عمران خان کا بلیک میلنگ اور دباؤکے زور پر ٹکٹ تبدیل کرنے سے انکار
عمران خان نے انتخابی مہم کی کمان جہانگیر ترین کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی رہائشگاہ گزشتہ کئی روز سے دھرنوں کا شکار ہے۔ دھرنا دینے والوں میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو تحریک انصاف کے باضابطہ کارکن نہیں ہیں، انہیں صرف اپنی ٹکٹ کیلئے دباو ڈالنے کیلئے ''ونگار'' پر لایا گیا ہے اور ان کے قیام و طعام کے اخراجات سمیت دیہاڑی کی ذمہ داری بھی ٹکٹ کی لڑائی لڑنے والے رہنماوں کے ذمہ ہے۔
ٹکٹوں کی تقسیم پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں بھی لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں لیکن میڈیا میں تحریک انصاف کے معاملہ کو دیگر پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے 10 سے15 اور صوبائی اسمبلیوں کے50 کے لگ بھگ حلقوںمیں جن افراد کو ٹکٹ دیا گیا وہ قابل نظر ثانی ہے اور یقینی طور پر وہاں پارٹی قیادت سے جانے یا انجانے میں کسی طور غلطی ہوئی ہے جسے سدھارا جا سکتا ہے لیکن باقی جتنے بھی لوگ احتجاج کر رہے ہیں وہ کسی بھی طور ٹکٹ کے میرٹ پر پورا نہیں اترتے اور انہیں ٹکٹ دیا جاتا تو وہ تحریک انصاف کی سیاسی خودکشی ہوتی۔ اب بھی بنی گالہ کے باہر احتجاجی دھرنا دینے والوں میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی جن رہنماوں کو ٹکٹ دینے کا دھونس بھرا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ اپنے علاقوں میں یونین کونسل کا الیکشن جیتنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ الیکشن کیلئے پارٹی ٹکٹ دینا پارٹی سربراہ کا اختیار ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ پر یہ واجب ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کے بہترین مفاد اور بہترین انتخابی نتائج کے حصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹکٹ دے۔
2013 ء میں عمران خان نے 80 فیصد ٹکٹ ان افراد کو دیئے جنہوں نے پہلے کبھی جنرل الیکشن نہیں لڑا تھا۔ نتیجہ جو نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اگر الیکشن ہر طرح کے''پنکچر'' سے پاک بھی ہوتا تب بھی تحریک انصاف حکومت نہیں بنا سکتی تھی البتہ 15 سے20 اضافی نشستیں ملنے سے عمران خان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے میں کامیاب ضرور ہوجاتے۔
ن لیگی قیادت کو بھی علم تھا کہ تحریک انصاف الیکشن جیت نہیں سکتی لہذا اگر تصور کر لیا جائے کہ ن لیگ نے دھاندلی کی تو اس دھاندلی کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ عمران خان کو اپوزیشن لیڈر بننے سے روکا جا ئے۔ عمران خان اپوزیشن لیڈر بن جاتے تو ن لیگ کو سید خورشید شاہ والی فرینڈلی اپوزیشن کہاں نصیب ہونا تھی اور باہر کی دنیا نے بھی قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر عمران خان کی بات پر خصوصی توجہ دینا تھی۔ تحریک انصاف کے کپتان نے کبھی بلیک میل ہو کر یا دباو میں آکر فیصلہ نہیں کیا ،نہ ہی بدلا ہے لیکن انہوں نے دھرنا دینے والوں سے بہت خوب کہا ہے کہ میں بھی انسان ہوں مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے لہذا پوری ایمانداری کے ساتھ ریویو بورڈ میں دائر پٹیشنز پر فیصلہ کروں گا۔
آئندہ 48 گھنٹوں میں تحریک انصاف اپنے حتمی امیدواروں کا اعلان کردے گی ۔ بادی النظر میں تحریک انصاف سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر رہی ہے اسی لیئے قومی اسمبلی کی 272 میں سے صرف 240 پر پی ٹی آئی امیدواروں کا اعلان متوقع ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی297 میں سے260 نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار لائے جائیں گے۔ تحریک انصاف آج بھی ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ مختلف المزاج لوگوں کا ہجوم ہے۔ اس کے رہنماوں کی بہت بڑی اکثریت نے گزشتہ پانچ برس میں اپنے حلقوں میں کام کیا نہ ہی اپنے الیکشن کیلئے مالیاتی تیاری کی۔اس وقت سب سے زیادہ شور مچانے والوں کی اکثریت تو پولنگ ڈے کا خرچہ خود برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی وہ ''اب نہیں تو کبھی نہیں'' صورتحال والے الیکشن میں عمران خان کو نشست جیتنے کی ضمانت کیسے دے سکتے تھے۔
تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن میں خواتین کی مخصوص نشستوں کیلئے جمع کروائی گئی فہرست کا معاملہ الجھتا چلا جا رہا ہے اور پورے ملک میں سے عمران خان کو نہایت منفی فیڈ بیک ملا ہے۔ ان فہرستوں کی تیاری میں ڈاکٹر شیریں مزاری کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ابتک موجود اطلاعات اور تحریری شکایات کے مطابق سب سے زیادہ خرابی عالیہ حمزہ ملک اور منزہ حسن نے پیدا کی ہے۔ منزہ حسن ہمیشہ سے متنازع رہی ہیں، انہوں نے 2013 ء کے الیکشن میں مرحومہ سلونی بخاری کے ساتھ بھی محاذ آرائی کی ،اس کے بعد فوزیہ قصوری کے ساتھ سرد جنگ شروع کردی تھی ۔ اس وقت منزہ حسن کا موقف ہے کہ وہ صرف قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کیلئے جمع کروائی گئی فہرست کی ذمہ دار ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی لسٹ عالیہ حمزہ اور شمسہ علی نے تیار کی جو واقعی متنازعہ اور میرٹ کے خلاف ہے۔
منزہ حسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فہرست میں ایک درجن ایسے نام ہیں جنہیں وہ خود بھی نہیں جانتیں۔ منزہ حسن کا موقف اپنی جگہ لیکن بحیثیت مرکزی صدر خواتین ونگ وہ پنجاب کی فہرست سے بھی بری الذمہ کیسے ہوسکتی ہیں، خاص طور پر جب اسد عمر اور شیریں مزاری نے بھی انہیں لسٹیں جمع کروانے سے روکا تھا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق خواتین کی مخصوص نشستوں کیلئے فہرستوں میں''ٹیمپرنگ'' بھی ہوئی ہے اور مبینہ طور پر ان پر موجود عمران خان کے دستخط خود عمران خان کے نہیں ہیں اور اگر ان دستخطوں کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے تو معاملہ سنگین ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر پنجاب اسمبلی کیلئے خواتین کے ناموں والی دو لسٹیں زیر بحث ہیں، جن میں سے ایک میں نام اور ان کی نمبرنگ دوسری سے مختلف ہے ۔عالیہ حمزہ ملک کے بارے میں عام تاثر موجود ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے بل بوتے پر طاقتور ہوئی ہیں۔ یہ تاثر آج کے دن میں درست نہیں ہے۔ عالیہ حمزہ نے میاں محمود الرشید اور اعجاز چوہدری کے ساتھ دفتری امور میں ہاتھ بٹانے سے کام شروع کیا تھا ، این اے154 میں جب جہانگیر ترین کا ضمنی الیکشن ہوا تب عالیہ حمزہ پہلی مرتبہ لائم لائٹ میں آئیں،اس کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ جہانگیر ترین کے ساتھ پارٹی ورکنگ میں حصہ لیا پھر جہانگیر ترین کے راستے عالیہ حمزہ نے عمران خان سے براہ راست روابط قائم کر لئے اور جہانگیر ترین کو بائی پاس کرتے ہوئے پارٹی معاملات میں عمران خان کو ''بن مانگی'' مشاورت دینا شروع کردی تھی۔
اس وقت یہ مصدقہ اطلاعات موجود ہیں کہ پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی فہرست کی تیاری میں عالیہ حمزہ نے جہانگیر ترین سے مشاورت نہیں کی بلکہ عبدالعلیم خان اور اسحاق خاکوانی سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس پر وہ سب بھی برہم ہیں۔ عمران خان ''معصوم''آدمی ہیں انہیں اپنی ناک کے نیچے ہونے والی چالاکیوں اور ڈس انفارمیشن سے باخبر رہنا چاہیئے۔عالیہ حمزہ اور منزہ حسن رکن قومی اسمبلی تو بن جائیں گی لیکن انہوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو جس قدر نقصان پہنچا دیا ہے اس کا خمیازہ اگلے الیکشن تک پارٹی کو بھگتنا ہوگا۔
عمران خان نے انتخابی مہم کی کمان جہانگیر ترین کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جہانگیر ترین نے گزشتہ 7 برس میں تحریک انصاف کیلئے جتنی محنت کی ہے اس کا مقابلہ شاہ محمود قریشی سمیت کوئی رہنما نہیں کر سکتا۔ جہانگیر ترین نے اپنے اکلوتے بیٹے علی ترین کو الیکشن سے دستبردار کروا کر یہ انوکھی مثال بھی قائم کردی ہے کہ سیاست ،کسی بھی طور اولاد کے مستقبل سے زیادہ اہم اور قیمتی نہیں ہو سکتی جس طرح سے خواجہ آصف اور شیخ رشید اہل قرار پا گئے ہیں ۔ قوی امکان ہے کہ مستقبل میں جہانگیر ترین پھر سے پارلیمانی سیاست کے لئے اہل ہوجائیں گے جو کہ تحریک انصاف اور کپتان کیلئے بہت بڑی خوشخبری ہو گی۔
ٹکٹوں کی تقسیم پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں بھی لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں لیکن میڈیا میں تحریک انصاف کے معاملہ کو دیگر پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے 10 سے15 اور صوبائی اسمبلیوں کے50 کے لگ بھگ حلقوںمیں جن افراد کو ٹکٹ دیا گیا وہ قابل نظر ثانی ہے اور یقینی طور پر وہاں پارٹی قیادت سے جانے یا انجانے میں کسی طور غلطی ہوئی ہے جسے سدھارا جا سکتا ہے لیکن باقی جتنے بھی لوگ احتجاج کر رہے ہیں وہ کسی بھی طور ٹکٹ کے میرٹ پر پورا نہیں اترتے اور انہیں ٹکٹ دیا جاتا تو وہ تحریک انصاف کی سیاسی خودکشی ہوتی۔ اب بھی بنی گالہ کے باہر احتجاجی دھرنا دینے والوں میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی جن رہنماوں کو ٹکٹ دینے کا دھونس بھرا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ اپنے علاقوں میں یونین کونسل کا الیکشن جیتنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ الیکشن کیلئے پارٹی ٹکٹ دینا پارٹی سربراہ کا اختیار ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ پر یہ واجب ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کے بہترین مفاد اور بہترین انتخابی نتائج کے حصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹکٹ دے۔
2013 ء میں عمران خان نے 80 فیصد ٹکٹ ان افراد کو دیئے جنہوں نے پہلے کبھی جنرل الیکشن نہیں لڑا تھا۔ نتیجہ جو نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اگر الیکشن ہر طرح کے''پنکچر'' سے پاک بھی ہوتا تب بھی تحریک انصاف حکومت نہیں بنا سکتی تھی البتہ 15 سے20 اضافی نشستیں ملنے سے عمران خان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے میں کامیاب ضرور ہوجاتے۔
ن لیگی قیادت کو بھی علم تھا کہ تحریک انصاف الیکشن جیت نہیں سکتی لہذا اگر تصور کر لیا جائے کہ ن لیگ نے دھاندلی کی تو اس دھاندلی کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ عمران خان کو اپوزیشن لیڈر بننے سے روکا جا ئے۔ عمران خان اپوزیشن لیڈر بن جاتے تو ن لیگ کو سید خورشید شاہ والی فرینڈلی اپوزیشن کہاں نصیب ہونا تھی اور باہر کی دنیا نے بھی قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر عمران خان کی بات پر خصوصی توجہ دینا تھی۔ تحریک انصاف کے کپتان نے کبھی بلیک میل ہو کر یا دباو میں آکر فیصلہ نہیں کیا ،نہ ہی بدلا ہے لیکن انہوں نے دھرنا دینے والوں سے بہت خوب کہا ہے کہ میں بھی انسان ہوں مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے لہذا پوری ایمانداری کے ساتھ ریویو بورڈ میں دائر پٹیشنز پر فیصلہ کروں گا۔
آئندہ 48 گھنٹوں میں تحریک انصاف اپنے حتمی امیدواروں کا اعلان کردے گی ۔ بادی النظر میں تحریک انصاف سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر رہی ہے اسی لیئے قومی اسمبلی کی 272 میں سے صرف 240 پر پی ٹی آئی امیدواروں کا اعلان متوقع ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی297 میں سے260 نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار لائے جائیں گے۔ تحریک انصاف آج بھی ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ مختلف المزاج لوگوں کا ہجوم ہے۔ اس کے رہنماوں کی بہت بڑی اکثریت نے گزشتہ پانچ برس میں اپنے حلقوں میں کام کیا نہ ہی اپنے الیکشن کیلئے مالیاتی تیاری کی۔اس وقت سب سے زیادہ شور مچانے والوں کی اکثریت تو پولنگ ڈے کا خرچہ خود برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی وہ ''اب نہیں تو کبھی نہیں'' صورتحال والے الیکشن میں عمران خان کو نشست جیتنے کی ضمانت کیسے دے سکتے تھے۔
تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن میں خواتین کی مخصوص نشستوں کیلئے جمع کروائی گئی فہرست کا معاملہ الجھتا چلا جا رہا ہے اور پورے ملک میں سے عمران خان کو نہایت منفی فیڈ بیک ملا ہے۔ ان فہرستوں کی تیاری میں ڈاکٹر شیریں مزاری کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ابتک موجود اطلاعات اور تحریری شکایات کے مطابق سب سے زیادہ خرابی عالیہ حمزہ ملک اور منزہ حسن نے پیدا کی ہے۔ منزہ حسن ہمیشہ سے متنازع رہی ہیں، انہوں نے 2013 ء کے الیکشن میں مرحومہ سلونی بخاری کے ساتھ بھی محاذ آرائی کی ،اس کے بعد فوزیہ قصوری کے ساتھ سرد جنگ شروع کردی تھی ۔ اس وقت منزہ حسن کا موقف ہے کہ وہ صرف قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کیلئے جمع کروائی گئی فہرست کی ذمہ دار ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی لسٹ عالیہ حمزہ اور شمسہ علی نے تیار کی جو واقعی متنازعہ اور میرٹ کے خلاف ہے۔
منزہ حسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فہرست میں ایک درجن ایسے نام ہیں جنہیں وہ خود بھی نہیں جانتیں۔ منزہ حسن کا موقف اپنی جگہ لیکن بحیثیت مرکزی صدر خواتین ونگ وہ پنجاب کی فہرست سے بھی بری الذمہ کیسے ہوسکتی ہیں، خاص طور پر جب اسد عمر اور شیریں مزاری نے بھی انہیں لسٹیں جمع کروانے سے روکا تھا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق خواتین کی مخصوص نشستوں کیلئے فہرستوں میں''ٹیمپرنگ'' بھی ہوئی ہے اور مبینہ طور پر ان پر موجود عمران خان کے دستخط خود عمران خان کے نہیں ہیں اور اگر ان دستخطوں کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے تو معاملہ سنگین ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر پنجاب اسمبلی کیلئے خواتین کے ناموں والی دو لسٹیں زیر بحث ہیں، جن میں سے ایک میں نام اور ان کی نمبرنگ دوسری سے مختلف ہے ۔عالیہ حمزہ ملک کے بارے میں عام تاثر موجود ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے بل بوتے پر طاقتور ہوئی ہیں۔ یہ تاثر آج کے دن میں درست نہیں ہے۔ عالیہ حمزہ نے میاں محمود الرشید اور اعجاز چوہدری کے ساتھ دفتری امور میں ہاتھ بٹانے سے کام شروع کیا تھا ، این اے154 میں جب جہانگیر ترین کا ضمنی الیکشن ہوا تب عالیہ حمزہ پہلی مرتبہ لائم لائٹ میں آئیں،اس کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ جہانگیر ترین کے ساتھ پارٹی ورکنگ میں حصہ لیا پھر جہانگیر ترین کے راستے عالیہ حمزہ نے عمران خان سے براہ راست روابط قائم کر لئے اور جہانگیر ترین کو بائی پاس کرتے ہوئے پارٹی معاملات میں عمران خان کو ''بن مانگی'' مشاورت دینا شروع کردی تھی۔
اس وقت یہ مصدقہ اطلاعات موجود ہیں کہ پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی فہرست کی تیاری میں عالیہ حمزہ نے جہانگیر ترین سے مشاورت نہیں کی بلکہ عبدالعلیم خان اور اسحاق خاکوانی سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس پر وہ سب بھی برہم ہیں۔ عمران خان ''معصوم''آدمی ہیں انہیں اپنی ناک کے نیچے ہونے والی چالاکیوں اور ڈس انفارمیشن سے باخبر رہنا چاہیئے۔عالیہ حمزہ اور منزہ حسن رکن قومی اسمبلی تو بن جائیں گی لیکن انہوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو جس قدر نقصان پہنچا دیا ہے اس کا خمیازہ اگلے الیکشن تک پارٹی کو بھگتنا ہوگا۔
عمران خان نے انتخابی مہم کی کمان جہانگیر ترین کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جہانگیر ترین نے گزشتہ 7 برس میں تحریک انصاف کیلئے جتنی محنت کی ہے اس کا مقابلہ شاہ محمود قریشی سمیت کوئی رہنما نہیں کر سکتا۔ جہانگیر ترین نے اپنے اکلوتے بیٹے علی ترین کو الیکشن سے دستبردار کروا کر یہ انوکھی مثال بھی قائم کردی ہے کہ سیاست ،کسی بھی طور اولاد کے مستقبل سے زیادہ اہم اور قیمتی نہیں ہو سکتی جس طرح سے خواجہ آصف اور شیخ رشید اہل قرار پا گئے ہیں ۔ قوی امکان ہے کہ مستقبل میں جہانگیر ترین پھر سے پارلیمانی سیاست کے لئے اہل ہوجائیں گے جو کہ تحریک انصاف اور کپتان کیلئے بہت بڑی خوشخبری ہو گی۔