ورنہ انجام سب کے سامنے ہے
یہ بھی اسی کا قول ہے کہ مرید اپنی توبہ کے سائے میں اور مراد عصمت کے سایے میں ہے۔
ISLAMABAD:
سقراط نے اپنی آخری تقریر کرتے ہوئے کہا تھا '' میں ایک بار نہیں ہزار بار مرنے کو تیار ہوں مجھے تو پیلیپمیٹر یس اور ٹیلامن کے بیٹے اجے کس اور دوسرے سورماؤں سے جو غیرمنصفانہ فیصلوں کی بناء پر مارے گئے ملنے اور باتیں کرنے سے انتہائی دلچسپی ہوگی اور اپنی تکلیف کا ان کی تکلیف سے مقابلہ کرنے میں بہت لطف آئے گا ۔
اے منصفو کسی شخص کیلئے اس سے بڑھ کر کیا بات ہوسکتی ہے کہ وہ ٹرائے کی عظیم الشان مہم کے رہنما اوڈیس سیفس اور بے شمار دوسرے مردوں اور عورتوں کا امتحان لے ، کیا ٹھکانہ ہے اس خوشی کا جو ان سے گفتگو کرتے اور سوالات پوچھنے سے حاصل ہوگی، دوسری دنیا میں لوگ کسی شخص کو سوالات پوچھنے کے جرم میں قتل نہیں کرتے ہونگے ہر گز نہیں کرتے ہونگے '' اُدھر منصور حلاج پر لکھنے والے تقریباً تمام لوگوں نے یہ روایت بیان کی ہے کہ انہیں کوڑے مارے گئے ان کے ہاتھ ، بازو اور پاؤں کاٹے گئے یہاں تک کہ لوئی ماسینیوں نے بھی حلاج کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کا ذکر کیا ہے ''دریائے دجلہ کے مغربی کنارے لوگو ں کی بہت بڑی بھیڑ جمع تھی حلاج کو جس کے سر پر تاج نما کلاہ تھا لایا گیا ، پہلے اس کو تاز یانے مارے پھر اس کے ہاتھ پاؤں کاٹے تب دار پر جبکہ وہ ابھی زندہ تھا لٹکادیا گیا ۔''
اسی طرح تذکرۃ الاولیا میں مرقوم ہے کہ ''حلاج کے کان، ناک کاٹ دیے گئے اس کے آخری کلام کے بعد اس کی زبان کاٹ دی گئی پھر نماز شام کے وقت اس کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔'' ایک اور روایت جو کچھ یوں ہے کہ ''حلاج نے اپنے دونوں کٹے ہوئے خون آلود بازو اپنے چہرے پر ملے ان کا چہرہ خون سے دہکنے لگا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کررہے ہو ، کہنے لگے میرے جسم کا بہت خون بہہ چکا ہے جس سے میرا چہرہ زردپڑ گیا ہوگا میں نے اپنے چہرے کو سرخ اس لئے کیا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں میرا چہرہ کسی ڈر یا خوف سے پیلا پڑ گیا ہوگا ۔ پھر لوگوں نے سوال کیا آپ نے چہر ہ تو سرخ کرلیا مگر اپنی کلائیوں کو خون سے تر کیوں کیا ۔جواب دیا کہ وضو کیلئے ۔ عشق میں دو رکعت کی نماز ہے جس کا وضو صرف خون سے ہی ہوتا ہے ۔
جب منصور کے ہاتھ، پاؤں ، بازو کاٹے جاچکے تھے اور آنکھیں نکال دی گئی تھیں جلاد نے ان کی زبان کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو منصور نے کہا ٹھہر میں ایک بات کہہ لوں پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کے بولے یا الٰہی اس تکلیف پر جو یہ مجھ پر تیرے لئے روا رکھے ہیں انہیں محروم نہ رکھنا ۔ میں تیرے دیدار کیلئے آرہا ہوں، اب جلاد نے حامد کے کہنے پر اس کا سر کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ اٹھایا ساتھ ہی حلاج نے یہ کلمات ادا کئے ''واجد کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ تیرے ساتھ ایک ہوجائے۔ میں تیرے دیدار کو آرہا ہوں۔'' حلاج کا کٹا ہوا سر نیچے آن گرا اس کے جسم کو تیل سے تر کردیا گیا اور پھر آگ لگادی خاکستر کو ایک مینار سے دریائے دجلہ میں پھینک دیا گیا ۔
علامہ حضرت زکریا قزوینی لکھتے ہیں '' جب انہیں پھانسی دینے کے لیے لے جانے لگے تو انہوں نے ایک حاجب کو بلایا اور کہا کہ جب مجھے جلایا جانے لگے تو دجلہ کا پانی چڑھنا شروع ہوجائے گا اور قریب ہوگا کہ پانی بغداد کو غرق کردے جب تم یہ منظر دیکھو تو میری راکھ پانی میں ڈال دینا تاکہ پانی ساکت ہوجائے ۔ جب انہیں پھانسی دی گئی اور جلایا گیا تو دجلہ میں طغیانی آگئی حتی کہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ بغداد غرق ہوجائے گا تو خلیفہ نے کہا کیا تمہیں پتہ ہے کہ منصور حلاج نے اس بارے میں کچھ کہا تھا ۔ حاجب نے کہا ہاں امیر المومنین اس نے اسی طرح کہا تھا تب اس نے حکم دیا جیسا اس نے کہا تھا ویسا ہی کرو پھر انہوں نے راکھ پانی میں پھینک دی ۔ پانی کی سطح پر وہ راکھ اس طرح اکٹھی ہو گئی کہ اللہ لکھا ہوا نظر آتا تھا اور پانی ساکت ہوگیا ۔
یہ 309ھ کی بات ہے ۔ موت سے عین پہلے منصور حلاج نے آخری بات یہ کہی ''اے رب اگر تو ان لوگوں کو بھی وہی کچھ دکھادیتا جو میں دیکھ رہا ہوں تو یہ مجھے کبھی سزا نہ دیتے اور اگر مجھ سے وہ چیز چھپا لیتا جو ان سے چھپا رکھی ہے تو میں کبھی اناالحق کا نعرہ نہ لگاتا ۔ اے اللہ میرے قاتلوں کو معاف کردے۔'' مولانا روم ؒ نے ان سب کو غدار فرمایا جنہوں نے منصور کا محضر قتل مرتب کیا اور اس پر حکم لگایا کہ وہ واجب قتل ہے۔ منصور حلاج کے متعلق سید سلیمان ندوی کا یہ قول حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔'' حلاج شہید انا الحق نہ تھا قتیل راہ سیاست تھا ۔
اس کی حیثیت مذہبی گناہ گار کی اتنی نہیں جتنی ایک پولیٹیکل مجرم کی۔ اس کی بے گناہی کا خون علماء کے قلم پر نہیں بلکہ سلاطین کی تلوار پر ہے۔'' مسیح تصوف کے پیر سینٹ اگسٹائن کہتا ہے ''انسان پتھر سے دل لگائے گا تو پتھر ہوجائے گا انسان سے عشق کریگا تو انسان ہوجائے گا خدا کی محبت کے نشہ میں سرشار ہوگا تو... لیکن مجھے مجال نہیں کہ اس سے آگے کچھ کہوں اس لیے کہ اگر ایک کلمہ بھی میرے منہ سے نکلا جس نے حقیقت کو ظاہر کردیا اور میں نے کہہ دیا کہ انسان خدا کے عشق کے نشے میں چور ہوکرخدا ہوجائے گا تو آپ لوگ مجھے سنگسار کردیں گے۔'' منصور نے کہا خیال حق ایسی چیز ہے جس کی کوئی چیز برابری نہیں کرسکتی۔
یہ بھی اسی کا قول ہے کہ مرید اپنی توبہ کے سائے میں اور مراد عصمت کے سایے میں ہے۔ اس سے صبر کے بارے میں پوچھا گیا بولا صبر یہ ہے کہ ہاتھ کاٹ لیں اور تختہ دار پر لٹکادیں پھر بھی صبرکرے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ یہ ہی کچھ کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ علماء اور صوفیا کی ایک بڑی جماعت اس کی حمایت میں ہے جن میں شیخ ابوبکرشبلی،داتا گنج بخش، شیخ فریدالدین عطار ،ابن عطا، امام غزالی،عبداللہ خفیف،ابوالقاسم نصرآبادی نمایاں نام ہیں۔ علامہ اقبال کے ''جاوید نامہ'' کے آخری حصے میں منصور حلاج، غالب اور طاہرہ تینوں بطور زندیق پیش کیے گئے ہیں ۔
ان عظیم عاشقوں کے جذبہ خالص سے متاثر ہو کر علامہ اقبال وجود اور عدم وجود ، قضاء و قدر،پیغمبروں اور شیطان کے رول جیسے اسرار پر غور فکر کرتے ہیں آسمان مشتری پر مقرب خاص منصور حلاج ہیں ، بلھے شاہ کی نظموں کے ذریعے ہی علامہ اقبال منصور حلاج سے آشنا ہوئے ان نظموں میں حلا ج کی تعریف وتوصیف اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے خدا اور روح کی بنیادی وحدت کا پرزور اعلان کیا ان نظموں میں یہ خیال بھی ملتا ہے کہ حلاج وہ پہلے شہید عشق ہیں جنہیں عشق الہیٰ کے رموز سے بے خبرمتعصب علماء کے ہاتھوں ہلاک ہونا پڑا۔
ملائیت کا تعلق کسی خاص ملک یا مذہب سے نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر ذہنی کیفیت ہے ایک طرز فکر و عمل ہے جو عقلی دلیلوں سے نہیں بلکہ ڈرا دھمکاکر اپنے عقائد دوسروں سے منوانے کی کوشش کرتی ہے وہ سادہ لوحوں کے دلوں میں خوف کا زہر گھولتی ہے اور لوگوں کو اطاعت و بندگی پر مجبور کرتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ علماء اور فقہا نے سیکڑوں برس پہلے جو کچھ لکھ دیا ہے اس کو بے چون و چرا قبول کرلو خواہ ان کی باتیں کتنی ہی خلاف عقل کیوں نہ ہوں ملائیت نام جزئیات مذہب سے آگاہی کا نہیں ہے اور نہ اس کا تعلق مہارت علوم وفنون سے ہے بلکہ وہ عبارت ہے اس محفوظ ذہنیت سے جو اپنے سوا تمام دنیا پر عقل و فہم کا دروازہ بند کردیتی ہے اورلوگوں کے ذہن و فراست پر قفل ڈال کر مذہبیت کے بہانے اپنے اغراض پورا کرنے میں تامل نہیں کرتی یہ ذہنیت قبل از مسیح سے جاری ہے سقراط بھی اسی ذہنیت کا شکار ہوا منصور حلاج اور دوسرے بھی اسی ذہنیت اور سوچ کے ہاتھوں مارے گئے۔ آج بھی سیکڑوں بے گناہ اور معصوم انسان اسی ذہنیت کے ہاتھوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں اب وقت آگیا ہے پاکستان کے عوام اسی ذہنیت اور سوچ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ورنہ انجام سب کے سامنے ہے۔
سقراط نے اپنی آخری تقریر کرتے ہوئے کہا تھا '' میں ایک بار نہیں ہزار بار مرنے کو تیار ہوں مجھے تو پیلیپمیٹر یس اور ٹیلامن کے بیٹے اجے کس اور دوسرے سورماؤں سے جو غیرمنصفانہ فیصلوں کی بناء پر مارے گئے ملنے اور باتیں کرنے سے انتہائی دلچسپی ہوگی اور اپنی تکلیف کا ان کی تکلیف سے مقابلہ کرنے میں بہت لطف آئے گا ۔
اے منصفو کسی شخص کیلئے اس سے بڑھ کر کیا بات ہوسکتی ہے کہ وہ ٹرائے کی عظیم الشان مہم کے رہنما اوڈیس سیفس اور بے شمار دوسرے مردوں اور عورتوں کا امتحان لے ، کیا ٹھکانہ ہے اس خوشی کا جو ان سے گفتگو کرتے اور سوالات پوچھنے سے حاصل ہوگی، دوسری دنیا میں لوگ کسی شخص کو سوالات پوچھنے کے جرم میں قتل نہیں کرتے ہونگے ہر گز نہیں کرتے ہونگے '' اُدھر منصور حلاج پر لکھنے والے تقریباً تمام لوگوں نے یہ روایت بیان کی ہے کہ انہیں کوڑے مارے گئے ان کے ہاتھ ، بازو اور پاؤں کاٹے گئے یہاں تک کہ لوئی ماسینیوں نے بھی حلاج کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کا ذکر کیا ہے ''دریائے دجلہ کے مغربی کنارے لوگو ں کی بہت بڑی بھیڑ جمع تھی حلاج کو جس کے سر پر تاج نما کلاہ تھا لایا گیا ، پہلے اس کو تاز یانے مارے پھر اس کے ہاتھ پاؤں کاٹے تب دار پر جبکہ وہ ابھی زندہ تھا لٹکادیا گیا ۔''
اسی طرح تذکرۃ الاولیا میں مرقوم ہے کہ ''حلاج کے کان، ناک کاٹ دیے گئے اس کے آخری کلام کے بعد اس کی زبان کاٹ دی گئی پھر نماز شام کے وقت اس کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔'' ایک اور روایت جو کچھ یوں ہے کہ ''حلاج نے اپنے دونوں کٹے ہوئے خون آلود بازو اپنے چہرے پر ملے ان کا چہرہ خون سے دہکنے لگا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کررہے ہو ، کہنے لگے میرے جسم کا بہت خون بہہ چکا ہے جس سے میرا چہرہ زردپڑ گیا ہوگا میں نے اپنے چہرے کو سرخ اس لئے کیا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں میرا چہرہ کسی ڈر یا خوف سے پیلا پڑ گیا ہوگا ۔ پھر لوگوں نے سوال کیا آپ نے چہر ہ تو سرخ کرلیا مگر اپنی کلائیوں کو خون سے تر کیوں کیا ۔جواب دیا کہ وضو کیلئے ۔ عشق میں دو رکعت کی نماز ہے جس کا وضو صرف خون سے ہی ہوتا ہے ۔
جب منصور کے ہاتھ، پاؤں ، بازو کاٹے جاچکے تھے اور آنکھیں نکال دی گئی تھیں جلاد نے ان کی زبان کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو منصور نے کہا ٹھہر میں ایک بات کہہ لوں پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کے بولے یا الٰہی اس تکلیف پر جو یہ مجھ پر تیرے لئے روا رکھے ہیں انہیں محروم نہ رکھنا ۔ میں تیرے دیدار کیلئے آرہا ہوں، اب جلاد نے حامد کے کہنے پر اس کا سر کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ اٹھایا ساتھ ہی حلاج نے یہ کلمات ادا کئے ''واجد کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ تیرے ساتھ ایک ہوجائے۔ میں تیرے دیدار کو آرہا ہوں۔'' حلاج کا کٹا ہوا سر نیچے آن گرا اس کے جسم کو تیل سے تر کردیا گیا اور پھر آگ لگادی خاکستر کو ایک مینار سے دریائے دجلہ میں پھینک دیا گیا ۔
علامہ حضرت زکریا قزوینی لکھتے ہیں '' جب انہیں پھانسی دینے کے لیے لے جانے لگے تو انہوں نے ایک حاجب کو بلایا اور کہا کہ جب مجھے جلایا جانے لگے تو دجلہ کا پانی چڑھنا شروع ہوجائے گا اور قریب ہوگا کہ پانی بغداد کو غرق کردے جب تم یہ منظر دیکھو تو میری راکھ پانی میں ڈال دینا تاکہ پانی ساکت ہوجائے ۔ جب انہیں پھانسی دی گئی اور جلایا گیا تو دجلہ میں طغیانی آگئی حتی کہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ بغداد غرق ہوجائے گا تو خلیفہ نے کہا کیا تمہیں پتہ ہے کہ منصور حلاج نے اس بارے میں کچھ کہا تھا ۔ حاجب نے کہا ہاں امیر المومنین اس نے اسی طرح کہا تھا تب اس نے حکم دیا جیسا اس نے کہا تھا ویسا ہی کرو پھر انہوں نے راکھ پانی میں پھینک دی ۔ پانی کی سطح پر وہ راکھ اس طرح اکٹھی ہو گئی کہ اللہ لکھا ہوا نظر آتا تھا اور پانی ساکت ہوگیا ۔
یہ 309ھ کی بات ہے ۔ موت سے عین پہلے منصور حلاج نے آخری بات یہ کہی ''اے رب اگر تو ان لوگوں کو بھی وہی کچھ دکھادیتا جو میں دیکھ رہا ہوں تو یہ مجھے کبھی سزا نہ دیتے اور اگر مجھ سے وہ چیز چھپا لیتا جو ان سے چھپا رکھی ہے تو میں کبھی اناالحق کا نعرہ نہ لگاتا ۔ اے اللہ میرے قاتلوں کو معاف کردے۔'' مولانا روم ؒ نے ان سب کو غدار فرمایا جنہوں نے منصور کا محضر قتل مرتب کیا اور اس پر حکم لگایا کہ وہ واجب قتل ہے۔ منصور حلاج کے متعلق سید سلیمان ندوی کا یہ قول حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔'' حلاج شہید انا الحق نہ تھا قتیل راہ سیاست تھا ۔
اس کی حیثیت مذہبی گناہ گار کی اتنی نہیں جتنی ایک پولیٹیکل مجرم کی۔ اس کی بے گناہی کا خون علماء کے قلم پر نہیں بلکہ سلاطین کی تلوار پر ہے۔'' مسیح تصوف کے پیر سینٹ اگسٹائن کہتا ہے ''انسان پتھر سے دل لگائے گا تو پتھر ہوجائے گا انسان سے عشق کریگا تو انسان ہوجائے گا خدا کی محبت کے نشہ میں سرشار ہوگا تو... لیکن مجھے مجال نہیں کہ اس سے آگے کچھ کہوں اس لیے کہ اگر ایک کلمہ بھی میرے منہ سے نکلا جس نے حقیقت کو ظاہر کردیا اور میں نے کہہ دیا کہ انسان خدا کے عشق کے نشے میں چور ہوکرخدا ہوجائے گا تو آپ لوگ مجھے سنگسار کردیں گے۔'' منصور نے کہا خیال حق ایسی چیز ہے جس کی کوئی چیز برابری نہیں کرسکتی۔
یہ بھی اسی کا قول ہے کہ مرید اپنی توبہ کے سائے میں اور مراد عصمت کے سایے میں ہے۔ اس سے صبر کے بارے میں پوچھا گیا بولا صبر یہ ہے کہ ہاتھ کاٹ لیں اور تختہ دار پر لٹکادیں پھر بھی صبرکرے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ یہ ہی کچھ کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ علماء اور صوفیا کی ایک بڑی جماعت اس کی حمایت میں ہے جن میں شیخ ابوبکرشبلی،داتا گنج بخش، شیخ فریدالدین عطار ،ابن عطا، امام غزالی،عبداللہ خفیف،ابوالقاسم نصرآبادی نمایاں نام ہیں۔ علامہ اقبال کے ''جاوید نامہ'' کے آخری حصے میں منصور حلاج، غالب اور طاہرہ تینوں بطور زندیق پیش کیے گئے ہیں ۔
ان عظیم عاشقوں کے جذبہ خالص سے متاثر ہو کر علامہ اقبال وجود اور عدم وجود ، قضاء و قدر،پیغمبروں اور شیطان کے رول جیسے اسرار پر غور فکر کرتے ہیں آسمان مشتری پر مقرب خاص منصور حلاج ہیں ، بلھے شاہ کی نظموں کے ذریعے ہی علامہ اقبال منصور حلاج سے آشنا ہوئے ان نظموں میں حلا ج کی تعریف وتوصیف اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے خدا اور روح کی بنیادی وحدت کا پرزور اعلان کیا ان نظموں میں یہ خیال بھی ملتا ہے کہ حلاج وہ پہلے شہید عشق ہیں جنہیں عشق الہیٰ کے رموز سے بے خبرمتعصب علماء کے ہاتھوں ہلاک ہونا پڑا۔
ملائیت کا تعلق کسی خاص ملک یا مذہب سے نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر ذہنی کیفیت ہے ایک طرز فکر و عمل ہے جو عقلی دلیلوں سے نہیں بلکہ ڈرا دھمکاکر اپنے عقائد دوسروں سے منوانے کی کوشش کرتی ہے وہ سادہ لوحوں کے دلوں میں خوف کا زہر گھولتی ہے اور لوگوں کو اطاعت و بندگی پر مجبور کرتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ علماء اور فقہا نے سیکڑوں برس پہلے جو کچھ لکھ دیا ہے اس کو بے چون و چرا قبول کرلو خواہ ان کی باتیں کتنی ہی خلاف عقل کیوں نہ ہوں ملائیت نام جزئیات مذہب سے آگاہی کا نہیں ہے اور نہ اس کا تعلق مہارت علوم وفنون سے ہے بلکہ وہ عبارت ہے اس محفوظ ذہنیت سے جو اپنے سوا تمام دنیا پر عقل و فہم کا دروازہ بند کردیتی ہے اورلوگوں کے ذہن و فراست پر قفل ڈال کر مذہبیت کے بہانے اپنے اغراض پورا کرنے میں تامل نہیں کرتی یہ ذہنیت قبل از مسیح سے جاری ہے سقراط بھی اسی ذہنیت کا شکار ہوا منصور حلاج اور دوسرے بھی اسی ذہنیت اور سوچ کے ہاتھوں مارے گئے۔ آج بھی سیکڑوں بے گناہ اور معصوم انسان اسی ذہنیت کے ہاتھوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں اب وقت آگیا ہے پاکستان کے عوام اسی ذہنیت اور سوچ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ورنہ انجام سب کے سامنے ہے۔