ماحولیاتی تباہ کاریاں تعمیری سوچ اپنائی جائے

مشرقی اور مغربی پنجاب کے کسان چاول کی فصل کے حصوں کو نذرآتش کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں

مشرقی اور مغربی پنجاب کے کسان چاول کی فصل کے حصوں کو نذرآتش کرنے کی عادت میں مبتلا ہیںا: فوٹو: فائل

BERLIN:
پنجاب کے مختلف شہروں میں سموگ نے کیوں جنم لیا ، معمولات زندگی کیونکر متاثر ہوئے، انسانی صحت کو خطرناک حد تک کیا نقصانات پہنچے، ان سب باتوں پر سوچنا اور اس کا تدارک کرنا تو وفاقی اور صوبائی حکومت کا کام تھا ، لیکن عوامی مسائل اور تکالیف سے پہلوتہی کرنا تو حکومتوں کی عادت اور وصف بن چکا ہے۔

یہ تو بھلا ہو عدالت کا جس نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا ، جس کی سفارشات منظر عام پرآئی ہیں ۔ خبرکے مطابق عدالتی کمیشن برائے تدارک سموگ نے سپریم کورٹ سے سفارش کی ہے کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے میں ماحولیات کے تحفظ کو شامل کرے کیونکہ سموگ سے نمٹنے کے لیے خطے کی سطح پر تعاون کی سوچ اپنانا ہوگی۔ صوبہ پنجاب میں ہر سال نومبر سے فروری کے دوران سموگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ صرف پاکستانی پنجاب کے شہروں میں مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ بھارتی پنجاب کے شہروں میں بھی جنم لے چکا ہے ۔ جو شہر اور قصبے سرحد کے نزدیک واقع ہیں، ان میں پائی جانے والی فضائی اور ماحولیاتی آلودگی کے اثرات ایک دوسرے پر پڑ رہے ہیں ۔اسی تناظر میں کمیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ سموگ علاقائی مسئلہ ہے جس سے صرف مقامی ذرایع سے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔

سرحد کے آر پار رہنے والوں کی اس سے زیادہ بدنصیبی اور بدقسمتی کیا ہوگی، وہ ہر برس سموگ کا سامنا کرتے ہیں لیکن پاکستانی اور بھارتی حکومتیں اس کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کرتیں ۔ پاکستان کا دل لاہور اور آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر بد ترین سموگ کا شکار ہوجاتا ہے، معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں ، لوگوں گھروں پر محصور ہوجاتے ہیں ۔ سڑکوں پر حادثات بڑھ جاتے ہیں ، انسانی صحت پر سموگ کے انتہائی خطرناک اور بھیانک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ لاہور جو باغوں کا شہرکہلاتا تھا، سڑکوں کے دو رویہ درختوں کی طویل قطاریں اس کے حسن کو دوبالا کرتی تھیں ۔اب ترقی کے نام درختوں کی کٹائی نے نہ صرف شہرکا حسن چھین لیا ہے بلکہ آیندہ آنے والوں برسوں میں تو شاید یہ شہر رہنے کے قابل بھی نہ رہے ۔


ہوا میں موجود آلودگی جو کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے دھوئیں اور زہریلے مواد کے باعث انتڑیوں اور دل کے امراض بڑھنے کا سبب بن رہے، محکمہ صحت کو نہ صرف سرکاری بلکہ نجی اسپتالوں سے بھی میڈیکل ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے کہ کتنے انسان اس سے روزانہ اور سالانہ بنیادوں پر متاثر ہو رہے ہیں، لیکن ان دنوں محکموں کے درمیان تاحال کوئی بھی اشتراک عمل دیکھنے میں نہیں آتا۔ لہذا یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ محکمہ ماحولیات اور محکمہ صحت کے مابین محکماتی جاتی سطح پر ایک ایسا میکنزم تشکیل دیا جائے جو فوری طور پر انسانی صحت کے حوالے اقدامات کرے ۔ صوبے کے کسی بھی شہر میں آلودہ ہوا کسی بھی وقت متاثر کرسکتی ہے اس لیے ضلع سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں جو دوسروں کے لیے ایک مثال ہوں ۔ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ سموگ کے نقصانات سے آگاہی کے لیے صوبائی سطح پر مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ صحت کے نقصانا ت کو کم کیا جاسکے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ کمیشن نے اس ضمن میں تعلیمی اداروں، ڈاکٹرز اور میڈیا کو بھی کہا ہے کہ آگاہی کے لیے سیمینار کرائے جائیں۔

مشرقی اور مغربی پنجاب کے کسان چاول کی فصل کے حصوں کو نذرآتش کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں، انھیں اس بات کی آگاہی نہیں کہ ان کے اس عمل سے انسانی صحت کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اور سموگ کی ایک بڑی وجہ بھی ہے ۔ہمیں کسانوں کا رضاکارانہ طور پر چاول کی فصل کے فاضل حصوں کو نہ جلانے کی ترغیب دینا ہوگی، صنعتی فضلے اور اینٹوں کے بھٹوں کے دھوئیں کوکنٹرول کرنے کے اقدامات کرنے ہونگے ، میونسپل ویسٹ کو جلانے سے روکنا ہوگا ۔ گزشتہ دنوں چولستان کے علاقے میں تیز آندھی آئی، جس کے نتیجے تین بچیاں راستہ بھٹک گئیں اور تپتی ہوئی ریت پر چلنے سے جاں بحق ہوگئیں ۔

یہ واقعہ نہ صرف انتہائی اندوہناک بلکہ مسئلے کی شدت اور سنگینی کو بھی واضح کرتا نظر آتا ہے ۔ قدرتی ماحول کی حفاظت دراصل انسانی صحت کے لیے ضروری بلکہ انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے، افسوس کا مقام ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کو مسئلہ سرے سے سمجھتے ہی نہیں ہیں، جب کہ اقوام عالم انتہائی تندہی اور لگن سے منصوبہ بندی کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی کوکم کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور اس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔

ہم نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بد ترین غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس حوالے ہر سطح پر شعور اور آگہی اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے ۔وطن عزیز کو سرسبز شاداب بنانے کے لیے ہمیں شجرکاری مہم بھی شروع کرنا ہوگی ۔لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے قائم کیے گئے سموگ کمیشن نے پنجاب میں سموگ کے نقصانات سے بچنے کے لیے پالیسی کے حوالے سے 17 سفارشات جو مرتب کی ہیں ۔ ان کے مندرجات نہ صرف غور طلب ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد بھی جنگی بنیادوں پرکیا جانا چاہیے ۔
Load Next Story