درآمدی کاروںکی ادائیگیاں’حوالہ‘ سے ہورہی ہیںپاپام
اسٹیٹ بینک پکڑنہیںسکتا،پرانی کاروںکی درآمدسے وینڈرزکو7ارب کا نقصان ہوا
ISLAMABAD:
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس ایسیسریز مینوفیکچررز (پاپام) نے کہا ہے کہ استعمال شدہ کاروں کی درآمد کیلیے ادائیگیاں غیرقانونی ذرائع المعروف ''حوالہ'' کے ذریعے ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کیلیے اس منی لانڈرنگ کو پکڑنا مشکل ہو گیا ہے۔
چیئرمین پاپام سید نبیل ہاشمی نے گزشتہ روز جاری ایک بیان میں جولائی میں آٹو سیکٹر کی فروخت میں 46 فیصد کی نمایاں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف درآمدات میں اضافے کی وجہ سے پڑنے والے دبائو کا نتیجہ ہے، جولائی میں کاروں کی درآمدات 25 فیصد کے اضافے سے 4 ہزار 950 یونٹس تک پہنچ گئی جو ملک میں مجموعی ڈیمانڈ کا 32 فیصد ہے۔ انھوں نے کہا کہ درآمدی کاروں کا حصہ مالی سال2011-12 میں بڑھ کر 23 فیصد ہوگیا جو مالی سال 2010-11 میں 11 فیصد تھا، استعمال شدہ کاروں کی سہولت کے تحت زیادہ تر لگژری کاریں درآمد کی جا رہی ہیں جس سے حکومت قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس حوالے سے تمام معلومات ہیں اور ڈیلرز کی سرزنش کی جانی چاہیے جنھوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ پرانی کاروں کی قیمتیں کافی کم ہوں گی تاکہ عام صارفین اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے۔ نبیل ہاشمی نے کہا کہ استعمال شدہ کاروں کی درآمد کی اجازت نہ صرف صارفین کے ساتھ ناانصافی ہے کہ بلکہ یہ مقامی آٹو انڈسٹری کیلیے بھی نقصان دہ ہے جس نے گزشتہ دہائی میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی تھی اور یہ لاکھوں افراد کو روزگار کی فراہمی کا باعث ہے۔
انھوں نے کہاکہ حکومت کو پرانی کاروں کی درآمدات کی اجازت دینے سے گزشتہ 12ماہ کے دوران کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 14 ارب روپے کا نقصان ہوا، اس دوران 50 ہزار گاڑیاں درآمد کی گئیں، اس کے علاوہ آٹوموٹیو پارٹس وینڈنگ انڈسٹری کو بھی فروخت کی مد میں 7ارب روپے کا نقصان ہوا کیونکہ مقامی طور پر ایک کار کی تیاری میں پوری معیشت شریک ہوتی ہے، اس کے لیے مقامی وینڈرز سے پرزے لیے جاتے ہیں جن کی مالیت فی کار 3 لاکھ سے 4 لاکھ روپے فی کار بنتی ہے، 50 ہزار کاروں کی درآمد سے مقامی وینڈرز اس بزنس یہ محروم ہوگئے۔ پاپام کے وائس چیئرمین منیر بانا نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت مقامی آٹو انڈسٹری کی قیمت پر ملک کو پرانی کاروں کا کباڑخانہ بنانا چاہتی ہے۔
پاپام کی منیجنگ کمیٹی کے سینئرممبر عثمان ملک نے کہا کہ کسٹمز ڈپارٹمنٹ کو 60 فیصد تک ڈیوٹیوں میں کمی کااختیار دے کر پرانی کاروں کی ملک میں درآمد کو حقیقی معنوں میں مفت بنا دیا گیا ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس ایسیسریز مینوفیکچررز (پاپام) نے کہا ہے کہ استعمال شدہ کاروں کی درآمد کیلیے ادائیگیاں غیرقانونی ذرائع المعروف ''حوالہ'' کے ذریعے ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کیلیے اس منی لانڈرنگ کو پکڑنا مشکل ہو گیا ہے۔
چیئرمین پاپام سید نبیل ہاشمی نے گزشتہ روز جاری ایک بیان میں جولائی میں آٹو سیکٹر کی فروخت میں 46 فیصد کی نمایاں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف درآمدات میں اضافے کی وجہ سے پڑنے والے دبائو کا نتیجہ ہے، جولائی میں کاروں کی درآمدات 25 فیصد کے اضافے سے 4 ہزار 950 یونٹس تک پہنچ گئی جو ملک میں مجموعی ڈیمانڈ کا 32 فیصد ہے۔ انھوں نے کہا کہ درآمدی کاروں کا حصہ مالی سال2011-12 میں بڑھ کر 23 فیصد ہوگیا جو مالی سال 2010-11 میں 11 فیصد تھا، استعمال شدہ کاروں کی سہولت کے تحت زیادہ تر لگژری کاریں درآمد کی جا رہی ہیں جس سے حکومت قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس حوالے سے تمام معلومات ہیں اور ڈیلرز کی سرزنش کی جانی چاہیے جنھوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ پرانی کاروں کی قیمتیں کافی کم ہوں گی تاکہ عام صارفین اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے۔ نبیل ہاشمی نے کہا کہ استعمال شدہ کاروں کی درآمد کی اجازت نہ صرف صارفین کے ساتھ ناانصافی ہے کہ بلکہ یہ مقامی آٹو انڈسٹری کیلیے بھی نقصان دہ ہے جس نے گزشتہ دہائی میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی تھی اور یہ لاکھوں افراد کو روزگار کی فراہمی کا باعث ہے۔
انھوں نے کہاکہ حکومت کو پرانی کاروں کی درآمدات کی اجازت دینے سے گزشتہ 12ماہ کے دوران کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 14 ارب روپے کا نقصان ہوا، اس دوران 50 ہزار گاڑیاں درآمد کی گئیں، اس کے علاوہ آٹوموٹیو پارٹس وینڈنگ انڈسٹری کو بھی فروخت کی مد میں 7ارب روپے کا نقصان ہوا کیونکہ مقامی طور پر ایک کار کی تیاری میں پوری معیشت شریک ہوتی ہے، اس کے لیے مقامی وینڈرز سے پرزے لیے جاتے ہیں جن کی مالیت فی کار 3 لاکھ سے 4 لاکھ روپے فی کار بنتی ہے، 50 ہزار کاروں کی درآمد سے مقامی وینڈرز اس بزنس یہ محروم ہوگئے۔ پاپام کے وائس چیئرمین منیر بانا نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت مقامی آٹو انڈسٹری کی قیمت پر ملک کو پرانی کاروں کا کباڑخانہ بنانا چاہتی ہے۔
پاپام کی منیجنگ کمیٹی کے سینئرممبر عثمان ملک نے کہا کہ کسٹمز ڈپارٹمنٹ کو 60 فیصد تک ڈیوٹیوں میں کمی کااختیار دے کر پرانی کاروں کی ملک میں درآمد کو حقیقی معنوں میں مفت بنا دیا گیا ہے۔