ایک چھٹانک گوشت
سرمایہ داروں کی نیت اربوں روپے کی ٹیکس چوری سے بھی نہیں بھرتی، ان کا پیٹ تمہارے ایک چھٹانک گوشت سے کیسے بھرتا ہوگا۔
لاہور:
میں پاکستان کے خوش گوار موسم کا مزا لینے کے لیے جا رہا ہوں، بچوں کا خیال رکھنا، ہوسکتا ہے مجھے واپس آنے میں دیر ہوجائے۔ کہتے ہوئے چڑے نے لمبی اڑان بھری اور اپنے ساتھ لمبے سفر پر روانہ ہونے والے بہت سارے دوسرے دوستوں کی ڈار میں شامل ہوگیا۔
چڑیا نے کچھ کہنے کے لیے چونچ کھولی، مگر تب تک چڑا روس کی سرد فضاؤں کو آخری سلام کہتے ہوئے اس دیس کی جانب رواں دواں تھا جہاں کے خوب صورت پہاڑ اور لہلہاتے کھیت اس جیسے ہزاروں پرندوں کو خوش آمدید کہنے اور شکاری انھیں پھانسنے کے لیے ہاتھ میں جال تھامے کھڑے رہتے ہیں۔
چند دن قبل جب وہ اپنے سفر کو حتمی شکل دے رہا تھا تو ایک جہاں دیدہ چڑے نے اسے کہا تھا کہ بیٹا وہ دن گزر گئے جب ہمارے آباؤ اجداد اور ہم سے بڑی قد و قامت والے پرندے سردی اور بھوک سے جان بچانے کے لیے سائیبیریا سے سندھ کی جھیلوں اور پنجاب کے میدانوں کی طرف کوچ کرتے اور فطرت کی رنگینیوں کے قصیدے پڑھتے ہوئے طویل سفر کے بعد دوبارہ اپنے دیس لوٹ آتے تھے۔ اب تو افغانستان تک پہنچتے ہی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں اور یہ سوچ کر بدن کانپنے لگتا ہے کہ کسی میزائل، راکٹ یا کلاشنکوف کی زد میں نہ آجائیں۔
بزرگ چڑے نے آنے والے خطرے سے بے خبر خوشی سے پھدکتے نوجوان چڑے کو یہ بھی بتایا کہ آج کل پاکستان میں الیکشن کی گہماگہمی ہے اور وہاں کے کچھ سیاسی چڑے تمہاری طرح اپنے پرانے گھونسلے چھوڑ کر ایسے گھونسلوں کی طرف رواں دواں ہیں جن کے تنکے ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے ہیں۔ سیاسی قسموں، دعووں اور وعدوں کا خون کرنے والے ان میں سے زیادہ تر چڑے بوڑھے ہونے کے باوجود اپنے آپ کو نوجوان کہلانے پر بضد ہیں۔
ان چڑوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو تمہارے گوشت کو بڑھاپے کا توڑ قرار دے کر اپنی فضول خواہشات کو سہارا دینے، بے وفائی، بے اعتنائی، ڈھٹائی اور نسل در نسل سے جاری کمائی کو بڑھانے کے لیے نئے نعروں کے ساتھ پھر میدان میں کود پڑے ہیں۔ بزرگ چڑا یہ بھی بتا رہا تھا کہ تم جس ملک میں روزی تلاش کرنے کے لیے جا رہے ہو وہاں کے بوڑھے سیاسی چڑے بغیر پروں کے پوری دنیا میں اڑتے پھر رہے ہیں۔ ان کی ہرشام دبئی میں، ہر ہفتہ لندن میں اور ہر مہینہ امریکا میں گزرتا ہے۔
جس طرح تمہیں اپنے پروں پر ناز ہے انھیں بغیر ٹیکس کی اس کمائی پر ناز ہے جو انھیں کہیں ٹک کے بیٹھنے نہیں دیتی۔ گرمیاں شروع ہوتے ہی وہ یورپ چلے جاتے ہیں، مگر سردیاں آتے ہی انھیں اصلاح معاشرہ، اصلاح قوم اور اصلاح نوجواناں کا بخار گھیر لیتا ہے، جس سے جان چھڑانے کے لیے وہ دوبارہ اپنے ملک کی اڑان بھرتے ہیں، مگر سندھ اور پنجاب کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں کے بجائے ان کا بسیرا اسلام آباد کے ہرے بھرے علاقوں میں بنے ان جدید گھونسلوں تک ہی محدود ہوتا ہے جن میں بجلی پانی کے ساتھ کھانے پینے سونے یہاں تک کہ مخالفین کو براہ راست برا بھلا کہنے کے انتظامات بھی کردیے جاتے ہیں۔ غیر ملکی ائیر لائنوں سے سفر کرنے اور اپنے ملک سے دور رہ کر زندگی کے شب روز انتہائی عیش و عشرت سے بسر کرنے والے یہ گھاگ چڑے بسوں میں بھر بھر کر جلسوں میں لائے گئے پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو شروع میں یہ شعر ضرور سناتے ہیں
ہمت ہے تو پیدا کر فردوس بریں اپنا
مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا
بزرگ چڑے نے نوجوان چڑوں کو بدلتے ہوئے حالات میں پیش آنے والے خطرات سے بچنے کے طریقے بھی بتائے اور یہ بھی کہا کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی میں انسانی حقوق کا بہت خیال رکھا جاتا ہے لیکن امریکا اس میدان میں سب سے آگے ہے جس کی تازہ مثال پناہ گزینوں کے وہ بچے ہیں جنھیں اپنے والدین سے الگ کر کے ٹیکساس کی ایسی خیمہ بستیوں میں رکھا جا رہا ہے جہاں کا درجہ حرارت نواب شاہ اور سبی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے باوجود تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ تم جس ملک میں جا رہے ہو وہاں پر جانوروں کے لیے نہ سہی انسانوں کے لیے بہت ساری تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ تنظیمیں ملک دشمن عناصر سے بھی بھری ہوئی ہیں۔
بزرگ چڑے نے اپنی چونچ سے پروں کو سہلاتے اور گفت گو کا سلسہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تم جس ملک میں جا رہے ہو، وہاں عید کا تہوار تین دن تک جاری رہتا ہے مگر سرکاری ملازمین ہفتہ بھر کام کو ہاتھ لگانا حرام سمجھتے ہیں۔ ان کے برادر اسلامی ملک نے عید پر دس دن کی چھٹیوں کا اعلان کرکے اس عمل کو مزید تقویت بخشی ہے۔ اگر تم جاتے ہی گرفتار کر لیے گئے تو تمہیں پہلی فرصت میں یوں گجرانوالہ بھیج دیا جائے گا جیسے ہر ڈھائی سال کے بعد منتخب وزیراعظم کو اڈیالہ جیل بھیجا جاتا ہے۔
یاد رکھو کہ گجرانوالہ اپنی قدیم عمارتوں، پہلوانوںاور عبدالحمید عدمؔؔ جیسے شاعروں کے بجائے ان ہوٹلوں کی وجہ سے مشہور ہے جہاں تم جیسے پردیسی چڑوں کے نازک بدن کو سیخوں میں پرو کر کوئلوں پر بھون دیا جاتا ہے مگر اس ظلم کے خلاف ایک بھی خدا کا بندہ آواز نہیں اٹھاتا۔ جانوروں اور پرندوں کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں احتجاج کرتی ہیں اور نہ ہی بیرون ملک سے آ کر انسانی عظمت کے قصیدے پڑھنے والے وہ سیاسی چڑے اس ظلم کے خلاف کوئی بیان جاری کرتے ہیں جن کے دسترخوان تمہاری لاشوں سے سجائے جاتے ہیں۔
بزرگ چڑے نے روتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تم جس ملک میں جا رہے ہو وہاں کا میڈیا عید کے چار دنوں تک مسلسل تمہارے گوشت کی لذت اور فوائد کے قصے سنا سنا کر شہریوں کو گجرانوالہ کے ہوٹلوں کی طرف دھکیلنے میں مصروف رہا۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس ملک کے جاگیرداروں، وڈیروں اور اہل ثروت کا پیٹ گائے، بھینسوں، اونٹوں، بکریوں، خرگوشوں اور مرغیوں کے ٹنوں گوشت سے اور سرمایہ داروں کی نیت اربوں روپے کی ٹیکس چوری سے بھی نہیں بھرتی، ان کا پیٹ تمہارے ایک چھٹانک گوشت سے کیسے بھرتا ہوگا۔