جھوٹے وعدوں اور تقریروں کا زمانہ
پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ صاحب نے کہا ہے کہ الیکشن ہر حال میں بروقت ہوں
الیکشن کی مہم بھی جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دھمکیاں اور دھماکے بھی جاری ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ پوری قوم متفق ہے کہ الیکشن بروقت ہوں گے اور ضرور ہوں گے۔ ہمارے اخبار کی پہلی خبر یہ ہے کہ بلوچستان میں پر امن انتخابات یقینی بنانے کے لیے فوج اپنی ڈیوٹی پوری مستعدی کے ساتھ ادا کرے گی، اس سے قبل یہ خوشخبری ہم تک پہنچ چکی ہے کہ بلوچستان کی تمام جماعتیں الیکشن میں حصہ لیں گی لیکن وہ لوگ جو بلوچستان کو پاکستان کے لیے بنانا چاہتے ہیں وہ بھی سرگرم ہیں اور ہماری انتظامیہ بھی سرگرم لگتی ہے خصوصاً فوج بھی۔ اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو ہمارے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔
بلوچستان کی صورت حال اور بگاڑنے میں موصوف کا بہت بڑا ہاتھ تھا اور وہ اپنے اقتدار میں مسلسل کسی ان دیکھے ہاتھ کا ذکر کرتے رہے اور پاکستان کو اس ہاتھ کے حوالے کیے رکھا۔ اب ہم ان کی کمائی کی زد میں ہیں۔ اپنے اقتدار کے جاتے جاتے انھوں نے اتنا کہا کہ بھارت بلوچستان کے حالات بگاڑ رہا ہے یعنی انھوں نے اس ہاتھ کا ہلکا سا تعارف کرا دیا جب کہ پوری قوم اپنے وزیر داخلہ سے زیادہ جانتی تھی کہ یہ ہاتھ کس کا ہے۔ ہمارے قومی لیڈر ان دنوں بار بار الیکشن کے حق میں بیان دے رہے ہیں اور عملاً بھی سرگرم ہیں۔ وہ اس ہاتھ کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
جناب خان اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ شفاف انتخابات نہایت ضروری ہیں ورنہ ہمارا صوبہ ترقی نہیں کر سکے گا۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ صاحب نے کہا ہے کہ الیکشن ہر حال میں بروقت ہوں گے اور تو اور الطاف حسین صاحب بھی الیکشن کی تائید کر رہے ہیں چنانچہ قوم کے سر سے یہ خطرہ بھی ٹل گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ عوام الیکشن ملتوی نہیں ہونے دیں گے۔ عمران خان کی تو ساری مشقت ہی بروقت الیکشن کے لیے ہے۔
ایسے سرگرم اور الیکشنی سیاستدانوں کی طویل فہرست ہے جو ہر قیمت پر اور بروقت الیکشن چاہتے ہیں۔ ہمارے بیرونی مہربان بھی کہنے کو تو یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن ہوں لیکن ایران کے صدر نے کہا ہے کہ یہ ملک پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ہر پاکستانی خبر دار رہے کہ صدر ایران کی بات پاکستانیوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔ میرے خیال میں مغربی ممالک پاکستان سے خوش نہیں ہیں حالانکہ کئی پاکستانی بھی خود پاکستان سے خوش نہیں ہیں اور وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے خواہ انھیں دور بنگلہ دیش جا کر پاکستانی فوج کی 'ظالمانہ' کارروائیوں پر معافی بھی کیوں نہ مانگنی پڑے۔
معافی تو بنگلہ دیش کی حکومت کو اور اس کی سرپرست حکومت بھارت کو مانگنی چاہیے جنہوں نے ہمارا ملک توڑ دیا بہر کیف یہ موضوع ابھی باقی ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا جانا ہے۔ ہم لوگ اس وقت بلاشبہ الیکشن میں بہت مصروف ہیں، بس اب چند دن باقی ہیں اور ہماری یہ مصروفیت کئی نئی مصروفیات میں بدل جائے گی۔
اس ضمن میں ایک بات سے میرا دل بہت ڈر رہا ہے کہ ہمارے سیاستدان بہت ہی زیادہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کی جماعتیں بھی جمع ہوکر اجتماعی جھوٹ پھیلا رہی ہیں۔ ایک جھوٹ تو وہ ایک دوسرے کے بارے میں بول رہے ہیں، دوسرے وہ قوم کے ساتھ حسب عادت وعدے بھی کر رہے ہیں جو سراسر جھوٹ ہیں، انھیں خود یاد نہیں رہتا کہ انھوں نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا جو وقت دیا ہے، وہ کیا تھا کیونکہ ہر روز ایک نیا وقت دے دیا جاتا ہے۔ یوں سمجھیں تو اچھا ہے کہ ایسے غلط سلط وعدے کر کے ہمارے سیاستدان قوم کو بتا رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کوئی وعدہ کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔
دراصل مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ بڑا جھوٹ بولا جائے تو آسمان گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے اس اندیشے کو بہت قریب کر دیا ہے اور کیا معلوم اب اچانک جو زلزلے شروع ہوئے ہیں، وہ اس زمینی کے بعد کسی بڑی آسمانی آفت کا پیش خیمہ نہ ہوں کیونکہ دروغ گوئی کا مقابلہ جاری ہے اور ہر سیاستدان مقدور بھر جھوٹ بول رہا ہے اور بولتا چلا جا رہا ہے، اسے کوئی روکتا نہیں، گھر والے بھی اسے نہیں روکتے تو کوئی باہر والا کیوں روکے گا جو اس جھوٹ مقابلے سے مزے لے رہا ہے۔
الیکشن کا کوئی جھوٹا سچا وعدہ ایک بہت ہی بے ضرر وعدہ ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ پوری قوم سے وعدہ کیا جاتا ہے اور پھر پوری قوم کے سامنے اس سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ ایک وعدے تو وہ ہیں جو جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں کیے ہیں۔
یہ کاغذی وعدے تو کیے ہی پھاڑنے کے لیے جاتے ہیں اور جو وعدے جلسے اور نعروں کے ہجوم میں کیے جاتے ہیں، وہ بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ استاد نے کہا تھا کہ لیڈر جب زندہ باد کے نعرے سن کر جذباتی ہو جائے تو اس کی بات رپورٹ کرنے میں بہت احتیاط ضروری ہے کیونکہ ہوش میں آنے کے بعد وہ اس سے مُکر سکتا ہے بلکہ اکثر مکر جاتا ہے۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ قوم ان وعدوں اور منشوروں سے خبردار رہے اور دھوکے میں نہ آئے۔ جب قوم سے دھوکہ شروع ہو گا تو پھر کیا کیا جائے گا اس پر الیکشن کے بعد عرض کریں گے۔ فی الحال خبردار کر دینا ہی کافی ہے۔
بلوچستان کی صورت حال اور بگاڑنے میں موصوف کا بہت بڑا ہاتھ تھا اور وہ اپنے اقتدار میں مسلسل کسی ان دیکھے ہاتھ کا ذکر کرتے رہے اور پاکستان کو اس ہاتھ کے حوالے کیے رکھا۔ اب ہم ان کی کمائی کی زد میں ہیں۔ اپنے اقتدار کے جاتے جاتے انھوں نے اتنا کہا کہ بھارت بلوچستان کے حالات بگاڑ رہا ہے یعنی انھوں نے اس ہاتھ کا ہلکا سا تعارف کرا دیا جب کہ پوری قوم اپنے وزیر داخلہ سے زیادہ جانتی تھی کہ یہ ہاتھ کس کا ہے۔ ہمارے قومی لیڈر ان دنوں بار بار الیکشن کے حق میں بیان دے رہے ہیں اور عملاً بھی سرگرم ہیں۔ وہ اس ہاتھ کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
جناب خان اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ شفاف انتخابات نہایت ضروری ہیں ورنہ ہمارا صوبہ ترقی نہیں کر سکے گا۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ صاحب نے کہا ہے کہ الیکشن ہر حال میں بروقت ہوں گے اور تو اور الطاف حسین صاحب بھی الیکشن کی تائید کر رہے ہیں چنانچہ قوم کے سر سے یہ خطرہ بھی ٹل گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ عوام الیکشن ملتوی نہیں ہونے دیں گے۔ عمران خان کی تو ساری مشقت ہی بروقت الیکشن کے لیے ہے۔
ایسے سرگرم اور الیکشنی سیاستدانوں کی طویل فہرست ہے جو ہر قیمت پر اور بروقت الیکشن چاہتے ہیں۔ ہمارے بیرونی مہربان بھی کہنے کو تو یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن ہوں لیکن ایران کے صدر نے کہا ہے کہ یہ ملک پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ہر پاکستانی خبر دار رہے کہ صدر ایران کی بات پاکستانیوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔ میرے خیال میں مغربی ممالک پاکستان سے خوش نہیں ہیں حالانکہ کئی پاکستانی بھی خود پاکستان سے خوش نہیں ہیں اور وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے خواہ انھیں دور بنگلہ دیش جا کر پاکستانی فوج کی 'ظالمانہ' کارروائیوں پر معافی بھی کیوں نہ مانگنی پڑے۔
معافی تو بنگلہ دیش کی حکومت کو اور اس کی سرپرست حکومت بھارت کو مانگنی چاہیے جنہوں نے ہمارا ملک توڑ دیا بہر کیف یہ موضوع ابھی باقی ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا جانا ہے۔ ہم لوگ اس وقت بلاشبہ الیکشن میں بہت مصروف ہیں، بس اب چند دن باقی ہیں اور ہماری یہ مصروفیت کئی نئی مصروفیات میں بدل جائے گی۔
اس ضمن میں ایک بات سے میرا دل بہت ڈر رہا ہے کہ ہمارے سیاستدان بہت ہی زیادہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کی جماعتیں بھی جمع ہوکر اجتماعی جھوٹ پھیلا رہی ہیں۔ ایک جھوٹ تو وہ ایک دوسرے کے بارے میں بول رہے ہیں، دوسرے وہ قوم کے ساتھ حسب عادت وعدے بھی کر رہے ہیں جو سراسر جھوٹ ہیں، انھیں خود یاد نہیں رہتا کہ انھوں نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا جو وقت دیا ہے، وہ کیا تھا کیونکہ ہر روز ایک نیا وقت دے دیا جاتا ہے۔ یوں سمجھیں تو اچھا ہے کہ ایسے غلط سلط وعدے کر کے ہمارے سیاستدان قوم کو بتا رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کوئی وعدہ کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔
دراصل مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ بڑا جھوٹ بولا جائے تو آسمان گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے اس اندیشے کو بہت قریب کر دیا ہے اور کیا معلوم اب اچانک جو زلزلے شروع ہوئے ہیں، وہ اس زمینی کے بعد کسی بڑی آسمانی آفت کا پیش خیمہ نہ ہوں کیونکہ دروغ گوئی کا مقابلہ جاری ہے اور ہر سیاستدان مقدور بھر جھوٹ بول رہا ہے اور بولتا چلا جا رہا ہے، اسے کوئی روکتا نہیں، گھر والے بھی اسے نہیں روکتے تو کوئی باہر والا کیوں روکے گا جو اس جھوٹ مقابلے سے مزے لے رہا ہے۔
الیکشن کا کوئی جھوٹا سچا وعدہ ایک بہت ہی بے ضرر وعدہ ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ پوری قوم سے وعدہ کیا جاتا ہے اور پھر پوری قوم کے سامنے اس سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ ایک وعدے تو وہ ہیں جو جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں کیے ہیں۔
یہ کاغذی وعدے تو کیے ہی پھاڑنے کے لیے جاتے ہیں اور جو وعدے جلسے اور نعروں کے ہجوم میں کیے جاتے ہیں، وہ بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ استاد نے کہا تھا کہ لیڈر جب زندہ باد کے نعرے سن کر جذباتی ہو جائے تو اس کی بات رپورٹ کرنے میں بہت احتیاط ضروری ہے کیونکہ ہوش میں آنے کے بعد وہ اس سے مُکر سکتا ہے بلکہ اکثر مکر جاتا ہے۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ قوم ان وعدوں اور منشوروں سے خبردار رہے اور دھوکے میں نہ آئے۔ جب قوم سے دھوکہ شروع ہو گا تو پھر کیا کیا جائے گا اس پر الیکشن کے بعد عرض کریں گے۔ فی الحال خبردار کر دینا ہی کافی ہے۔