مالک اور کرایہ دار
آپ سمیت انھوں نے اپنے آپ کو مالک کے بجائے کرایہ دار کیوں سمجھ لیا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی چیز کا قانونی، آئینی اور اخلاقی طور پر مالک ہو اور وہ پھر بھی اپنے آپ کو مالک نہ ماننے پر تیار ہو تو آپ کیا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ آپ اپنا سر پیٹیں گے، لیکن خدارا ایسا کرنے سے رک جائیے، کیونکہ وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ آپ خود ہیں۔ آپ فوراً پوچھیں گے کہ ''کیسے'' تو آئیے اس کیسے کا جواب سنتے ہیں۔
روسو کہتا ہے ''جب لوگ دور فطرت میں رہتے ہوئے کچھ مشکلات محسوس کرنے لگے تو ایک ذہین شخص نے آگے بڑھ کر معاشرے کے افراد کو یہ کہا کہ اگر تم معاشرے کو ایک سیاسی معاشرہ بناکر سیاسی اختیارات مجھے سونپ دو تو میں تمہارے سیاسی و سماجی مسائل حل کردوں گا۔ لوگو ں نے ایسا ہی کیا اور اس طرح سیاسی ریاست وجود میں آئی''۔ اس ضمن میں مشہور جمہوریت پسند سیاسی مفکر جان لاک کے نظریات کا حوالہ دینا ضروری ہے۔
جان لاک روسو کا پیش رو ہے، اس نے کہا کہ ریاست کے اقتدار اعلیٰ کے اصل مالک عوام ہیں اور یہ کہ حکومت عوام کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتی ہے، اگر حکومت کا کام عوام کو پسند ہے تو ریاست کی حکومت اپنے عہدے پر کام کرتی رہتی ہے، لیکن اگر حکومت کا کام عوام کو پسند نہیں ہے تو ریاست کے عوام کو آئینی اور قانونی اور اخلاقی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریاست کی حکومت کو تبدیل کردے اور پہلی حکومت کو برطرف کرکے نئی حکومت کو اپنے سیاسی ایجنٹ کے طور پر سیاسی اختیارات سونپ دے۔
یہاں ریاست اور ریاست کی حکومت میں فرق واضح ہوجاتا ہے، یعنی ریاست کے سیاسی کاروبار کو چلانے کا سیاسی اختیار۔ یہاں حکومت کی آئینی پوزیشن بھی واضح ہوجاتی ہے اور وہ واضح الفاظ میں یہ ہے کہ ریاست کے عوام ریاست کے اقتدار اعلیٰ کے آئینی اور قانونی مالک یا وارث ہیں، جب کہ ریاست کی حکومت عوام کی آئینی ایجنٹ ہے، جو عوام کی منظوری اور رضامندی سے ریاست کے اندر اپنے سماجی اور سیاسی فرائض سر انجام دیتی ہے، جب کہ افلاطون کہتا ہے کہ اصولی طور پر ریاست کے لوگوں کا کام ہے کہ وہ دیکھیں کہ کیا ان کی موجودہ حکومت درست کام کررہی ہے اور اگر وہ اپنی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو درست، ورنہ وہ خود کسی بہتر حکومت کی جستجو اور کھوج کریں، اگر وہ سماجی سکھ اور شانتی کے خواہش مند ہیں۔
جب یہ بات پوری دنیا میں طے ہوچکی ہے کہ ریاست کے اقتدار اعلیٰ کے اصل مالک عوام ہوتے ہیں اور یہ کہ حکومت عوام کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتی ہے اور عوام کو آئینی اورقانونی اور اخلاقی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ اگر حکومت درست کام نہیں کررہی ہے تو وہ ریاست کی حکومت کو تبدیل کردے۔ تو پھر آپ سمیت پاکستان کے بیس کروڑ عوام یہ ماننے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں کہ وہ ہی ملک کے اقتدار اعلیٰ کے اصل مالک ہیں۔ آپ سمیت انھوں نے اپنے آپ کو مالک کے بجائے کرایہ دار کیوں سمجھ لیا ہے، وہ کیوں ستر سال سے مارے مارے پھر رہے ہیں اور صرف چند سو، جی صرف چند سو افراد جو اقتدار اعلیٰ کے مالک ہی نہیں ہیں، کیوں ستر سال سے مالک بنے پھر رہے ہیں اور اصل مالک کیوں کرایہ دار بنے پھر رہے ہیں۔
جب کہ ساری دنیا کے لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اس بات پر یقین ہے کہ بلکہ ایمان بھی ہے کہ وہ ہی اپنے ملکوں کے اقتدار اعلیٰ کے مالک ہیں اور سکھ، چین، خوشحالی، ترقی، کامیابی، حقوق پر صرف ان کا ہی حق ہے اور وہ اپنے حق کی حفاظت کے لیے جان تک کی بازی لگا دیتے ہیں۔ جب وہ اپنی حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں تو وہ ان سے بہتر حکومت کو ریاست کے امور سونپ دیتے ہیں، کیونکہ انھیں اپنا ملک، اپنا سماجی سکھ اور شانتی دل و جان سے عزیز ہے۔ اسی لیے کامیابی، خوشحالی، ترقی، سکھ، شانتی ان کے دروازوں پر بیٹھی رہتی ہیں۔ ان کے روزگار، تعلیم، صحت، بجلی، گیس، پانی، صفائی سمیت روزمرہ کے تمام معاملات انتہائی خوش اسلوبی سے بغیر کسی رکاوٹ و پریشانی کے تاحیات جاری رہتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ مالک ہیں، کرایہ دار نہیں ہیں۔
دوسری طرف جب ہم اپنے ملک میں جھانکتے ہیں تو عقل کام کرنا بند کردیتی ہے، آنکھوںکے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے، آپ سمیت ہمارے لوگوں نے اپنے تمام حقوق، اپنی خوشحالی، ترقی، کامیابی، سماجی سکھ اور شانتی چند سو افراد کے ہاتھوں کیوں گروی رکھ چھوڑی ہیں۔ آپ کی بربادی، تباہی، ذلت، خواری ختم ہوکر نہیں دے رہی ہیں اور وہ چند سو افراد جو جعلی مالک بنے پھر رہے ہیں سارے کے سارے مزے کرتے پھر رہے ہیں، دنیا بھر کی تمام نعمتوں اور راحتوں کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، دنیا بھر کی لذتوں کو انجوائے کررہے ہیں، ان کے بینک بیلنس، گھروں، ملوں، زمینوں، جائیدادوں، ہیرے جواہرات، گاڑیوں میں دن رات اضافہ پہ اضافہ ہوتا جارہا ہے، انھوں نے کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ملک کے اثاثے بیچے جارہے ہیں، ملک کو کھوکھلا کیا جارہا ہے اور ملک کے اصل مالک خاموش تماشائی بنے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔
یہ بیس کروڑ عجیب و غریب لوگ ہیں، جنھیں نہ تو اپنا کوئی خیال ہے، اپنوں کی کوئی فکر ہے، ستر سال سے بے وقوف پہ بے وقوف بنے جارہے ہیں۔ وہ چند سو لٹیرے، غاصب، ہر پانچ سال بعد آتے ہیں، مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، نئے نئے خواب اور سپنے دکھاتے ہیں۔
زور زور سے چلاتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو، مجھے کیوں نکالا،۔لعنت ہے ہم پر کہ ہم ان کے جلسوں میں جاکر ان سے حساب لینے کے بجائے تالیاں بجانے بیٹھ جاتے ہیں، زور زور سے نعرے لگانے لگ جاتے ہیں، ان کو برطرف کرنے کے بجائے ایک بار پھر انھیں اپنا ووٹ دے کر حکومت بنانے کا موقع فراہم کردیتے ہیں کہ جاؤ پھر مزے کرو، پھر لوٹ مار اور کرپشن کرو، پھر ہمیں دوبارہ ذلیل و خوار کرو، اس لیے کہ اب ہمیں اسی ذلت اور خواری اور بربادی میں ہی سکون اور تسکین ملتی ہے، اسی تباہی میں خوشی ملتی ہے اور زور زور سے چلاکر کہتے ہیں کہ برا ہو روسو، جان لاک اور افلاطون کا، جنھوں نے ہمیں ورغلانے کی بہت کوشش کی۔ وہ تو ہم ہی ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں، ورنہ کبھی کے ان کے ورغلانے میں آجاتے، اور ملک کے مالک بن بیٹھتے۔ اور اگر خدانخواستہ ہم مالک بن جاتے تو پھر ان چند سو بیچاروں کا کیا ہوتا۔