مہنگائی نے ہوش اڑا دیے 60 ارب سیلز کا ہدف 40 ارب تک محدود
ڈالروپٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات نے متوسط و سفید پوش طبقے کی قوت خریدکو بری طرح متاثر۔
چھوٹے تاجروں نے رواں سال عیدالفطر سیل سیزن پرعدم اطمینان کااظہارکرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عید کی روایتی خریداری میں پہچان اور مقام رکھنے والی شہرکی اہم مارکیٹیں توقعات کے برعکس خریداروں کی توجہ حاصل نہ کرسکیں۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں خریداروں کا مارکیٹوں میں امڈ آنے والا ریلا مصنوعی ثابت ہوا، رواں سال 60 ارب روپے کا متوقع عید سیل سیزن گزشتہ سال کی40ارب روپے کی سیلز تک محدود رہا، تاجروں کے مطابق معاشی حالات سازگار ہوں تو معاشی حب کراچی کم از کم 100 ارب روپے کا عید سیل سیزن ہے۔
اس سلسلے میں آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے بتایا ہے کہ ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے سفید کالر افراد کی مشکلات بڑھ گئیں، ہوشربا مہنگائی، بیروزگاری اور قوتِ خرید میں کمی کے باعث خریداروں کے ارمانوں اور دکانداروں کی امیدوں پر پانی پھرگیا، استطاعت سے محروم عوام عید کی خریداری محدود کرنے پر مجبور ہوگئے۔
بیشتربازاروں میں نظر آنے والی گہما گہمی ونڈو شاپنگ ثابت ہوئی، تجارتی مراکز میں چہل پہل کا سب سے زیادہ فائدہ ٹریفک پولیس کو ہوا، نو پارکنگ سے گاڑیاں اٹھانے اور جرمانوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا، جیب کتروں کی بھی چاندی ہوگئی۔
حفاظتی پولیس نے اسنیپ چیکنگ کی آڑ میں جی بھر کر عیدی بنائی، بیشتر دکانوں میں فروخت کیلیے تیار کردہ 60 فیصد سے زائد مال فروخت نہ ہوسکا، گزشتہ سال کے مقابلے میں فروخت میں20فیصد تک کمی رہی، تاجروں کو عید بعد کاریگروں اور کارخانے داروں کو رقوم کی ادائیگی کے لالے پڑگئے۔
انھوں نے کہا کہ رمضان المبارک جیسے اہم ترین سیل سیزن میں توقع کے خلاف خریداری میں کمی موسمِ بہار میں باغ اجڑنے کے مترادف ہے، بازاروں میں ابتدائی طور پر نظر آنے والی رونقیں اور گہما گہمی تاجروں کیلیے انتہائی حوصلہ افزا تھی لیکن قوتِ خرید میں کمی اور مہنگائی کے باعث حقیقی خریدار ناپید رہے،80فیصد خریداری خواتین اور بچوں کے ملبوسات تک محدود رہی۔
گزشتہ سال کی طرح رواں سال رمضان المبارک کا آخری عشرہ کاروباری طور پر توقعات کے برخلاف رہا، پتھارے، کیبن، اسٹالز اور ٹھیلے متوسط اور کمتر وسائل کے حامل طبقے کی خریداری کا محور بن گئے۔
انھوں نے کہا کہ چند بڑے بازاروں کے علاوہ شہر کے بیشتر تجارتی مراکز خریداروں کے منتظر رہے، بڑی مارکیٹوں میں لگائی جانے والی رعایتی سیل بھی خریداروں کو متوجہ نہ کرسکی، مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعات کے مقابلے میں درآمدی اشیا کی خریداری عروج پر رہی سب سے زیادہ پذیرائی چینی مصنوعات کو حاصل ہوئی۔
رواں سال ملک کے مختلف شہروں سے منگوائی گئی سلے سلائے مردانہ و زنانہ کپڑوں کی بہترین ورائٹی بھی استطاعت سے محروم خریداروں کیلیے پْر کشش ثابت نہ ہوسکی، خریداری ریڈی میڈ گارمنٹس، جوتے، مصنوعی زیورات اور زیبائش کے سامان تک محدود رہی، گل پلازہ، گولڈ مارک اور چند شاپنگ مالز حسبِ سابق خریداروں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے۔
آل پاکستان انجمن تاجراں کے صدر اشرف بھٹی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے عوام کی قوت خرید ختم ہوتی جارہی ہے، ایک طبقے نے عید الفطر پر 50 ہزار سے 2 لاکھ روپے تک خریداری کی جبکہ دوسری جانب قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے پسے ہوئے طبقات کا بجٹ بمشکل 8 سے 15 ہزار کے درمیان تھا۔
انہوں نے کہا کہ امسال عید الفطر پر انار کلی، اچھرہ، باغبانپورہ، نیلم بازار، اسلامپورہ سمیت دیگر بازاوں میں عوام کا رش تھا لیکن خریداری کا رجحان گزشتہ سال کے مقابلے میں 20سے 30فیصد کم رہا۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں خریداروں کا مارکیٹوں میں امڈ آنے والا ریلا مصنوعی ثابت ہوا، رواں سال 60 ارب روپے کا متوقع عید سیل سیزن گزشتہ سال کی40ارب روپے کی سیلز تک محدود رہا، تاجروں کے مطابق معاشی حالات سازگار ہوں تو معاشی حب کراچی کم از کم 100 ارب روپے کا عید سیل سیزن ہے۔
اس سلسلے میں آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے بتایا ہے کہ ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے سفید کالر افراد کی مشکلات بڑھ گئیں، ہوشربا مہنگائی، بیروزگاری اور قوتِ خرید میں کمی کے باعث خریداروں کے ارمانوں اور دکانداروں کی امیدوں پر پانی پھرگیا، استطاعت سے محروم عوام عید کی خریداری محدود کرنے پر مجبور ہوگئے۔
بیشتربازاروں میں نظر آنے والی گہما گہمی ونڈو شاپنگ ثابت ہوئی، تجارتی مراکز میں چہل پہل کا سب سے زیادہ فائدہ ٹریفک پولیس کو ہوا، نو پارکنگ سے گاڑیاں اٹھانے اور جرمانوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا، جیب کتروں کی بھی چاندی ہوگئی۔
حفاظتی پولیس نے اسنیپ چیکنگ کی آڑ میں جی بھر کر عیدی بنائی، بیشتر دکانوں میں فروخت کیلیے تیار کردہ 60 فیصد سے زائد مال فروخت نہ ہوسکا، گزشتہ سال کے مقابلے میں فروخت میں20فیصد تک کمی رہی، تاجروں کو عید بعد کاریگروں اور کارخانے داروں کو رقوم کی ادائیگی کے لالے پڑگئے۔
انھوں نے کہا کہ رمضان المبارک جیسے اہم ترین سیل سیزن میں توقع کے خلاف خریداری میں کمی موسمِ بہار میں باغ اجڑنے کے مترادف ہے، بازاروں میں ابتدائی طور پر نظر آنے والی رونقیں اور گہما گہمی تاجروں کیلیے انتہائی حوصلہ افزا تھی لیکن قوتِ خرید میں کمی اور مہنگائی کے باعث حقیقی خریدار ناپید رہے،80فیصد خریداری خواتین اور بچوں کے ملبوسات تک محدود رہی۔
گزشتہ سال کی طرح رواں سال رمضان المبارک کا آخری عشرہ کاروباری طور پر توقعات کے برخلاف رہا، پتھارے، کیبن، اسٹالز اور ٹھیلے متوسط اور کمتر وسائل کے حامل طبقے کی خریداری کا محور بن گئے۔
انھوں نے کہا کہ چند بڑے بازاروں کے علاوہ شہر کے بیشتر تجارتی مراکز خریداروں کے منتظر رہے، بڑی مارکیٹوں میں لگائی جانے والی رعایتی سیل بھی خریداروں کو متوجہ نہ کرسکی، مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعات کے مقابلے میں درآمدی اشیا کی خریداری عروج پر رہی سب سے زیادہ پذیرائی چینی مصنوعات کو حاصل ہوئی۔
رواں سال ملک کے مختلف شہروں سے منگوائی گئی سلے سلائے مردانہ و زنانہ کپڑوں کی بہترین ورائٹی بھی استطاعت سے محروم خریداروں کیلیے پْر کشش ثابت نہ ہوسکی، خریداری ریڈی میڈ گارمنٹس، جوتے، مصنوعی زیورات اور زیبائش کے سامان تک محدود رہی، گل پلازہ، گولڈ مارک اور چند شاپنگ مالز حسبِ سابق خریداروں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے۔
آل پاکستان انجمن تاجراں کے صدر اشرف بھٹی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے عوام کی قوت خرید ختم ہوتی جارہی ہے، ایک طبقے نے عید الفطر پر 50 ہزار سے 2 لاکھ روپے تک خریداری کی جبکہ دوسری جانب قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے پسے ہوئے طبقات کا بجٹ بمشکل 8 سے 15 ہزار کے درمیان تھا۔
انہوں نے کہا کہ امسال عید الفطر پر انار کلی، اچھرہ، باغبانپورہ، نیلم بازار، اسلامپورہ سمیت دیگر بازاوں میں عوام کا رش تھا لیکن خریداری کا رجحان گزشتہ سال کے مقابلے میں 20سے 30فیصد کم رہا۔