الیکٹیبلز کی سیاست
جے اے رحیم کابینہ اور پارٹی سے نکالے گئے، جب کہ معراج محمد خان جیل پہنچادیے گئے
ایک سیاست دان کا کہنا تھا کہ حکومت کی نااہلی کی سزا عوام کو نہیں ملنی چاہیے۔ ارے بھئی کوئی ان کو سمجھائے کہ بھائی صاحب، حکومت کی نااہلی نہیں بلکہ نااہلیوں کی سزا صرف عوام کو ہی ملتی ہے۔ اگر حکمرانوں کو ملی ہوتی تو آج ہمارے ہاں کوئی حکومت تو ڈھنگ کی آئی ہوتی۔ اب تو ویسے بھی الیکشن سر پر ہیں اور آنے والے دنوں میں الیکشن مہم میں تیزی آئے گی، الزامات کی سیاست عروج پر رہے گی، کئی مزید اسکینڈلز سامنے آئیں گے۔ بقول شاعر
مری امید کا سورج کہ تیری آس کا چاند
دیے تمام ہی رخ پر ہوا کے رکھے تھے
راقم کے ذہن میں یہ ابہام اس لیے پیدا ہوئے کہ تاریخ میں جن جن پارٹیوں نے الیکٹیبلز Electablesکو اپنے نظریاتی کارکنوں، پرانے ورکرز اور قربانیاں دینے والے پارٹی رہنماؤں پر ترجیح دی ہے وہ ہمیشہ ناکام ہوئے ہیںیا انھیں ناکام بنا دیا گیا۔ آپ جوزف اسٹالن کی مثال لے لیں، 1923 میں لینن کی وفات کے بعد وہ سوویت یونین کا سربراہ بنا، اقتدار میں آنے کے بعد اسٹالن نے سیاسی معزولیوں کا خوفناک سلسلہ شروع کیا، اس نے آزاد ریاستوں لٹویا،لیتھوانیا اور اسٹونیا کو ساتھ ملایا،اُس نے ہٹلر کو شکست دی، وہ عروج پر تھا، وہ انتہا کا ذہین تھا،مگر اُسے عجیب خوف تھا کہ اُس کے پرانے پارٹی ورکرز و رہنما ہی اسے اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے اور اسے آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں۔
اس لیے اُس نے اپنے پرانے ساتھیوں سے پیچھا چھڑانا شروع کیا، اور وہ آخر اپنی کابینہ میں اکیلا ہی رہ گیا تھا، اس لیے وہ اپنی اہمیت کھو گیا اور جلد ہی اس کا اقتدار کمزور پڑ گیا اور اسے سب کچھ چھوڑنا پڑا یہاں تک کہ اپنی عمر کے 74 ویں برس میں وہ خود کوعظیم ترین تصور کرتا تھا۔وہ خلل دماغ میں مبتلا ہوگیا، پھر وہ آخری ایام میں اپنے ڈاکٹروں کے قتل کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔اسے ان پر بالکل اعتماد نہیں تھا۔ مریضانہ حد تک شکی مزاج وہ پہلے سے تھا شبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا علاج روک دیا گیا تھا چنانچہ اس کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی یہاں تک کہ وہ لاعلاج ہو گیا۔
پھر آپ پاکستان میں بھٹو کی مثال لے لیں، ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر1967ء کو اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ چار ارکان پر مشتمل پیپلز پارٹی کی سپریم کونسل بنائی گئی جس میں خود ذوالفقار علی بھٹو، جے اے رحیم، محمد حنیف رامے اور ڈاکٹر مبشر حسن شامل تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے غریبوں کی بات کی، غریبوں کے لیے سیاست کے دروازے کھولے۔ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے یعنی حقیقی جمہوریت کے لیے جہدو جہد کی۔
پیپلز پارٹی نے 1970ء کے انتخابات بائیں بازو کی ایک نظریاتی جماعت کے طور پر لڑے جس میں ترقی پسند رہنما جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان، مختار رانا، شیخ محمد رشید، حنیف رامے، خورشید حسن میر، رسول بخش تالپور، علی احمد تالپور،محمود علی قصوری، حیات محمد خان شیر پاؤ اور طارق عزیز شامل تھے۔ مذہبی عالم مولانا کوثر نیازی ، جاگیرداروں اور وڈیروں کے نمایندے غلام مصطفیٰ کھر اور غلام مصطفیٰ جتوئی بھی پیپلز پارٹی کا حصہ تھے۔ معراج محمد خان اور غلام مصطفیٰ کھر کو بھٹو نے اپنا جانشین بھی بنایا تھا۔ پنجاب میں تو پیپلز پارٹی کے کھمبے بھی جیت گئے تھے، مختار رانا تو پیپلز پارٹی سے بہت جلدہی علیحدہ ہوگئے جب کہ جے اے رحیم اورمعراج محمد خان کی انقلابی سوچ بھٹو کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکی۔
جے اے رحیم کابینہ اور پارٹی سے نکالے گئے، جب کہ معراج محمد خان جیل پہنچادیے گئے اور جیل میں ہی ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گئے۔ حنیف رامے اور غلام مصطفیٰ کھربھی بھٹو سے اختلافات کے باعث مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔اسی طرح وہ پرانے لوگوں سے متنفر ہوتے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ نئے لوگوں نے پیپلزپارٹی کو ہائی جیک کرنا شروع کیا اور ڈبل گیم کھیلنا شروع کی۔ذوالفقار علی بھٹو 1977ء کے انتخابات تک کافی بدل چکے تھے۔
وہ پارٹی کے اساسی نظریہ سے دور ہٹتے گئے۔ چار اپریل 1979ء کو جنرل ضیاء الحق حکومت نے بھٹو کو پھانسی دے دی جسے عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔کئی سالوں کے بعد 1986ء میں بے نظیر بھٹو جو لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں، بالآخر متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زید کی مدد سے پاکستان واپس آنے میں کامیاب ہوئیں جہاں عوام نے اُن کا ایسا تاریخی اورشاندار استقبال کیاکہ میں بذات خود اس کا چشم دید گواہ ہوں ۔ مینار پاکستان پر ایسا جم غفیر تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ اس کے بعد بی بی اقتدار میں آگئیں لیکن وہی مصلحت پسندی اور الیکٹبلز کی سیاست میں گھر گئیں اور آخر کار دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں لیکن پیپلز پارٹی بھی ختم ہوگئی۔ اب تحریک انصاف اور عمران خان بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں ، اﷲ خیر کرے۔