بھارتی فوج کی اخلاقیات مقبوضہ کشمیر میں کچھ اور
بھارتی میجر کے اس نئے فسانے کو کسی بھی زاویے سے دیکھیں بات بھارتی افواج کے ضابطۂ اخلاق تک ہی جاتی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ کشمیر کا زخم کئی دہائیوں سے متواتر رِس رہا ہے۔ کشمیر کی تاریخ بھارتی افواج کے ظلم وستم سے رنگی ہوئی ہے۔ ابھی پچھلے سال کی ہی تو بات ہے کہ ایک بھارتی میجر لیتل گوگوئی اپنی درندہ صفتی کی وجہ سے خبروں کا محور تھا۔
بھارت میں اسے فلمی ہیرو کی طرح شہرت اور پذیرائی دی جا رہی تھی، کیونکہ اس کا ''کارنامہ'' بہت بڑا تھا۔ اس نے ایک کشمیری نوجوان کو رسیوں میں جکڑ کر فوجی جیپ کے آگے باندھا اور اس کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ یوں کشمیری مظاہرین کو سبق سکھاتے ہوئے ان کے درمیان سے بھارتی فوجی قافلہ خیریت کے ساتھ گزر گیا۔ کمال ہے جناب!! اس کا کارنامہ اتنا بڑا تھا کہ بھارت میں دھوم مچ گئی۔
''بہادر فوجیوں'' کی جان بچانے پر میجر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے۔ ''اگروادیوں کے خلاف'' اس جنگ میں بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف نے اس کی خصوصی تعریف کی۔ لیکن برا ہو انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہ وہ اچھل پڑیں۔ انھوں نے خوب واویلا کیا اور کشمیری نوجوان کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے میجر لیتل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔
لیکن شاید اس ستم پر احتجاج کرنے والے بھول گئے کہ یہ کشمیری نوجوان کا معاملہ ہے، بھارتی جنگل میں شکار ہونے والے کالے ہرن کا نہیں۔ پھر کیوں میجر کو سلمان خان کی طرح ملعون ٹھہرایا جائے۔ ملعون ٹھہرانا تو دور کی بات، بی جے پی جیسی انتہاپسند تنظیم، تمام انسانی اقدار کی دھجیاں بکھرتے ہوئے ایک ٹی شرٹ مارکیٹ میں لے آئی، جس پر فوجی جیپ پر بندھے ہوئے ایک کشمیری نوجوان کا خاکہ بنا ہوا ہے۔ اس شرٹ کی قیمت آٹھ ڈالر مقرر کی گئی ہے۔ حکومتی جماعت کی اتنی گری ہوئی حرکت کے بعد بھی اگر کشمیر بھارت کا ہی اٹوٹ انگ ہے تو پھر سوائے افسوس کے چارہ ہی کیا ہے؟
یہ تو خیر معاملہ ہی کشمیریوں کے حقوق کا ہے! وہ حقوق جو ان کو کبھی حاصل ہی نہ تھے، پھر اس پر دنیا متوجہ ہوکر وقت کیوں برباد کرے۔ لیکن حیرت توبھارتی فوجی افسران پر ہے، جو اپنے ہی بنائے ہوئے کوڈ آف کنڈکٹ کی بھی دھجیاں بکھیرنے سے گریز نہیں کرتے۔ خبر گرم ہے کہ اب کی بار تو میجر لیتل گوگوئی کے پرزے اڑ کر ہی رہیں گے۔ لیکن اب بھی میرا کہنا یہی ہے کہ معاملہ کیونکہ کشمیر کا ہے اس لیے بھارت سے انصاف کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔معاملہ کچھ یوں ہے کہ پچھلے سال ہیرو قرار دیے جانے میجر لیتل گوگوئی سری نگر کے ایک ہوٹل میں مقامی لڑکی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں اس معاملے پر گویا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن میجر صاحب نے اس کو چائے کی پیالی میں اٹھنے والا طوفان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لڑکی تو ان کی فیس بک فرینڈ تھی۔ اور لڑکی سے بھی یہ بیان دلوایا گیا کہ وہ برضا و رغبت میجر سے ملنے آئی تھی۔ مقامی لوگ بھارتی فوج کی سیاہ تاریخ دیکھتے ہوئے اسے کشمیری لڑکیوں کے ساتھ ہونے والا ایک اور ظلم قرار دے رہے ہیں۔
لیکن آئیے اس معاملے کو کشمیر کی نہیں بلکہ بھارتی فوج کے کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق ہی دیکھتے اور سر دھنتے ہیں۔ پاکستان میں اس معاملے پر لوگ کیا کہتے ہیں اس سے زیادہ دلچسپی مجھے یہ ہے کہ بھارتی صحافی اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
قومی اور بین الاقوامی امور پر دسترس رکھنے والے بھارت کے مایہ ناز صحافی منوج جوشی نے تو اس معاملے پر سب سے پہلا سوال ہی یہ اٹھایا کہ میجر موصوف سری نگر میں آخر کر کیا رہے تھے؟ جب کہ سری نگر میں ''دہشتگردوں'' کے خلاف ہونے والے بھارتی آپریشن کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسرا سوال انھوں نے میجر کی ازدواجی حیثیت کا اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس لڑکی سے میجر کے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اگر میجر کے کہنے کے مطابق یہ ایک خالص عاشقانہ معاملہ ہے تو بھی بھارتی فوجی اخلاقیات میجر کو اس کی اجازت نہیں دیتی۔
بھارتی میجر کے اس نئے فسانے کو کسی بھی زاویے سے دیکھیں بات بھارتی افواج کے ضابطۂ اخلاق تک ہی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں فوج ایک منظم تنظیم سے عبارت ہے۔ اس کا اپنا ایک مکمل نظام ہوتا ہے، آرمی قوانین ہوتے ہیں، جن کی خلاف ورزی پر سخت سے سخت سزائیں مقرر ہوتی ہیں۔ ان قوانین کی وجہ سے فوجی اداروں کا ڈسپلن مثالی بن جاتا ہے۔ دشمنوں کے ساتھ تعاون کرنے، ہتھیار ڈالنے، ڈیوٹی کے وقت نیند یا نشے میں ہونے اور ایسے ہی دیگر امور فوجی اداروں میں جرم سمجھے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی ایسے جرائم کی سزا چودہ سال قید ہے، ساتھ ہی بنا اجازت چھٹی کرنے یا مقررہ مدت سے زیادہ غیرحاضر رہنے پر بھارتی فوجیوں کے لیے تین سال قید کی سزا مقرر ہے۔ لیکن اس وقت بھارتی فوجی قوانین کی دفعہ پینتالیس ہمارا موضوع ہے، جس کا تعلق فوجیوں کے ذاتی کردار سے ہے۔
اس دفعہ کے تحت گزشتہ چند سال میں بھارتی فوج میں سخت اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ 2017ء میں جب ایک بریگیڈیر کسی کرنل کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلقات میں ملوث پایا گیا تو اس کو نہ صرف سروس سے معطل کردیا گیا بلکہ تین سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔ 2000ء میں ایک لیفٹیننٹ جنرل کو ماتحت افسر کی بیوی کے ساتھ ایسے ہی جرم کا ارتکاب کرنے پر سزا کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ اسی طرح 2009ء میں بھارتی میجر جنرل اے کے لعل کو ایک ساتھی خاتون افسر کو ہراساں کرنے کے جرم میں آرمی سے ہی نکال باہر پھینکا۔
ان واقعات کو دیکھ کر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی فوجی قوانین کے تحت ناجائز تعلقات ناقابلِ معافی جرم ہیں۔ یہ جرم امریکا، برطانیہ اور بہت سارے ممالک میں معافی کے لائق نہیں۔ گزشتہ سال ایک امریکی میجر وائن گریس سے اسی بنا پر استعفیٰ لیا گیا۔ اسی طرح امریکی ڈیفنس سیکریٹری کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل رون لیویز کے رتبے کو دو درجے تک اس لیے گھٹایا گیا کہ انھوں نے اپنے سرکاری کریڈٹ کارڈ کو ایک نیوڈ کلب میں استعمال کیا تھا۔
دنیا کی وہ تمام افواج جو کسی نہ کسی تنازعہ کا فریق ہیں، وہ عموماً جینیوا یا ہیگ کنونشن کی پیروی کرتی ہیں۔ بھارت نے بھی چار بنیادی کنونشنوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں اور ان سب کے بنیادی نکتے کے تحت متنازعہ علاقوں میں فوجیوں کی جانب سے ہر قسم کے غیرانسانی سلوک کی ممانعت کی گئی ہے۔ چاہے وہ کسی کو یرغمال بنانا ہو، تشدد کرنا یا کسی شہری کی عزت خراب کرنا۔ ان کنونشن کے آرٹیکلز کے تحت بھی فوجی کسی غیراخلاقی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوسکتے۔
اب بات کی جائے میجر لیتل گوگوئی کی تو موصوف نے پچھلے سال جب کشمیری نوجوان کو یرغمال بنا کر فوجی جیپ پر باندھا تو اس کو قوانین کے تحت سزا دینے کے بجائے بھارت میں ہر سطح پر خوب ہی سراہا گیا۔ اب پھر معاملہ اسی میجر اور ان ہی قوانین کا ہے، جن پر بھارتی حدود میں تو جم کر عمل کیا جاتا ہے لیکن جب معاملہ کشمیر کا آجائے تو آئیں بائیں شائیں شروع ہوجاتی ہے۔ ان قوانین کی رو سے افسران کا غیراخلاقی معاملات میں ملوث ہونا بڑا جرم ہے اور اس کو ماضی میں کبھی معاف بھی نہیں کیا گیا۔
لیکن کشمیریوں سے بھارتی سرکار اور افواج کے بندھے ہوئے بَیر کو دیکھ کر اس باربھی یہی لگ رہا ہے کہ میجر کو بڑے جرم کے بدلے معمولی سی سرزنش کرکے واپس ''اگروادیوں'' کے خلاف جنگ لڑنے کشمیر کے محاذ پر تعینات کردیا جائے گا۔ میجر کی اس گھٹیا حرکت پر اگرچہ بھارت میں انکوائری تو شروع ہوچکی ہے، لیکن ماضی کی زندہ مثالوں کو دیکھتے ہوئے اس انکوائری کمیشن کی قبل ازوقت موت کے امکانات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔
بھارت میں اسے فلمی ہیرو کی طرح شہرت اور پذیرائی دی جا رہی تھی، کیونکہ اس کا ''کارنامہ'' بہت بڑا تھا۔ اس نے ایک کشمیری نوجوان کو رسیوں میں جکڑ کر فوجی جیپ کے آگے باندھا اور اس کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ یوں کشمیری مظاہرین کو سبق سکھاتے ہوئے ان کے درمیان سے بھارتی فوجی قافلہ خیریت کے ساتھ گزر گیا۔ کمال ہے جناب!! اس کا کارنامہ اتنا بڑا تھا کہ بھارت میں دھوم مچ گئی۔
''بہادر فوجیوں'' کی جان بچانے پر میجر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے۔ ''اگروادیوں کے خلاف'' اس جنگ میں بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف نے اس کی خصوصی تعریف کی۔ لیکن برا ہو انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہ وہ اچھل پڑیں۔ انھوں نے خوب واویلا کیا اور کشمیری نوجوان کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے میجر لیتل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔
لیکن شاید اس ستم پر احتجاج کرنے والے بھول گئے کہ یہ کشمیری نوجوان کا معاملہ ہے، بھارتی جنگل میں شکار ہونے والے کالے ہرن کا نہیں۔ پھر کیوں میجر کو سلمان خان کی طرح ملعون ٹھہرایا جائے۔ ملعون ٹھہرانا تو دور کی بات، بی جے پی جیسی انتہاپسند تنظیم، تمام انسانی اقدار کی دھجیاں بکھرتے ہوئے ایک ٹی شرٹ مارکیٹ میں لے آئی، جس پر فوجی جیپ پر بندھے ہوئے ایک کشمیری نوجوان کا خاکہ بنا ہوا ہے۔ اس شرٹ کی قیمت آٹھ ڈالر مقرر کی گئی ہے۔ حکومتی جماعت کی اتنی گری ہوئی حرکت کے بعد بھی اگر کشمیر بھارت کا ہی اٹوٹ انگ ہے تو پھر سوائے افسوس کے چارہ ہی کیا ہے؟
یہ تو خیر معاملہ ہی کشمیریوں کے حقوق کا ہے! وہ حقوق جو ان کو کبھی حاصل ہی نہ تھے، پھر اس پر دنیا متوجہ ہوکر وقت کیوں برباد کرے۔ لیکن حیرت توبھارتی فوجی افسران پر ہے، جو اپنے ہی بنائے ہوئے کوڈ آف کنڈکٹ کی بھی دھجیاں بکھیرنے سے گریز نہیں کرتے۔ خبر گرم ہے کہ اب کی بار تو میجر لیتل گوگوئی کے پرزے اڑ کر ہی رہیں گے۔ لیکن اب بھی میرا کہنا یہی ہے کہ معاملہ کیونکہ کشمیر کا ہے اس لیے بھارت سے انصاف کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔معاملہ کچھ یوں ہے کہ پچھلے سال ہیرو قرار دیے جانے میجر لیتل گوگوئی سری نگر کے ایک ہوٹل میں مقامی لڑکی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں اس معاملے پر گویا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن میجر صاحب نے اس کو چائے کی پیالی میں اٹھنے والا طوفان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لڑکی تو ان کی فیس بک فرینڈ تھی۔ اور لڑکی سے بھی یہ بیان دلوایا گیا کہ وہ برضا و رغبت میجر سے ملنے آئی تھی۔ مقامی لوگ بھارتی فوج کی سیاہ تاریخ دیکھتے ہوئے اسے کشمیری لڑکیوں کے ساتھ ہونے والا ایک اور ظلم قرار دے رہے ہیں۔
لیکن آئیے اس معاملے کو کشمیر کی نہیں بلکہ بھارتی فوج کے کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق ہی دیکھتے اور سر دھنتے ہیں۔ پاکستان میں اس معاملے پر لوگ کیا کہتے ہیں اس سے زیادہ دلچسپی مجھے یہ ہے کہ بھارتی صحافی اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
قومی اور بین الاقوامی امور پر دسترس رکھنے والے بھارت کے مایہ ناز صحافی منوج جوشی نے تو اس معاملے پر سب سے پہلا سوال ہی یہ اٹھایا کہ میجر موصوف سری نگر میں آخر کر کیا رہے تھے؟ جب کہ سری نگر میں ''دہشتگردوں'' کے خلاف ہونے والے بھارتی آپریشن کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسرا سوال انھوں نے میجر کی ازدواجی حیثیت کا اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس لڑکی سے میجر کے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اگر میجر کے کہنے کے مطابق یہ ایک خالص عاشقانہ معاملہ ہے تو بھی بھارتی فوجی اخلاقیات میجر کو اس کی اجازت نہیں دیتی۔
بھارتی میجر کے اس نئے فسانے کو کسی بھی زاویے سے دیکھیں بات بھارتی افواج کے ضابطۂ اخلاق تک ہی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں فوج ایک منظم تنظیم سے عبارت ہے۔ اس کا اپنا ایک مکمل نظام ہوتا ہے، آرمی قوانین ہوتے ہیں، جن کی خلاف ورزی پر سخت سے سخت سزائیں مقرر ہوتی ہیں۔ ان قوانین کی وجہ سے فوجی اداروں کا ڈسپلن مثالی بن جاتا ہے۔ دشمنوں کے ساتھ تعاون کرنے، ہتھیار ڈالنے، ڈیوٹی کے وقت نیند یا نشے میں ہونے اور ایسے ہی دیگر امور فوجی اداروں میں جرم سمجھے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی ایسے جرائم کی سزا چودہ سال قید ہے، ساتھ ہی بنا اجازت چھٹی کرنے یا مقررہ مدت سے زیادہ غیرحاضر رہنے پر بھارتی فوجیوں کے لیے تین سال قید کی سزا مقرر ہے۔ لیکن اس وقت بھارتی فوجی قوانین کی دفعہ پینتالیس ہمارا موضوع ہے، جس کا تعلق فوجیوں کے ذاتی کردار سے ہے۔
اس دفعہ کے تحت گزشتہ چند سال میں بھارتی فوج میں سخت اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ 2017ء میں جب ایک بریگیڈیر کسی کرنل کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلقات میں ملوث پایا گیا تو اس کو نہ صرف سروس سے معطل کردیا گیا بلکہ تین سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔ 2000ء میں ایک لیفٹیننٹ جنرل کو ماتحت افسر کی بیوی کے ساتھ ایسے ہی جرم کا ارتکاب کرنے پر سزا کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ اسی طرح 2009ء میں بھارتی میجر جنرل اے کے لعل کو ایک ساتھی خاتون افسر کو ہراساں کرنے کے جرم میں آرمی سے ہی نکال باہر پھینکا۔
ان واقعات کو دیکھ کر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی فوجی قوانین کے تحت ناجائز تعلقات ناقابلِ معافی جرم ہیں۔ یہ جرم امریکا، برطانیہ اور بہت سارے ممالک میں معافی کے لائق نہیں۔ گزشتہ سال ایک امریکی میجر وائن گریس سے اسی بنا پر استعفیٰ لیا گیا۔ اسی طرح امریکی ڈیفنس سیکریٹری کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل رون لیویز کے رتبے کو دو درجے تک اس لیے گھٹایا گیا کہ انھوں نے اپنے سرکاری کریڈٹ کارڈ کو ایک نیوڈ کلب میں استعمال کیا تھا۔
دنیا کی وہ تمام افواج جو کسی نہ کسی تنازعہ کا فریق ہیں، وہ عموماً جینیوا یا ہیگ کنونشن کی پیروی کرتی ہیں۔ بھارت نے بھی چار بنیادی کنونشنوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں اور ان سب کے بنیادی نکتے کے تحت متنازعہ علاقوں میں فوجیوں کی جانب سے ہر قسم کے غیرانسانی سلوک کی ممانعت کی گئی ہے۔ چاہے وہ کسی کو یرغمال بنانا ہو، تشدد کرنا یا کسی شہری کی عزت خراب کرنا۔ ان کنونشن کے آرٹیکلز کے تحت بھی فوجی کسی غیراخلاقی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوسکتے۔
اب بات کی جائے میجر لیتل گوگوئی کی تو موصوف نے پچھلے سال جب کشمیری نوجوان کو یرغمال بنا کر فوجی جیپ پر باندھا تو اس کو قوانین کے تحت سزا دینے کے بجائے بھارت میں ہر سطح پر خوب ہی سراہا گیا۔ اب پھر معاملہ اسی میجر اور ان ہی قوانین کا ہے، جن پر بھارتی حدود میں تو جم کر عمل کیا جاتا ہے لیکن جب معاملہ کشمیر کا آجائے تو آئیں بائیں شائیں شروع ہوجاتی ہے۔ ان قوانین کی رو سے افسران کا غیراخلاقی معاملات میں ملوث ہونا بڑا جرم ہے اور اس کو ماضی میں کبھی معاف بھی نہیں کیا گیا۔
لیکن کشمیریوں سے بھارتی سرکار اور افواج کے بندھے ہوئے بَیر کو دیکھ کر اس باربھی یہی لگ رہا ہے کہ میجر کو بڑے جرم کے بدلے معمولی سی سرزنش کرکے واپس ''اگروادیوں'' کے خلاف جنگ لڑنے کشمیر کے محاذ پر تعینات کردیا جائے گا۔ میجر کی اس گھٹیا حرکت پر اگرچہ بھارت میں انکوائری تو شروع ہوچکی ہے، لیکن ماضی کی زندہ مثالوں کو دیکھتے ہوئے اس انکوائری کمیشن کی قبل ازوقت موت کے امکانات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔