صحت سب کے لیے
سندھی میں شاعری بھی شروع کردی ۔ مرلی لاڑکانہ آگئے اور چانڈکا میڈیکل کالج کے طالب علم ہوگئے
'' غریبوں سے محبت کرو '' ڈاکٹر مرلی نے اپنے دادا سے یہ سبق سیکھا اور اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ۔ ڈاکٹر مرلی دھر سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع تاریخی شہر جیکب آباد میں ایک نچلے متوسط طبقے کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ گھر کا گزارا ایک چھوٹی سی دکان سے ہوتا تھا۔ دادا وش داس چھابڑیہ روایتی تعلیم سے محروم تھے مگر قومی اور بین الاقوامی صورتحال کا ادراک رکھتے تھے ۔ چین کا سوشلزم ان کی گفتگو کا ہمیشہ موضوع ہوتا تھا۔
مرلی کو سوشلزم کا لفظ اور برابری کا درس دادا کی زبانی ملا ۔ مرلی کے والد رام چند چھابڑیہ یوں تو دکان چلاتے تھے مگر مندر کے اعزازی مینیجر کا فریضہ بھی انجام دیتے اور لنگر سے کھانے کی فراہمی کی نگرانی بھی کرتے۔ رام چند اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ نچلی ذات کے ہندو بغیر کسی رکاوٹ کے مندر میں آئیں اور انھیں کھانا ملے۔ مرلی اپنی پرانی یاد داشتوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ والد صاحب بعض اوقات نچلی ذات کے ہندو کے ساتھ فرش پر بیٹھ جاتے اور کھانا چکھنے لگتے۔ یہ سب کچھ روایات کے خلاف تھا مگر میرے والد نے زندگی بھر یہ طریقہ برقرار رکھا ۔ مرلی نے بچپن میں گروصاحب کی شردھا کی وجہ سے گرنتھ صاحب کی تعلیم حاصل کی اور پھر بچوں کو گرنتھ پڑھانے لگے۔ مرلی نے جیکب آباد کے سرکاری اسکول سے میٹرک پاس کیا، گورنمنٹ کالج جیکب آباد سے انٹر سائنس اور بی ایس سی کی سند حاصل کی۔
یہ 1977ء کا دور تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے تحریک شروع کی ہوئی تھی، اگرچہ مرلی کا چانڈکا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا تھا مگر تعلیمی ادارے بند تھے۔ مرلی کے دادا نے کہا کچھ کام کرو تو مرلی نے سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما امداد اوڈھو کے ساتھ پریس میں کام شروع کیا۔ ایک دن جیکب آباد کے سینئر صحافی منصور میرانی پریس میں آئے اور انگریز راج کے خلاف جدوجہد کرنے اور سزائے موت پانے والے ہیرو ہیموں کالانی کے بارے میں پوچھا ۔ مرلی نے سچائی سے کہہ دیا کہ وہ ہیموں کالانی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ یہ مرلی کی زندگی کا تاریخی لمحہ تھا۔ اب انھوں نے تاریخ اور سماجی علوم کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا ۔
سندھی میں شاعری بھی شروع کردی ۔ مرلی لاڑکانہ آگئے اور چانڈکا میڈیکل کالج کے طالب علم ہوگئے۔ یہ 80ء کی دہائی کا آغاز تھا۔ ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے پھانسی دیدی تھی۔ سندھ کے نوجوان ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے خلاف سینہ سپر تھے۔ کمیونسٹ پارٹی سندھ میں پھیل رہی تھی۔ نوجوان نذیرعباسی اور جام ساقی کو آئیڈیل بنا رہے تھے۔ مرلی نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (D.S.F) میں شمولیت اختیار کرلی۔ پیپلز پارٹی اور دیگر مخالف جماعتوں نے تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) قائم کی اور ایم آر ڈی نے فوجی جنتا کے اقتدارکے خاتمے کے لیے تاریخی جدوجہد شروع کردی تھی۔
لاڑکانہ، جیکب آباد، خیرپور ، سکھر اور اطراف کے علاقے ایم آر ڈی کی تحریک کا مرکز تھے۔ فوجی انتظامیہ نے چانڈکا میڈیکل کالج کے طلبہ پر بھی پابندیاں عائد کردی تھیں ۔ ڈی ایس ایف کے کارکن مارشل لاء حکام کا براہِ راست نشانہ بنے۔ مرلی اس ماحول میں ڈ ی ایس ایف میں متحرک تھے اور ایک اچھے ڈاکٹر بننے کے لیے تعلیم پر توجہ دے رہے تھے۔ مرلی نے اپنے نظریہ سے وابستگی برقرار رکھی اور اچھے طالب علم کے معیار کو بھی برقرار رکھا۔ مرلی کو مطالعے اور لکھنے کا شوق اسکول کے زمانے سے تھا۔ چانڈکا میڈیکل کالج کے سندھی زبان میں شایع ہونے والے رسالے دیوالی کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔
لاڑکانہ میں انھیں عظیم کمیونسٹ رہنما سوبھوگیان چندانی کی شاگردی ملی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا وارڈ چھوٹا سا تھا مگر اپنے معیار اور مریضوں سے حسن سلوک کی بناء پر شہرت پا رہا تھا مگر ڈاکٹر ادیب ڈسپلین کے معاملے میں کسی رعایت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ انھیں ایسے ڈاکٹر چاہیے تھے جو اپنی زندگی یورالوجی وارڈ کو بنائیں۔ ڈاکٹر مرلی نے ڈاکٹر ادیب کے آہنی ڈسپلن کے چیلنج کو قبول کیا اور اپنی زندگی عملی طور پر ادیب صاحب کے نام کردی ۔ ڈاکٹر ادیب الحسن اور ان کی ٹیم کی ان تھک کوششوں کی بناء پر یورالوجی وارڈ انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہوا۔ اس کی شاخیں سکھر اور لاڑکانہ وغیرہ میں قائم ہوئیں۔
ڈاکٹر مرلی نے اپنی زندگی کو حقیقی معنوں میں تبدیل کیا۔ ان کی شادی ڈاکٹر پشپا ولبھ سے ہوئی۔ ہندو دھرم میں دلہن قیمتی جہیز سے لدی ہوئی دلہا کے گھر آتی ہے مگر مرلی نے شادی سے پہلے صرف یہ شرط عائد کی کہ وہ جہیز نہیں لیں گے اور اپنی اس شرط کو بخوبی نبھایا۔ انھوں نے 1999ء میں کراچی یونیورسٹی سے سرجری میں ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ایم ڈی کی سند پی ایچ ڈی کی سند کے مساوی ہے۔ مرلی نے مریضوں کے آپریشن کے علاوہ صحت سے متعلق عام لوگوں میں آگہی کے مشن کو بھی اپنایا۔ انھوں نے سندھی زبان کے کراچی سے شایع ہونے والے اخبار عوامی آواز میں صحت کا صفحہ شروع کیا۔
اس صفحے میں آسان زبان میں امراض کے اسباب اور ان کے تدارک کے لیے لوگوں کے ذہنوں کی تبدیلی کے لیے مضامین اور آرٹیکل شایع ہوئے۔ ڈاکٹر مرلی کے صحت سے متعلق آرٹیکلز پر مشتمل کتاب صحت سب لاء شایع ہوئی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اس کتاب کے مطالعے کے ساتھ مشورہ دیا کہ یہ اردو میں شایع ہونی چاہیے۔ ممتاز محقق اور دانشور اسلم خواجہ نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا، یوں ایوب ملک نے اپنی مکتبہ بدلتی دنیا کے تحت صحت سب کے لیے کو خوبصورت انداز میں شایع کیا۔
یہ کتاب 2160 صفحات اور 74 آرٹیکلز پر مشتمل ہے۔ معروف ایڈیٹر ڈاکٹر جبار خٹک کتاب کے پیش لفظ دائمی درد کا درما کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ نظریاتی شخص ہونے کی بناء پر ڈاکٹر مرلی دھر اب پیسہ کمانے والوں اور قصائی بنے ہوئے طبیبوں جیسا نہیں بلکہ دائمی درد کا حقیقی درماں بنتے ہوئے نظر آئیں ۔ اس لیے علاج معالجے اور ادویات کے آسمان سے باتیں کرنے والے اخراجات سے انھیں بچانے کے لیے وہ اپنے طبی مضامین اور اداریوں کو غریب اور مجبور عوام کے لیے استعمال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کیوبا اپنے ہر شہری پر سالانہ 260 ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ ہمارے جیسے غریب ملک کے لیے کیوبا کی طرز پر احتیاط عاج سے بہتر والی باتیں موزوں ہیں۔ فوجی حکومتوں نے برازیل کے شعبہ صحت کا خانہ خراب کیا ہے۔ روس میں بھی صحت کا شعبہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کمزور ہے۔
حالانکہ نوے فیصد آبادی کا سرکاری شعبہ ہے۔ تاہم فنڈ کی کمی سے دولت مند پرائیویٹ علاج کراتے ہیں۔ ڈاکٹر ہمیشہ بخشش طلب کرتے ہیں۔ کیوبا کے ممالک میں صحت کا شعبہ تاحال مضبوط ہے ۔ عالمی ادارہ صحت (W.H.O) کا کہنا ہے کہ ہر ملک اپنی قومی آمدنی کا کم از کم پانچ فیصد صحت پر خرچ کرے۔ ہمارے ہاں یہ شرح 0.44 فیصد ہے۔ ڈاکٹر مرلی کی کتاب صحت سب کے لیے میں صحت سے متعلق اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں، یوں صحت سے متعلق امور پر آگہی کے لیے یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ کتاب کے پبلشر ایوب ملک مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اتنے اہم موضوع پر اعلیٰ معیار کی کتاب شایع کی۔
مرلی کو سوشلزم کا لفظ اور برابری کا درس دادا کی زبانی ملا ۔ مرلی کے والد رام چند چھابڑیہ یوں تو دکان چلاتے تھے مگر مندر کے اعزازی مینیجر کا فریضہ بھی انجام دیتے اور لنگر سے کھانے کی فراہمی کی نگرانی بھی کرتے۔ رام چند اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ نچلی ذات کے ہندو بغیر کسی رکاوٹ کے مندر میں آئیں اور انھیں کھانا ملے۔ مرلی اپنی پرانی یاد داشتوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ والد صاحب بعض اوقات نچلی ذات کے ہندو کے ساتھ فرش پر بیٹھ جاتے اور کھانا چکھنے لگتے۔ یہ سب کچھ روایات کے خلاف تھا مگر میرے والد نے زندگی بھر یہ طریقہ برقرار رکھا ۔ مرلی نے بچپن میں گروصاحب کی شردھا کی وجہ سے گرنتھ صاحب کی تعلیم حاصل کی اور پھر بچوں کو گرنتھ پڑھانے لگے۔ مرلی نے جیکب آباد کے سرکاری اسکول سے میٹرک پاس کیا، گورنمنٹ کالج جیکب آباد سے انٹر سائنس اور بی ایس سی کی سند حاصل کی۔
یہ 1977ء کا دور تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے تحریک شروع کی ہوئی تھی، اگرچہ مرلی کا چانڈکا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا تھا مگر تعلیمی ادارے بند تھے۔ مرلی کے دادا نے کہا کچھ کام کرو تو مرلی نے سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما امداد اوڈھو کے ساتھ پریس میں کام شروع کیا۔ ایک دن جیکب آباد کے سینئر صحافی منصور میرانی پریس میں آئے اور انگریز راج کے خلاف جدوجہد کرنے اور سزائے موت پانے والے ہیرو ہیموں کالانی کے بارے میں پوچھا ۔ مرلی نے سچائی سے کہہ دیا کہ وہ ہیموں کالانی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ یہ مرلی کی زندگی کا تاریخی لمحہ تھا۔ اب انھوں نے تاریخ اور سماجی علوم کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا ۔
سندھی میں شاعری بھی شروع کردی ۔ مرلی لاڑکانہ آگئے اور چانڈکا میڈیکل کالج کے طالب علم ہوگئے۔ یہ 80ء کی دہائی کا آغاز تھا۔ ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے پھانسی دیدی تھی۔ سندھ کے نوجوان ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے خلاف سینہ سپر تھے۔ کمیونسٹ پارٹی سندھ میں پھیل رہی تھی۔ نوجوان نذیرعباسی اور جام ساقی کو آئیڈیل بنا رہے تھے۔ مرلی نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (D.S.F) میں شمولیت اختیار کرلی۔ پیپلز پارٹی اور دیگر مخالف جماعتوں نے تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) قائم کی اور ایم آر ڈی نے فوجی جنتا کے اقتدارکے خاتمے کے لیے تاریخی جدوجہد شروع کردی تھی۔
لاڑکانہ، جیکب آباد، خیرپور ، سکھر اور اطراف کے علاقے ایم آر ڈی کی تحریک کا مرکز تھے۔ فوجی انتظامیہ نے چانڈکا میڈیکل کالج کے طلبہ پر بھی پابندیاں عائد کردی تھیں ۔ ڈی ایس ایف کے کارکن مارشل لاء حکام کا براہِ راست نشانہ بنے۔ مرلی اس ماحول میں ڈ ی ایس ایف میں متحرک تھے اور ایک اچھے ڈاکٹر بننے کے لیے تعلیم پر توجہ دے رہے تھے۔ مرلی نے اپنے نظریہ سے وابستگی برقرار رکھی اور اچھے طالب علم کے معیار کو بھی برقرار رکھا۔ مرلی کو مطالعے اور لکھنے کا شوق اسکول کے زمانے سے تھا۔ چانڈکا میڈیکل کالج کے سندھی زبان میں شایع ہونے والے رسالے دیوالی کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔
لاڑکانہ میں انھیں عظیم کمیونسٹ رہنما سوبھوگیان چندانی کی شاگردی ملی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا وارڈ چھوٹا سا تھا مگر اپنے معیار اور مریضوں سے حسن سلوک کی بناء پر شہرت پا رہا تھا مگر ڈاکٹر ادیب ڈسپلین کے معاملے میں کسی رعایت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ انھیں ایسے ڈاکٹر چاہیے تھے جو اپنی زندگی یورالوجی وارڈ کو بنائیں۔ ڈاکٹر مرلی نے ڈاکٹر ادیب کے آہنی ڈسپلن کے چیلنج کو قبول کیا اور اپنی زندگی عملی طور پر ادیب صاحب کے نام کردی ۔ ڈاکٹر ادیب الحسن اور ان کی ٹیم کی ان تھک کوششوں کی بناء پر یورالوجی وارڈ انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہوا۔ اس کی شاخیں سکھر اور لاڑکانہ وغیرہ میں قائم ہوئیں۔
ڈاکٹر مرلی نے اپنی زندگی کو حقیقی معنوں میں تبدیل کیا۔ ان کی شادی ڈاکٹر پشپا ولبھ سے ہوئی۔ ہندو دھرم میں دلہن قیمتی جہیز سے لدی ہوئی دلہا کے گھر آتی ہے مگر مرلی نے شادی سے پہلے صرف یہ شرط عائد کی کہ وہ جہیز نہیں لیں گے اور اپنی اس شرط کو بخوبی نبھایا۔ انھوں نے 1999ء میں کراچی یونیورسٹی سے سرجری میں ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ایم ڈی کی سند پی ایچ ڈی کی سند کے مساوی ہے۔ مرلی نے مریضوں کے آپریشن کے علاوہ صحت سے متعلق عام لوگوں میں آگہی کے مشن کو بھی اپنایا۔ انھوں نے سندھی زبان کے کراچی سے شایع ہونے والے اخبار عوامی آواز میں صحت کا صفحہ شروع کیا۔
اس صفحے میں آسان زبان میں امراض کے اسباب اور ان کے تدارک کے لیے لوگوں کے ذہنوں کی تبدیلی کے لیے مضامین اور آرٹیکل شایع ہوئے۔ ڈاکٹر مرلی کے صحت سے متعلق آرٹیکلز پر مشتمل کتاب صحت سب لاء شایع ہوئی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اس کتاب کے مطالعے کے ساتھ مشورہ دیا کہ یہ اردو میں شایع ہونی چاہیے۔ ممتاز محقق اور دانشور اسلم خواجہ نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا، یوں ایوب ملک نے اپنی مکتبہ بدلتی دنیا کے تحت صحت سب کے لیے کو خوبصورت انداز میں شایع کیا۔
یہ کتاب 2160 صفحات اور 74 آرٹیکلز پر مشتمل ہے۔ معروف ایڈیٹر ڈاکٹر جبار خٹک کتاب کے پیش لفظ دائمی درد کا درما کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ نظریاتی شخص ہونے کی بناء پر ڈاکٹر مرلی دھر اب پیسہ کمانے والوں اور قصائی بنے ہوئے طبیبوں جیسا نہیں بلکہ دائمی درد کا حقیقی درماں بنتے ہوئے نظر آئیں ۔ اس لیے علاج معالجے اور ادویات کے آسمان سے باتیں کرنے والے اخراجات سے انھیں بچانے کے لیے وہ اپنے طبی مضامین اور اداریوں کو غریب اور مجبور عوام کے لیے استعمال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کیوبا اپنے ہر شہری پر سالانہ 260 ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ ہمارے جیسے غریب ملک کے لیے کیوبا کی طرز پر احتیاط عاج سے بہتر والی باتیں موزوں ہیں۔ فوجی حکومتوں نے برازیل کے شعبہ صحت کا خانہ خراب کیا ہے۔ روس میں بھی صحت کا شعبہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کمزور ہے۔
حالانکہ نوے فیصد آبادی کا سرکاری شعبہ ہے۔ تاہم فنڈ کی کمی سے دولت مند پرائیویٹ علاج کراتے ہیں۔ ڈاکٹر ہمیشہ بخشش طلب کرتے ہیں۔ کیوبا کے ممالک میں صحت کا شعبہ تاحال مضبوط ہے ۔ عالمی ادارہ صحت (W.H.O) کا کہنا ہے کہ ہر ملک اپنی قومی آمدنی کا کم از کم پانچ فیصد صحت پر خرچ کرے۔ ہمارے ہاں یہ شرح 0.44 فیصد ہے۔ ڈاکٹر مرلی کی کتاب صحت سب کے لیے میں صحت سے متعلق اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں، یوں صحت سے متعلق امور پر آگہی کے لیے یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ کتاب کے پبلشر ایوب ملک مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اتنے اہم موضوع پر اعلیٰ معیار کی کتاب شایع کی۔