جدہ اور مکہ آخری حصہ

مکہ میں بے شمار مقامات ہیں جو تاریخی حیثیت کے حامل ہیں یہاں جو ایسی جگہیں تھیں بہت سی منہدم کردی گئیں۔

کعبہ زمین پر بنائے جانے والا پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیرکیا گیا۔ اس کی تعمیر عظیم پیغمبر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر کی۔ خانہ کعبہ پر حضرت اسماعیلؑ نے پہلی بار غلاف چڑھایا عمارت کی دیواریں نیچی تھیں اور اس پر چھت بھی نہ ڈالی گئی تھی۔ یہ قریش تھے جنھوں نے اس گھر کی تعمیر صدیوں بعد اس کی دیواریں بلند کیں اور اس پر چھت ڈالی کعبہ مستطیل دیواروں کی حامل عمارت ہے جو گرے نائیٹ پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔

اس کی لمبائی 42فٹ اور چوڑائی 36 فٹ ہے اندرونی حصے کا فرش زمین سے 7 فٹ بلند ہے۔ کعبہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا قبلہ ہے تمام مسلمان قبلہ رخ نماز ادا کرتے ہیں۔ یاد رہے مسلمان کعبہ کی عبادت نہیں کرتے بلکہ اسے ایک علامت سمجھتے ہیں۔ ''حجر اسود'' خانہ کعبہ کے مشرقی کونے میں نصب ہے۔ روایات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت سے یہ پتھر حضرت ابراہیمؑ کے پاس بھیجا تھا تاکہ اسے خانہ کعبہ میں نصب کیا جاسکے ۔ کعبے کا داخلی دروازہ مشرق کی جانب ہے، تعمیرکے وقت اس کی اونچائی زمین کے برابر تھی جب قریش نے کعبہ کی تعمیر نئے سرے سے کی تو اسے بلندی پر نصب کیا۔خالص سونے کا بنا ہوا میزاب پرنالہ جس سے خانہ کعبہ کی چھت پر گرنے والے پانی کا نکاس ہوتا ہے۔

کعبہ سے منسلک ہلال نما قطعہ زمین ہے جو حجرہ اسماعیلؑ بھی کہلاتا ہے اس جگہ پر حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ بی بی حاجرہؓ کی رہائش گاہ تعمیر کی تھی۔ ایک مستحکم روایت ہے کہ اس پتھر پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیمؑ نے کھڑے ہوکر کعبہ کی دیوار کی چنائی کی تھی جب کہ حضرت اسماعیل ؑ نیچے کھڑے ہوکر پتھر پکڑاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقعے کی یادگار کے طور پر پیغمبر کے قدموں کے نشان اس چٹان پر ثبت کردیے تاکہ آنے والی نسلیں اس تعمیر کی حقیقت کو یاد رکھیں۔ خانہ کعبہ کا یہ کونہ رکن یمانی کہلاتا ہے کیونکہ یہ یمن کے رخ واقع ہے خانہ کعبہ کو بیت اللہ بھی کہا جاتا ہے یعنی اللہ کا گھر۔ میں طواف مکمل کرچکا تھا مقام ابراہیم پر دو رکعت نفل نماز ادا کی اور حجر اسود کی جانب بڑھا تاکہ اس کو چھونے کی سعادت حاصل کرسکوں۔ میں نے آب زم زم پیا تاکہ تازہ دم ہوکر سعی کرسکوں۔

میں ''کوہ صفا'' کی جانب بڑھا جو خانہ کعبہ کے نہایت قریب واقع ہے۔مجھے ''صفا و مروہ''کے درمیان سات چکر لگانے تھے اس درمیان میں کلمہ طیبہ، اللہ اکبر دیگر آیات دہراتا رہا۔ میں سبز روشنیوں کے درمیان بھاگ رہا تھا، یہ عمل حضرت حاجرہؓ کی یاد میں پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ میں کیا جاتا ہے۔ وہ راستہ جس پر حضرت حاجرہؓ نے سات چکر لگائے جو ان سبز روشنیوں میں نمایاں کیا گیا ہے یہ رکن سعی کہلاتا ہے جہاں اسماعیلؑ نے ایڑیاں رگڑیں اچانک ایک معجزہ ہوا، پانی نکلنا شروع ہوا چونکہ تیزی سے پانی رواں تھا اس لیے اس کو رک کہا گیا زم زم پانی کی تیزی رک گئی ،حضرت حاجرہؑ نے زم زم کہا یعنی رک رک لہٰذا جب سے اس کا نام زم زم پڑ گیا۔

یہ چشمہ کم و بیش چار ہزار سال سے اس علاقے کو پانی فراہم کر رہا ہے جو ایک معجزہ ہے اس کی گہرائی 23 میٹر ہے، 1153 تک بھی کنوئیں سے پانی نکالنے کے لیے بالٹی استعمال کی جاتی تھی بعد میں یہاں الیکٹرک پمپ نصب کردیے گئے ان پمپوں کی مدد سے پانی ٹینکوں میں بھرا جاتا ہے ۔ایک اندازہ ہے کہ زم زم کنوئیں سے روزانہ تقریباً 13 لاکھ گیلن پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ میں سعی مکمل کرچکا تھا ساتواں چکر مکمل ہونے پر میں نے اپنے سر کے بال تھوڑے کاٹ ڈالے بال کاٹنا صرف مردوں پر لازم ہے۔

میں نے ٹیکسی لی جو زیادہ مہنگی نہ تھی ''مزدلفہ'' یہاں حجاج رات کھلے آسمان تلے خیموں میں گزارتے ہیں، پتھریلا صحرا اس کی لمبائی 4 کلومیٹر اس کا کل رقبہ 12.25 کلومیٹر، منیٰ میں حاجی آٹھویں، گیارہویں، اور بارہویں ذی الحجہ کی راتیں گزارتے ہیں یہاں آگ سے محفوظ رہنے سے بنے ہوئے خیمے استعمال ہوتے ہیں۔


اس سے پہلے سن 1997 تک حاجی سوتی خیمے استعمال کرتے تھے، 1997 میں آتش زدگی پر کئی خیمے خاکستر ہوئے اور زیادہ حاجی آتش زدگی کی لپیٹ میں آئے لہٰذا 1997 کے بعد آگ سے محفوظ رہنے سے بنے ہوئے خیمے نصب ہونے لگے چونکہ پہلے کافی حاجی شہید ہوچکے۔ ''جمرات'' بھی یہیں واقع ہے اس مقام پر حاجی تین شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہیں، اس عمل کے ساتھ بھی حضرت ابراہیمؑ کے حوالے سے ایک روایت منسوب ہے کہتے ہیں جب ابراہیمؑ اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کی غرض سے ''منیٰ'' کو روانہ ہوئے تو شیطان نے تین مقام پر حضرت ابراہیمؑ کو ورغلانے کی کوشش کی آج ان تینوں مقام پر تین ستون ایستادہ ہیں۔

اس مقام پر تین شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہیں۔ اسی جگہ حاجی دس، گیارہ اور بارہ ذی الحجہ تک سورج غروب ہونے سے پہلے تک کوئی نہ کوئی جانور قربان کرتے ہیں جو حج کے لازمی مناسک میں سے ایک ہے۔ ''منیٰ'' کے جنوب میں ایک تاریخی مسجد ہے اس کے قریب ہی سب سے چھوٹے شیطان کا ستون ہے کہتے ہیں اس مسجد میں حضرت محمدؐ کے علاوہ بے شمار انبیاؑ نے بھی نماز ادا کی ہے۔ ''وادی مہارت'' جو ''منیٰ'' اور ''مزدلفہ'' کے درمیان واقع ہے اس مقام پر اللہ پاک نے یمن کے بادشاہ ابراہا کے ہاتھیوں کے لشکر کو تباہ کیا۔ حاجی اس مقام سے تیزی سے گزر جاتے ہیں کیونکہ اس جگہ پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا اور نبیؐ کی سنت بھی یہی ہے۔

وادی ''ارانا'' میں واقع ''مسجد نمرہ'' یہ جگہ عرفات کے میدان میں ہے ''حجۃ الوداع'' کے موقعے پر حضرت محمدؐ نے اپنا خیمہ اسی مقام پر نصب کیا تھا۔ آپؐ نے اپنا آخری مشہور خطبہ وادیؐ ''ارانا'' میں دیا، یہ بعداز دوپہرکا وقت تھا آپؐ نے یہاں امامت بھی کی۔ منیٰ کے مقام پر مکہ کے قریب اسی حالت میں جیسی حضورؐ کے زمانے میں تھی۔ مسجد ''جغرانہ'' ہے اس میں عمرہ کے زائرین یہاں احرام باندھتے ہیں سن آٹھ ہجری میں ''غزوہ حنین'' سے واپسی پر نبیؐ نے یہاں کچھ دن پڑاؤ کیا تھا اور اسی مسجد میں احرام باندھ کر بیت اللہ کو روانہ ہوئے تھے۔

''جبل رحمت'' حضورؐ نے اپنا مشہور خطبہ اس پہاڑی پر دیا تھا اس کو جبل رحمت یعنی ''رحمت کی پہاڑی''۔ ''کوہ سور'' اسی پہاڑ میں جو غار ہے وہی تاریخی غار جس میں حضرت محمدؐ نے تین راتیں پناہ لی تھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ یہاں قیام فرمایا تھا۔ ''کوہ حرا'' جس میں پہلی بار ''وحی'' حضورؐ پر نازل ہوئی ''غار حرا'' پہاڑ کی چوٹی کے قریب واقع ہے جس کی لمبائی چار میٹر سے کچھ کم ہے چوڑائی ڈیڑھ میٹر کے قریب ہے حضورؐ اکثر عبادت کے لیے یہاں تشریف لاتے تھے۔ ام المومنین حضرت میمونہؓ کی قبر ہے یہ حضورؐ کی آخری اہلیہ تھیں یہ جگہ مکہ سے 21 کلو میٹر دور ''حجر ہ روڈ'' پر واقع ہے۔

حلیمہ سعدیہ کے کھنڈر اس گھر میں نبی پاکؐ نے اپنا ابتدائی بچپن گزارا تھا۔ حضرت آمنہ کا گھر یعنی حضورؐ کی والدہ کا گھر تھا اسی مقام پر تلاوت فرمائی تھی۔ مسجد شمیرہ جو مسجد الجن کے سامنے واقع ہے یہاں ایک بار ایک درخت کو حضورؐ نے اپنے پاس آنے کو کہا وہ چل کر یہاں آگیا۔ جنت البقیع مکہ کا تاریخی قبرستان جس میں یہاں حضورؐ کے خاندان کے کئی افراد اور قریبی ساتھی دفن ہیں۔

یہاں مکہ میں بے شمار مقامات ہیں جو تاریخی حیثیت کے حامل ہیں یہاں جو ایسی جگہیں تھیں بہت سی منہدم کردی گئیں چند نشانیاں ہیں جو وہاں مساجد بنا دیں۔ یہ تمام ایک مضمون میں نہیں آسکتیں بے شمار مضامین حتیٰ کہ کتب بھی تحریر کی گئی ہیں وہ بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہیں اور میری اس تحریر میں کوئی گستاخی یا غلطی ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
Load Next Story