پاکستان میں چوتھا سیاسی معجزہ
منتخب سویلین حکومتیں ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکارکی جرأت کرنے لگیں گی
وطن سے دوری کا کرب تارکین وطن سے پوچھیں ۔ اس سے کہیں زیادہ اذیت اورکرب کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں مجبوراً جلا وطنی اختیارکرنی پڑتی ہے یا جن کو جبراً جلا وطن کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں ، دانش وروں ، صحافیوں ، فنکاروں اور سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو اس طرح کے کرب ناک تجربوں سے گزرنا پڑا ہے۔ 2008کے عام انتخابات کا اعلان کیا جاچکا تھا ، دو جلا وطن اور عوام کے مقبول ترین سیاسی رہنما بے نظیر بھٹو اور نوازشریف وطن لوٹ چکے تھے ۔ انھیں ملک سے باہر رکھنے والے تھک ہارکر انھیں واپس آنے کی اجازت دینے پر مجبور تھے، لیکن آمریت اور جمہوریت کے درمیان جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی ۔
دونوں جلا وطن رہنماؤں کی واپسی پر عوام کا والہانہ اظہارمحبت اس بات کا اعلان تھا کہ انتخابات میں وہی کامیاب ہوں گے جنھیں آپ ناکام دیکھنے کے آرزو مند ہیں ،آپ کی طرف سے جو بساط بچھائی گئی ہے عوام اسے پلٹ دیں گے، سارے منصوبے اور تیاریاں دھری کی دھری رہ جائیں گی ۔ عوام کے دلوں سے رہنماؤں کی محبت نکالی نہیں جا سکتی تھی کیونکہ یہ محبت ایک دو نہیں بلکہ کروڑوں دلوں میں دھڑکتی تھی اس لیے بہتریہ تھا کہ یہ رہنما کسی طرح منظرعام سے غائب ہو جائیں لہٰذا بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ پورا ملک بد ترین بد امنی کی لپیٹ میں آ گیا ۔ سندھ کے عوام شدید غصے میں تھے ۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر اعظم اور عوام کے محبوب ترین رہنما ذوالفقارعلی بھٹو کا عدالتی قتل کیا جا چکا تھا ۔ اب اس کی بیٹی اورسابق وزیر اعظم بے نظیربھٹوکو قتل کردیا گیا تھا ۔
سندھ جس غضب ناک کیفیت سے دوچار تھا اس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا ۔ ایسے میں پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک مدبرانہ کردارکیا ۔آصف علی زرداری نے لوگوں کے اشتعال کو بھانپ لیا تھا ، یہ ایسی صورتحال تھی جووفاق کوکمزور کرسکتی تھی یاوفاق کو توڑبھی سکتی تھی ۔ انھوں نے 'پاکستان کھپے' یعنی ''پاکستان چاہیے''کا نعرہ لگایا اور لوگوں کو پیغام دیا کہ عوام جمہوریت قائم کرکے بی بی کے قتل کا انتقام لیں کیونکہ شہید بے نظیر بھٹوکی زندگی کا مقصد جمہوریت کی بحالی اور پاکستان کو ایک حقیقی اور مہذب جمہوری ریاست میں تبدیل کرنا تھا ۔
2008 کے عام انتخابات ہوئے ۔ کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی۔ تاہم ، پی پی پی پارلیمنٹ کی واحد سب سے بڑی جماعت بن کرسامنے آئی، ایک مخلوط حکومت بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ کار نہیں تھا ۔ مخلوط حکومت بنی لیکن اس منتخب حکومت کوایک دن بھی سکون سے کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ہر مرحلے پر اسے عدم استحکام میں سے دوچار کیا گیا۔ ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا کیا جاتا رہا ۔ پیش نظر مقاصد دو تھے ۔
پہلا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ منتخب سویلین حکومت ، فوجی حکومت کے مقابلے میں نا اہل ، بد عنوان اور بصیرت سے عاری ہوتی ہے ۔ اس تاثرکے عام ہونے سے عوام جمہوریت اور جمہوری عمل سے متنفر ہونے لگتے ہیں اور یوں منتخب حکومتوں پر دباؤڈال کر انھیں قابو میں رکھنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ منتخب حکومتوں کو عدم استحکام کی صورتحال میں رکھنے کا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو مستحکم ہونے سے روکا جائے کیونکہ اگر ایک مرتبہ جمہوریت اور اس کے تسلسل کاعمل پائیدار شکل اختیار لے تو جہاں غیر جمہوری طاقتوں کے لیے اقتدار میں آنا مشکل ہوجائے گا، وہیں دوسری جانب منتخب سویلین حکومتیں ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکارکی جرأت کرنے لگیں گی۔
ان دونوں مقاصد کے پیش نظر حکمت عملی یہ تھی کہ ایوان کے اندرسے تبدیلی لاکر سیاسی بحران کو پیچیدہ کیا جائے اورجب تک ایسا نہیں ہوجاتا اس وقت تک حکومت کوسخت ترین دباؤمیں رکھا جائے تاکہ وہ آزادانہ طورپرکام نہ کرسکے اور بالخصوص خارجہ امور سے متعلق سیاسی، سفارتی اور معاشی فیصلوں میں وہ وہی پالیسی اختیار کرے جس کا اسے حکم دیا جائے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے مذکورہ دور میں اس کے دو وزارئے اعظم معزول ہوئے۔
حکومت کے خلاف اتنا سخت میڈیا ٹرائل ہوا کہ آصف علی زرداری جیسے مضبوط اعصاب رکھنے والا شخص بھی نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوگیا۔ غیروں کے علاوہ اپنوں نے بھی کوئی قابل تحسین کردار ادا نہیں کیا ۔ تاہم، ملک کی دونوں بڑی جماعتوں میں اتنی بالغ نظری پیدا ہوچکی تھی کہ انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف آخری حد تک جانے سے گریزکیا اور یہ حکمت سامنے رکھی کہ جمہوری عمل کوختم کرنے کی کوئی بھی خواہش پوری نہیں ہونے دی جائے گی ۔ اس ذمے دارانہ طرز عمل کے باعث یہ حیرت انگیز معجزہ رونما ہوا کہ پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں کسی منتخب حکومت نے پہلی بار اپنی آئینی میعاد مکمل کرلی ۔ یہ منظر نامہ جمہوریت پسند لوگوں کے لیے خوش آیند تھا لیکن بعض حلقوں کے لیے یہ کسی سانحے سے کم بات نہیں تھی۔
2013میں ملک کی تاریخ میں پہلی بارایک منتخب حکومت نے اپنی آئینی میعاد مکمل کرکے اقتداردوسری منتخب حکومت کو منتقل کیا ۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا دوسرا معجزہ تھا۔یہ معجزہ رونما تو ہوگیا لیکن اس کے خلاف مقتدر طاقتوں کی طرف سے شدید ردعمل کا آنا ناگزیر تھا ۔ نوازشریف کی منتخب حکومت کے برسراقتدار آتے ہی ان کے خلاف ایک نفسیاتی فضا بنائی جانے لگی ۔
پہلے سال میاں صاحب کی ساکھ کے حوالے سے ایک مخصوص ماحول تیار کیا گیا اور2014 سے عملی اقدامات کا آغازکر دیا گیا۔ سی پیک کا منصوبہ تیارتھا، چین کے صدر پاکستان آنے والے تھے، پڑوسی ملکوں سے کشیدگی میں کمی واقع ہو رہی تھی، توانائی کے بحران پر قابو پانے کی منصوبہ بندی جا رہی تھی، لیکن مقتدرین کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ اگر ایک مضبوط سیاسی حکومت نے توانائی کا بحران حل کر لیا، امن وامان کی بہتر صورتحال پیدا ہوگئی اور علاقائی کشیدگی کی جگہ علاقائی تجارت کا عمل شروع ہوگیا تو پھرکھیل ہاتھ سے نکل جائے گا لہٰذا جمہوری حکومت کو عدم استحکام سے دو چارکرنے کا عمل ہنگامی طور پر شروع کر دیا گیا۔ ایک سال کے بعد یہ یاد آیا کہ 2013کے عام انتخابات میں بد ترین دھاندلی ہوئی تھی ۔ اس جعلی مفروضے کی بنیاد پر ملک گیرسطح پر ایک ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔
اس تنازع کے حل کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم کیا گیا جس کی سربراہی موجودہ نگراں وزیراعظم ، جسٹس ناصرالملک فرما رہے تھے ۔ طویل تحقیقات کے بعد عدالتی کمیشن نے فیصلہ دیا کہ 2013کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور دھاندلی کے الزامات غلط اوربے بنیاد ہیں ۔ اس محاذ پر ناکامی کے بعد دھرنا ون، دھرنا ٹو اور لاک ڈاؤن اور سول نافرمانی جیسے اقدامات کے ذریعے دوسری منتخب حکومت کو ایک دن بھی نہ سکون سے کام کرنے دیا گیا اور نہ چین کا سانس لینے دیا گیا ۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے تمام دباؤکا سامنا کیا اور ترقیاتی کام جاری رکھے ۔
انھیں معلوم تھاکہ صرف جمہوری تسلسل اور حکومت کی بہترکارکردگی کے ذریعے ہی اس خطرناک نوعیت کے دباؤکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو دباؤمیں رکھنے کے تمام حربے جب ناکام ہوگئے تو پاناما کا معاملہ اٹھا دیا گیا، اس معاملے میں وزیراعظم کے خلاف بدعنوانی کاکوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا تاہم ، اقامے کے مسئلے پر ان کو تاحیات نا اہل قرار دیا گیا اور انھیں اقتدار سے معزول ہونا پڑا ۔ نواز شریف نے معزولی کے بعد دوجہتی حکمت عملی اختیار کی۔ پہلی حکمت عملی یہ تھی کہ نااہلی کے بعد گھر میں بیٹھنے، جلاوطنی اختیارکرنے یا کوئی این آراو کرنے کے بجائے عوام میں واپس جا کر ان کی عدالت میں اپنا مقدمہ رکھ دیا جائے ۔ بہت سے لوگوں نے جن میں ان کے دوست اور بہی خواہ بھی شامل تھے انھیں ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن انھوں نے سیاسی پہل کاری کافیصلہ کرلیا ۔ جی ٹی روڈ کے بے مثال عوامی استقبال نے سیاسی بساط پر جمی بازی پلٹ دی ۔ وہ سیاسی رہنما، جسے عوام کی نظرمیں نشان عبرت بنایا جانا تھا ' اس فیصلے کے بعد وہ عوام کامقبول ترین رہنما بن گیا ۔
اس صورتحال سے یہ اصول درست ثابت ہوگیا کہ سیاستدان کوکبھی غیر سیاسی طریقوں سے عوام میں غیرمقبول نہیں بنایا جاسکتا۔ نوازشریف کی دوسری حکمت عملی یہ تھی کہ وہ سیاسی محاذ پر عوام سے مسلسل رابطے میں رہیں گے اور ان کی حکومت کسی اشتعال میں آئے بغیر اپنے ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی ، ہر قیمت پر اپنی میعاد مکمل کرے گی اور کسی بھی صورت میں اپنی آئینی میعاد سے ایک دن بھی قبل مستعفی نہیں ہوگی ۔ ان کی یہ دوجہتی حکمت عملی کامیاب ہوئی ۔ نواز شریف عوام سے مسلسل رابطے میں ہیں ، اپنے خلاف ہر مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ تیسرامعجزہ بھی کردکھایا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ دوسری منتخب حکومت نے اپنی آئینی میعاد مکمل کرلی ۔
اب 2018کے انتخابات سامنے ہیں ۔ سب عوام کے دربارمیں پیش ہونے والے ہیں ، سیاسی بساط پر چالیں چلی جا رہی ہیں ۔اب کوشش یہ ہے کہ اگر بعض داخلی،علاقائی اورعالمی وجوہ کی بناء پر جمہوری تسلسل کو توڑنا ممکن نہیں رہا ہے توکم ازکم ایک ایسی تابعدار منتخب حکومت وجود میں لائی جائے جو ہرحکم بجا لائے اور ایسے سیاسی رہنماؤں سے جان چھڑالی جائے جو یہ موقف رکھتے ہیں کہ تمام ادارے اپنے آئینی دائرہ کارسے تجاوز نہ کریں اورعوام جس جماعت کومینڈیٹ دیں ، اس کی حاکمیت کوقبول کیاجائے، اگرعوام نے یہ چال بھی ناکام بنا دی تو پاکستان میں چوتھا سیاسی معجزہ بھی رونما ہو جائے گا۔