انسان دوست سکھ پولیس افسر

اس نے جنونی ہندوؤں کے سامنے ڈھال بن کر مسلم نوجوان کو بچا لیا۔


بھارتی فلمی ستاروں نے بھی بہادری کا بہترین مظاہرہ دکھانے پر گگن دیپ کو خراج تحسین پیش کیا۔ فوٹو: فائل

یہ پچھلے ماہ 22 مئی کی بات ہے، بھارتی ریاست اتر کھنڈ کے ایک مندر میں مقامی مذہبی میلا منایا جارہا تھا۔

یہ بھارتی ریاست مملکت نیپال سے متصل ہے۔ اس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ ماضی میں یہاں کے جنگلوں میں شیر چیتے بکثرت پائے جاتے تھے۔ چناں چہ مشہور انگریز شکاریوں جم کاربٹ اور کنیتھ اینڈرسن نے وہاں شیر وغیرہ مار کر عالمی شہرت پائی۔

ریاست کی موجودہ آبادی ایک کروڑ ہے۔ آبادی میں تراسی لاکھ ہندو جبکہ چودہ لاکھ مسلمان ہیں جس مندر میں مقامی میلا منایا جارہا تھا وہ ریاستی شہر، رام نگر سے تیرہ میل دور ہے۔ وہاں دوپہر کو رام نگر کا باسی چوبیس سالہ مسلمان نوجوان، عرفان بھی پہنچ گیا۔ وہ دراصل اپنی ہندو محبوبہ سے ملنے آیا جو میلے میں آئی ہوئی تھی۔ دونوں موقع پاکر ایک جگہ بیٹھے اور پیار کی باتیں کرنے لگے۔ عرفان کو علم نہ تھا کہ موت دبے پاؤں اس کی جانب بڑھ رہی ہے۔

ہوا یہ کہ میلے میں آیا ایک ہندو نوجوان عرفان کو جانتا تھا۔ اس نے دیگر نوجوانوں کو بتایا کہ ایک مسلمان یہاں آکر ہندو لڑکی سے باتیں کررہا ہے۔ ہندو نوجوانوں نے فوراً اسے ''لوجہاد'' کا کیس بنادیا۔ ''لو جہاد'' انتہا پسند ہندو تنظیموں کی ایجاد کردہ اصطلاح ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بھارتی مسلمان نوجوان منصوبہ بندی سے ہندو لڑکیوں کو عشق کے جال میں پھنساتے اور پھر انہیں مسلم بنا کر ان سے شادی کرلیتے ہیں۔

یوں وہ بھارت میں اسلام کی نشرواشاعت کررہے ہیں۔ اسی خود ساختہ عمل کو ''لو جہاد'' کا نام دیا گیا۔میلے میں ہندو انتہا پسند اور قوم پرست تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی شریک تھے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ عرفان کو پکڑا اور اسے تھپڑ مارنے لگے۔ جب تشدد سے طبیعت سیر نہ ہوئی تو اسے پکڑ کر مندر لے چلے۔ وہاں وہ دیوی دیوتاؤں کے سامنے ایک مسلم نوجوان کی قربانی پیش کرنا چاہتے تھے۔ ان پر غصّے کا بھوت سوار تھا اور عرفان کو یہی لگا کہ اس کی زندگی کے آخری لمحات آپہنچے۔ مگر اس نے ایسی اذیت ناک موت خواب و خیال میں بھی نہ سوچی تھی۔

عرفان مگر جانتا تھا کہ بھارت میں نریندر مودی کے نفرت انگیز نظریات چھاچکے۔ یہ نظریات مذہب کے نام پر ایک انسان کو دوسرے پر حملہ کرنے پہ اکساتے و ابھارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے پچھلے چار برس میں مذہبی طور پر مشتعل ہندو ہجوم کے ہاتھوں کئی مسلمان انتہائی بے دردی سے مارے جاچکے۔ کبھی گائے انتہا پسند ہندوؤں کو مشتعل کرنے کا باعث بنی تو کبھی کسی مسلمان کا اسلامی لباس، حتیٰ کہ ڈاڑھی بھی۔

جب بپھرے ہندو نوجوان عرفان کو لیے مندر جارہے تھے، تو اچانک ایک رکاوٹ ان کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ یہ ایک سکھ سب انسکپٹر گگن دیپ سنگھ تھا۔ وہ میلے کی سکیورٹی پر ایک کانسٹیبل کے ساتھ مامور تھا۔ جب اسے شور کی آواز سنائی دی تو وہ بہ سرعت وہاں پہنچ گیا۔ تبھی اس نے دیکھا کہ عرفان غصیلے ہندو نوجوانوں میں گھرا کانپ رہا ہے۔

گگن دیپ سنگھ نے آگے بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور عرفان کو محفوظ جگہ لے جانے کی کوشش کی مگر انتہا پسند راہ میں حائل ہوگئے۔ وہ زبردستی اسے روکنے کی سعی کرتے رہے۔ اس دوران گگن دیپ کو بھی گھونسے اور تھپڑ پڑے۔ اگر وہ پولیس والا نہ ہوتا تو یقیناً انتہا پسند اسے بھی دھر لیتے اور مار مار کر بھرکس نکال دیتے۔

یہ سب انسپکٹر گگن دیپ کی جانب سے دلیری و فرض شناسی کا بے مثال مظاہرہ تھا۔ وجہ یہ کہ بھارت میں جب بھی ہندو مسلم فساد ہو، تو عام طور پر پولیس تماشائی بنی رہتی ہے۔ وہ کبھی ہندو بلوائیوں کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں روکتی ہے۔ جب انتہا پسند غنڈہ گردی کا شرمناک مظاہرہ دکھا چکیں تب بھارتی پولیس حرکت میں آتی ہے۔ ایسے یک طرفہ ماحول میں ایک مسلمان کو بچانے کے لیے ایک غیر مسلم سب انسپکٹر کا اپنی جان پر کھیل جانا منفرد اور امید افزا واقعہ ہی ہے۔

سب انسپکٹر کی دلیری اور بروقت کارروائی کے باعث عرفان کی جان بچ گئی۔ گگن سنگھ نے تھانے سے مزید نفری منگوالی۔ بعدازاں سپاہیوں کی حفاظت میں عرفان اور اس لڑکی کو بھی ان کے گھر بھجوا دیا گیا۔ اس سارے واقعے کی ویڈیو فلم دنیائے انٹرنیٹ میں وائرل ہوگئی۔ جس باشعور اور انسان دوست مردوزن نے یہ دیکھا کہ سب انسپکٹر جنونی انتہا پسندوں میں گھرے ایک مسلمان کی جان بچا رہا ہے، تو وہ اسے داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔

بھارتی فلمی ستاروں نے بھی بہادری کا بہترین مظاہرہ دکھانے پر گگن دیپ کو خراج تحسین پیش کیا اور اسے بھارت کا اصل ہیرو قرار دیا۔ سب انسپکٹر نے صحافیوں کو بتایا ''میں نے عرفان کی جان بچا کر اپنا فرض نبھایا۔ اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو میں ایسا ہی کرتا۔ اگر ایک انسان کی جان بچانے کا معاملہ ہو تو مذہب کو یقیناً رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔''

گگن دیپ سنگھ مزید کہتا ہے کہ لڑکا لڑکی دونوں عاقل اور بالغ تھے۔ انہیں یہ آزادی اور حق حاصل ہے کہ وہ کہیں بھی ملاقات کرلیں۔ مگر انتہا پسندانہ نظریات نے محبت پر بھی شب خون مار دیا۔ یہ نظریات مذہب کے نام پر بھارتی شہریوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔

خوش قسمتی سے بھارتی عوام کو احساس ہوچکاکہ آر ایس ایس، بی جے پی اور ان کی ہم نوا جماعتیں مذہب کی آڑ لے کر ان کے ووٹ حاصل کرتی اور اقتدار کے مزے لوٹتی ہیں جبکہ عوام بدستور غربت، جہالت اور بیماری میں گرفتار ہیں۔ یہی وجہ ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ووٹ لینے کا دھندا اب بھارت میں ماند پڑ رہا ہے۔ اسی لیے حالیہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو کئی حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود بی جے پی اور آر ایس ایس سے منسلک سیاست دانوں کے سر سے اپنی عددی برتری کا بھوت نہیں اترا۔

ریاست اترکھنڈ کے مقامی آر ایس ایس رہنما سب انسپکٹر گنگن دیپ کو قتل کی دھمکیاں دینے لگے کیونکہ وہ ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ اسی لیے راتوں رات پولیس افسروں نے سب انسپکٹر کو چھٹی پر پنجاب بھیج دیا۔ یہ یقین ہے کہ اب وہ اپنا تبادلہ پنجاب کے کسی شہر ہی میں کرالے گا۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ آیت 32 میں فرمایا ہے ''اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی، اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔'' سب انسپکٹر گگن دیپ سنگھ نے زبردست دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ایک انسان کی جان بچالی بلکہ پورے بھارت کی پولیس فورس کو اس کا فرض بھی یاد دلایا... یہی کہ نہتی اور بے بس اقلیتوں کو تحفظ دینا پولیس ہی کی ذمے داری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ گگن دیپ سنگھ نے اپنی دلیری سے امید و نیکی کی جو شمع فروزاں کی ہے، کیا دیگر پولیس افسر بھی اسی طرح نئی شمعیں جلاتے ہیں یا وہ پھر نفرت و دشمنی کے علم برداروں کا ٹٹو بن کر خصوصاً مسلمانوں پر بدستور ظلم و جبر ڈھاتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں