سب چلتا ہے
سیاست کی دیگ میں گائے کا گوشت ہو یا گدھے کا ذائقہ، حقیقت یہ ہے کہ سب کا نعرہ چل جاتا ہے۔ سب کا چورن ’’بک‘‘ جاتا ہے۔
کوئی دودھ میں پانی ملا کر بیچے یا پھرکسی کے گھی میں چربی بہہ رہی ہو،اس ملک میں سب کچھ ''بک'' جاتا ہے اور سب کچھ کھا لیا جاتا ہے، سب چلتا ہے۔ چلتی کا نام گاڑی ۔ رکشے سے نکلنے والا دھواں کینسر پھیلا دے یا پھر قبضے کی جگہ دس دس لوگوں میں فروخت ہوجائے مگر اس ملک میں سب چلتا ہے۔ سیاست کی دیگ میں گائے کا گوشت ہو یا گدھے کا ذائقہ، حقیقت یہ ہے کہ سب کا نعرہ چل جاتا ہے ۔ سب کا چورن ''بک'' جاتا ہے۔
نعرہ ، روٹی کوکپڑے میں لپیٹنے کا ہو یا پھر حبیب جالبؔ کے اشعار برائے فروخت ہوں، تالیاں بجانے والے ہر چوک پر مل جاتے ہیں ۔ سب چلتا ہے ۔ کوئی لبرل چاکلیٹ بیچ رہا ہو یا کسی کی دکان پر برقعے لٹکے ہو،آپ کو رش ہر جگہ مل جاتا ہے تو پھر میرے بھائی یہاں بکتا کیا نہیں ہے ؟ اس کے لیے آپ کو پرویز مشرف، الطاف حسین وغیرہ سے پوچھنا ہوگا کہ جب سب چل رہے ہیں تو وہ کیوں نہیں چل رہے ہیں اورجب کوئی نہیں چل رہا تھا تو یہ کیوں چل رہے تھے؟
اس ملک میں چلنے کو سب کچھ چل جاتا ہے اور اونٹ بھی سوئی کے سوراخ سے نکل جاتا ہے اور اگر پھنسنے پر آئے تو پورا ہاتھی نکل جائے گا لیکن دم پھنس جاتی ہے یا پھر پھنسا دی جاتی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ پرویز مشرف فیصلہ کرتے تھے کہ کون سی ''ڈگری'' والا امیدوار الیکشن میں کھڑا ہوسکتا ہے اورکس شکل کا نمونہ وزیر بن سکتا ہے ۔ اب نوبت یہ آچکی ہے کہ قبول ہے، قبول ہے، کرنے کے باوجود بھی نکاح نامہ جاری نہیں ہو رہا ہے ۔
جس نادرا پر انھیں ناز تھا وہ ہی ان کی شناخت چھین لیتا ہے توکبھی کبھار سمجھ نہیں آتا کہ خربوزہ چھری پرگر رہا ہے یا پھر چھری خربوزے کو نہیں چھوڑ رہی ہے۔ تاریخ کا ستم دیکھیں کہ مشرف چلتے رہے اُس کے لیے عمران خان ریفرنڈم میں ووٹ ڈلوا رہے تھے اور پھر مشرف کو چلتا کرنے کے لیے افتخار چوہدری کو سر پر بٹھا کر رکھا ہوا تھا اور اب وہ ہی افتخار چوہدری انھیں تاریخ کا سب سے بدبو دار شخص معلوم ہو رہا ہے ۔ میں یہ جملے ادا کرنے کی گستاخی نہیں کرسکتا یہ سنہری الفاظ تو فواد چوہدری سے نقل کیے ہیں ۔ ورنہ میں کیا اور میری اوقات کیا ۔
ہم مشرف اور الطاف حسین کے علاوہ چوہدری افتخار سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ اس ملک میں کب ،کیوں اورکیسے کوئی چلتا ہے یا پھر فواد چوہدری اس کی وضاحت کریں گے کہ جب یہ شخص اتنا ہی خراب تھا تو پھر یہ کیسے چل پڑا ؟ کیا پھر اس کے کیے گئے فیصلوں کو ماننا ٹھیک تھا یا نہیں ۔ ان کے زمانہ ِانصاف میں ایک وزیر اعظم کوگھر بھیجا گیا تھا ۔کیا انصاف کا بول بالا ہوا تھا ۔ بات جو وقت کے قائدے سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ اس ملک میں ہر چیز چل جاتی ہے جب تک وہ چولہے پر چڑھی ہوئی ہو ۔ جہاں وہ چولہے سے نیچے اتری اُس کی بو سارے ماحول کو خراب کردیتی ہے۔
ہمارے یہاں اگرکوئی مصالحہ چل پڑے تو فورا اُس کے نام کی چھالیہ سے لے کر صابن تک مارکیٹ میں آجاتے ہیں۔ ہماری عقل مندی یہ ہے کہ اُس نام کے صابن میں ہم مصالحے کا ذائقہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ۔ اب جب صابن اور چھالیہ میں مصالحے کا لطف نہیں ملتا تو فورا ہمارا موڈ تبدیل ہوجاتا ہے ۔ ہمیں ہر طرف دو نمبریاں نظر آنے لگ جاتی ہیں ۔ ان کی اپنی سوچ ہے ایسے ہی ہمارے افتخار چوہدری ہیں ، خوب فن جانتے ہیں کہ کیسے '' بریکنگ نیوز'' بنانی ہے ۔ اپنے دور اقتدار میں بھی بقول آصف علی زرداری کہ ہیڈ لائن بنائی جارہی ہے اور حسب معمول فواد چوہدری نے بھرپور جواب دے کر اس مصالحے کے نام سے صابن مارکیٹ میں پھینک دیا ہے ۔ اب سرخیاں بنانے والوں کا کام ہے کہ کون صابن میں مصالحہ کا ذائقہ ڈھونڈھتا ہے اورکون مصالحے میں سے صابن نکالتا ہے ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
ایک صاحب جوکراچی کے علاقے رنچھوڑ لین میں چربی جلا کرگھی بناتے ہیں، فرما رہے تھے کہ کیا وقت آگیا ہے کہ اب چربی بھی دو نمبر آنے لگی ہے ، ایسے میں ہمارا دھندا کیسے چلے گا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اب اس دو نمبر مارکیٹ کا ایک ہی حل ہے کہ میں چائنا سے مصنوعی چربی منگوا کر سب کے منہ بند کردوں ، لیکن ان صاحب کو چلانی ہے تو بس چربی چلانی ہے ۔ یہاں اقتدارکی دیگ میں ڈالنے والے گھی کی کہانی بھی ایسی ہی ہے ۔
سب لوگ یہ ہی کہتے ہیں کہ کرسی کی دیگ تک جو لوگ پہنچاتے ہیں وہ یہ ہی بد بودارگھی ہوتے ہیں ۔ جسے سب لوگ کرپٹ ، بدعنوان ، چور، ڈاکو ، شرپسند وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں ، لیکن ہر دکاندار چاہتا ہے کہ اس کی دیگ میں یہ گھی ڈالیں ۔ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ وہ اس گھی کو کبھی استعمال نہیں کریں گے آج اس کے ذائقے کا لطف لے رہے ہیں ۔ ایسے میں اگر کچھ چاہنے والے گھرکے باہر بیٹھیں ہوں تو انھیں تسلیاں دیں، بریانی کی دیگیں دیں انھیں یہ تو مت کہیں کہ اب پانچ ہفتے رہ گئے ہیں، اگر آپ لوگ میرے گھرکے باہر بیٹھیں رہیں گے تو میں الیکشن کیسے لڑوں گا ۔انھیں آپ آنکھ مارکرکہہ دیں اس ملک میں سب چلتا ہے ۔
برگر اور بن کباب کے درمیان آج کل پاکستان کے تمام شہروں میں ''دیسی برگر '' بھی چل پڑے ہیں ۔ جو نہ تو ہمارے روایتی بن کباب ہیں اور نہ ہی''گورے'' کے دیس سے آئے ہوئے برگر ہیں ۔ لاہور کے مال روڈ پر سگریٹ کی دکان کے ساتھ ایک دیسی برگر والا کھڑا تھا ۔ میں نے اس پوچھا بھائی یہ تم برگرکہہ کر اسے بیچ رہے ہو اس سے ان کی دل آزاری ہوگی اور تم بن کباب کا حق مار رہے ہو اس سے وہ دھرنا دے دیں گے ۔ تم اس کا نام کیوں نہیں بدل لیتے ۔
کہنے لگا کہ کوئی جتنا بھی لبرل ہو جائے اگر اسے اس ملک میں چلنا ہے تو اپنے اوپر طالبان خان اور پھر پیرصاحب کا لیبل لگا کر ہی چلنا پڑے گا ۔ یہاں سب کچھ چلتا ہے بس پیکنگ ''لوکل'' ہونی چاہیے اور یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے برگرکو کل کے اخبار میں لپیٹ کر میرے سامنے رکھ دیا ۔ اخبار کی سیاہی نے برگرکے باہر والے حصے کو کالا کر دیا تھا ۔ برگر اب ''لوکل'' اسٹائل میں بکنے کے لیے تیار تھا۔اب سب چلتا ہے ۔
اسی طرح تمام تر ترقی پسند سوچ ، لبرل ماحول ، نئے انقلابی امیدوار اور نئے پاکستان کو لپیٹ دیا گیا ہے''لوکل'' اسٹائل میں ۔ اب اس کے اوپر پیکنگ آگئی ۔ اس لیے میرے بھائی جو لوگ اپنی تنقید کا ٹوکرا لے کر مال بیچ رہے ہیں وہ اس فارمولے کو یاد رکھیں کہ یہاں سب کچھ چلتا ہے ۔ برگرکو ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی بن کباب کو منہ بنا کر دہرا دینا چاہیے کیوں کہ دیسی برگر تیار ہوچکا ہے ، جو پاکستان کے ہر چوک پر ملتا ہے ۔ زوروشور کے ساتھ ہرکوئی کھا بھی رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو چل رہی تھی کہ ایک شخص جہاز میں بھیک مانگ رہا ہے، لوگ اسے پیسے بھی دے رہے تھے ۔ یہ خبر اگلے دن اخبار میں چھپی اور اسی دن مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے لگ گئی ۔ سوشل میڈیا پر شور مچ گیا کہ ایسا باکمال بھکاری کیسے جہاز میں سوار ہوگیا ۔ کچھ لوگ PIA کو برا کہنے لگے ۔کوئی اپنا منہ کھول کر سول ایوی ایشن پر برس پڑا ۔کوئی ائیر پورٹ سیکیورٹی کی خامیاں نکالنے لگا۔ امیگریشن اسٹاف پر انگلی اٹھی تو کسی نے بھکاری کو سیاستدان کا رشتے دار بنا دیا ۔ سب چلتا رہا ۔ ہمارے ایک دوست نے تو سوشل میڈیا پر لمبی چوڑی کہانی لکھ دی اور اس میں شاہد خاقان عباسی کو بھی رگڑا لگا دیا ۔ بہت دیر بعد سول ایوی ایشن والوں نے وضاحت دی کہ جو ویڈیو چل رہی ہے وہ نہ تو پاکستان کی ہے اور نہ ہی پاکستان کے کسی جہاز میں ایسا ہوا ہے ۔
بلکہ یہ واقعہ قطر سے ایران کے شہر شیراز جاتے ہوئے ہوا ہے۔اس میں دور دور تک پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ انھوں نے اتنی لمبی کہانی کیوں لکھ دی تھی تواس نے بڑے فخر سے کہا کہ انیس بھائی یہاں سب چلتا ہے ۔ الیکشن کا موسم ہے کوئی چربی والا گھی نکالے یا پھر دیسی برگرکو بیچے یہاں سب چلتا ہے ۔اس لیے کسی بات کو دل پر مت لیں ۔الیکشن نئے ضرور ہیں مگر '' ٹھپے'' پرانے ہی ہیں ۔ جہاں کسی کھمبے پر جھنڈا دیکھیں یا دیوار پر نعرہ دل میں آہستگی سے کہیں سب چلتا ہے اور آگے بڑھ جائیں ، ڈپریشن سے بچ جائیں گے ۔
نعرہ ، روٹی کوکپڑے میں لپیٹنے کا ہو یا پھر حبیب جالبؔ کے اشعار برائے فروخت ہوں، تالیاں بجانے والے ہر چوک پر مل جاتے ہیں ۔ سب چلتا ہے ۔ کوئی لبرل چاکلیٹ بیچ رہا ہو یا کسی کی دکان پر برقعے لٹکے ہو،آپ کو رش ہر جگہ مل جاتا ہے تو پھر میرے بھائی یہاں بکتا کیا نہیں ہے ؟ اس کے لیے آپ کو پرویز مشرف، الطاف حسین وغیرہ سے پوچھنا ہوگا کہ جب سب چل رہے ہیں تو وہ کیوں نہیں چل رہے ہیں اورجب کوئی نہیں چل رہا تھا تو یہ کیوں چل رہے تھے؟
اس ملک میں چلنے کو سب کچھ چل جاتا ہے اور اونٹ بھی سوئی کے سوراخ سے نکل جاتا ہے اور اگر پھنسنے پر آئے تو پورا ہاتھی نکل جائے گا لیکن دم پھنس جاتی ہے یا پھر پھنسا دی جاتی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ پرویز مشرف فیصلہ کرتے تھے کہ کون سی ''ڈگری'' والا امیدوار الیکشن میں کھڑا ہوسکتا ہے اورکس شکل کا نمونہ وزیر بن سکتا ہے ۔ اب نوبت یہ آچکی ہے کہ قبول ہے، قبول ہے، کرنے کے باوجود بھی نکاح نامہ جاری نہیں ہو رہا ہے ۔
جس نادرا پر انھیں ناز تھا وہ ہی ان کی شناخت چھین لیتا ہے توکبھی کبھار سمجھ نہیں آتا کہ خربوزہ چھری پرگر رہا ہے یا پھر چھری خربوزے کو نہیں چھوڑ رہی ہے۔ تاریخ کا ستم دیکھیں کہ مشرف چلتے رہے اُس کے لیے عمران خان ریفرنڈم میں ووٹ ڈلوا رہے تھے اور پھر مشرف کو چلتا کرنے کے لیے افتخار چوہدری کو سر پر بٹھا کر رکھا ہوا تھا اور اب وہ ہی افتخار چوہدری انھیں تاریخ کا سب سے بدبو دار شخص معلوم ہو رہا ہے ۔ میں یہ جملے ادا کرنے کی گستاخی نہیں کرسکتا یہ سنہری الفاظ تو فواد چوہدری سے نقل کیے ہیں ۔ ورنہ میں کیا اور میری اوقات کیا ۔
ہم مشرف اور الطاف حسین کے علاوہ چوہدری افتخار سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ اس ملک میں کب ،کیوں اورکیسے کوئی چلتا ہے یا پھر فواد چوہدری اس کی وضاحت کریں گے کہ جب یہ شخص اتنا ہی خراب تھا تو پھر یہ کیسے چل پڑا ؟ کیا پھر اس کے کیے گئے فیصلوں کو ماننا ٹھیک تھا یا نہیں ۔ ان کے زمانہ ِانصاف میں ایک وزیر اعظم کوگھر بھیجا گیا تھا ۔کیا انصاف کا بول بالا ہوا تھا ۔ بات جو وقت کے قائدے سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ اس ملک میں ہر چیز چل جاتی ہے جب تک وہ چولہے پر چڑھی ہوئی ہو ۔ جہاں وہ چولہے سے نیچے اتری اُس کی بو سارے ماحول کو خراب کردیتی ہے۔
ہمارے یہاں اگرکوئی مصالحہ چل پڑے تو فورا اُس کے نام کی چھالیہ سے لے کر صابن تک مارکیٹ میں آجاتے ہیں۔ ہماری عقل مندی یہ ہے کہ اُس نام کے صابن میں ہم مصالحے کا ذائقہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ۔ اب جب صابن اور چھالیہ میں مصالحے کا لطف نہیں ملتا تو فورا ہمارا موڈ تبدیل ہوجاتا ہے ۔ ہمیں ہر طرف دو نمبریاں نظر آنے لگ جاتی ہیں ۔ ان کی اپنی سوچ ہے ایسے ہی ہمارے افتخار چوہدری ہیں ، خوب فن جانتے ہیں کہ کیسے '' بریکنگ نیوز'' بنانی ہے ۔ اپنے دور اقتدار میں بھی بقول آصف علی زرداری کہ ہیڈ لائن بنائی جارہی ہے اور حسب معمول فواد چوہدری نے بھرپور جواب دے کر اس مصالحے کے نام سے صابن مارکیٹ میں پھینک دیا ہے ۔ اب سرخیاں بنانے والوں کا کام ہے کہ کون صابن میں مصالحہ کا ذائقہ ڈھونڈھتا ہے اورکون مصالحے میں سے صابن نکالتا ہے ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
ایک صاحب جوکراچی کے علاقے رنچھوڑ لین میں چربی جلا کرگھی بناتے ہیں، فرما رہے تھے کہ کیا وقت آگیا ہے کہ اب چربی بھی دو نمبر آنے لگی ہے ، ایسے میں ہمارا دھندا کیسے چلے گا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اب اس دو نمبر مارکیٹ کا ایک ہی حل ہے کہ میں چائنا سے مصنوعی چربی منگوا کر سب کے منہ بند کردوں ، لیکن ان صاحب کو چلانی ہے تو بس چربی چلانی ہے ۔ یہاں اقتدارکی دیگ میں ڈالنے والے گھی کی کہانی بھی ایسی ہی ہے ۔
سب لوگ یہ ہی کہتے ہیں کہ کرسی کی دیگ تک جو لوگ پہنچاتے ہیں وہ یہ ہی بد بودارگھی ہوتے ہیں ۔ جسے سب لوگ کرپٹ ، بدعنوان ، چور، ڈاکو ، شرپسند وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں ، لیکن ہر دکاندار چاہتا ہے کہ اس کی دیگ میں یہ گھی ڈالیں ۔ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ وہ اس گھی کو کبھی استعمال نہیں کریں گے آج اس کے ذائقے کا لطف لے رہے ہیں ۔ ایسے میں اگر کچھ چاہنے والے گھرکے باہر بیٹھیں ہوں تو انھیں تسلیاں دیں، بریانی کی دیگیں دیں انھیں یہ تو مت کہیں کہ اب پانچ ہفتے رہ گئے ہیں، اگر آپ لوگ میرے گھرکے باہر بیٹھیں رہیں گے تو میں الیکشن کیسے لڑوں گا ۔انھیں آپ آنکھ مارکرکہہ دیں اس ملک میں سب چلتا ہے ۔
برگر اور بن کباب کے درمیان آج کل پاکستان کے تمام شہروں میں ''دیسی برگر '' بھی چل پڑے ہیں ۔ جو نہ تو ہمارے روایتی بن کباب ہیں اور نہ ہی''گورے'' کے دیس سے آئے ہوئے برگر ہیں ۔ لاہور کے مال روڈ پر سگریٹ کی دکان کے ساتھ ایک دیسی برگر والا کھڑا تھا ۔ میں نے اس پوچھا بھائی یہ تم برگرکہہ کر اسے بیچ رہے ہو اس سے ان کی دل آزاری ہوگی اور تم بن کباب کا حق مار رہے ہو اس سے وہ دھرنا دے دیں گے ۔ تم اس کا نام کیوں نہیں بدل لیتے ۔
کہنے لگا کہ کوئی جتنا بھی لبرل ہو جائے اگر اسے اس ملک میں چلنا ہے تو اپنے اوپر طالبان خان اور پھر پیرصاحب کا لیبل لگا کر ہی چلنا پڑے گا ۔ یہاں سب کچھ چلتا ہے بس پیکنگ ''لوکل'' ہونی چاہیے اور یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے برگرکو کل کے اخبار میں لپیٹ کر میرے سامنے رکھ دیا ۔ اخبار کی سیاہی نے برگرکے باہر والے حصے کو کالا کر دیا تھا ۔ برگر اب ''لوکل'' اسٹائل میں بکنے کے لیے تیار تھا۔اب سب چلتا ہے ۔
اسی طرح تمام تر ترقی پسند سوچ ، لبرل ماحول ، نئے انقلابی امیدوار اور نئے پاکستان کو لپیٹ دیا گیا ہے''لوکل'' اسٹائل میں ۔ اب اس کے اوپر پیکنگ آگئی ۔ اس لیے میرے بھائی جو لوگ اپنی تنقید کا ٹوکرا لے کر مال بیچ رہے ہیں وہ اس فارمولے کو یاد رکھیں کہ یہاں سب کچھ چلتا ہے ۔ برگرکو ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی بن کباب کو منہ بنا کر دہرا دینا چاہیے کیوں کہ دیسی برگر تیار ہوچکا ہے ، جو پاکستان کے ہر چوک پر ملتا ہے ۔ زوروشور کے ساتھ ہرکوئی کھا بھی رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو چل رہی تھی کہ ایک شخص جہاز میں بھیک مانگ رہا ہے، لوگ اسے پیسے بھی دے رہے تھے ۔ یہ خبر اگلے دن اخبار میں چھپی اور اسی دن مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے لگ گئی ۔ سوشل میڈیا پر شور مچ گیا کہ ایسا باکمال بھکاری کیسے جہاز میں سوار ہوگیا ۔ کچھ لوگ PIA کو برا کہنے لگے ۔کوئی اپنا منہ کھول کر سول ایوی ایشن پر برس پڑا ۔کوئی ائیر پورٹ سیکیورٹی کی خامیاں نکالنے لگا۔ امیگریشن اسٹاف پر انگلی اٹھی تو کسی نے بھکاری کو سیاستدان کا رشتے دار بنا دیا ۔ سب چلتا رہا ۔ ہمارے ایک دوست نے تو سوشل میڈیا پر لمبی چوڑی کہانی لکھ دی اور اس میں شاہد خاقان عباسی کو بھی رگڑا لگا دیا ۔ بہت دیر بعد سول ایوی ایشن والوں نے وضاحت دی کہ جو ویڈیو چل رہی ہے وہ نہ تو پاکستان کی ہے اور نہ ہی پاکستان کے کسی جہاز میں ایسا ہوا ہے ۔
بلکہ یہ واقعہ قطر سے ایران کے شہر شیراز جاتے ہوئے ہوا ہے۔اس میں دور دور تک پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ انھوں نے اتنی لمبی کہانی کیوں لکھ دی تھی تواس نے بڑے فخر سے کہا کہ انیس بھائی یہاں سب چلتا ہے ۔ الیکشن کا موسم ہے کوئی چربی والا گھی نکالے یا پھر دیسی برگرکو بیچے یہاں سب چلتا ہے ۔اس لیے کسی بات کو دل پر مت لیں ۔الیکشن نئے ضرور ہیں مگر '' ٹھپے'' پرانے ہی ہیں ۔ جہاں کسی کھمبے پر جھنڈا دیکھیں یا دیوار پر نعرہ دل میں آہستگی سے کہیں سب چلتا ہے اور آگے بڑھ جائیں ، ڈپریشن سے بچ جائیں گے ۔