خوشبوئیں بکھیرتی پروین شاکر

صناعاتِ خمس تو انسان کی سب سے زیادہ متحرک حسیات ہیں اس کے باوجود نہ کوئی انسان شعر کہہ سکتا ہے

فوٹو: فائل

KABUL:
قارئین! ویسے خوشبو کوکوئی شکار نہیں کرسکتا بلکہ وہ خود شکار کرتی ہے، لوگوں میں، ان کے دلوں میں، روحوں، خیالوں میں خوشبو کی طرح رچ بس جانے والی خوشبو کی شاعری کی خوشبو پروین شاکر بھی تھیں، وہ حد سے زیادہ رکھ رکھاؤ، تہذیب و ثقافت کی علامت، سچائی کی پیامبر اور دلوں، روحوں اور خیالوں کو مسخر کرنے والی ہستی تھیں ان کے لیے تھیں کا لاحقہ سابقہ نہیں لگانا چاہتا اور ویسے بھی نہ شاعر کبھی مرتا ہے اور نہ ہی خوشبو۔

غالباً 1992ء کی بات ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ہلکے گلابی جارجٹ کے کپڑوں میں وہ خود ایک پھول ہی لگ رہی تھیں۔ میں انھیں مجسم بنا دیکھے ہی جا رہا تھا۔ اکثر انسان کو گماں گزرتا ہے کہ جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا بچہ! ابا گھر پر ہیں، میں بغیر سوال کا جواب دیے اندر کی طرف بھاگا ابو پڑھ رہے تھے جیسے ہی میں نے انھیں پروین شاکر کا بتایا انھوں نے حکم صادر کیا دروازہ کھول کر اندر بٹھاؤ میں آرہا ہوں، میں نے جاکر دروازہ کھولا تو وہ وہاں سے غائب، پتہ چلا برابر والے گھر میں ہیں، میں نے انھیں بلایا لیکن انھوں نے میرے اس ناہنجار پن کا پردہ رکھا ورنہ اس دن سارے جسم پر نیل ہی نیل ہوتے، ہم جب کبھی شاعروں کی بات کرتے ہیں تو اکثر و بیشتر ان کے اشعار کو بھی کوڈ کرتے ہیں، میرے خیال میں یہ اب خاصہ پرانا اور فرسودہ ہوچکا ہے، لوگ اس شاعر کے شخصیت کو جاننے میں متوشش ہوتے ہیں۔

پروین شاکر نے شاعری 1967ء سے شروع کی، لیکن ان کا پہلا مجموعہ ہائے کلام یا دیوان ہائے شعری 1977ء خوشبو، 1980ء صد برگ، 1985ء خود کلامی، اور آخر میں 1990ء میں انکار، آپ یہ دیکھیں 42 سالہ زندگی کی ہر دہائی میں پروین نے اردو شاعری کو ایک دیوان دے کر مالا مال کردیا، پروین شاکر 1952ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں اور 1994ء میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں، میں اکثر ایک بات کہتا ہوں ایک احمد فراز کے لیے، ایک جون ایلیا کے لیے اور ایک پروین شاکرکے لیے کہ انھوں نے خواب تو تخلیق کیے مگر ماورائی دنیا میں رہتے بغیر، ہم شعور کو لاشعور کی بات سچ ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس طرح ایک بار پھر ہم ماورائے ذہن میں پہنچ جاتے ہیں، یہ ماورائیت خواب تو تخلیق کرواسکتی ہے زندگی نہیں۔

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی


پروین شاکر کی پہلی کتاب ''خوشبو'' 1977ء میں شایع ہوکر منظر عام پر آئی ان کے الفاظ کا چناؤ، ان کا تلفظ، برجستگی، روانی و سلاست، اسلوب نگارش اور طرز ادائیگی نے پروین کو جیتے جی تو ٹک کر بیٹھنے نہیں دیا، ایک قدم ہوسٹن (USA) تو دوسرا آسٹریلیا، کبھی یو اے ای تو کبھی لندن ہر جگہ گئیں۔ یہاں مجھے پروین کے ساتھ دو شعرا کو ان معنوں میں ہی متعارف کرانے ہیں جن میں ایک ہیں جناب سلیم کوثر اور دوسرے جون ایلیا۔ یہ تینوں شعرا ایسے تھے کہ ناشرین ان کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے، مشاعروں کے بیشتر مقبول شاعروں کا المیہ ہے کہ ان کا کلام مطبوعہ شکل میں آکر اس تاثیر اور اثر انگیزی سے بہت حد تک محروم ہوجاتا ہے جو اسے سماعت کے دوران حاصل ہوتی ہے بعض اوقات مشاعروں کا بدلتا ہوا مزاج بھی ان کی مقبولیت کا دشمن بن جاتا ہے لیکن ان تینوں شعرا (پروین شاکر، جون ایلیا اور سلیم کوثر) ان دونوں امتحانوں میں بھی بڑے امتیازی نمبر پاکر سرخرو ہوئے۔

پتہ نہیں وہ سال کا کون سا دن، ہفتہ یا مہینہ تھا جب میں ان جیتی جاگتی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا پروین شاکر کبھی میں بھی آپ پر کالم لکھوں گا، اس پر انھوں نے بڑے تاسف بھرے انداز میں کہا پتہ نہیں ہم کہاں ہوں گے، میں نے تو آپ کا کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا پروین شاجر، نجانے آپ تک میرا یہ مضمون پہنچے یا نہ پہنچے، میں نے احمد فراز، پروین شاکر اور جون ایلیا کی جو سماج میں پذیرائی دیکھی اس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا کہ جو بات آپ شعر کے پیرائے میں کر سکتے ہیں وہی بات آپ نثر، جدل، خطاب کے روپ میں بھی تو کرسکتے ہیں لیکن پھر مجھے افلاطون کی کتاب ''بوطیقا'' کا وہ سبق یاد آیا جو جون ایلیا اور حسن عابد نے مجھے پڑھایا تھا۔

صناعاتِ خمس تو انسان کی سب سے زیادہ متحرک حسیات ہیں اس کے باوجود نہ کوئی انسان شعر کہہ سکتا ہے اور نہ ہی مصوری اور موسیقی پر عبورکامل حاصل کرسکتا ہے، اب آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس میں برہان نہیں، یہ برہان کیا بلا ہے، چلیے اس کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں، برہان حقیقت میں حقیقت اشیا سے پردہ اٹھانے یا اس تک پہنچنے کا ایک وسیلہ منطق ہے۔ اسے منطق کی ساری بحثوں کا نتیجہ مباحث قیاس ہیں اور سارے قیاسوں میں سے برتر اور اعلیٰ قیاس برہان ہے۔ برہان قیاس اس کو کہا جاتا ہے جسے یقینی مقدمات سے ترتیب دیا جاسکے، یا دیا جاتا ہو، شعرکا اصل سرچشمہ انسان کے تخیلات ہوتے ہیں ایک اچھے شاعر کے لیے ایک اچھا ناظر ہونا، ادراکی ہونا، منطق و بیان پر قدرت رکھنے والا ہونا چاہیے۔

پچھلے دنوں پریس کلب میں عظمیٰ حبیب سے بات ہوئی کہنے لگیں آپ پروین شاکر کو پڑھتے ہیں، میں اس سوال پر کہیں سے خوشبو صد برگ تو لا نہ سکا، میں نے کہا محترمہ پڑھا نہیں فقط کیا ہے کہنے لگیں بھی ماشا اللہ، بھئی پروین کی کچھ غزلوں اور نظموں میں بحریں، ردیفیں، اوزان و پر آگے پیچھے ہیں، میں نے کہا ان سے کہا جو شاید انھیں برا بھی لگا ہو بات حق پر ہو پھر چاہے کتنی ہی بری لگے، میں نے کہا وہ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے جنھوں نے آکر بحور و اوزان بناکر ہم پر مسلط کردیں اور یہ حکم صادر فرمادیا کہ خبردار اس کے علاوہ کسی شجر ممنوع کی طرف جانا بھی نہیں، میں وہ کیوں نہ لکھوں جو میں لکھنا چاہتا ہوں جیسا مجھے ہاتف نے سکھایا ہے میں تقلید کرنے کے بجائے تخلیق کیوں نہ کروں چاہوں تو بحور و اوزان، ردیف و قافیوں کی ساری تاریخ پر خط تنسیخ پھینکتا ہوا اپنے کلیشے خود پیدا کروں میں آج سے پچاسیوں سال پرانے فرسودہ، بے محل، متروک، لایعنی چیزیں نکال کر باہر کیوں نہ پھینک دوں، مجھے ان کی آنکھیں دیکھ کر یہ اندازہ تو خیر سے موصوفہ کا خیال کچھ مجھ سے ملتا جلتا ہی ہے۔

لہٰذا اٹھ کر معقول اور پڑھے لکھے، انگریزی جانتے ہوئے لوگوں کے درمیان آکر بیٹھ گیا اب آپ یہ کہیں گے پڑھے لکھے، معقول تک تو صحیح تھا یہ بیچاری انگریزی کا کیا قصور؟ تو قارئین محترم! جن کو روانی، سلاست، گرفت اور انگریزی کے رموز معلوم ہوتے ہیں اور باوجود پوری دسترس رکھتے ہوئے وہ اردو ہی میں اپنی زبان ہی میں بات کرتے ہیں۔ میں پروین کو اردو کے شعرا میں استاد کا مقام دے سکتا ہوں کیونکہ جو پروین پر تنقید کرتے ہیں انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ عروض کی خامیاں کیا ہیں، کہاں پائی جاتی ہیں، کم ازکم عروض کی کوئی ابتدائی کتاب ہی پڑھ لیجیے، ان میں سے اکثر کو یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ عربی اور فارسی کا لفظ کیا ہوتا ہے۔

ان ہزاروں بیچارے طالبعلموں کے لیے تو زہر ہلاہل ہے، پروین پر اس کالم میں، میں نے کوئی ایک بات ویسے نہیں کی جیسے ان کے فن و کلام پر کی جاچکی ہیں کیونکہ میں پروین کو جس پائے کی شاعری مانتا ہوں اس پر لکھنے کے لیے ایک بندے کو ایک اچھا شاعر تو ضرور ہونا چاہیے۔ میں بین جانسن کے اس خیال کہ ''ایک شاعر ہی شاعری کا اچھا ناقد ہوتا ہے۔'' اس کی تائید میں ہوں۔ پروین نے جو لکھا تپاک جان سے لکھا، لوچ کی کمان سے لکھا اور مفصل ایمان سے لکھا۔
Load Next Story