نامعلوم مقام پربات چیت کی ابتدا افغان امن مذاکرات کی دوبارہ بحالی جلد متوقع
عیدالفطر کے موقع پر دونوں جانب سے جنگ بندی کے اعلان نے مذاکرات کی راہ ہموار کی، ذرائع
3سال کے وقفے کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی دوبارہ بحالی جلد متوقع ہے۔
یہ بات سرکاری اور سفارتی ذرائع نے منگل کو ایکسپریس ٹریبیون کو بتائی۔ خیال ظاہر یا جارہا ہے کہ اس حوالے سے افغان حکام اور افغان طالبان کے درمیان ابتدائی بات چیت کسی نامعلوم مقام پر ہوبھی رہی ہے جس میں دیگر ملکوں کے نمائندوں کی شرکت کی بھی اطلاعات ہیں۔مذاکرات کے حوالے سے سب سے مشکل ٹاسک طالبان میں موجود اُن عناصر کی نشاندہی ہے جو امن عمل کے خواہاں ہیں، اس کے علاوہ افغان سرزمین پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی موجودگی پرپاکستان کے شدید تحفظات کا معاملہ بھی اہم ہے۔
بعض حکام نے معاملے کی نزاکت کے پیش نظر نام نہ بتانے کی شرط پر انکشاف کیا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے عیدالفطر کے موقع پر جنگ بندی کے اعلان نے ابتدائی بات چیت کی راہ ہموار کی۔ 2001میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ عید کے موقع پر جنگ بندی کے دوران یہ غیر معمولی اور غیر متوقع مناظر بھی دیکھنے میں آئے جب افغان سیکیورٹی اہلکاروں اور طالبان جنگجوئوں نے ایک ساتھ عید منائی اور ایک دوسرے کے ساتھ سیلفیاں بھی لیں۔ اسی صورتحال کے پیش نظر افغان صدر اشرف غنی نے عید کے بعد جنگ بندی کی مدت میں مزید 10 روز کی توسیع کا اعلان کیااور طالبان کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش بھی کی۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ افغان عمل کی حمایت کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکا اور افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور ایسے ہی دیگر گروپوں کا صفایا کیا جائے۔ عید کے بعد سے پیدا ہونیو الی صورتحال کے پیش نظر سرکاری اور سفارتی حکام کو امید ہے کہ مذاکراتی عمل جلد شروع ہوگا اور امن عمل کی طرف پیش قدمی جاری رہے گی۔افغان حکام نے حکومت اور طالبان جنگجوئوں کے درمیان مذاکرات کا اشارہ دیا تاہم مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ مذاکراتی مراحل کے اس بار افغان امن عمل کے لیے بات چیت کو میڈیا سے دور رکھا جائے گا۔ سرکاری طور پر کسی بھی بات کا اعلان اُس وقت کیا جائے گا جب تمام فریقین کسی معاملے پر متفق ہونگے۔یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات 2015میں پاکستان میں ہوئے تھے۔
ان تاریخی مذاکرات میں پاکستان، امریکا اور چین بھی شریک تھے تاہم طالبان کے سپریم لیڈر ملا عمر کی موت کی خبریں میڈیا پر آنے کے باعث یہ مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔اُس وقت پاکستان نے صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور ملا عمر کی موت کی خبر لیک کرنے کا ذمے دار افغان حکام کو ٹھہرایا تھا۔ ماضی کی طرح اس بار بھی پاکستان اور دیگر ممالک امن عمل میں کردار ادا کرینگے۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد اور کابل افغان امن عمل کے حوالے سے گذشتہ کئی ہفتوں سے مذاکرات اور اجلاس کررہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان کی جانب سے عید کے موقع پر جنگ بندی کیلیے کی گئی انتھک کوششوں کا جواب امریکا اور افغانستان نے 13جون کو تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مُلا فضل اللہ کو ڈرون حملے میں ہلاک کرکے دیا۔
یہ بات سرکاری اور سفارتی ذرائع نے منگل کو ایکسپریس ٹریبیون کو بتائی۔ خیال ظاہر یا جارہا ہے کہ اس حوالے سے افغان حکام اور افغان طالبان کے درمیان ابتدائی بات چیت کسی نامعلوم مقام پر ہوبھی رہی ہے جس میں دیگر ملکوں کے نمائندوں کی شرکت کی بھی اطلاعات ہیں۔مذاکرات کے حوالے سے سب سے مشکل ٹاسک طالبان میں موجود اُن عناصر کی نشاندہی ہے جو امن عمل کے خواہاں ہیں، اس کے علاوہ افغان سرزمین پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی موجودگی پرپاکستان کے شدید تحفظات کا معاملہ بھی اہم ہے۔
بعض حکام نے معاملے کی نزاکت کے پیش نظر نام نہ بتانے کی شرط پر انکشاف کیا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے عیدالفطر کے موقع پر جنگ بندی کے اعلان نے ابتدائی بات چیت کی راہ ہموار کی۔ 2001میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ عید کے موقع پر جنگ بندی کے دوران یہ غیر معمولی اور غیر متوقع مناظر بھی دیکھنے میں آئے جب افغان سیکیورٹی اہلکاروں اور طالبان جنگجوئوں نے ایک ساتھ عید منائی اور ایک دوسرے کے ساتھ سیلفیاں بھی لیں۔ اسی صورتحال کے پیش نظر افغان صدر اشرف غنی نے عید کے بعد جنگ بندی کی مدت میں مزید 10 روز کی توسیع کا اعلان کیااور طالبان کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش بھی کی۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ افغان عمل کی حمایت کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکا اور افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور ایسے ہی دیگر گروپوں کا صفایا کیا جائے۔ عید کے بعد سے پیدا ہونیو الی صورتحال کے پیش نظر سرکاری اور سفارتی حکام کو امید ہے کہ مذاکراتی عمل جلد شروع ہوگا اور امن عمل کی طرف پیش قدمی جاری رہے گی۔افغان حکام نے حکومت اور طالبان جنگجوئوں کے درمیان مذاکرات کا اشارہ دیا تاہم مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ مذاکراتی مراحل کے اس بار افغان امن عمل کے لیے بات چیت کو میڈیا سے دور رکھا جائے گا۔ سرکاری طور پر کسی بھی بات کا اعلان اُس وقت کیا جائے گا جب تمام فریقین کسی معاملے پر متفق ہونگے۔یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات 2015میں پاکستان میں ہوئے تھے۔
ان تاریخی مذاکرات میں پاکستان، امریکا اور چین بھی شریک تھے تاہم طالبان کے سپریم لیڈر ملا عمر کی موت کی خبریں میڈیا پر آنے کے باعث یہ مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔اُس وقت پاکستان نے صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور ملا عمر کی موت کی خبر لیک کرنے کا ذمے دار افغان حکام کو ٹھہرایا تھا۔ ماضی کی طرح اس بار بھی پاکستان اور دیگر ممالک امن عمل میں کردار ادا کرینگے۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد اور کابل افغان امن عمل کے حوالے سے گذشتہ کئی ہفتوں سے مذاکرات اور اجلاس کررہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان کی جانب سے عید کے موقع پر جنگ بندی کیلیے کی گئی انتھک کوششوں کا جواب امریکا اور افغانستان نے 13جون کو تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مُلا فضل اللہ کو ڈرون حملے میں ہلاک کرکے دیا۔