میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے
فلم شکار تو فلاپ ہوگئی تھی لیکن مہدی حسن کی آواز کا سفر شہرت کی طرف گامزن ہوتا چلا گیا تھا۔
کہتے ہیں کہ قسمت کا تعلق انسان کی محنت سے نہیں بلکہ یہ آسمان والے کی دین سے ہوتا ہے اور شہرت بھی کسی کسی کو قسمت ہی سے ملتی ہے اور بڑی مشکل سے ملتی ہے اور جب قسمت کا ملاپ ہوتا ہے تو انسان کے قدموں میں دولت اور شہرت بچھی چلی جاتی ہے۔ آج میں گلوکار مہدی حسن جسے شہنشاہ غزل کا خطاب بھی حاصل ہوا، ان کے تین ایسے ابتدائی گیتوں کا تذکرہ کروںگا جو تین الگ الگ شاعروں نے لکھے، یہ تین فلموں کے لیے لکھے گئے، جن میں دو فلمیں اندھیرا اجالا، آجا کہیں دور چلیں، صرف گیتوں کی ریکارڈنگ تک محدود رہیں، اندھیرا اجالا کے شاعر عبیداﷲ علیم تھے اور ان کی غزل کا مطلع تھا:
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا
یہ غزل ہٹ ہوئی مگر اس غزل کے شاعر کو فلمی دنیا میں مزید رسائی حاصل نہ ہوسکی۔ فلم 'آجا کہیں دور چلیں' میں صہبا اختر نے ایک غزل لکھی تھی، جس کا مطلع تھا:
تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی
ہے زندگی کا نام مگر کیا ہے زندگی
صہبا اختر کی یہ غزل بھی ریڈیو کے ذریعے بڑی ہٹ ہوئی ۔ مہدی حسن کی گائیکی کا سفر تو آگے بڑھتا رہا مگر صہبا اختر نے کراچی کی چند فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ایک دو ہٹ ہوئیں اور ایک دو بری طرح فلاپ رہیں۔ لاہور کی فلم انڈسٹری نے ان کے لیے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور یہ لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ نہ ہوسکے۔ پھر کراچی ہی کی ایک فلم کے لیے لاہور کے ایک شاعر سید یزدانی جالندھری نے فلم 'شکار' کے لیے گیت لکھے اور ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ فلم شکار میں ان کا لکھا ہوا گیت گلوکار مہدی حسن کا سب سے پہلا فلمی گیت تھا، جسے موسیقار اصغر علی محمد حسین نے سروں سے سنوارا اور مہدی حسن نے اپنی جادو بھری آواز سے نکھارا تھا۔
اس گیت کا مکھڑا تھا:
میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے
فلم شکار تو فلاپ ہوگئی تھی لیکن مہدی حسن کی آواز کا سفر شہرت کی طرف گامزن ہوتا چلا گیا تھا۔ فیض احمد فیضؔ کی غزل 'گلوں میں رنگ بھرے' نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا تھا مگر مہدی حسن کے پہلے فلمی گیت کے شاعر کا اعزاز سید یزدانی جالندھری ہی کو حاصل ہوا تھا۔ اب میں آتا ہوں سید یزدانی کی ابتدائی زندگی، ان کی شاعری اور کراچی، لاہور اور ممبئی کی فلم انڈسٹری کے سفر کی طرف۔
سید یزدانی 16 جولائی 1915ء میں جالندھر کے ایک چھوٹے سے قصبے کھرلاکنگرا میں سید بہاول شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے، پھر ان کا خاندان جالندھر سے ساہیوال آگیا، دسویں جماعت تک ساہیوال میں تعلیم حاصل کی، پھر لاہور سے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا اور اسی دوران شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی، لاہور اور دہلی سے شایع ہونے والے ادبی پرچوں میں ان کی نگارشات شایع ہوتی رہیں۔ یہ 1938ء کی بات ہے، لاہور سے ایک فلمی اخبار فلمستان نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر (بعد کے مشہور فلمساز و ہدایت کار) سید عطا اﷲ شاہ ہاشمی تھے، یزدانی جالندھری نے باقاعدہ صحافت کا آغاز اسی رسالے سے کیا۔ عطا اﷲ شاہ ہاشمی جب لاہور سے ممبئی گئے تو یزدانی جالندھری بھی ان کے بعد ممبئی پہنچے اور پھر ممبئی میں بھی صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
ممبئی سے اس زمانے میں ''اداکار'' کے نام سے ایک رسالہ شایع ہوتا تھا جس کی فلمی دنیا میں بھی بڑی شہرت تھی، یزدانی جالندھری کو اس رسالے کی ایڈیٹر شپ مل گئی۔ یہی رسالہ پھر فلمی دنیا میں جانے کے لیے ایک سیڑھی بن گیا۔ ممبئی میں سید عطا اﷲ شاہ ہاشمی اب اپنا ذاتی فلم پروڈکشن ادارہ قائم کرچکے تھے، انھیں ایک باصلاحیت اور بااعتبار شخص کی بطور رائٹر اور معاون ضرورت تھی اور سید یزدانی اس معیار پر پورے اترتے تھے، وہ ان کی پروڈکشن میں شامل ہو گئے۔ جب عطا اﷲ ہاشمی نے اپنی فلم کنیز کا آغاز کیا تو پہلی بار یزدانی جالندھری نے فلم کنیز کے مکالمے اور دو تین گیت بھی لکھے، اسی دوران انھیں فلم ''یہ ہے دنیا'' اور آزادی کے نام سے بنائی گئی ایک اور فلم میں بھی گیت لکھنے کے مواقع ملے، وہ زمانہ ہندوستان میں انگریز سرکار سے آزادی حاصل کرنے کا زمانہ تھا اور تحریک آزادی کا ہندوستان میں بڑا شور تھا۔ فلم آزادی میں لکھے ہوئے ایک گیت کو کافی شہرت ملی تھی، جس کے بول تھے:
تم جاتے ہو پردیس
کہو میرا کون سہارا ہے
اس گیت کو اس دور کی گلوکارہ حمیدہ بانو نے گایا تھا۔ فلم یہ بھی زیادہ کامیاب نہ ہو سکی تھی، مگر یزدانی جالندھری کی گیت نگاری کا سفر آہستہ آہستہ آگے بڑھتا جا رہا تھا، اسی دوران بمبئی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار بھگوان نے ایک فلم شروع کی تھی جس کا نام تھا ''جگر''۔ ایک خاص بات میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ فلم جگر کے موسیقار پاکستان آنے کے بعد نامور موسیقار نثار بزمی تھے، اس وقت ان کا نام نثار جل گاؤں کر تھا اور وہ این جل گاؤں کر کے نام سے فلموں میں موسیقی دیتے تھے۔
یزدانی جالندھری نے انڈین فلم انڈسٹری میں جتنی فلموں میں گیت لکھے وہ چھوٹے بجٹ اور چھوٹی کاسٹ کی فلمیں تھیں جو نہ انھیں شہرت دے سکیں اور نہ ہی ان کی مالی حالت بہتر کر سکیں اور جتنے عرصے یہ ممبئی میں رہے ان کی زندگی میں خسارے ہی خسارے رہے، اپنی بد حالی کو یہ خوشحالی میں تبدیل نہ کر سکے۔ پھر ہندوستان کی تقسیم ہوگئی، مسلمانوں کی زندگی اور تنگ کر دی گئی تو یہ بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر لاہور آگئے۔ لاہور میں ایک فلم ''الزام'' کے لیے چند گیت لکھنے کا موقع ملا، مگر وہ فلم بھی بدقسمتی سے تکمیل کے مراحل ہی طے نہ کرسکے۔ یزدانی جالندھری اپنی قسمت آزمائی کی غرض سے ایک بار پھر کراچی آگئے۔
یہاں انھیں ان کے ممبئی کے زمانے کے دوست فدا یزدانی مل گئے۔ فدا یزدانی ان دنوں ایک فلم ''مسکہ پالش'' کے نام سے بنا رہے تھے، فدا یزدانی نے یزدانی جالندھری کو اپنے فلم یونٹ میں لے لیا اور اس دوران انھوں نے مسکہ پالش کے گیت لکھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی کی فلم انڈسٹری بہت ہی نوزائیدہ تھی اور کوئی بڑی فلم بنانے کے لیے نہ یہاں سرمایہ موجود تھا، نہ ہی اچھی سہولتیں موجود تھیں اور نہ ہی بہتر اسٹوڈیوز، اس لیے کراچی کی فلم انڈسٹری بھی زبوں حالی کا شکار تھی۔
فلم مسکہ پالش فلاپ ہو گئی، پھر فلم بارہ بجے، شکار، اور پیار نہ کرنا دان کے لیے گیت لکھے، مگر یہ تینوں فلمیں بھی ناکامی سے دوچار ہوگئی تھیں۔ وہ یزدانی جو کراچی کے ساحل پر اپنی امید کی کشتی کو بڑی تمناؤں کے ساتھ لے کر آئے تھے وہ ساری تمنائیں اور امیدیں اب دھواں دھواں ہو چکی تھیں، اب ان کے پاس دوبارہ واپس لاہور جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہو چکا تھا کہ فلمی دنیا اب ان پر کسی صورت میں مہربان نہیں ہو گی، تو یہ فلمی دنیا سے متعلق تلخ یادوں کے تمام جام توڑ کر لاہور آگئے اور پھر سے صحافت سے اپنا رشتہ استوار کر لیا تھا۔
میں جب لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا تو ان کے بیٹے ساجد یزدانی بھی لاہور میں صحافت کے میدان میں اتر چکے تھے، میری یزدانی جالندھری سے تو ملاقات نہ ہو سکی مگر ان کے صاحبزادے ساجد یزدانی سے اکثر و بیشتر مختلف تقریبات میں ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، ان کے والد نے فلمی دنیا سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور وہ مقبول ماہنامہ اردو ڈائجسٹ سے کلی طور پر وابستہ ہو چکے تھے، ان کی رباعیات پر مشتمل ایک شعری مجموعہ ساغر انقلاب کے نام سے اور دوسرا شعری مجموعہ تورات دل کے نام سے منظر عام پر آیا، جو ان کی شاعری کا شاہکار تھا۔ یزدانی جالندھری ایک قدآور شاعر تھے مگر فلمی دنیا والوں نے ان کی قدر نہیں کی، اسی لیے ان کو فلم انڈسٹری میں خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی، مگر ادب میں ان کا مقام بالا ہی رہے گا اور لیجنڈ گلوکار مہدی حسن کے فلمی گیتوں کا جب بھی تذکرہ ہوگا تو ان کے پہلے فلمی گیت کے شاعر یزدانی جالندھری کا نام فلمی تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا
یہ غزل ہٹ ہوئی مگر اس غزل کے شاعر کو فلمی دنیا میں مزید رسائی حاصل نہ ہوسکی۔ فلم 'آجا کہیں دور چلیں' میں صہبا اختر نے ایک غزل لکھی تھی، جس کا مطلع تھا:
تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی
ہے زندگی کا نام مگر کیا ہے زندگی
صہبا اختر کی یہ غزل بھی ریڈیو کے ذریعے بڑی ہٹ ہوئی ۔ مہدی حسن کی گائیکی کا سفر تو آگے بڑھتا رہا مگر صہبا اختر نے کراچی کی چند فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ایک دو ہٹ ہوئیں اور ایک دو بری طرح فلاپ رہیں۔ لاہور کی فلم انڈسٹری نے ان کے لیے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور یہ لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ نہ ہوسکے۔ پھر کراچی ہی کی ایک فلم کے لیے لاہور کے ایک شاعر سید یزدانی جالندھری نے فلم 'شکار' کے لیے گیت لکھے اور ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ فلم شکار میں ان کا لکھا ہوا گیت گلوکار مہدی حسن کا سب سے پہلا فلمی گیت تھا، جسے موسیقار اصغر علی محمد حسین نے سروں سے سنوارا اور مہدی حسن نے اپنی جادو بھری آواز سے نکھارا تھا۔
اس گیت کا مکھڑا تھا:
میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے
فلم شکار تو فلاپ ہوگئی تھی لیکن مہدی حسن کی آواز کا سفر شہرت کی طرف گامزن ہوتا چلا گیا تھا۔ فیض احمد فیضؔ کی غزل 'گلوں میں رنگ بھرے' نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا تھا مگر مہدی حسن کے پہلے فلمی گیت کے شاعر کا اعزاز سید یزدانی جالندھری ہی کو حاصل ہوا تھا۔ اب میں آتا ہوں سید یزدانی کی ابتدائی زندگی، ان کی شاعری اور کراچی، لاہور اور ممبئی کی فلم انڈسٹری کے سفر کی طرف۔
سید یزدانی 16 جولائی 1915ء میں جالندھر کے ایک چھوٹے سے قصبے کھرلاکنگرا میں سید بہاول شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے، پھر ان کا خاندان جالندھر سے ساہیوال آگیا، دسویں جماعت تک ساہیوال میں تعلیم حاصل کی، پھر لاہور سے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا اور اسی دوران شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی، لاہور اور دہلی سے شایع ہونے والے ادبی پرچوں میں ان کی نگارشات شایع ہوتی رہیں۔ یہ 1938ء کی بات ہے، لاہور سے ایک فلمی اخبار فلمستان نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر (بعد کے مشہور فلمساز و ہدایت کار) سید عطا اﷲ شاہ ہاشمی تھے، یزدانی جالندھری نے باقاعدہ صحافت کا آغاز اسی رسالے سے کیا۔ عطا اﷲ شاہ ہاشمی جب لاہور سے ممبئی گئے تو یزدانی جالندھری بھی ان کے بعد ممبئی پہنچے اور پھر ممبئی میں بھی صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
ممبئی سے اس زمانے میں ''اداکار'' کے نام سے ایک رسالہ شایع ہوتا تھا جس کی فلمی دنیا میں بھی بڑی شہرت تھی، یزدانی جالندھری کو اس رسالے کی ایڈیٹر شپ مل گئی۔ یہی رسالہ پھر فلمی دنیا میں جانے کے لیے ایک سیڑھی بن گیا۔ ممبئی میں سید عطا اﷲ شاہ ہاشمی اب اپنا ذاتی فلم پروڈکشن ادارہ قائم کرچکے تھے، انھیں ایک باصلاحیت اور بااعتبار شخص کی بطور رائٹر اور معاون ضرورت تھی اور سید یزدانی اس معیار پر پورے اترتے تھے، وہ ان کی پروڈکشن میں شامل ہو گئے۔ جب عطا اﷲ ہاشمی نے اپنی فلم کنیز کا آغاز کیا تو پہلی بار یزدانی جالندھری نے فلم کنیز کے مکالمے اور دو تین گیت بھی لکھے، اسی دوران انھیں فلم ''یہ ہے دنیا'' اور آزادی کے نام سے بنائی گئی ایک اور فلم میں بھی گیت لکھنے کے مواقع ملے، وہ زمانہ ہندوستان میں انگریز سرکار سے آزادی حاصل کرنے کا زمانہ تھا اور تحریک آزادی کا ہندوستان میں بڑا شور تھا۔ فلم آزادی میں لکھے ہوئے ایک گیت کو کافی شہرت ملی تھی، جس کے بول تھے:
تم جاتے ہو پردیس
کہو میرا کون سہارا ہے
اس گیت کو اس دور کی گلوکارہ حمیدہ بانو نے گایا تھا۔ فلم یہ بھی زیادہ کامیاب نہ ہو سکی تھی، مگر یزدانی جالندھری کی گیت نگاری کا سفر آہستہ آہستہ آگے بڑھتا جا رہا تھا، اسی دوران بمبئی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار بھگوان نے ایک فلم شروع کی تھی جس کا نام تھا ''جگر''۔ ایک خاص بات میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ فلم جگر کے موسیقار پاکستان آنے کے بعد نامور موسیقار نثار بزمی تھے، اس وقت ان کا نام نثار جل گاؤں کر تھا اور وہ این جل گاؤں کر کے نام سے فلموں میں موسیقی دیتے تھے۔
یزدانی جالندھری نے انڈین فلم انڈسٹری میں جتنی فلموں میں گیت لکھے وہ چھوٹے بجٹ اور چھوٹی کاسٹ کی فلمیں تھیں جو نہ انھیں شہرت دے سکیں اور نہ ہی ان کی مالی حالت بہتر کر سکیں اور جتنے عرصے یہ ممبئی میں رہے ان کی زندگی میں خسارے ہی خسارے رہے، اپنی بد حالی کو یہ خوشحالی میں تبدیل نہ کر سکے۔ پھر ہندوستان کی تقسیم ہوگئی، مسلمانوں کی زندگی اور تنگ کر دی گئی تو یہ بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر لاہور آگئے۔ لاہور میں ایک فلم ''الزام'' کے لیے چند گیت لکھنے کا موقع ملا، مگر وہ فلم بھی بدقسمتی سے تکمیل کے مراحل ہی طے نہ کرسکے۔ یزدانی جالندھری اپنی قسمت آزمائی کی غرض سے ایک بار پھر کراچی آگئے۔
یہاں انھیں ان کے ممبئی کے زمانے کے دوست فدا یزدانی مل گئے۔ فدا یزدانی ان دنوں ایک فلم ''مسکہ پالش'' کے نام سے بنا رہے تھے، فدا یزدانی نے یزدانی جالندھری کو اپنے فلم یونٹ میں لے لیا اور اس دوران انھوں نے مسکہ پالش کے گیت لکھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی کی فلم انڈسٹری بہت ہی نوزائیدہ تھی اور کوئی بڑی فلم بنانے کے لیے نہ یہاں سرمایہ موجود تھا، نہ ہی اچھی سہولتیں موجود تھیں اور نہ ہی بہتر اسٹوڈیوز، اس لیے کراچی کی فلم انڈسٹری بھی زبوں حالی کا شکار تھی۔
فلم مسکہ پالش فلاپ ہو گئی، پھر فلم بارہ بجے، شکار، اور پیار نہ کرنا دان کے لیے گیت لکھے، مگر یہ تینوں فلمیں بھی ناکامی سے دوچار ہوگئی تھیں۔ وہ یزدانی جو کراچی کے ساحل پر اپنی امید کی کشتی کو بڑی تمناؤں کے ساتھ لے کر آئے تھے وہ ساری تمنائیں اور امیدیں اب دھواں دھواں ہو چکی تھیں، اب ان کے پاس دوبارہ واپس لاہور جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہو چکا تھا کہ فلمی دنیا اب ان پر کسی صورت میں مہربان نہیں ہو گی، تو یہ فلمی دنیا سے متعلق تلخ یادوں کے تمام جام توڑ کر لاہور آگئے اور پھر سے صحافت سے اپنا رشتہ استوار کر لیا تھا۔
میں جب لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا تو ان کے بیٹے ساجد یزدانی بھی لاہور میں صحافت کے میدان میں اتر چکے تھے، میری یزدانی جالندھری سے تو ملاقات نہ ہو سکی مگر ان کے صاحبزادے ساجد یزدانی سے اکثر و بیشتر مختلف تقریبات میں ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، ان کے والد نے فلمی دنیا سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور وہ مقبول ماہنامہ اردو ڈائجسٹ سے کلی طور پر وابستہ ہو چکے تھے، ان کی رباعیات پر مشتمل ایک شعری مجموعہ ساغر انقلاب کے نام سے اور دوسرا شعری مجموعہ تورات دل کے نام سے منظر عام پر آیا، جو ان کی شاعری کا شاہکار تھا۔ یزدانی جالندھری ایک قدآور شاعر تھے مگر فلمی دنیا والوں نے ان کی قدر نہیں کی، اسی لیے ان کو فلم انڈسٹری میں خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی، مگر ادب میں ان کا مقام بالا ہی رہے گا اور لیجنڈ گلوکار مہدی حسن کے فلمی گیتوں کا جب بھی تذکرہ ہوگا تو ان کے پہلے فلمی گیت کے شاعر یزدانی جالندھری کا نام فلمی تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔