امریکا و چین کی تجارتی محاذ آرائی پر آئی ایم ایف کی تشویش

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی متنازعہ پالیسیوں اور اقدامات کے باعث عالمی سطح پر تنقید کی سزاوار ٹھہرے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی متنازعہ پالیسیوں اور اقدامات کے باعث عالمی سطح پر تنقید کی سزاوار ٹھہرے ہیں۔ فوٹو: فائل

امریکا اور چین کے درمیان تجارتی مخاصمت سے کون واقف نہیں، امریکا جسے اپنے سپر پاور ہونے پر ناز ہے اور چین، جس کے بارے میں پیش گوئی کی جارہی ہے کہ وہ اپنی معتدل پالیسیوں اور معاشی سرگرمیوں کے باعث جلد ہی معیشت میں سپر پاور کا درج حاصل کرلے گا، اسی باعث امریکا اور چین کے درمیان چپقلش نے جنم لیا لیکن اب امریکا و چین کی تجارتی محاذ آرائی شدت اختیار کرگئی ہے جس پر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ تجارتی پالیسیاں اور محصولات سے متعلق اقدامات نہ صرف امریکی معیشت بلکہ عالمی اقتصادیات کے لیے بھی خطرہ ہیں۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لگارڈ نے کہا ہے کہ تجارت کے میدان میں جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ انھوں نے یہ بیان جمعرات کو ایک ایسے موقع پر دیا جب امریکا کی جانب سے لگ بھگ 50 ارب ڈالرز کی سالانہ تجارت کی حامل چینی اشیاء پر امریکا کی جانب سے 25 فیصد اضافی ٹیکس کا اعلان سامنے آیا۔


کرسٹین لگارڈ کا کہنا تھا کہ اگر امریکا اقدام کے ردعمل میں متاثرہ ممالک بھی اقدامات کرتے ہیں تو نتیجتاً نقصان تمام فریقین کا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ کی اس تنبیہہ کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس ممکنہ پیش رفت کے نتیجے میں امریکا کی معیشت تو متاثر ہوگی لیکن ساتھ ساتھ عالمی سطح پر دیگر کئی ملکوں کی اقتصادیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے اور افراط زر کی رفتار بڑھے گی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی متنازعہ پالیسیوں اور اقدامات کے باعث عالمی سطح پر تنقید کی سزاوار ٹھہرے ہیں،کچھ حلقے امریکی صدر کے اقدامات کو ان کے وطن کے لیے مناسب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ عالمی سطح پر ٹرمپ کے فیصلوں کے منفی اثرات سے کسی کو انکار نہیں۔

علاوہ ازیں امریکی معیشت پر جاری کردہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرنے کے امریکی فیصلے سے عالمی سطح پر اقتصادی ترقی کا عمل منفی انداز میں متاثر ہوگا، اس کے جوابی اقدامات کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا اور ترسیل بھی متاثر ہوگی۔ صائب ہوگا کہ ٹرمپ کی منفی پالیسیوں کا امریکی تھنک ٹینک جائزہ لے اور واشنگٹن انتظامیہ پر زور دیا جائے کہ وہ اپنے تجارتی پارٹنر ممالک کے ساتھ اختلافات دور کرنے کے لیے مکالمت کا سہارا لے اور محصولات میں اضافے سے گریز کرے۔
Load Next Story