نباتات جادو کی چھڑی

ہر انسان کی زندگی اس کی ذاتی ذمے داری کے دائرے کار میں آتی ہے۔ لہٰذا اسے اس بارے میں مکمل معلومات رکھنی چاہیے۔

shabnumg@yahoo.com

فطرت کی تاثیر انسان کے ذہن، جسم و روح کو ہمیشہ سے جلا بخشتی رہی ہے، مگر انسان ہمیشہ سے فطرت کے شفایاب ہنر سے قدرے بے خبر رہا ہے۔ نباتات کی وسیع و عریض دنیا اپنے اندر زندگی کا جوہر سمیٹے ہوئے ہے۔ جس سے لا تعلقی و لا علمی بیماری کا سبب بنتی ہے۔

انسان کے جسم میں فطری توانائی کا بہاؤ موجود ہے جس کی کمی و بیشی اکثر صحت کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ فطرت بھی توانائی کی لہروں سے سرشار ہے، جب تک انسان اپنے اندرکی رو کو باہر ماحول میں موجود فطری لہروں سے ہم آہنگ کرنے کا سلیقہ نہیں سیکھتا، وہ بے چین اور غیر صحت بخش زندگی گزارتا رہے گا۔

ایشیا و ساؤتھ ایشیا کی تہذیبیں نباتات سے عشق کرتی ہیں وہ مکمل طور پر فطرت کی افادیت سے واقف ہیں ۔ لہٰذا سبزے سے ہر لحاظ سے طراوٹ و شفا حاصل کرتی ہیں ۔ فطرت کے اس خزانے میں پھل، پھول، سبزیاں، جڑی بوٹیاں اور درخت شامل ہیں۔

آج کل ماحولیاتی آلودگی اور گرمی کی شدت کی وجہ سے لوگوں کوکئی عارضے لاحق ہوچکے ہیں ، جن کا حل دوائیاں ہرگز نہیں ہے بلکہ فطری طریقہ علاج میں ہے۔ بہت سی جسمانی عارضوں کا علاج ایک بیج میں موجود ہے جسے Ricinus Communis Plant کہا جاتا ہے، جنھیں کیسٹر بینزکے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ان بینز کا تیل کیسٹر آئل (ارنڈی) کے نام سے تقریباً ہر دوا خانے پر دستیاب ہوتا ہے۔ مصر میں یہ تیل لیمپ جلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دواؤں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ صدیوں سے بڑے بوڑھے بچوں کے لیے ارنڈی کا تیل تجویز کرتے رہے ہیں۔ جس کا سب سے بڑا کام جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرنا ہے۔

اس کا استعمال Lymphatic Function کو فعال کرتا ہے یہ دل سے پورے جسم تک سرکولیشن سسٹم کو متحرک کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ مدافعتی خلیے جو Lymphocytes کے نام سے جانے جاتے ہیں یہ بکٹیریا، وائرس یا بیماریوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ گلے، ناک، بخار یا سانس کی بیماریوں میں یہ غدود سوج جاتے ہیں۔ اکثر گلے، سینے یا کاندھوں پر گھٹیاں نمودار ہوتی ہیں جو چمڑی کے اندر محسوس ہوتی ہیں اس صورتحال میں ارنڈی کا تیل استعمال کرنا مفید ثابت ہوتا ہے۔ پینے کے الگ فوائد ہیں مگر لگانے سے یہ سوجے ہوئے غدود چند دنوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے۔

جسمانی مشق سانسوں کی مشق، ذہنی دباؤ میں کمی یا اچھی خوراک سے بہتر علاج کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ تاہم ایسے تمام تر مسائل کا حل کیسٹر آئل میں مل جاتا ہے۔ کئی لوگ اس تیل کا استعمال کرکے آپریشن سے بچ جاتے ہیں۔ بعض اوقات پس بھرے دانوں میں بھی افاقہ دکھائی دیا ہے۔ یہ تمام تر بکٹیریا انفیکشن کی صورتیں یا مختلف جراثیم کی کارستانیاں اس شفایاب محلول سے بہتر ہوسکتی ہیں۔ چمڑی کی بیماریاں بڑھی ہیں۔ جس کی وجہ ماحول و پانی کی آلودگی ہے۔

اسکن کے تمام تر مسائل جس میں دانے، مھاسے و دیگر صورتوں میں بھی فقط خطرہ علاج موثر ہے۔ اکثر ہاتھوں اور پیروں پر Cohn چھوٹے کھردرے دانے نکل آتے ہیں جو کیسٹر آئل لگانے سے غائب ہوجاتے ہیں۔ بیکنگ سوڈا اور تیل ملاکر لگانے سے بھی افاقہ ہوتا ہے منہ کے چھالے، کان کی تکلیف ہو یا زخم کی صورت یا جسم کا درد سمجھ لیجیے اگر یہ تیل گھر میں موجود ہے تو گو یا آب حیات ہے۔ آپ کو بار بار طبیبوں کے در پر جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔


ایک اور اہم مسئلہ چمڑی کا Fungus (پھپھوندی) ہے جس کی ننانوے ہزار قسمیں ہیں۔ جس کا تعلق نباتات، زمین اور طب سے ہے۔ جسم میں فنگس کا ہونا کمزور مدافعتی نظام کی علامت ہے یہ علامات پھیپھڑوں کی تکلیف، منہ، گلے، خون، پیر کے ناخن سے ظاہر ہوتی ہیں جو زیادہ تر پانی، زمین اور نمی کا رد عمل ہیں۔ فنگس کی کوئی بھی صورت ہو تو اس کا علاج بھی کیسٹر آئل، نیم، گلاب کی پتیوں سے ممکن ہے۔ فنگس کی دوائیں مہلک ہیں جو جگر کی بیماریوں کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔

کوئی دور تھا جب جا بجا نیم کے درخت دکھائی دیتے تھے مگر اب کہیں کہیں یہ درخت نظر آتا ہے۔ یہ درخت پانچ ہزار سال سے انسانیت کی خدمت کر رہا ہے۔ انڈیا میں Divine Tree کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے تین یا چار قطرے روز پانی میں ڈال کر پے جائیں تو ذیابیطس سے لے کر چمڑی کی ہر بیماری کے لیے فائدہ مند ہے۔ قدیم زمانے سے اس کے پتے ابال کر اس پانی سے غسل کرنے کے بے شمار فوائد بتائے جاتے ہیں۔ یہ بہترین ماؤتھ واش اور اینٹی بیکٹریل دوا ہے۔ یہ یرقان میں بھی مفید ہے۔ گلاب ایک اور معجزاتی پودا ہے اس کے عرق کے استعمال کے بھی بے شمار فوائد ہیں۔ عرق گلاب چمڑی، منہ، گلے ودیگر امراض میں بہترین حل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گلاب کی مہک اینگزائٹی کو ختم کرتی ہے ہر طرح کے تشویشی امراض میں گلاب کا استعمال اچھے نتائج برآمد کرتا ہے اسے سونگھنے سے نروس سسٹم فعال ہوجاتا ہے۔

وقت کے بدلنے سے جیسے ہی انسان جدید دور میں داخل ہوتا ہے وہ زیادہ غیر فطری زندگی کا عادی ہونے لگا۔ فطری ماحول سے اس کا رابطہ منقطع ہوا اور مشینیں، رشتوں کی جگہ لینے لگی۔ موبائل، لیپ ٹاپ کی وجہ سے سوشل میڈیا کی وبا پھیلی، سوشل میڈیا کو منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اگر زندگی بخش معلومات کے لیے بروئے کار لایا جاتا تو ہر شعبے میں بہتری آسکتی تھی۔ منفی رویے جسم کے خلیوں کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ہر سمت منفی رویوں کا جال الجھانے کے لیے ہمہ وقت تیار نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اسپتالوں کی رونق میں دن بدن اضافہ ہورہاہے۔ خوشحالی کو منفی رویوں کا دیمک چاٹ رہا ہے۔ ہر کسی نے گرنے کے لیے اپنا گڑھا خود کھود رکھا ہے۔

بہر کیف صنعتی کیمیا نے جہاں انسان کو بہتری عطا کی وہاں کیمیائی اشیا کے استعمال نے زندگی کا دائرہ تنگ کردیا جن میں دیواروں کا رنگ، دوائیں، کاسمیٹکس، ڈٹرجنٹ، پسیٹیسائیڈ، پٹرول، ویلڈنگ فیومز، ہر بیسائیڈس ودیگر کیمیائی اشیا شامل ہیں۔ صفائی کے لیے استعمال ہونے والے تمام کیمیکل مہلک ہیں جس میں صابن، صرف، فنائل، پرفیومز، ایئر اسپرے، انسیکٹ اسپرے، فاسفیٹ، سالڈس، ایسڈ، پی ایچ اسٹیبلائیزز ودیگر مصنوعات شامل ہیں۔

ان کے استعمال کے وقت ماسک اور دستانے پہننے چاہئیں، صفائی پر معمور اکثر ملازم بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے یہ کیمیکل استعمال کرتے ہیں اور مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گھروں میں بھی ان کا استعمال مضر صحت ہے۔ انھیں گھروں میں بھی احتیاط کے ساتھ اپلائی کرنا چاہیے۔ ان کیمیائی مصنوعات کی جگہ بیکنگ سوڈا، نمک، سرکہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایئر فریشنر کے لیے سرکے میں بید مشک کے پتے مفید رہتے ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں تمام تر کیمیکل انتہائی احتیاط کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی احتیاط نہیں برتی جاتی۔ زندگی کو محفوظ تر بنانے کے تمام تر اصول موجود ہیں۔ کیمیائی اشیا پر احتیاطی تدابیر بھی درج ملتی ہیں مگر ہم نہ ان پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو ان خطرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ ہر انسان کی زندگی اس کی ذاتی ذمے داری کے دائرے کار میں آتی ہے۔ لہٰذا اسے اس بارے میں مکمل معلومات رکھنی چاہیے۔

ماحولیاتی آلودگی بڑھنے سے سب سے زیادہ متاثرین میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ خواتین اس لحاظ سے کہ گھر کے افراد کی صحت کو خرابی کی صورت ان کے کاموں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی بہتری اور کیمیائی اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے خواتین کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ گھر کے افراد کی بہتر صحت کا دفاع ان کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔
Load Next Story