ملا فضل اللہ کی ڈرون حملے میں ہلاکت

ملا فضل اللہ پہلے پاکستانی طالبان کمانڈر ہیں جو امریکی ڈرون حملہ میں افغان سرزمین پر مارے گئے۔


Editorial June 19, 2018
ملا فضل اللہ پہلے پاکستانی طالبان کمانڈر ہیں جو امریکی ڈرون حملہ میں افغان سرزمین پر مارے گئے۔ فوٹو:فائل

افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایک بڑی پیش رفت کی اطلاع ملی ہے ، افغان وزارتِ دفاع کے حکام نے صوبہ کنڑ میں امریکی فوج کی کارروائی میں پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے مارے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔

ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں کئی بار میڈیا میں آئیں جن کی تردید کی جاتی رہی مگر اس بار آئی ایس پی آر کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کرکے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بارے میں تفصیل بتائی ۔

جمعہ کو وزارتِ دفاع کے ترجمان محمد ردمنیش نے غیر ملکی میڈ یا کو بتایا ہے کہ ملا فضل اللہ 13جون کو کنڑ میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل مارٹن اوڈونل کی جانب سے جمعرات کی شب ایک بیان جاری گیا تھا کہ 13 اور 14 جون کی شب امریکی فوج نے پاک افغان سرحدی علاقے میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک کارروائی کی جس کا ہدف دہشت گرد قرار دی گئی ایک تنظیم کا سینئر رہنما تھا تاہم اس وقت کارروائی اور اس میں نشانہ بنائے جانے والے افراد کے بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔

اطلاعات کے مطابق رات دس بج کر 45 منٹ پر جب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے تو اس پر ڈرون حملہ ہوا ، افغان میڈیا کے مطابق امریکی ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ کے ساتھ ٹی ٹی پی کے دیگر چارکمانڈرز بھی مارے گئے ۔

یہ المیہ ہے کہ دہشت گردی میں ملوث پاکستانی طالبان کمانڈرز کو پاکستان کے حوالے کرنے کی کسی استدعا کو افغان حکام نے قبول نہیں کیا، خیال رہے یہ ڈرون حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب افغانستان میں حکومت نے عید کے موقع پر عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا ہوا ہے اور طالبان نے بھی اسے قبول کیا ہے۔

ادھر ترجمان امریکی فوج کا کہنا ہے کہ سیز فائر کا اطلاق داعش، القاعدہ اور بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں پر نہیں ہوگا جب کہ امریکی فوج کے ترجمان نے ایک بار پھر اپنا موقف دہرایا ہے کہ یہ جنگ بندی امریکی افواج کی انسداد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ پر لاگو نہیں ہو گی اور امریکی افواج القاعدہ اسلاملک اسٹیٹ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائیاں رکھے گی۔

دریں اثنا 16جون کی خبر کے مطابق پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں سرحد پار سے پاکستانی چیک پوسٹوں پر دہشت گرد حملے ناکام بناتے ہوئے 5دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کا رد عمل بھی ہوسکتا ہے، اس ضمن میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق دہشت گردوں کے حملے میں 3فوجی جوان شہید ہو گئے ہیں، شہید ہونے والے فوجی جوانوں میں سرگودھا سے تعلق رکھنے والے حوالدار افتخار، چترال سے تعلق رکھنے والے سپاہی آفتاب اور گجرات سے تعلق رکھنے والے سپاہی عثمان شامل ہیں۔

آئی ایس پی آر کا مزید کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے حملہ شمالی وزیرستان کے بارڈر شوال پر کیا جو ناکام بنا دیا گیا اور پانچ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ نگران وزیرِاعظم ناصر الملک نے فوجی جوانوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

انھوں نے ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجی جوانوں کی جرات اور بہادری کو سلام پیش کیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2007میں قائم کی جانے والی تنظیم کے بانی رہنما اور پہلے امیر بیت اللہ محسود اور ان کے جانشین حکیم اللہ محسود جیسے کئی اہم ترین رہنماؤں کی ہلاکت امریکی ڈرون حملوں میں ہی ہوئی ہے، ملا فضل اللہ پہلے پاکستانی طالبان کمانڈر ہیں جو امریکی ڈرون حملہ میں افغان سرزمین پر مارے گئے۔ فضل اللہ 1974 میں سوات میں پیدا ہوا اور وہ ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی تھا، اسے 2013میں حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ چنا گیا تھا۔

وہ سوات میں طالبان کے دور میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے بھی ذمے دار اور خوف و دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے ،اس نے امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر بھی قاتلانہ حملہ کروایا تھا۔پاکستانی حکام 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی ملا فضل اللہ کو ہی قرار دیتے ہیں۔

اس نے 2005 اور 2006 میں سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل شروع کیا جس کی وجہ سے اسے بہت کم عرصے میں لوگوں میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور اس نے بربریت اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے دہشت گردی کی بے شمار گھناؤنی وارداتیں کیں، پاکستان نے افغان حکام سے ملا فضل اللہ کی تحویل کے لیے کئی بارمطالبہ کیا جب کہ امریکی حکومت نے فضل اللہ کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل رکھا اور اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر 50لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان بھی تھا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان سے مزاکرات میں پاکستان سے مدد مانگنے کا امریکی رویہ اور افغان حکومت کی پاکستان کے آرمی چیف سے حالیہ ملاقات کے بعد کس قسم کی پیش رفت ممکن ہے، بہر حال ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد طالبان کمانڈروں کے لیے افغان حکومت اور امریکا سے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ کار نہیں، افغان عوام سمیت خطے کو امن و استحکام کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے امریکا ،افغانستان اور پاکستان کے درمیان دہشتگردی کے خاتمہ اور بات چیت سے افغان مسئلہ کا حل نکالنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دہشت گردی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں