتا۔

عملے کو، جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، کئی کئی دن تک ریٹرننگ افسروں کے دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ سخت گرمیوں میں اب رمضان کے مہینے میں ایسی مشق خاصی مشکل ہوتی ہے۔ تمام عملے کو انتخاب والے دن سے ایک دن قبل طلب کرلیا جاتا ہے اور عملے کی رہائش اور کھانے پینے کی سہولتوں کے لیے معقول انتظام نہیں کیا جاتا۔

ایک ریٹائرڈ استاد پروفیسر ناصر عباس اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 2008 کے انتخابات میں تمام عملے کو ایک دن قبل طلب کیا گیا۔ تمام عملے کو شامیانے کے سائے میں رات بسر کرنی پڑی۔ جب پولنگ کا عملہ رات گئے ریٹرنگ افسر کو نتائج جمع کراکے اپنے فرائض منصبی سے فارغ ہوتا ہے تو وہ سڑکوں پر بے یار و مددگار ہوتا ہے۔ اس دن کسی قسم کی ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہوتی۔

پولیس والے بسوں اور منی بسوں کو الیکشن ڈیوٹی کے لیے طلب کرلیتے ہیں۔ اس صورتحال میں خواتین زیادہ مشکل صورتحال کا شکار ہوتی ہیں۔ انھیں ڈیوٹی پر آنے اور واپس گھروں پر جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کی جاتی۔

امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کی بناء پر لوگ خوف کے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ الیکشن ڈیوٹی کا فریضہ انجام دینے والی ایک استاد پروفیسر شاہین اختر کہتی ہیں کہ الیکشن میں کسی خاتون کی ڈیوٹی لگنے کا مطلب محض اس کی ڈیوٹی لگنا نہیں ہے، بلکہ اس خاتون کے ساتھ اس کے والد، شوہر، بھائی، بیٹا یا کوئی اورقریبی رشتہ دارکو بھی ڈیوٹی انجام دینی پڑتی ہے۔ پولنگ والے دن الیکشن کرانے والا عملہ سخت دباؤ میں فرائض انجام دیتا ہے۔

ہر امیدوار کے ووٹ، مسترد ووٹ اور ٹینڈر ووٹ کی تفصیلات کے لیے مختلف نوعیت کے فارم تیار کیے گئے ہیں۔ عملے کی ذمے داری ہے کہ ان فارم کو ووٹوں کی گنتی کے ساتھ ہی پر کرے اور متعلقہ لفافوں میں بند کر کے سربمہر کرے ۔ یہ خاصا پیچیدہ عمل ہے، مگر چند گھنٹوں میں اس عمل کو سمجھنا خاصا مشکل کام ہے۔

2013 کے انتخابات میں عمران خان نے جن حلقوں میں دھاندلیوں کے الزامات عائد کیے تھے، ان کے وکیلوں کا کہنا تھا کہ انتخابی عملے کے قوائد و ضوابط کے مطابق متعلقہ فارم بھر کر لفافوں میں سربمہر نہیں کیے، یوں ان کی بناء پر انتخابی عملے میں ایک خاص قسم کا خوف و ہراس پیدا ہوا۔ بہت سے افسران یہ سوچنے لگے کہ اس صورتحال سے بچنے کا ایک طریقہ کار ہے کہ انتخابی ڈیوٹی نہ کی جائے۔

الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں ادارہ جاتی اقدامات پر توجہ دینی چاہیے۔ اصولی طور پر کسی ادارہ کے عملے کو انتخابی ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار نہیں دینا چاہیے مگر عملے کے لانے، انھیں گھر تک پہنچانے، ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں عملے کے خوار ہونے کی صورتحال کے تدارک اور عملے کی سیکیورٹی کے لیے لازمی اقدامات کرنے چاہئیں۔ پھر انتخابی عملہ کو ادا کیا جانے والا معاوضہ اس حساس کام کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہ معاوضہ کم سے کم 50 ہزار روپے ہونا چاہیے۔

انتخابات کے طریقہ اور اس کے نتائج پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا قومی فریضہ انجام دینے سے انکار ان کے دہرے معیار کو عیاں کرتا ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ ہر وقت قومی خدمت کا دم بھرتے ہیں مگر پھر قومی خدمت انجام دینے کو تیار نہیں۔ جب سویلین یہ فرائض انجام نہیں دیں گے تو پھر کسی اور ادارے سے مدد لی جائے گی، جس سے یہ جمہوری عمل سبوتاژ ہوگا۔

دیگر ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو انتخابی عملہ علیحدہ سے بھرتی کرنا چاہیے، ان کی تربیت ہونی چاہیے۔ یہ عملہ عارضی طور پر فرائض انجام دے ۔ یوں تربیت یافتہ عملہ قانون کے مطابق فرائض انجام دے گا تو الیکشن کمیشن کو عملے کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اور شفاف انتخابات کا ہدف آسان ہوجائے گا۔
Load Next Story