عیدالفطر۔۔۔ حبیب جالبؔ کا یوم پیدائش

حبیب جالبؔ کی شاعری میں سورج اور رات کا بہت ذکر ہے۔

عیدالفطرکے دن حبیب احمد نامی بچہ پیدا ہوا تھا ۔ یہ تاریخ تھی یکم شوال بہ مطابق 1346 ہجری بروز ہفتہ اور انگریزی تاریخ تھی 24 مارچ 1928ء، ہندوستان میں مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پورکی تحصیل دسوہہ کے گاؤں میانی افغاناں میں حبیب احمد صبح ساڑھے آٹھ بجے پیدا ہوا۔

چند سطریں والد صوفی عنایت اللہ کی، وہ اپنی کتاب ''ارمغان صوفی'' کے صفحہ 523 پر لکھتے ہیں ''ایسی ہی ایک سہانی صبح عید تھی کہ جب حبیب جالبؔ پیدا ہوا۔ یہ نوید صبح بن کر دنیا میں آنے والا، یہ روشنیوں کا دلدادہ، یہ اجالوں کا متوالا، یہ اندھیروں کا دشمن، تاریکیوں سے متنفر، اس کی پیدائش صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوئی کہ جب رات کی سیاہیوں کا سینہ چیرتے ہوئے انوار و تجلیات کا سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا۔''

حبیب جالبؔ کی شاعری میں سورج اور رات کا بہت ذکر ہے۔ ان کی پوری زندگی اندھیروں کے خلاف گزری، وہ قلم کے ساتھ ہی غازی بنے ۔ انھوں نے ہر آمر، ہر غاصب، ہر قابض کے خلاف میدان عمل کے ساتھ میدان میں آ کر جنگ لڑی اور ساتھ ایمان و یقین کے اپنی قبر میں اتر گئے۔ تین سال کی عمر میں حبیب احمد بیمار ہوئے، گاؤں دیہات کا ماحول اور غریب ماں باپ، بس گاؤں کے ایک درویش بابا رسیرے شاہ صاحب کے دم درود سے شفایاب ہو گئے۔

کپور تھلہ کی درگاہ سخی سرور سلطان پر والد نے حاضری دی اور مزار کے متولی سے بچے کے لیے دعا کی درخواست کی۔ بزرگ نے دعا کی اور کہا ''جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو کپور تھلہ بچے کو لے کر آنا۔ حسب استطاعت ایک نقارہ بچے کے گلے میں پہنانا جسے بچہ بجاتا ہوا سخی سرور سلطان کی درگاہ میں آئے۔ سات سالہ حبیب احمد نقارہ بجاتے ہوئے حاضر ہوا۔

یہ واقعہ 1935ء کا ہے اور 2005ء میں شایع ہونے والی کتاب ''میں طلوع ہو رہا ہوں'' میں مضمون لکھتے ہوئے ڈاکٹر حنیف فوقؔ نے کہا ''بچپن میں حبیب جالبؔ نے حضرت سخی سرور سلطان کی درگاہ واقع کپورتھلہ پر نقارہ بجاتے ہوئے حاضری دی اور پھر وہ ساری زندگی حق و صداقت کا نقارہ بجاتے رہے۔'' (صفحہ 192۔ میں طلوع ہو رہا ہوں)۔

بارہ سال کی عمر تھی حبیب احمد دلی کے علاقے نیمار پور میں والدین کے ساتھ رہتے تھے اور اکثر مغرب کے بعد گھر سے غائب ہو جاتے تھے۔ ابا جی اپنے بیٹے کی تلاش میں نکلتے تو حبیب احمد جلالی بزرگ حضرت باقی باللہ کے مزار پر بیٹھے ملتے۔ یہ مزار اتنا جاہ و جلال والا تھا کہ دن میں لوگ ادھر سے کم گزرتے تھے، مگر حبیب احمد رات سے نہیں ڈرا۔

حضرت باقی باللہؒ کا ایک قصہ سن لیجیے۔ آپ نے وصیت کی کہ ''میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے گا جس کی نماز عصر کی سنتیں نہ چھوٹی ہوں۔ انتقال کے بعد مریدین نے کفن پہنا کر جنازہ جنگل میں لے جاکر رکھ دیا اور اعلان کے مطابق ایسے شخص کا انتظار کرنے لگے جس کی نماز عصر کی سنتیں نہ چھوٹی ہوں۔

بہت دیر بعد ایک گھڑ سوار اپنا گھوڑا دوڑاتا ہوا نظر آیا۔ گھڑ سوار نے نقاب سے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا۔ سوار نے گھوڑے سے اتر کر موجود لوگوں سے پوچھا ''جنازہ تیار ہے؟'' لوگوں نے جواب دیا ''جی ہاں، بس حضرت کے کہنے کے مطابق اس شخص کا انتظار ہے۔'' آنے والے اجنبی نے کہا ''نماز جنازہ میں پڑھاؤں گا'' نماز جنازہ کے بعد لوگوں نے گھوڑے کی لگامیں پکڑ لیں اور کہا ''حضور آپ کون ہیں؟'' بڑے اصرار کے بعد حضرت نے چہرے سے نقاب ہٹایا اور بولے ''میں ہوں باقی باللہ باقی سب فنافی اللہ''' یہ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور واپس جنگل کی طرف چلے گئے۔

حبیب جالبؔ کو جلال باقی باللہؒ سے ملا اور جالبؔ نے شعر لکھا:

رات سے میں ڈرا نہیں جالبؔ

کیوں نہ سہمے مرے جلال پہ رات

اور جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور نے میری تحریر وترتیب کردہ 1200 صفحات کی کتاب ''میں طلوع ہو رہا ہوں'' کی تقریب رونمائی میں بطور مہمان خصوصی کہا ''لوگ آمروں سے ڈرتے ہیں اور آمر حبیب جالبؔ سے ڈرتے تھے'' (اور آج بھی ڈرتے ہیں) ۔ جالبؔ زندگی بھر یہی کہتا رہا:

کوئی پل کی بات ہے' یہ کوئی دم کی رات ہے یہ

نہ رہے گا کوئی قاتل' نہ رہیں گی قتل گاہیں


......

اٹھائیں دیواریں طلوعِ مہر تو ہو گا

یہ شب کے پاسباں کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے

......

قاتلِ مہر و ماہ کو جالبؔ

امن کی روشنی کہوں کیسے

......

ہوگا طلوع کوہ کے پیچھے سے آفتاب

شب مستقل رہے گی کبھی یہ نہ سوچئے

......

میں تو سورج ہوں' ستارے مرے آگے کیا ہیں

شب ہے کیا ' شب کے سہارے مرے آگے کیا ہیں

جو ہمیشہ رہے شاہوں کے ثنا خواں جالبؔ

وہ سخن ساز بے چارے' مرے آگے کیا ہیں

جالبؔ کا فقرہ اور اجازت: اتنا لوگوں نے ''حاصل'' نہیں کیا جتنا میں نے ''ٹھکرایا'' ہے۔
Load Next Story