انصاف نظر آنا چاہیے
ناچیز ایسی عدالتِ عظمیٰ دیکھنے کا خواہشمند ہے جسکا صرف ایک پارٹی نہیں ،پوری قوم دل سے احترام کرے
انصاف ایسا انمول تحفہ ہے جو انسانیت کو انسانوں سے نہیں،آسمانوں سے ملاہے۔ خالقِ کائنات کے برگزیدہ نبیوں اوربر حق کتابوںکے ذریعے، یہ کسی فلاسفر یادانشور کا تصورّ نہیں ہے۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ انسانوں کی سرشت اور جبلّت میں عدل نہیں غلبہ ہے، انصاف نہیں قبضہ اور مخالف کا خاتمہ ہے۔
مَیرٹ،گڈگورننس اور رُول آف لاء، سب آفتابِ عدل کی کرنیں ہیں۔جس قوم نے بھی انصاف کا پر چم تھام لیا قدرت نے عزتّ اور عظمت اس کے قدموں میں ڈال دی۔ میزانِ عدل کا توازن برقرار رہا،تو ریاست میں استحکا م رہا۔ توازن بگڑا تو بڑی بڑی سلطنتیںٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہوگئیں۔ مگر کائناتوں کے خالق اور مالک نے مسندِقضاپر بیٹھنے والے منصفوں کے لیے انصاف کا بڑا کڑا معیار مقرر کیا ہے ۔مالک کا حکم ہے کہ '' انصاف پر قائم پر رہنے والے بنو چاہے ا س کی زد تمہارے عزیز و اقارب پر ،تمہارے والدین پر یا تمہاری ذات پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو''(القران )یعنی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اپنے یا اپنے والدین کے خلاف فیصلہ کرنے سے بھی گریز نہ کرو۔اور پھر فرمایا کہ ''کسی گروہ کی دُشمنی تمہیں انصاف کی راہ سے نہ ہٹادے''گروہ سے مراد کوئی سیاسی پارٹی بھی ہو سکتی ہے اور کوئی سیاسی خاندان بھی۔ ایک فریق کی آنکھ کے کانٹوں پر غصّہ نکالا جائے اور دوسرے کے شہتیر بھی نظر نہ آئیں، میزانِ عدل واضح طور پر ایک جانب جھکی ہوئی نظر آئے تو اسے انصاف کون کہے گا ؟ انصاف تو نظر آنا چاہیے ۔
مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے جیالے اور متوالے تواندھے پیروکا ر ہو تے ہیںاس لیے عقل اور توازن سے محروم ہو تے ہیں مگر پڑھے لکھے شہریوں کی محفل میں اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں منفی تبصرے اور توہین آمیز باتیں ہونے لگیں تو بہت دکھ ہو تا ہے۔ راقم کی پرورش اور تربیّت ہی چونکہ جج صاحبان کے ہاتھوں میں ہوئی ہے ،اس لیے عدلیہ کی عزّت اور محبّت رگ وپے میں رچ بس گئی ہے۔ پو لیس سروس میں رہتے ہو ئے بھی ہر جگہ اور ہر فورم پر عدلیہ کی بالا دستی کی وکالت کی ہے۔ اسی لیے لا ہور ہائیکورٹ کے کئی چیف جسٹس صاحبان راقم کو پولیس سروس میں '' جوڈیشری کا نمایندہ'' کہاکرتے تھے۔
ذاتی تعلّق سے ہَٹ کر ایک شہری کی حیثیّت سے بھی مَیں عدلیہ کو شہریوں کی آخری پناہ گاہ سمجھتاہوں،اس لیے اسے تمام اداروں سے زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتاہوں، ایساطاقتور ادارہ، جس سے منہ زور سیاستدان بھی گھبرائیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی ڈرے۔جسکے طلب کر نے پر وزیر اعظم بھی حاضر ہو جائیںاور مسلحّ افواج کے کمانڈر اور ایجنسیوں کے سربراہ بھی پیش ہونے کے لیے پس وپیش کیے بغیر دوڑتے ہوئے آئیں، راقم ایسی سپریم کو رٹ کا متمنّی ہے جووزائے اعلیٰ کو بھی تنبیہّ کرے اور جرنیلوں کی بھی سرزنش کر سکے ، عدالتِ عظمیٰ کا ایسا رُعب، دَبدَبہ اور احترام ہو گا تو ریاست کا کمزور ترین شہری بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھے گا ۔
ناچیز ایسی عدالتِ عظمیٰ دیکھنے کا خواہشمند ہے جسکا صرف ایک پارٹی نہیں ،پوری قوم دل سے احترام کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آوازِ خلق میںاگر عدلیہ سے متعلّق کلماتِ خیر ہوں تو دل مسّر ت سے لبریز ہوجاتاہے، اوراگرطنز اور توہین ہو تو دل میں اضطراب اور تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ بڑے دُکھ سے کہنا پڑتاہے کہ اِس وقت عوام میں تاثّر یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کا سارا غیض وغضب ایک خاندان اورایک پارٹی کے خلاف ہے جب کہ ان کے مخالفین کے ساتھ جانبدار انہ سلوک ہورہا ہے۔
جج صاحبان کی بحالی کی تحریک (جس میں ناچیز بھی اپنا حصّہ ڈالتارہا)کا میاب ہوئی توقوم کو پہلی بار امید نظرآئی کہ اب ہماری اعلیٰ عدلیہ دباؤ میں ہرگز نہیں آئیگی اور آزادانہ فیصلے کیاکریگی۔ راقم کا وکالت ،عدالت اور صحافت سے ذاتی اور خاندانی تعلّق ہے اس لیے سپریم کورٹ کے سابق جج صاحبان ، سینئر وکلااورباخبر صحافیوں سے ملاقات ہو تی رہتی ہے ، اُن سے اعلیٰ ترین عدالت پر بیرونی دباؤ اور آزادانہ فیصلوں پر سوال کر تاہوںتو ان کا جواب منفی اور تشویشناک ہوتا ہے۔ ،راقم انھیں یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کرتاہے کہ دیکھیں چیف جسٹس صاحب نے میڈیکل کا لجوں کی Mushroom growthکو روکا ہے ، پنجاب حکومت میں کمپنیوں کے نام پر سرکاری افسروں کی بلاجواز تنخواہوں پر گرفت کی ہے، صاف پانی کے مسئلے کا بھی نوٹس لیا ہے یہ قابلِ تحسین باتیں ہیں ۔ مگر معترضین کے پاس اس سے کہیں زیادہ مواد ہے ۔
٭باخبر قانونی حلقے سمجھتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے عظیم رہنماقاضی عیسیٰ کے صاحبزادے جسٹس فائز عیسیٰ کی تعیناتی کو کئی سال بعد کسی کے کہنے پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
٭راولپنڈی کے ایم این اے نے کروڑوں روپے کی جائیداد کا انتخابی فارم میں اندراج نہ کیا اور اسے تسلیم بھی کیا مگر وہ پھر بھی اہل قرار پایا، جب کہ سابق وزیراعظم کو ایک فرضی جائیداد نہ لکھنے پر تا حیات نا اہل قرار دے دیا گیا۔ مقدمات ایک جیسے ہوں اورفیصلے مختلف آئیں تو انگلیاں اٹھتی ہیں۔ اسی لیے جسٹس قاضی عیسٰی نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔
٭بلوچستان کی منتخب حکومت گرانے اور مرضی کے سینیٹر منتخب کرانے کے عمل میں انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک افسر کا نام گونجتا رہا ۔ہمیں امید تھی کہ آئین کی پاسبان اور جمہوریّت کی نگہبان عدالتِ عظمیٰ اس کا فوری نوٹس لیگی اور متعلقہ افسر کو طلب کیاجائے گا،اس کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے گی اور ایسی موئثر کا روائی ہوگی کہ عسکری اداروںکی سیاست میں دخل اندازی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ جس سے عدلیہ کی کمزوری کا تاثر پھیلاہے اورہم جیسے عدلیہ کو آخری پناہ گاہ سمجھنے والے شہری خوفزدہ ہوگئے ہیں۔
٭ نقیب اللہ محسود کے قتل کے فوراً بعد جب آئی جی سندھ کو قاتل پولیس افسر کی گرفتاری کا حکم دیا گیا تو سند ھ پولیس نے رجسٹرار کے ذریعے عدالت کو مطلع کردیا تھاکہ قاتل ''کِن'' کی حفاظت میں ہے۔ اور کہاں رہ رہاہے ۔ برادرم سلیم صافی کے بقول راؤ انوار کو حیران کُن پروٹوکول دیکر جج صاحبان کے گیٹ کے ذریعے لایا گیا۔ وہ سپریم کورٹ میں سینہ تان کر آیا نہ اسے ہتھکڑی لگانے کا حکم دیا گیا اور نہ ہی اسے پناہ دینے والوں کے خلاف کاروائی کی گئی۔ ایک بدنام اور سفاک شخص کے ساتھ ایسی نرمی اورنوازشات پر پوری قوم کو دکھ ہوا ہے اور عدالتِ عظمیٰ کی عزّت پر حرف آیا ہے۔
٭سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر کچھ پولیس افسران کو قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ایک ماہ یادس دن کی سزا کے نتیجے میں پولیس افسر نوکری سے برخاست اور پنشن سے محروم ہو جائینگے ۔ لہذا اتنی سخت سزا سنانے سے پہلے عدالت کو اصل حقائق اور اصل Culpritsکے بارے میں مصّدقہ ذرایع سے مکمل معلومات حاصل کر لینی چاہئیں تھیں۔ فاضل عدالت اگر فوٹیج دیکھ لیتی تو معلوم ہو جاتا کہ بد تمیزی کے اصل مرتکب کون ہیں۔ ؟ وہ کون لوگ تھے ۔ جنہوں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں مگر وہ پولیس ملازم نہیں تھے ؟ جب کہ جیل جانے والا ایک اچھی شہرت کا پولیس افسر جمیل ہاشمی اس سارے واقعے کے دوران موقع پرموجود ہی نہیں تھا اس فیصلے میں بھی انصاف نظر نہیں آتا۔
٭چند روز پہلے لاہور میںایک خاتون اینکر اغواء ہوگئی۔مجھے یقین تھا کہ عدالتِ عظمیٰ اس کا فوری نوٹس لے گی اور اصل مجرموں کو گرفتار کرواکے انھیںقرار واقعی سزادلوا ئے گی ۔مگر عدالت ِعظمیٰ نے اس کا نوٹس تک نہ لیا۔ اس سے بھی شہری عدمِ تحفظ کا شکارہوئے ہیں۔
٭ملک کے قابلِ فخر ڈاکٹر سعید اختر کے ساتھ بھری عدالت میں جو توہین آمیز سلوک ہو ا ہے اُسپرپوری قوم کو انتہائی صدمہ پہنچا ہے ۔وہ امریکا میں رہ کر کروڑوں روپے ماہوار کما رہے تھے۔ اُنکا وہاںاپنا ہوائی جہاز ہے ۔ انھوں نے سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب کے تعاون سے جو اسپتال تعمیر کیا ہے اُس معیار کا کوئی اسپتال پورے ملک میں نہیں ہے، کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ کروانے کے لیے پاکستانی مریضوں کو بھارت جاناپڑتا تھا۔جو ہمارے لیے باعثِ شرم بھی تھا۔ اِس اسپتال کے قیام سے اب بھارت جانیکی بھی ضرورت نہیں رہیگی ڈاکٹرسعید اختر کو میں ذاتی طور پر جانتاہوںوہ انتہائی قابل،محبّ ِ وطن اور خدا خوف شخص ہیں ۔
ملک کی انتہائی قابلِ احترام شخصیّت کی جو تذلیل ہوئی ہے اس سے امریکا سے پاکستان آ نے کے لیے تیارکئی ڈاکٹر بددل ہوئے ہیں۔اورانھوں نے آنے کا ارادہ منسوخ کر دیا ہے۔ اس سے عدلیہ کی عزّت میں ہر گز اضافہ نہیں ہوا۔
٭پورے ملک میں یہ تاثر بڑی تیزی سے پھیلاہے کہ عدلیہ سابق وزیراعظم نوازشریف اوران کے سیاسی مخالفین کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کر رہی بلکہ دہرا معیارقائم کیا گیاہے۔اصغر خان کیس میں کچھ جرنیلوں نے سیاست میں حصہ لینے کا اعتراف کیا ہے اور کچھ سیاستدانوں کو پیسے دینے کا دعویٰ کیاہے ۔توقع یہ تھی کہ سپریم کورٹ آرمی چیف کو ہدایت کرے گی کہ اپنا جرم تسلیم کرنے والے جرنیلوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی کر کے عدالت کو آگاہ کرے۔ایف آئی اے کی انکوائری میں جس سیاستدان پر پیسوں کی وصولی ثابت ہو، اس کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔مگرلگتاہے کہ فاضل عدالت کو صرف سیاستدانوںبلکہ صرف ایک کوکٹہرے میں کھڑا کرنے میں دلچسپی ہے۔
٭کیاصوبہ سندھ کی جانب دیکھنے سے نَیب کی آنکھیں چُندھیا جاتی ہیں اور اُسطرف جاتے ہوئے پاؤں دُکھنے لگتے ہیں، سینئر صحافی اور اینکر چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ آج بھی قبلہ زرداری صاحب اور ان کے اقرباء کروڑوں کی دیہاڑی لگا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نَیب کی لگام پکڑ کر اسے کراچی کا راستہ کیوں نہیں دکھاتی؟
٭الیکشن کی شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ملازمتوں پر پابندی لگ گئی ہے،سڑکوں اور گلیوں کی مرمّت تک رک گئی ہے۔ اس لیے عدالتِ عظمیٰ کی غیرجانبداری برقرار رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ چیف جسٹس صاحب الیکشن تک سُواوموٹو نوٹس او ر اسپتالوںکے دورے مؤخر کردیں۔انصاف اور غیر جانبداری کا یہی تقاضہ ہے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے ۔
٭آخری گزارش یہ کہ ڈیم بنواناعدلیہ کا کام نہیں ہے نہ ایسا کرنے سے کوئی چیف جسٹس عوامی مقبولیتّ حاصل کر سکتا ہے ۔ وہ چیف جسٹس جو عوام کو موجودہ گلے سڑے کریمنل جسٹس سسٹم اور کچہری کلچر سے نجات دلائے گا اور جو آئین کا محافظ بنکر طاقتور ترین اداروں کو آئین اور قانون کے آگے سر جھکانے پر مجبور کریگا۔؛ پوری قوم اُسے پلکوں پر بٹھا ئیگی اور وہ عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہیگا۔
نوٹ :پچھلے کالم میں لکھا گیا شعرمولانا ظفر علی خان کا ہے ,نشاندہی پر برادرم آصف بھلّی کا شکریہ۔
مَیرٹ،گڈگورننس اور رُول آف لاء، سب آفتابِ عدل کی کرنیں ہیں۔جس قوم نے بھی انصاف کا پر چم تھام لیا قدرت نے عزتّ اور عظمت اس کے قدموں میں ڈال دی۔ میزانِ عدل کا توازن برقرار رہا،تو ریاست میں استحکا م رہا۔ توازن بگڑا تو بڑی بڑی سلطنتیںٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہوگئیں۔ مگر کائناتوں کے خالق اور مالک نے مسندِقضاپر بیٹھنے والے منصفوں کے لیے انصاف کا بڑا کڑا معیار مقرر کیا ہے ۔مالک کا حکم ہے کہ '' انصاف پر قائم پر رہنے والے بنو چاہے ا س کی زد تمہارے عزیز و اقارب پر ،تمہارے والدین پر یا تمہاری ذات پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو''(القران )یعنی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اپنے یا اپنے والدین کے خلاف فیصلہ کرنے سے بھی گریز نہ کرو۔اور پھر فرمایا کہ ''کسی گروہ کی دُشمنی تمہیں انصاف کی راہ سے نہ ہٹادے''گروہ سے مراد کوئی سیاسی پارٹی بھی ہو سکتی ہے اور کوئی سیاسی خاندان بھی۔ ایک فریق کی آنکھ کے کانٹوں پر غصّہ نکالا جائے اور دوسرے کے شہتیر بھی نظر نہ آئیں، میزانِ عدل واضح طور پر ایک جانب جھکی ہوئی نظر آئے تو اسے انصاف کون کہے گا ؟ انصاف تو نظر آنا چاہیے ۔
مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے جیالے اور متوالے تواندھے پیروکا ر ہو تے ہیںاس لیے عقل اور توازن سے محروم ہو تے ہیں مگر پڑھے لکھے شہریوں کی محفل میں اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں منفی تبصرے اور توہین آمیز باتیں ہونے لگیں تو بہت دکھ ہو تا ہے۔ راقم کی پرورش اور تربیّت ہی چونکہ جج صاحبان کے ہاتھوں میں ہوئی ہے ،اس لیے عدلیہ کی عزّت اور محبّت رگ وپے میں رچ بس گئی ہے۔ پو لیس سروس میں رہتے ہو ئے بھی ہر جگہ اور ہر فورم پر عدلیہ کی بالا دستی کی وکالت کی ہے۔ اسی لیے لا ہور ہائیکورٹ کے کئی چیف جسٹس صاحبان راقم کو پولیس سروس میں '' جوڈیشری کا نمایندہ'' کہاکرتے تھے۔
ذاتی تعلّق سے ہَٹ کر ایک شہری کی حیثیّت سے بھی مَیں عدلیہ کو شہریوں کی آخری پناہ گاہ سمجھتاہوں،اس لیے اسے تمام اداروں سے زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتاہوں، ایساطاقتور ادارہ، جس سے منہ زور سیاستدان بھی گھبرائیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی ڈرے۔جسکے طلب کر نے پر وزیر اعظم بھی حاضر ہو جائیںاور مسلحّ افواج کے کمانڈر اور ایجنسیوں کے سربراہ بھی پیش ہونے کے لیے پس وپیش کیے بغیر دوڑتے ہوئے آئیں، راقم ایسی سپریم کو رٹ کا متمنّی ہے جووزائے اعلیٰ کو بھی تنبیہّ کرے اور جرنیلوں کی بھی سرزنش کر سکے ، عدالتِ عظمیٰ کا ایسا رُعب، دَبدَبہ اور احترام ہو گا تو ریاست کا کمزور ترین شہری بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھے گا ۔
ناچیز ایسی عدالتِ عظمیٰ دیکھنے کا خواہشمند ہے جسکا صرف ایک پارٹی نہیں ،پوری قوم دل سے احترام کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آوازِ خلق میںاگر عدلیہ سے متعلّق کلماتِ خیر ہوں تو دل مسّر ت سے لبریز ہوجاتاہے، اوراگرطنز اور توہین ہو تو دل میں اضطراب اور تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ بڑے دُکھ سے کہنا پڑتاہے کہ اِس وقت عوام میں تاثّر یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کا سارا غیض وغضب ایک خاندان اورایک پارٹی کے خلاف ہے جب کہ ان کے مخالفین کے ساتھ جانبدار انہ سلوک ہورہا ہے۔
جج صاحبان کی بحالی کی تحریک (جس میں ناچیز بھی اپنا حصّہ ڈالتارہا)کا میاب ہوئی توقوم کو پہلی بار امید نظرآئی کہ اب ہماری اعلیٰ عدلیہ دباؤ میں ہرگز نہیں آئیگی اور آزادانہ فیصلے کیاکریگی۔ راقم کا وکالت ،عدالت اور صحافت سے ذاتی اور خاندانی تعلّق ہے اس لیے سپریم کورٹ کے سابق جج صاحبان ، سینئر وکلااورباخبر صحافیوں سے ملاقات ہو تی رہتی ہے ، اُن سے اعلیٰ ترین عدالت پر بیرونی دباؤ اور آزادانہ فیصلوں پر سوال کر تاہوںتو ان کا جواب منفی اور تشویشناک ہوتا ہے۔ ،راقم انھیں یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کرتاہے کہ دیکھیں چیف جسٹس صاحب نے میڈیکل کا لجوں کی Mushroom growthکو روکا ہے ، پنجاب حکومت میں کمپنیوں کے نام پر سرکاری افسروں کی بلاجواز تنخواہوں پر گرفت کی ہے، صاف پانی کے مسئلے کا بھی نوٹس لیا ہے یہ قابلِ تحسین باتیں ہیں ۔ مگر معترضین کے پاس اس سے کہیں زیادہ مواد ہے ۔
٭باخبر قانونی حلقے سمجھتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے عظیم رہنماقاضی عیسیٰ کے صاحبزادے جسٹس فائز عیسیٰ کی تعیناتی کو کئی سال بعد کسی کے کہنے پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
٭راولپنڈی کے ایم این اے نے کروڑوں روپے کی جائیداد کا انتخابی فارم میں اندراج نہ کیا اور اسے تسلیم بھی کیا مگر وہ پھر بھی اہل قرار پایا، جب کہ سابق وزیراعظم کو ایک فرضی جائیداد نہ لکھنے پر تا حیات نا اہل قرار دے دیا گیا۔ مقدمات ایک جیسے ہوں اورفیصلے مختلف آئیں تو انگلیاں اٹھتی ہیں۔ اسی لیے جسٹس قاضی عیسٰی نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔
٭بلوچستان کی منتخب حکومت گرانے اور مرضی کے سینیٹر منتخب کرانے کے عمل میں انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک افسر کا نام گونجتا رہا ۔ہمیں امید تھی کہ آئین کی پاسبان اور جمہوریّت کی نگہبان عدالتِ عظمیٰ اس کا فوری نوٹس لیگی اور متعلقہ افسر کو طلب کیاجائے گا،اس کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے گی اور ایسی موئثر کا روائی ہوگی کہ عسکری اداروںکی سیاست میں دخل اندازی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ جس سے عدلیہ کی کمزوری کا تاثر پھیلاہے اورہم جیسے عدلیہ کو آخری پناہ گاہ سمجھنے والے شہری خوفزدہ ہوگئے ہیں۔
٭ نقیب اللہ محسود کے قتل کے فوراً بعد جب آئی جی سندھ کو قاتل پولیس افسر کی گرفتاری کا حکم دیا گیا تو سند ھ پولیس نے رجسٹرار کے ذریعے عدالت کو مطلع کردیا تھاکہ قاتل ''کِن'' کی حفاظت میں ہے۔ اور کہاں رہ رہاہے ۔ برادرم سلیم صافی کے بقول راؤ انوار کو حیران کُن پروٹوکول دیکر جج صاحبان کے گیٹ کے ذریعے لایا گیا۔ وہ سپریم کورٹ میں سینہ تان کر آیا نہ اسے ہتھکڑی لگانے کا حکم دیا گیا اور نہ ہی اسے پناہ دینے والوں کے خلاف کاروائی کی گئی۔ ایک بدنام اور سفاک شخص کے ساتھ ایسی نرمی اورنوازشات پر پوری قوم کو دکھ ہوا ہے اور عدالتِ عظمیٰ کی عزّت پر حرف آیا ہے۔
٭سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر کچھ پولیس افسران کو قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ایک ماہ یادس دن کی سزا کے نتیجے میں پولیس افسر نوکری سے برخاست اور پنشن سے محروم ہو جائینگے ۔ لہذا اتنی سخت سزا سنانے سے پہلے عدالت کو اصل حقائق اور اصل Culpritsکے بارے میں مصّدقہ ذرایع سے مکمل معلومات حاصل کر لینی چاہئیں تھیں۔ فاضل عدالت اگر فوٹیج دیکھ لیتی تو معلوم ہو جاتا کہ بد تمیزی کے اصل مرتکب کون ہیں۔ ؟ وہ کون لوگ تھے ۔ جنہوں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں مگر وہ پولیس ملازم نہیں تھے ؟ جب کہ جیل جانے والا ایک اچھی شہرت کا پولیس افسر جمیل ہاشمی اس سارے واقعے کے دوران موقع پرموجود ہی نہیں تھا اس فیصلے میں بھی انصاف نظر نہیں آتا۔
٭چند روز پہلے لاہور میںایک خاتون اینکر اغواء ہوگئی۔مجھے یقین تھا کہ عدالتِ عظمیٰ اس کا فوری نوٹس لے گی اور اصل مجرموں کو گرفتار کرواکے انھیںقرار واقعی سزادلوا ئے گی ۔مگر عدالت ِعظمیٰ نے اس کا نوٹس تک نہ لیا۔ اس سے بھی شہری عدمِ تحفظ کا شکارہوئے ہیں۔
٭ملک کے قابلِ فخر ڈاکٹر سعید اختر کے ساتھ بھری عدالت میں جو توہین آمیز سلوک ہو ا ہے اُسپرپوری قوم کو انتہائی صدمہ پہنچا ہے ۔وہ امریکا میں رہ کر کروڑوں روپے ماہوار کما رہے تھے۔ اُنکا وہاںاپنا ہوائی جہاز ہے ۔ انھوں نے سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب کے تعاون سے جو اسپتال تعمیر کیا ہے اُس معیار کا کوئی اسپتال پورے ملک میں نہیں ہے، کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ کروانے کے لیے پاکستانی مریضوں کو بھارت جاناپڑتا تھا۔جو ہمارے لیے باعثِ شرم بھی تھا۔ اِس اسپتال کے قیام سے اب بھارت جانیکی بھی ضرورت نہیں رہیگی ڈاکٹرسعید اختر کو میں ذاتی طور پر جانتاہوںوہ انتہائی قابل،محبّ ِ وطن اور خدا خوف شخص ہیں ۔
ملک کی انتہائی قابلِ احترام شخصیّت کی جو تذلیل ہوئی ہے اس سے امریکا سے پاکستان آ نے کے لیے تیارکئی ڈاکٹر بددل ہوئے ہیں۔اورانھوں نے آنے کا ارادہ منسوخ کر دیا ہے۔ اس سے عدلیہ کی عزّت میں ہر گز اضافہ نہیں ہوا۔
٭پورے ملک میں یہ تاثر بڑی تیزی سے پھیلاہے کہ عدلیہ سابق وزیراعظم نوازشریف اوران کے سیاسی مخالفین کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کر رہی بلکہ دہرا معیارقائم کیا گیاہے۔اصغر خان کیس میں کچھ جرنیلوں نے سیاست میں حصہ لینے کا اعتراف کیا ہے اور کچھ سیاستدانوں کو پیسے دینے کا دعویٰ کیاہے ۔توقع یہ تھی کہ سپریم کورٹ آرمی چیف کو ہدایت کرے گی کہ اپنا جرم تسلیم کرنے والے جرنیلوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی کر کے عدالت کو آگاہ کرے۔ایف آئی اے کی انکوائری میں جس سیاستدان پر پیسوں کی وصولی ثابت ہو، اس کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔مگرلگتاہے کہ فاضل عدالت کو صرف سیاستدانوںبلکہ صرف ایک کوکٹہرے میں کھڑا کرنے میں دلچسپی ہے۔
٭کیاصوبہ سندھ کی جانب دیکھنے سے نَیب کی آنکھیں چُندھیا جاتی ہیں اور اُسطرف جاتے ہوئے پاؤں دُکھنے لگتے ہیں، سینئر صحافی اور اینکر چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ آج بھی قبلہ زرداری صاحب اور ان کے اقرباء کروڑوں کی دیہاڑی لگا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نَیب کی لگام پکڑ کر اسے کراچی کا راستہ کیوں نہیں دکھاتی؟
٭الیکشن کی شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ملازمتوں پر پابندی لگ گئی ہے،سڑکوں اور گلیوں کی مرمّت تک رک گئی ہے۔ اس لیے عدالتِ عظمیٰ کی غیرجانبداری برقرار رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ چیف جسٹس صاحب الیکشن تک سُواوموٹو نوٹس او ر اسپتالوںکے دورے مؤخر کردیں۔انصاف اور غیر جانبداری کا یہی تقاضہ ہے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے ۔
٭آخری گزارش یہ کہ ڈیم بنواناعدلیہ کا کام نہیں ہے نہ ایسا کرنے سے کوئی چیف جسٹس عوامی مقبولیتّ حاصل کر سکتا ہے ۔ وہ چیف جسٹس جو عوام کو موجودہ گلے سڑے کریمنل جسٹس سسٹم اور کچہری کلچر سے نجات دلائے گا اور جو آئین کا محافظ بنکر طاقتور ترین اداروں کو آئین اور قانون کے آگے سر جھکانے پر مجبور کریگا۔؛ پوری قوم اُسے پلکوں پر بٹھا ئیگی اور وہ عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہیگا۔
نوٹ :پچھلے کالم میں لکھا گیا شعرمولانا ظفر علی خان کا ہے ,نشاندہی پر برادرم آصف بھلّی کا شکریہ۔