اسمارٹ ٹیکنالوجی
یہ ٹیکنالونی اتنی برق رفتاری سے ہمارے مشرقی معاشرے کی جڑوں میں پھیل رہی ہے کہ ہم خود بھی حیران و پریشان ہیں
''اسمارٹ'' انگریزی کا وہ لفظ ہے جو آج کی دنیا میں عملی زندگی میں کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔ ''اسمارٹ'' کا اردو مفہوم ہے ہوشیار، اگر آپ پڑھے لکھے نہ بھی ہوں مگر اسمارٹ(ہوشیار) ہیں تو دنیا کے ہر شعبے میں آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ جناب اسمارٹ کلچر کی بات ہورہی ہے تو یہ اصلاح اب ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی اتنی ہی غالب ہے اب آیئے ذرا یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسمارٹ ٹیکنالوجی ہماری زندگی میں کیا کیا گل کھلارہی ہے؟ جی ہاں! اسمارٹ ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
ہمارے بچپن میں ایک پرچون کی دکان کا مالک بھی بغیرکسی کیلکیولیٹر کے اپنا تمام حساب کتاب اﷲ تعالیٰ کے عطا کردہ دماغ کی مدد سے با آسانی کرلیتا تھا اور اب حال یہ ہے کہ جناب بغیرکیلکیولیٹر صاحب کے لوگوں کے لیے ایک اور ایک دو کا حساب لگانا بھی مشکل ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اسمارٹ ٹیکنالوجی نے ہمیں ناکارہ، نکما اور محتاج بنادیا یا کار آمد! پھر Wi-fi، انٹرنیٹ اور یوٹیوب نے آکر معلومات کے نام پر چور راستوں سے فحاشی اور بے حیائی پھیلاکر انسان کی زندگی کا چین و سکون ہی چھین لیا اور دنیا کو اخلاقی طور پر دیوالیہ کردیا۔ موبائل صاحب کی آمد نے SMS اور MMS نے رابطے کے نام پر لوگوں کو فراغت سے بلاوجہ مصروفیت کا سامان فراہم کیا۔
لوگوں سے رابطے کے نام پر شروع ہونے والا یہ سلسلہ در اصل لوگوں کی تباہی کا ذریعہ بنا۔ پھر یہ اسمارٹ ٹیکنالوجی گھروں، تعلیمی اداروں اور دفاتر پر بنا دستک دیے حملہ آور ہوگئی۔ گویا بڑے تو بڑے بچے بھی اس کی زد میں بری طرح آگئے۔ انسانی اور اخلاقی قدریں پامال ہوتی چلی گئیں نہ دن دن رہا اور نہ رات رات۔ یہ اسمارٹ اور فاسٹ ٹیکنالوجی بڑی تیزی سے نوجوان نسل اور بچوں بوڑھوں کی رگ و پے میں زہر قاتل کی طرح سرائیت کر گئی۔
اس کی وجہ سے بچوں کا بچپن ختم ہوگیا۔ بچے وقت سے پہلے ہی جوان اور بوڑھے بزرگی کی منزل طے کیے بنا ہی پھر سے جوان ہونے لگے۔ غرضیکہ اس اسمارٹ ٹیکنالوجی نے زندگی کو آسان سے مشکل بنا ڈالا۔ دنیا آپے سے ہی باہر ہوگئی۔ مزید یہ کہ اس سستی ٹیکنالوجی نے سستی شہرت کے حصول کے لیے انسان کو بھی ایک Product بنادیا جس کے نتیجے میں انسان سستا اور انسانیت بہت مہنگی ہوگئی۔ فحاشیاور بد نظری اسمارٹ ٹیکنالوجی کے وہ سستے ہتھیار ہیں جنھوں نے انسانیت کی عصمت کو تار تار کرکے انسان کو اشرف المخلوقات سے درندہ بنادیا۔
اسمارٹ ٹیکنالوجی تو ایٹم بم سے بھی زیادہ تباہ کن نکلی جس کے اثرات آنے والی نسلوں تک رہیںگے۔ یہ اسی اسمارٹ ٹیکنالوجی کا شاخسانہ ہے کہ آئے دن عصمت دری اور معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہورہے ہیں۔ یہ ME-TOO کی باز گشت جو جگہ جگہ سے سنائی دے رہی ہے یہ سب اسمارٹ ٹیکنالوجی اور اسمارٹ لائف اسٹائل کے ہی تحفے ہیں۔
انسان کی خودی کا خاتمہ کرکے خود نمائی، خود ستائشی اور خود پسندی میں مبتلا کردینے والی یہ متعدی اسمارٹ ٹیکنالوجی ہی ہے جو Selfi کی صورت میں جان لیوا ثابت ہورہی ہے۔ لوگوں کے راتوں رات مشہور ہونے اور شہرت پانے کے جنون میں اسی غیر ملکی ٹیکنالوجی کا ہی ہاتھ ہے اور تو اور اسمارٹ ٹیکنالوجی کی وجہ سے نوجوان نسل اتنی آزاد ہوتی ہے کہ شرم و حیا کی تمام قیود و حدود کو پار کرکے اس نے انسانیت کو برہنہ و بے لباس کردیا ہے، یہی اسمارٹ ٹیکنالوجی بے پرواہ اور آزاد عشق و عاشقی کی بے حدود و بے لگام آوارگی کی بھی ذمے دار ہے۔ آخر یہ کسی اسمارٹ ٹیکنالوجی ہے جس نے اتنی ہوشیار سے انسان کو اپنے جال میں پھنسا کر اس سے اس کا اصل ہی چھین لیا ہے اور اسے خود فریبی کی بیماری میں مبتلا کرکے در حقیقت اسے اپنا غلام بنالیا ہے۔ گویا دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا Facebook کے توسط سے ہونے والی شادیوں کی وبا بھی اسی ٹیکنالوجی کی پیداوار ہے جس کے عبرت ناک انجام کی خبریں آئے دن میڈیا میں گردش کرتی رہتی ہیں۔
بظاہر دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ویلیج بنادینے کی دعوے دار اس ٹیکنالوجی نے بچوں کو بڑوں سے دور کرکے خاندانوں کے درمیان فاصلوں کی خلیجیں حائل کردی ہیں جس کے نتیجے میں گھروں میں آپس میں مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کی برسوں پرانی انسانی روایت دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے اور دلوں کے فاصلے کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ بقول اکبر آلٰہ آبادی۔
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جاکر
یہ ٹیکنالونی اتنی برق رفتاری سے ہمارے مشرقی معاشرے کی جڑوں میں پھیل رہی ہے کہ ہم خود بھی حیران و پریشان ہیں۔ نتیجتاً ہم نہ تو پوری طرح مغربی بن سکے ہیں اور نہ ہی ہم میں ہماری مشرقیت کی رمق باقی رہی ہے۔ یعنی ہمارا حال تو کچھ یوں ہے:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ اس بلا نے ہمارے بچوں سے ان کی معصومیت بھی چھین لی ہے اور ان کی سوچ اور حرکات میں بے باکی، بے حجابی اور منہ زوری جیسی بری عادتیں شامل ہورہی ہیں اور بچے اپنے وقت سے پہلے بڑے ہورہے ہیں یہ مہلک ٹیکنالوجی نوجوان نسل کو علم و فہم اور مقصدیت سے ہٹاکر مادیت پسندی کے اندھے کنویں میں دھکیل رہی ہے جس کے باعث بچے اور نوجوان اپنی تعلیم سے غافل ہوکر Farm- Ville, Crusm اور Built Walt کا لقمہ بن رہے ہیں۔ اس اسمارٹ ٹیکنالوجی کے سبب ہر اسمارٹ چیز اتنی سستی ہوچکی ہے کہ بچوں، نوجوانوں اور یہاں تک کہ بہت سے بوڑھوں کو بھی اس کی پہنچ سے دور رکھنا مشکل و ناممکن ہوتا جارہاہے۔ بقول جون ایلیا:
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
کہاجاتا کہ ''ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند جسم میں پروان چڑھتا ہے'' پہلے کا انسان جتنا فعال، متحرک اور صحت مند تھا اس کے مقابلے میں آج کا انسان اتنا ہی سست، بیمار اور نکما ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ انسان نے اپنے ہر کام کی ذمے داری مشینوں اور ٹیکنالوجی کو سونپ کر خود کو آرام پسند اور سہل پسند بنالیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی صحت کا گراف بھی نیچے آگیا ہے یہی ٹیکنالوجی نہ جانے کتنے قابل اور عالم و فاضل انسانوں کی نوکریاں اور زندگیاں ہڑپ کرگئی۔ کررہی ہے اور کرتی رہے گی تاوقتیکہ اس کی انسانی زندگی میں ہر جگہ بے جا مداخلت کا بندوبست نہیں کیاجاتا۔ بقول اقبال:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کوکچل دیتے ہیں آلات
ہمارے بچپن میں ایک پرچون کی دکان کا مالک بھی بغیرکسی کیلکیولیٹر کے اپنا تمام حساب کتاب اﷲ تعالیٰ کے عطا کردہ دماغ کی مدد سے با آسانی کرلیتا تھا اور اب حال یہ ہے کہ جناب بغیرکیلکیولیٹر صاحب کے لوگوں کے لیے ایک اور ایک دو کا حساب لگانا بھی مشکل ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اسمارٹ ٹیکنالوجی نے ہمیں ناکارہ، نکما اور محتاج بنادیا یا کار آمد! پھر Wi-fi، انٹرنیٹ اور یوٹیوب نے آکر معلومات کے نام پر چور راستوں سے فحاشی اور بے حیائی پھیلاکر انسان کی زندگی کا چین و سکون ہی چھین لیا اور دنیا کو اخلاقی طور پر دیوالیہ کردیا۔ موبائل صاحب کی آمد نے SMS اور MMS نے رابطے کے نام پر لوگوں کو فراغت سے بلاوجہ مصروفیت کا سامان فراہم کیا۔
لوگوں سے رابطے کے نام پر شروع ہونے والا یہ سلسلہ در اصل لوگوں کی تباہی کا ذریعہ بنا۔ پھر یہ اسمارٹ ٹیکنالوجی گھروں، تعلیمی اداروں اور دفاتر پر بنا دستک دیے حملہ آور ہوگئی۔ گویا بڑے تو بڑے بچے بھی اس کی زد میں بری طرح آگئے۔ انسانی اور اخلاقی قدریں پامال ہوتی چلی گئیں نہ دن دن رہا اور نہ رات رات۔ یہ اسمارٹ اور فاسٹ ٹیکنالوجی بڑی تیزی سے نوجوان نسل اور بچوں بوڑھوں کی رگ و پے میں زہر قاتل کی طرح سرائیت کر گئی۔
اس کی وجہ سے بچوں کا بچپن ختم ہوگیا۔ بچے وقت سے پہلے ہی جوان اور بوڑھے بزرگی کی منزل طے کیے بنا ہی پھر سے جوان ہونے لگے۔ غرضیکہ اس اسمارٹ ٹیکنالوجی نے زندگی کو آسان سے مشکل بنا ڈالا۔ دنیا آپے سے ہی باہر ہوگئی۔ مزید یہ کہ اس سستی ٹیکنالوجی نے سستی شہرت کے حصول کے لیے انسان کو بھی ایک Product بنادیا جس کے نتیجے میں انسان سستا اور انسانیت بہت مہنگی ہوگئی۔ فحاشیاور بد نظری اسمارٹ ٹیکنالوجی کے وہ سستے ہتھیار ہیں جنھوں نے انسانیت کی عصمت کو تار تار کرکے انسان کو اشرف المخلوقات سے درندہ بنادیا۔
اسمارٹ ٹیکنالوجی تو ایٹم بم سے بھی زیادہ تباہ کن نکلی جس کے اثرات آنے والی نسلوں تک رہیںگے۔ یہ اسی اسمارٹ ٹیکنالوجی کا شاخسانہ ہے کہ آئے دن عصمت دری اور معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہورہے ہیں۔ یہ ME-TOO کی باز گشت جو جگہ جگہ سے سنائی دے رہی ہے یہ سب اسمارٹ ٹیکنالوجی اور اسمارٹ لائف اسٹائل کے ہی تحفے ہیں۔
انسان کی خودی کا خاتمہ کرکے خود نمائی، خود ستائشی اور خود پسندی میں مبتلا کردینے والی یہ متعدی اسمارٹ ٹیکنالوجی ہی ہے جو Selfi کی صورت میں جان لیوا ثابت ہورہی ہے۔ لوگوں کے راتوں رات مشہور ہونے اور شہرت پانے کے جنون میں اسی غیر ملکی ٹیکنالوجی کا ہی ہاتھ ہے اور تو اور اسمارٹ ٹیکنالوجی کی وجہ سے نوجوان نسل اتنی آزاد ہوتی ہے کہ شرم و حیا کی تمام قیود و حدود کو پار کرکے اس نے انسانیت کو برہنہ و بے لباس کردیا ہے، یہی اسمارٹ ٹیکنالوجی بے پرواہ اور آزاد عشق و عاشقی کی بے حدود و بے لگام آوارگی کی بھی ذمے دار ہے۔ آخر یہ کسی اسمارٹ ٹیکنالوجی ہے جس نے اتنی ہوشیار سے انسان کو اپنے جال میں پھنسا کر اس سے اس کا اصل ہی چھین لیا ہے اور اسے خود فریبی کی بیماری میں مبتلا کرکے در حقیقت اسے اپنا غلام بنالیا ہے۔ گویا دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا Facebook کے توسط سے ہونے والی شادیوں کی وبا بھی اسی ٹیکنالوجی کی پیداوار ہے جس کے عبرت ناک انجام کی خبریں آئے دن میڈیا میں گردش کرتی رہتی ہیں۔
بظاہر دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ویلیج بنادینے کی دعوے دار اس ٹیکنالوجی نے بچوں کو بڑوں سے دور کرکے خاندانوں کے درمیان فاصلوں کی خلیجیں حائل کردی ہیں جس کے نتیجے میں گھروں میں آپس میں مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کی برسوں پرانی انسانی روایت دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے اور دلوں کے فاصلے کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ بقول اکبر آلٰہ آبادی۔
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جاکر
یہ ٹیکنالونی اتنی برق رفتاری سے ہمارے مشرقی معاشرے کی جڑوں میں پھیل رہی ہے کہ ہم خود بھی حیران و پریشان ہیں۔ نتیجتاً ہم نہ تو پوری طرح مغربی بن سکے ہیں اور نہ ہی ہم میں ہماری مشرقیت کی رمق باقی رہی ہے۔ یعنی ہمارا حال تو کچھ یوں ہے:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ اس بلا نے ہمارے بچوں سے ان کی معصومیت بھی چھین لی ہے اور ان کی سوچ اور حرکات میں بے باکی، بے حجابی اور منہ زوری جیسی بری عادتیں شامل ہورہی ہیں اور بچے اپنے وقت سے پہلے بڑے ہورہے ہیں یہ مہلک ٹیکنالوجی نوجوان نسل کو علم و فہم اور مقصدیت سے ہٹاکر مادیت پسندی کے اندھے کنویں میں دھکیل رہی ہے جس کے باعث بچے اور نوجوان اپنی تعلیم سے غافل ہوکر Farm- Ville, Crusm اور Built Walt کا لقمہ بن رہے ہیں۔ اس اسمارٹ ٹیکنالوجی کے سبب ہر اسمارٹ چیز اتنی سستی ہوچکی ہے کہ بچوں، نوجوانوں اور یہاں تک کہ بہت سے بوڑھوں کو بھی اس کی پہنچ سے دور رکھنا مشکل و ناممکن ہوتا جارہاہے۔ بقول جون ایلیا:
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
کہاجاتا کہ ''ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند جسم میں پروان چڑھتا ہے'' پہلے کا انسان جتنا فعال، متحرک اور صحت مند تھا اس کے مقابلے میں آج کا انسان اتنا ہی سست، بیمار اور نکما ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ انسان نے اپنے ہر کام کی ذمے داری مشینوں اور ٹیکنالوجی کو سونپ کر خود کو آرام پسند اور سہل پسند بنالیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی صحت کا گراف بھی نیچے آگیا ہے یہی ٹیکنالوجی نہ جانے کتنے قابل اور عالم و فاضل انسانوں کی نوکریاں اور زندگیاں ہڑپ کرگئی۔ کررہی ہے اور کرتی رہے گی تاوقتیکہ اس کی انسانی زندگی میں ہر جگہ بے جا مداخلت کا بندوبست نہیں کیاجاتا۔ بقول اقبال:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کوکچل دیتے ہیں آلات