سیاست ِ دوراں

شخصیت پرستی نے سندھ کی دونوں جماعتوں کو وہ مقام حاصل نہیں کرنے دیا جو ہوسکتا تھا۔

پاکستان کے صوبوں کے حالات عجیب و غریب ہیں پنجاب اپنے علاوہ سندھ سے ایم کیو ایم، سرحد سے پگڑی، عمامہ، بلوچستان سے پر والی ٹوپی کی مدد سے راج کرنے کا مسلسل ریکارڈ رکھتا ہے سندھ پنجاب سے توڑ جوڑ اور سرحد بلوچستان سے مل ملاکر اپنی باری پر ٹائم پورا کرتا ہے ۔ بلوچستان کو براہ راست مرکزی حکومت نہیں ملتی جماعتی طور پر کبھی کبھار مرکز میں داخلہ مل جاتا ہے۔

یہ ساری الحاقی پارٹیاں سوائے ایم کیو ایم کے وزارتیں حاصل کرتی ہیں، مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو بھی اور دوسروں کو بھی وزارتوں کے لالی پاپ مل جاتے ہیں، اختیار پنجاب یا سندھ کی پارٹی کے پاس رہتا ہے اور بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے عوام کو کچھ نصیب نہیں ہوتا مفلوک بد حال ہی رہتے ہیں ان کے ووٹ اور ٹیکس کے نوٹ سے لٹیرے عیش کرتے ہیں ۔ بھٹو کی سب سے بڑی غلطی کوٹا سسٹم تھا یعنی اہل کو پیچھے کرکے نا اہل کو موقع دینا اس سے اردو بولنے والوں کے ساتھ ساتھ شہروں کے سندھی بولنے والوں کا بھی نقصان ہوا اور ہورہا ہے۔ ایم کیو ایم نے کبھی باقاعدہ کوٹا سسٹم کے خلاف مہم نہیں چلائی اور نہ ہی دیکھا کہ نشریاتی اداروں میں سندھ میں اردو کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اردو بولنے والے ملازم، صداکار اور دیگر لوگ کس حال میں ہیں۔ پیپلزپارٹی کے لوگوں نے اس سے شہ پاکر وفاقی نشریاتی اداروں کو صوبائی بنا دیا۔

یہ تو ایک بات ہوئی بے شمار جگہوں پر ناانصافی ہوئی اور ہو رہی ہے مگر ایم کیو ایم پنجاب کی طفیلی بنی رہی اور ہمیشہ دھوکا کھایا۔ شخصیت پرستی نے سندھ کی دونوں جماعتوں کو وہ مقام حاصل نہیں کرنے دیا جو ہوسکتا تھا، اندرون خانہ پی پی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے کے خلاف ہمیشہ پنجاب سے ہاتھ ملاتی رہی ہیں۔ بے نظیرکے بعد زرداری نے اس Trade کو فروغ دیا کیونکہ وہ صدرکی کرسی پر عیش کرنا چاہتے تھے اور اب پھر پرتول رہے ہیں، ڈرائیونگ سیٹ کے لیے۔

زرداری گھوڑوں کے شوقین کہے جاتے ہیں مگر وہ اس کے پیر پگارا نہیں ہیں وہ ریکارڈ اس خاندان کے پاس ہے اور وہیں رہے گا مگر شاید ہارس ٹریڈنگ میں انھوں نے چھانگا مانگا کو چت کر دیا ہے لہٰذا وہ ان کا غصہ عمران پر نکال رہے ہیں حالانکہ عمران نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو کھلم کھلا اپنے ممبران دے دیے تھے کہ سینیٹ کا چیئرمین بلوچستان سے آجائے جو ایک اچھی بات تھی، باقی جو کچھ ہوا وہ زرداری کی ماسٹر پیس سیاست ہے جہاں ن لیگ چاروں شانے چت ہوگئی۔ پی ٹی آئی کے کچھ ممبران نے ڈپٹی کے معاملے پر بد دیانتی کی جن کو عمران نے ایکسپوز کرکے اچھی مثال قائم کی یہ کام پاکستان کی کسی پارٹی نے کیا ہے نہ کرے گی۔

سینیٹ کے سابق چیئرمین جو کسی بل پر دستخط کرتے ہوئے بہت روئے تھے۔ نا اہل کو سینیٹ سے اہل ہوتے ہوئے دیکھتے رہے اور ایک آنسو نہ لاحاصل تو خیر اپنی وزارت اور مفادات کے حاصل ہیں یعنی رہے ہیں لہٰذا نا اہل کے ساتھ کھڑا ہونا تھا۔ اچکزئی جو بلوچستان میں چاہتے تھے وہ مل گیا اور جو نہیں چاہتے تھے وہ ہوگیا لہٰذا وہ نا اہل پاکستان میں جمہوریت اور کتنی چاہیے ایک نا اہل کردہ دن رات عدالت کی توہین کرتا رہا اندرون خانہ پارٹی کا صدر رہے سارے سرکاری وسائل استعمال کر رہا ہے۔ الیکشن میں بالواسطہ حصہ لے رہا ہے اور نا اہل ہونے کے باوجود سابق وزیراعظم کی سیکیورٹی انجوائے کر رہا ہے۔


اگر پیپلزپارٹی نے زبان سے نفرت کی سیاست نہ کی ہوتی اور اردو بولنے والوں کا ساتھ نہ چھوڑا ہوتا تو صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ کچھ سیاسی قوتیں سندھ میں سیاسی امن نہیں چاہتی اور وہ ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ رکھ کر اپنے سیاسی پلڑے میں وزن بڑھائے رکھنا چاہتی ہیں۔ پیپلزپارٹی یہی کام تین صوبوں میں کرنا چاہتی ہے لیکن یہ کبھی دیر پا نہیں ہوتا یہ اس کا ریکارڈ ہے۔

سرحد میں عمران کے آجانے سے ن لیگ کو پریشانی ہے ان کی سیاسی نرسری ڈسٹرب ہوگئی ہے ،مولانا نے الگ دکان کرلی ہے مشترکہ کاروبار ختم ہوگیا مولانا کو عمران کے مقابلے میں ن لیگ ریلیف نہ دلواسکی لہٰذا مولانا نے روایتی ''ٹرمپ کارڈ'' استعمال کرلیا ہے مگر اس بار صورتحال مختلف ہے لوگ اسلام اور اسلام آباد کا فرق سمجھ گئے ہیں اس کے علاوہ ایک اور ٹرمپ کارڈ کے وجود میں آجانے سے تعویذ کا وہ اثر نہیں ہوگا، سرحد کے باقی سیاست دانوں کی سیاست بھی کاروباری ہے ملک کی بد قسمتی ہے شاید کوئی سیاست دان ملک سے سچا ہو سب کا مطمح نظر ''کرسی'' ہے۔

عوام غریب، فاقہ زدہ، ٹیکس زدہ،نہ روٹی نہ کپڑا نہ مکان ہر طرف جھوٹے وعدوں کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں، صرف لاہور نے ترقی کی پانچ سال میں بجٹ کا بڑا حصہ ہضم کرکے اور اسے پاکستان کی ترقی کہاجا رہاہے عوام کے ٹیکس پر سب پل رہے ہیں سابق حکمرانوں نے خوب عوام کے ٹیکس کو اڑایا ہے، الیکشن سے پہلے بجٹ دے کر جو ان کا حق نہیں تھا عوام کو بے وقوف بناکر ووٹ لینے کی کوشش کی ہے۔

سندھ میں وڈیرہ راج ہے اور وڈیرے کا بچہ راج کرشنا کماری کو سینیٹر بنادیا بچے بھوک پیاس سے تھر میں مررہے ہیں، مور اور مور جیسے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، محکموں کے بجٹ غبن ہوگئے کوئی کام نہیں ہوا، بڑے شہر گندگی کا شاہکار ہیں مگر جتنے بھی ہاؤس ہیں وہ ٹھنڈے کمروں اور ٹھنڈے بے رحم دلوں سے بھرے پڑے ہیں، کوئی نواسا رگ الاپ رہا ہے کوئی بے نظیر کا شاگرد ہونے کا دعویدار ہے۔

زرداری لیگ اور ن لیگ مفادات کے لیے اکٹھا رہے ہیں، حزب اختلاف نے وہ کردار انجام نہیں دیا جو دینا تھا ایک دوسرے کے رازدار اور سہولت کار رہے ہیں اور مستقبل میں بھی یہ ناممکن نہیں ہے۔ قائد اعظم کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوسکتی ہے کہ چھوٹے اداکار نے بڑے اداکار کو قائد اعظم ثانی تک کہہ دیا اور حزب اختلاف خاموش رہی، آج تک اس پر معافی نہیں مانگی گئی ۔

اور اگر یہ جیت گئے تو اس کام میں پی پی ان کا ساتھ دے گی کیونکہ اس پارٹی سے بھٹو جا چکا اب زرداری اور ابن زرداری ہیں اور وہ سہولتوں اور آرام کے بغیر نہیں رہ سکتے اور وہ بھی عوام کے خرچے پر ! کیا کہیں کون ان کو سمجھائے کفن میں جیب نہیں ہوتی قبر میں ہاتھ خالی ہوتے ہیں اور منکر نکیرکے سوالات جن کا جواب ان سیاست دانوں کے پاس تو ہرگز نہیں ہوں گے مگر نہ نمرود مانا نہ فرعون یہ بھی نہیں مانیں گے۔
Load Next Story