ہر سو دولت کی دیوی جھوم رہی ہے
دنیا آج سرمایہ داری کے جن عذابوں کو برداشت کررہی ہے اسے بدلنے کے لیے محنت کشوں کا ایک ناگزیر انقلاب منتظر ہے۔
''یہ سنہری رو پیلی دو لت کی دیوی جب حکمرانوں کی محفل میں آ ئی تو صدیوں پرا نے صنم ڈہہ گئے پیرو زن سب رو بہ سجدہ ہو ئے ۔ یہ چو ہے کو شیر بناتی ہے ۔ نوابوں کو دو زانو بٹھواتی ہے ۔ یہ بیوہ کو پھر سے دلہنیا بنا دیتی ہے اور سا ٹھے کو پا ٹھا بنا دیتی ہے ۔
ہم نے بھی خوب ٹھان لی ہے کہ اس سکے کے دھات کو پگھلا نا ہے''۔شیکسپئیر کی اس نظم کا ترجمہ محمد میاں نے کیا ہے۔یاد رہے اس نظم کو سر ما یہ داری کے خلاف کارل مارکس اجتماعت میں سنا یا کر تے تھے۔ یہ بات ہمارے آج کے پا کستانی انتخابات کی گہما گہمی میں سو فیصد درست ثابت ہو تی ہے۔ لا کھوں کا خرچہ کر نے کا حلف نا مہ تو بھر لیا جا تا ہے مگر کروڑوں سے زیادہ لٹا یا جا رہا ہے اور کیوں نہ لٹایا جا ئے کہ اگر سینیٹ جیسے انتخا بات میں کروڑوں اربوں رو پے میں ووٹوں کی خریدو فروخت ہو تی ہے تو امید واروں کو جیتنے کے لیے دو چار کروڑ خرچ کر کے پانچ دس کروڑ کما نا کو ئی مہنگا سودا نہیں ۔یہی صورتحال حکمران طبقات کے ہر شعبے کی ہے۔
اسمبلی کے ممبران جو ایک جما عت سے دوسری جماعت میں شا مل ہو ئے ہیں ان میں سے بیشتر کو ٹکٹ ملے ہیں۔ اور کیوں نہ ملیں، وہ تو آئے ہی تھے ٹکٹ حاصل کر نے کے لیے۔ تقریبا تمام جما عتوں کے امید وار جا گیر دار اور سر ما یہ دار ہیں ۔ انھوں نے انتخا بی فا رم پر کر نے وقت اس میں اپنا پیشہ درج کر نے کے وقت لکھا ہے کہ' بزنس' اب بزنس ایک ایسا لفظ ہے جسکی تشریح کچھ بھی کر لیں ۔ پہلے تو اثاثوں کا لکھنا ضروری نہیں تھا اب اثاثوں کا لکھنا ضروری کر دیا گیا ہے لیکن اسے عوام کے لیے مشتہر نہیں کیا جا ئیگا۔ اگر عوام کے لیے اعلان نہ ہوا اور عوام کے علم میں نہ آ یاتو وہ کس بنیاد پر ووٹ دینگے۔
اگر کو ئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم سر ما یہ دار یا جا گیر دار کو ووٹ نہیں دینا چا ہتے تو اثاثوں اور پیشہ کا علم میں آ ئے بغیر کیونکر ووٹ دیگا۔وعدے در وعدے کیے جا رہے ہیں لیکن کو ئی یہ نہیں وعدہ کر رہا ہے کہ ہم جا گیر داروں کی زمین یا اپنی زمین بے زمین کسا نوں میں با نٹ دینگے۔ یا کو ئی یہ وعدہ نہیں کر رہا ہے کہ ہم مزدوروں کو حق یونین سازی اور حق ہڑ تال بحال کروا دیں گے۔ روز گار نہ ملنے تک سب کو بے روزگاری الاؤنس دینگے۔
دفاعی اخراجات کم کرینگے۔ آئی ایم ایف کا قرضہ نہیں لیں گے۔ ملک میں 80 فیصد جنگلات لگا ئینگے۔ سو فیصد لو گوں کو صاف پانی مہیا کرینگے یا 90 فیصد جب کہ عوام جن کو کم از کم 16 ہزار رو پے تنخواہ ادا نہیں کی جا رہی ہے اس بات کو یقینی بنا ئیں گے۔ یہ وعدے وہ کیوں کریں گے۔ وہ تو صرف مال بٹورنے کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔ اسی لیے ہمیشہ عوام کی اکثریت ووٹ ہی نہیں ڈالتی۔
ٹرن آؤٹ میں اس درجہ کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ووٹرز کو انتخابی عمل پر اعتبار نہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کے نمائندے جمہوری اسپرٹ اور عوام کی فلاح وبہبود اور ان کی زندگی کو استحصال ،لوٹ کھسوٹ اور ریاستی جبر سے پاک کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے ، ان کا مطمع نظر مال کمانا اور اپنی جیت کے لیے کی گئی سرمایہ کاری کو نتیجہ خیز بنانا ہے، یہ لوگ سرمایہ داری کے غلام ہیں اور ایک غیر طبقاتی سماجی کی تشکیل میں ان کا کردار کوئی معنی نہیں رکھتا۔
انھیں پتہ ہے کہ انھوں نے اقتدار میں آکر کبھی کچھ نہیں دیا اور نہ دینگے۔ کمیونزم اور مارکسزم میں پرولتاری طبقہ کی اساسی اہمیت ہوتی ہے، وہ اپنی پیداواری جدوجہد سے سماج کی حالت بدلنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ دنیا آج سرمایہ داری کے جن عذابوں کو برداشت کررہی ہے اسے بدلنے کے لیے محنت کشوں کا ایک ناگزیر انقلاب منتظر ہے اور سرمایہ داری کے جتنے لات و منات ہیں انہیں محنت کشوں کے انقلاب سے زمین بوس ہونا ہے،اور وہ وقت دور نہیں۔
ہمارے مقتدر اور ذمے دار ا علیٰ اداروں کے بارے میں سیاستدانوں کے رویے کا تو یہ حال ہے کہ زرداری کہتے ہیں کہ را ؤ انوار بہادر بچہ ہے ۔ مخالفین کو انارکسٹ کہا جاتا ہے۔ تو پھر کیا وہ انارکسٹ جو اٹھارہ سو چھیا سی میں شکا گو میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کر وا نے کے لیے پھانسی چڑھ گئے تھے ریاست مخالف تھے؟ جن کے بدولت ساری دنیا کے لوگ آج آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کر رہے ہیں ۔ انارکسٹ تو اسٹیٹ لیس سو سائٹی کی بات کر تے ہیں اور دنیا کو ایک کر نے کی بات کر تے ہیں ، وہ قو می ریاستوں کے خلاف ہیں ، جنھوں نے عظیم قر بانیاں دیکر انقلاب فرانس اور پیرس کمیون قا ئم کیا تھا۔ وہ مساوات کے علمبردار ہیں۔
پاکستان اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، محنت کش سسٹم کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں جہاں کوئی کسی پر اپنی دولت اور اشرفیائی طاقت کے بل بوتے پر بالادستی حاصل نہیں کرسکے گا، محنت اور باہمی یگانگت، اور ایک ایسی زندگی جو منافع خوری کے تاجرانہ رجحانات سے پاک ہو اور سب ایک چھت تلے رہیں گے، کوئی کسی کا حق نہیں مار سکے گا۔
امن ،خوشحالی، برابری نجی ملکیت اور زراندوزی کے بجائے عام آدمی کی فلاح وبہبود سب کا مشترکہ آدرش ہوگا۔ یہ حقیقی عوامی منزل ہوگی اور سلطانی جمہور کا غیر سرمایہ دارانہ زمانہ اسی کو لوگ کہیں گے۔