ہمارے مسائل کا ذمے دار شیطان نہیں
قانون نیکی اور بدی ،انصاف اور ناانصافی اور عزت اور بے عزتی کی وضاحت کرتا ہے
اگر آپ اپنے تمام مسائل کا ذمے دار شیطان کو سمجھے بیٹھے ہیں تو آپ سرا سر خوفناک غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ شیطان ہمارا دشمن ہے لیکن وہ ہم سے دشمنی میں ابھی تک اس حد تک نہیں اترا ہے کہ وہ ہماری زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دے ۔
اصل میں ہمار ے تمام مسائل کا شیطان سے دور دور تک کاکوئی بھی واسطہ یا تعلق نہیں ہے۔ ہمارے تمام مسائل کا تعلق ملک میں قانون کی عدم حکمرانی سے ہے اور جس کا اظہار آرمی چیف قمر جاوید باجوہ بھی کرچکے ہیں انسانی تاریخ میں ہمیشہ مسائل نے قانون کی عدم حکمرانی سے ہی جنم لیا ہے۔ افلاطون کہتا ہے کہ قانون تہذیب و تمدن کا نمایندہ ہے یہ انسان کا طویل سماجی زندگی کا نچوڑ ہے وہ زندگی جب انسان نے یہ کوشش کی کہ وہ خود کو جنگلی جانوروں کی سی زندگی سے علیحدہ کرے یا اس نے خود کو جنگلی جانوروں سے ممتازکرنے کی کوشش کی، قانون ہی وہ اصول ہے جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، یہ دو وجوہات کی بنا پر انسانی سماجی کے لیے ضروری ہے (1) انفرادی طور پر ہمارا ذہن اس قابل نہیں ہے کہ یہ سوچ سکے کہ معاشرتی زندگی کی ترقی کے لیے کیا کچھ بہتر ہے (2) اور جب یہ شعور پیداہوجائے تو ہمارے انفراد ی مزاج یا انفرادی خواہشات ایسی نہیں ہیں جو ہمیں ہمیشہ سماجی اور اجتماعی بھلائی کے عمل کی طرف راغب رکھیں ۔
پس اسی لیے انسانوں کے لیے قانون کی ضرورت ہے اس اچھائی کی وضاحت کے لیے جسے عام لوگ نہیں سمجھ سکتے یا نہیں پہچان سکتے اور انسان کو دراصل جس اچھائی کی تلاش ہے وہ ہے اجتماعی بھلائی کا اصول اوریہ ہی اجتماعی بھلائی کا اصول ہی انسان کی سماجی زندگی کی بنیاد ہے۔ ہمیں قانون کی ضرورت ہے اور اس قوت کی ضرورت ہے جو اسے نافذ کر سکے تاکہ ہماری لالچ اور انفرادی مفاد کی حامی فطرت ، فراخ دلی اور اجتماعی مفاد کی طرف ما ئل ہوسکے ۔ قانون پیدائش سے لے کر موت تک انسانی زندگی کے ہر رخ کا احاطہ کرتاہے قانون انسانی جذبات واحساسات کی کیفیات تک کااحاطہ کرتاہے ۔
قانون نیکی اور بدی ،انصاف اور ناانصافی اور عزت اور بے عزتی کی وضاحت کرتا ہے اور پھر انسان کو راغب کرتا ہے کہ وہ ان وضاحتوں کو سمجھے اور ان کے مطابق عمل کرے قانون سب کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں اگر قانون حقیقی معنوں میں ریاست کے عوام کے اجتماعی مفاد کا نمایندہ اور محافظ ہے تو اس قانون کے زیر سایہ ریاست قائم رہے گی ترقی کرے گی ، خو شحالی عام ہوگی اور اگر معاملے اس کے برعکس ہے تو آخر کار ایسی ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی ۔ افلاطون بنیادی طورپر ریاست کو دو قسموں میں تقسیم کرتاہے (۱) وہ ریاست جس میں علم کی حکمرانی ہو (۲) وہ ریاست جس میں قانون کی حکمرانی ہو پھر افلاطون قانون والی ریاست کی بھی دو قسمیں بیان کرتاہے(۱) ایسی ریاست جس میں قانون بھی ہو اور قانون پر عمل بھی ہورہاہو ۔ (۲) ایسی ریاست جس میں قانون ہو تو سہی لیکن اس پر مکمل طورپر عمل نہ ہوتا ہو ۔
آئیں! ہم اپنے ملک میں جھانکتے ہیں کہ وہاں کیاکچھ ہورہا ہے ۔ یہ بتانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری ریاست وہ ریاست ہے جہاں قانون ہے توسہی مگر اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے بلکہ بات اب اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے ۔ اب اس ملک میں دو قانون ہیں ۔ ایک قانون امیروں ، بااختیاروں ، طاقتوروں کے لیے جسے وہ اپنی جیبوں میں لیے لیے پھرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ۔ اس کو جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنے فائدے اور نفع کے لیے بے دریغ اور آزادانہ استعمال کرتے رہتے ہیں اور حسب ضرورت جب چاہتے اس میں ترامیم کرلیا کرتے ہیں ۔ اس لیے قانون ان کا ایک اور ذاتی ملازم ہے جس کی خدمات سے وہ بھر پور خوش وخرم ہیں ساتھ ہی ساتھ ان کی اولادیں اور رشتے دار بھی اس کی کارکردگی سے مکمل طور پر مطمئن ہیں۔
یاد رہے ان کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے ہماری ریاست کا قانون اجتماعی مفاد کے لیے نہیں بلکہ انفرادی اور چند سوکے ذاتی مفاد اور ان کے تحفظ اور فائدے کے لیے بے دریغ استعمال ہو رہا ہے ۔ دوسری طرف بیس کروڑ انسان ہیں جن کے لیے دوسرا قانون ہے اور وہ سب کے سب اس قانون کی دن و رات زد میں ہیں جس کا ان پر بے دریغ استعمال ہو رہا ہے ۔ وہ سب کے سب اس قانون کے تحت کنٹرول کیے جا رہے ہیں تاکہ ان چند سو لوگوں کی طرف یہ اپنی میلی ، کچیلی اور گندی آنکھ سے نہ برا دیکھ سکیں اور نہ ہی برا سوچ سکیں اور ان کے ہاتھ کبھی ان کی طرف نہ اٹھ سکیں ۔
اور ان کی لوٹ مار، کرپشن ،ڈاکا زنی ، جاگیریں ، ملیں ، محلات ، ہیرے جواہرات ، گاڑیاں ، بینک بیلنس ہمیشہ محفوظ رہیں اور وہ ہر قسم کے احتساب سے بر ی الذمہ رہیں ان سے کبھی کوئی سوال نہ پوچھا جائے یاحساب نہ لیا جاسکے اور ان بیس کروڑ وں کو اس قانون کے تحت ہانکتے رہیں ، اگر یہ کبھی بھونکنے کی کوشش کریں تو صرف ایک پولیس والا ان کے لیے کافی ہو او ر پھر وہ اپنی بقیہ زندگی آرام ، سکون اور چین سے جیل میں گذار دیں اور جب چاہیں جس کی چاہیں املاک ، جائیداد کو باآسانی ہتھیالیں ۔
ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم بیس کروڑ لوگوں کو ایسے قانون کی ضرورت ہے جو سب کو ایک آنکھ سے دیکھ سکے اور جس کی گرفت سب پر یکساں ہو سب کا احتساب بلا تفریق اور بلاامتیاز ہو آزادی ،خو شحالی ، ترقی ، کامیابی پر سب کا یکساں حق ہو ظاہر ہے کہ ہمیں ا س قوت کی ضرورت ہے جو اس قانون کو ملک میں نافذ کرسکے ۔ دیکھتے ہیں کہ یہ قوت اعلیٰ عدلیہ سے آتی ہے یا کہیں اور سے ۔