انقلابی رہنما عزیزاللہ کی یادیں
عزیز اللہ عوامی لیگ اور نیپ کی مرکزی کمیٹی کے رکن رہے۔
KARACHI:
21 جون کو عظیم انقلابی رہنما سائیں عزیزاللہ کی سولہویں برسی ہے۔ ان کا سیا سی سفر بھارتیہ نوجوان سبھا کے کارکن کے طور پر شروع ہوا اور اختتام کے وقت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مرکزی کمیٹی کی سیکریٹریٹ اور پولیٹ بیورو کے رکن تھے۔ بھا رتیہ نوجوان سبھا کے رہنما شہید بھگت سنگھ تھے اورکمیونسٹ پارٹی کے رہنما امام علی نازش تھے۔ عزیزاللہ اکتوبر 1918ء میں پیلی بھیت یو پی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
در حقیقت ان کے آ باؤاجداد دہلی کے تھے۔ ان کے دادا شہید سمیع اللہ جنگ آزادی کے ہیرو تھے جنھیں دہلی میں برطانوی سامراج نے پھانسی دے دی تھی۔ ان کی شہادت کے بعد بھی انگریز استعمارکے کارندوں نے ان کے خاندان کو ہراساں کرنا شروع کیا تو عزیز اللہ کے والد حبیب اللہ اپنے خاندان کے ہمراہ مراد آباد ہجرت کرگئے،جب وہاں بھی ان کے خاندان کو ہراساں کیا جانے لگا تو ان کے وا لد پیلی بھیت منتقل ہوگئے، وہیں عزیز اللہ پیدا ہوئے۔
ان کے والد حبیب اللہ اسکول ہیڈ ماسٹر تھے مگر تھے جنگ آزادی کے متوالے۔ پیلی بھیت کا کوئی شخص جب انگریز استعمار سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہونے کے لیے قدم رکھتا تھا خواہ ہندو ہو یا مسلم دعاء کے لیے حبیب اللہ کی قدم بوسی کرنے آتا تھا۔ عزیز اللہ نے بچپن ہی سے منشی پریم چند، میکسم گورکی اورکرشن چندرکی خاصی کتابیں پڑھ ڈالی تھیں اور سوشلسٹ رہنما سوبھاش چندربوش سے خاصے متاثر تھے۔
وہ اسکول لائف میں ہی بھگت سنگھ کی قائم کردہ نوجوانوں کی تنظیم بھارتیہ نوجوان سبھا کے کارکن بن گئے تھے۔ وہاں ان کی ڈیو ٹی یہ لگی تھی کہ انگریزوں سے بندوق چھین کر مخصوص مقام پر پہنچانا ہے اور انھوں نے ساٹھ بندوقیں چھیننے کے دوران وہ دو بار جان سے جاتے جاتے بچ گئے۔ بعد ازاں بھارتیہ کسان سبھا میں خاصہ سرگرم رہے اور پیلی بھیت کے معروف کسان رہنما بھی تھے۔ انھوں نے کسانوںکے بہت سے مطالبات بھی منوائے اور بعد میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوگئے۔کانگریس میں دوگروپس تھے، ایک نرم پنتھی اور دوسرا گرم پنتھی۔ عزیز اللہ کا تعلق گرم پنتھی یعنی کمیونسٹ نظریے سے تھا۔
جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوچکا اور جواہر لال نہرو عوام کو تقسیم کے فارمولے پر رضا مند کرنے کی خاطر پیلی بھیت آئے تو جلسے میں عزیزاللہ نے نہرو سے سوال کیا کہ آپ ہندوستان کو تقسیم کرکے اس کی ترقی کو دو سوسال پیچھے لے جا رہے ہیں۔ اس پر نہرو آگ بگولا ہوگئے۔
عزیزاللہ کے عقب میں خاکسار تحریک کے ایک سرگرم بزرگ ولی محمد بیٹھے تھے، جلسے کے بعد انھوں نے عزیزاللہ سے مخاطب ہوکرکہا کہ آپ نے اچھا سوال کیا، اس خوشی میں میں اپنی بیٹی سے آپ کی شادی کی تجویزکرتا ہوں، جسے عزیزاللہ نے قبول کر لیا۔ بعد میں ان کی بیوی فہمیدہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں انجمن مفاد نسواں اور پھر انجمن جمہوریت پسند خواتین کی صدر بنی، اب وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔ 1950ء میں عزیز اللہ خاندن کے ساتھ پیلی بھیت سے جیکب آباد، پاکستان آگئے۔
جیکب آباد کے کیمپ میں وبائی امراض میں مبتلا ہوکر ان کا ایک بیٹا انتقال کرگیا۔ جیکب آ باد میں انھوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شمولیت اختیارکی۔ انھیں سب سے پہلے بدرالدین وارثی نے کمیونسٹ پارٹی کا مینی فیسٹو پڑھنے کو دیا۔ پھر جیکب آ باد میں بدرالدین، انتظار حسین، برکت اللہ آزاد اور عزیزاللہ نے ملکرکمیو نسٹ پارٹی کا سیل تشکیل دیا اور 1951ء میںکمیو نسٹ پارٹی اور سندھ ہاری کمیٹی کی جانب سے برکت اللہ آزاد کو صوبائی انتخابات میں الیکشن لڑوایا۔ وہ جیت گئے تھے لیکن ری کا ؤنٹنگ کرکے ہروایا گیا۔ بعد ازاں وہ جیکب لائن کراچی آ گئے اور نیوی میں سول آفیسر کے طور پر ملاز مت کی۔
بعد میں پارٹی فیصلے کے تحت ملازمت چھوڑکر پارٹی کے فل ٹائیمر بن گئے۔ کراچی میں چاچا علی جان اور ڈاکٹر اعزازنذیر کے ساتھ مل کر مزدوروں میں کام شروع کیا۔1951ء میں کوئٹہ میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ اسی سال پشاور میں کمیونسٹ پارٹی کا ایک سیل تشکیل دیا۔ جس کے رکن خوشحال خان، صنوبر خان اور افضل بنگش تھے۔ انھیں دنوں سندھ ہاری کمیٹی نے ہاری الاٹی تحریک شروع کر رکھی تھی ۔اندورون سندھ کے کامریڈوں نے کرا چی سے دوکامریڈزکو اندرون سندھ رہنمائی کے لیے بھیجنے کا مطالبہ کیا، جس پر عزیزاللہ اور عزیزسلام بخاری کو بھیجا گیا۔ ایک اردو بولنے والا اور دوسرا گجراتی ۔بعد ازاں دو نوں نے سندھی زبان سیکھی اور سندھی میں تقریریں بھی کرتے تھے۔
ہاری کمیٹی کا مطالبہ یہ تھا کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہا جرین کو 25 ہزار رو پے دینے کی بجائے 50 ہزار روپے میں حکومت خود انھیں کوئی کاروبار کا بندوبست کرکے دے اورہاریوں کو 25 ایکڑ زمین دینے کی بجا ئے 50 ایکڑ زمین دی جا ئے۔ آخرکار ان کے مطالبات مانے گئے، چونکہ عزیزاللہ سندھی میں تقریرکرلیتے تھے اس لیے کراچی کے لوگوں نے انھیں سائیں عزیزاللہ کہہ کر پکارتے تھے۔ عزیز اللہ عوامی لیگ اور نیپ کی مرکزی کمیٹی کے رکن رہے اور مو لانا عبدالحمید خان بھاشانی، حسین شہید سہروردی، محمود الحق عثمانی اور ولی خان کے بہت نزدیک رہ کر سیاسی سرگرمیاںکیں، جب شہید سہروردی وزیراعظم بنے تو عزیزاللہ سے پوچھا کہ آپ کو پاکستان میں کیا چاہیے؟
جس پر عزیزاللہ نے جواب میں کہا کہ ہما رے چار ساتھی بشمول امام علی نازش جیل میں قید ہیں ان کی رہائی چا ہیے، پھر ان کی فورا رہائی بھی ہوگئی اور جب شہید سہروردی نے مصر پر فرانس اور برطانیہ کے حملے کی حمایت میں بیان دیا تو عزیزاللہ نے عوامی لیگ چھوڑ دی۔
ایوبی آمریت میں جب سیاسی پابندیاں لگیں تو بلوچ نوجوان پہاڑوں پہ چلے گئے اور جب بھٹو نے عطا اللہ مینگل کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا تو بلوچ نوجوان پھر پہاڑوں پہ چلے گئے اور مسلح کارروائی شروع کردی تو اس وقت بلوچستان سے خفیہ طور پرنکالے جانے وا لے رسالے کے ایڈیٹر سائیں عزیزاللہ ہوا کرتے تھے۔ عزیز اللہ سندھ میں جی ایم سید، سوبھوگیان چندانی، پہلومل، سید جمال الدین بخاری، عزیز سلام بخاری اور شانتا سمیت معروف کمیونسٹ اور ہاری رہنماؤں کے ساتھ کسانوں کے حقوق کے لیے تادم مرگ جدوجہد کرتے رہے ۔
وہ روس، مشرقی یورپ، وسطیٰ ایشیا، کوہ قاف ، ایشیائے کوچک ، جنوبی افریقہ ، ہندوستان، ایران ، سعودی عرب اور افغانستان میں بارہا گئے اور خطاب بھی کیا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے دوران ان کے چار سال مہمان رہے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ ، سائیں عزیزاللہ سے رہنمائی بھی حاصل کرتے تھے۔ آج سائیں عزیزاللہ کا نظریہ یورپی دنیا میں اپنے آب وتاب سے پروان چڑھ رہا ہے۔ امریکا کے سوشلسٹ رہنما برنی سیندڑز نے پھر ایک بار 2020ء میں ہونے والے صدارتی انتخا بات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے ۔
ادھر برطانیہ میں لیبر پارٹی کے حزب اختلاف کے لیڈر جیمری کوربون اپنی تمام تر توانائیوں سے آیندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ پاکستان میں بھی بابا جان اور علی وزیر ایم ایل اے اور ایم این اے کے انتخابات میں ری کاؤنٹنگ، ریگینگ، پینڈنگ اور عدالتی احکام کے ذریعے انھیں ہروایا گیا مگر یہ ر کاوٹیں زیادہ عرصے نہیں چل سکیں گی ۔امریکی صدر ٹرمپ کو سوشلسٹ کوریا کے صدرکم جونگ ان سے ملنا پڑا اور فوج کے نمایندے فا ٹا عمائدین کو پی ٹی ایم کے رہنما احسان داوڑ سے مذاکرات کرنے پڑے ۔ یہ جدوجہد اس وقت ختم ہوگی جب دنیا کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا ایک ہوجائے گی۔
21 جون کو عظیم انقلابی رہنما سائیں عزیزاللہ کی سولہویں برسی ہے۔ ان کا سیا سی سفر بھارتیہ نوجوان سبھا کے کارکن کے طور پر شروع ہوا اور اختتام کے وقت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مرکزی کمیٹی کی سیکریٹریٹ اور پولیٹ بیورو کے رکن تھے۔ بھا رتیہ نوجوان سبھا کے رہنما شہید بھگت سنگھ تھے اورکمیونسٹ پارٹی کے رہنما امام علی نازش تھے۔ عزیزاللہ اکتوبر 1918ء میں پیلی بھیت یو پی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
در حقیقت ان کے آ باؤاجداد دہلی کے تھے۔ ان کے دادا شہید سمیع اللہ جنگ آزادی کے ہیرو تھے جنھیں دہلی میں برطانوی سامراج نے پھانسی دے دی تھی۔ ان کی شہادت کے بعد بھی انگریز استعمارکے کارندوں نے ان کے خاندان کو ہراساں کرنا شروع کیا تو عزیز اللہ کے والد حبیب اللہ اپنے خاندان کے ہمراہ مراد آباد ہجرت کرگئے،جب وہاں بھی ان کے خاندان کو ہراساں کیا جانے لگا تو ان کے وا لد پیلی بھیت منتقل ہوگئے، وہیں عزیز اللہ پیدا ہوئے۔
ان کے والد حبیب اللہ اسکول ہیڈ ماسٹر تھے مگر تھے جنگ آزادی کے متوالے۔ پیلی بھیت کا کوئی شخص جب انگریز استعمار سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہونے کے لیے قدم رکھتا تھا خواہ ہندو ہو یا مسلم دعاء کے لیے حبیب اللہ کی قدم بوسی کرنے آتا تھا۔ عزیز اللہ نے بچپن ہی سے منشی پریم چند، میکسم گورکی اورکرشن چندرکی خاصی کتابیں پڑھ ڈالی تھیں اور سوشلسٹ رہنما سوبھاش چندربوش سے خاصے متاثر تھے۔
وہ اسکول لائف میں ہی بھگت سنگھ کی قائم کردہ نوجوانوں کی تنظیم بھارتیہ نوجوان سبھا کے کارکن بن گئے تھے۔ وہاں ان کی ڈیو ٹی یہ لگی تھی کہ انگریزوں سے بندوق چھین کر مخصوص مقام پر پہنچانا ہے اور انھوں نے ساٹھ بندوقیں چھیننے کے دوران وہ دو بار جان سے جاتے جاتے بچ گئے۔ بعد ازاں بھارتیہ کسان سبھا میں خاصہ سرگرم رہے اور پیلی بھیت کے معروف کسان رہنما بھی تھے۔ انھوں نے کسانوںکے بہت سے مطالبات بھی منوائے اور بعد میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوگئے۔کانگریس میں دوگروپس تھے، ایک نرم پنتھی اور دوسرا گرم پنتھی۔ عزیز اللہ کا تعلق گرم پنتھی یعنی کمیونسٹ نظریے سے تھا۔
جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوچکا اور جواہر لال نہرو عوام کو تقسیم کے فارمولے پر رضا مند کرنے کی خاطر پیلی بھیت آئے تو جلسے میں عزیزاللہ نے نہرو سے سوال کیا کہ آپ ہندوستان کو تقسیم کرکے اس کی ترقی کو دو سوسال پیچھے لے جا رہے ہیں۔ اس پر نہرو آگ بگولا ہوگئے۔
عزیزاللہ کے عقب میں خاکسار تحریک کے ایک سرگرم بزرگ ولی محمد بیٹھے تھے، جلسے کے بعد انھوں نے عزیزاللہ سے مخاطب ہوکرکہا کہ آپ نے اچھا سوال کیا، اس خوشی میں میں اپنی بیٹی سے آپ کی شادی کی تجویزکرتا ہوں، جسے عزیزاللہ نے قبول کر لیا۔ بعد میں ان کی بیوی فہمیدہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں انجمن مفاد نسواں اور پھر انجمن جمہوریت پسند خواتین کی صدر بنی، اب وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔ 1950ء میں عزیز اللہ خاندن کے ساتھ پیلی بھیت سے جیکب آباد، پاکستان آگئے۔
جیکب آباد کے کیمپ میں وبائی امراض میں مبتلا ہوکر ان کا ایک بیٹا انتقال کرگیا۔ جیکب آ باد میں انھوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شمولیت اختیارکی۔ انھیں سب سے پہلے بدرالدین وارثی نے کمیونسٹ پارٹی کا مینی فیسٹو پڑھنے کو دیا۔ پھر جیکب آ باد میں بدرالدین، انتظار حسین، برکت اللہ آزاد اور عزیزاللہ نے ملکرکمیو نسٹ پارٹی کا سیل تشکیل دیا اور 1951ء میںکمیو نسٹ پارٹی اور سندھ ہاری کمیٹی کی جانب سے برکت اللہ آزاد کو صوبائی انتخابات میں الیکشن لڑوایا۔ وہ جیت گئے تھے لیکن ری کا ؤنٹنگ کرکے ہروایا گیا۔ بعد ازاں وہ جیکب لائن کراچی آ گئے اور نیوی میں سول آفیسر کے طور پر ملاز مت کی۔
بعد میں پارٹی فیصلے کے تحت ملازمت چھوڑکر پارٹی کے فل ٹائیمر بن گئے۔ کراچی میں چاچا علی جان اور ڈاکٹر اعزازنذیر کے ساتھ مل کر مزدوروں میں کام شروع کیا۔1951ء میں کوئٹہ میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ اسی سال پشاور میں کمیونسٹ پارٹی کا ایک سیل تشکیل دیا۔ جس کے رکن خوشحال خان، صنوبر خان اور افضل بنگش تھے۔ انھیں دنوں سندھ ہاری کمیٹی نے ہاری الاٹی تحریک شروع کر رکھی تھی ۔اندورون سندھ کے کامریڈوں نے کرا چی سے دوکامریڈزکو اندرون سندھ رہنمائی کے لیے بھیجنے کا مطالبہ کیا، جس پر عزیزاللہ اور عزیزسلام بخاری کو بھیجا گیا۔ ایک اردو بولنے والا اور دوسرا گجراتی ۔بعد ازاں دو نوں نے سندھی زبان سیکھی اور سندھی میں تقریریں بھی کرتے تھے۔
ہاری کمیٹی کا مطالبہ یہ تھا کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہا جرین کو 25 ہزار رو پے دینے کی بجائے 50 ہزار روپے میں حکومت خود انھیں کوئی کاروبار کا بندوبست کرکے دے اورہاریوں کو 25 ایکڑ زمین دینے کی بجا ئے 50 ایکڑ زمین دی جا ئے۔ آخرکار ان کے مطالبات مانے گئے، چونکہ عزیزاللہ سندھی میں تقریرکرلیتے تھے اس لیے کراچی کے لوگوں نے انھیں سائیں عزیزاللہ کہہ کر پکارتے تھے۔ عزیز اللہ عوامی لیگ اور نیپ کی مرکزی کمیٹی کے رکن رہے اور مو لانا عبدالحمید خان بھاشانی، حسین شہید سہروردی، محمود الحق عثمانی اور ولی خان کے بہت نزدیک رہ کر سیاسی سرگرمیاںکیں، جب شہید سہروردی وزیراعظم بنے تو عزیزاللہ سے پوچھا کہ آپ کو پاکستان میں کیا چاہیے؟
جس پر عزیزاللہ نے جواب میں کہا کہ ہما رے چار ساتھی بشمول امام علی نازش جیل میں قید ہیں ان کی رہائی چا ہیے، پھر ان کی فورا رہائی بھی ہوگئی اور جب شہید سہروردی نے مصر پر فرانس اور برطانیہ کے حملے کی حمایت میں بیان دیا تو عزیزاللہ نے عوامی لیگ چھوڑ دی۔
ایوبی آمریت میں جب سیاسی پابندیاں لگیں تو بلوچ نوجوان پہاڑوں پہ چلے گئے اور جب بھٹو نے عطا اللہ مینگل کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا تو بلوچ نوجوان پھر پہاڑوں پہ چلے گئے اور مسلح کارروائی شروع کردی تو اس وقت بلوچستان سے خفیہ طور پرنکالے جانے وا لے رسالے کے ایڈیٹر سائیں عزیزاللہ ہوا کرتے تھے۔ عزیز اللہ سندھ میں جی ایم سید، سوبھوگیان چندانی، پہلومل، سید جمال الدین بخاری، عزیز سلام بخاری اور شانتا سمیت معروف کمیونسٹ اور ہاری رہنماؤں کے ساتھ کسانوں کے حقوق کے لیے تادم مرگ جدوجہد کرتے رہے ۔
وہ روس، مشرقی یورپ، وسطیٰ ایشیا، کوہ قاف ، ایشیائے کوچک ، جنوبی افریقہ ، ہندوستان، ایران ، سعودی عرب اور افغانستان میں بارہا گئے اور خطاب بھی کیا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے دوران ان کے چار سال مہمان رہے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ ، سائیں عزیزاللہ سے رہنمائی بھی حاصل کرتے تھے۔ آج سائیں عزیزاللہ کا نظریہ یورپی دنیا میں اپنے آب وتاب سے پروان چڑھ رہا ہے۔ امریکا کے سوشلسٹ رہنما برنی سیندڑز نے پھر ایک بار 2020ء میں ہونے والے صدارتی انتخا بات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے ۔
ادھر برطانیہ میں لیبر پارٹی کے حزب اختلاف کے لیڈر جیمری کوربون اپنی تمام تر توانائیوں سے آیندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ پاکستان میں بھی بابا جان اور علی وزیر ایم ایل اے اور ایم این اے کے انتخابات میں ری کاؤنٹنگ، ریگینگ، پینڈنگ اور عدالتی احکام کے ذریعے انھیں ہروایا گیا مگر یہ ر کاوٹیں زیادہ عرصے نہیں چل سکیں گی ۔امریکی صدر ٹرمپ کو سوشلسٹ کوریا کے صدرکم جونگ ان سے ملنا پڑا اور فوج کے نمایندے فا ٹا عمائدین کو پی ٹی ایم کے رہنما احسان داوڑ سے مذاکرات کرنے پڑے ۔ یہ جدوجہد اس وقت ختم ہوگی جب دنیا کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا ایک ہوجائے گی۔