الیکشن 2013 ایک نئی امید

آئندہ آنے والے انتخابات اس لحاظ سے ماضی سے بہتر ہوں گے کہ پہلی مرتبہ ایک میڈیا کمیشن ترتیب دیا گیا ہے۔


Huma Siddiqi April 29, 2013

ISLAMABAD: اس خوش کن حقیقت کے باوجود کہ ہمارا عزیز از جان وطن پاکستان گزشتہ کئی سال سے دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کے طور پر دنیا میں خاص مقام حاصل کرچکا ہے لیکن دوسری جانب ملک میں جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں، عاقبت نااندیش اور مفاد پرست حکمرانوں، کرپٹ سیاست دانوں ، برسوں سے جاری اندرونی و بیرونی سازشوں، فرقہ واریت، مہنگائی اور بے روزگاری کے علاوہ زور پکڑتی دہشت گردی اور عروج پر پہنچتی لاقانونیت نے پاکستان جیسے ہر قسم کی دولت سے مالا مال ملک کو نہ صرف اقتصادی بدحالی کا منہ بولتا شاہکار بنادیا بلکہ امریکا، بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ اور ہمارے ملک کے سیاست دانوں کی آپس کی رسہ کشی اور ہٹ دھرمی کی بدولت آج پاکستان کی بقا و سلامتی اور استحکام داؤ پر لگ چکا ہے۔

ملک بھر کے سیکیورٹی ادارے ان وطن دشمن عناصر اور ملکی وغیر ملکی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ان انسانیت سے عاری عناصر کا سر کچلنے میں ناکام رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب اس سے زیادہ تشویش کی بات اور کیا ہوگی کہ بحیثیت ایک جمہوری حکومت کے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ پانچ سال مکمل ہونے کے بعد بھی وطن عزیز پر ہوش ربا مہنگائی، غربت میں اضافہ، بجلی اور گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور امن و امان کی تمام حدیں پھلانگنا، پورے ملک میں پھیلتی دہشت گردی کے عفریت نے عوام کو زندگی میں ہی جہنم کا مزہ چکھا دیا ہے۔ جبکہ ان گنت مسائل منہ پھاڑے نئی منتخب ہونے والی حکومت کا انتظار کررہے ہیں۔

پانچ سال پہلے جب برسوں کی آمریت سے نجات حاصل کرکے ملک میں جمہوریت کے پودے کی آبیاری کی گئی تھی تو کیسی کیسی امیدیں، کیسے کیسے خواب اور کیسی کیسی توقعات عوام نے اس جمہوری حکومت سے باندھ لی تھیں۔ قوم کے دل میں یہی خیال طمانیت بھر دیتا تھا کہ ملک میں جمہوریت نے خیمے گاڑے ہیں تو آمریت کے بطن سے جنم لینے والی تمام خرابیاں، محرومیاں اور خامیاں، خوبیوں، امیدوں کی تکمیل کے باعث کامرانیوں میں بدل دی جائیں گی۔

جمہوریت کے پاسبان، جمہوری روایات کو فروغ دیں گے تو چہار سو امن، فروغ علم، ترقی اور خوشحالی کے سنہری دور کا آغاز ہو سکے گا، لیکن ان جمہوری پانچ برسوں کے دوران ملک کی کایا ہی پلٹ دی گئی۔ 60 فیصد عوام تو روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول کو ترس رہے ہیں جبکہ سفید پوش عوام کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے ہزار جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔

لوگوں کا سکھ چین چھن گیا ہے۔ جمہوری دور میں تحفے کے طور پر پورے پانچ سال عوام کو ہر قسم کی موت دی گئی ہے۔ کبھی خودکشی اور بم دھماکوں کی شکل میں، کبھی ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں اور کبھی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے بڑے بڑے حادثات کی شکل میں۔ جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوئے، مگر اس کے ساتھ اے بسا آرزو کہ خاک شد، کے مصداق قوم کی ساری آرزوئیں، امیدیں اور مستقبل کے بارے میں دیکھے جانے والے سارے سنہرے خواب فضاؤں میں بکھر کر رہ گئے۔

اب عوام کو 11 مئی کے انتخابات سے اپنی توقعات وابستہ کرنا ہوں گی۔ آئندہ آنے والے انتخابات اس لحاظ سے ماضی سے بہتر ہوں گے کہ پہلی مرتبہ ایک میڈیا کمیشن ترتیب دیا گیا ہے جو جمہوریت، انتخابات اور میڈیا کے مابین تعلق کی جانچ پڑتال کرکے اسے بطور مانیٹرنگ میڈیم استعمال کرنے کے حوالے سے غور کرے گا۔ اس ضمن میں حقیقت حال یہ ہے کہ معاشرے میں بہتری لانے اور جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنے کا واحد طریقہ قوم کو ذہنی طور پر ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ کرنا ہی ہے۔

لیکن اس حوالے سے ہماری ریاست کے لیے یہ بات کسی المیے سے کم نہیں کہ معاشرے کی آبادی کے صرف 50 فیصد ووٹرز ووٹ ڈالنے کے اپنے جمہوری حق کو استعمال کرتے ہیں۔ باقی 50 فیصد ووٹرز، ووٹ ڈالنے سے لاتعلقی ظاہر کرکے جمہوری نظام کی افادیت کو کم کردیتے ہیں۔ ان کا یہی عمل جمہوری نظام سے حقیقی معنوں میں فیضیاب ہونے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب بھی بنتا ہے اور ملک میں کئی دیگر مسائل کو جنم دینے کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ جبکہ دنیا بھر کی طرح ہمیں بھی اپنے ملک میں جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھا کر ایسا تناور درخت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جس کی چھاؤں میں اس ملک کے عوام امن و امان سے زندگی گزار سکیں اور خوشحالی و ترقی کی منازل کو تعلیم کے ذریعے سر کرسکیں۔

ہمارے یہاں جمہوری نظام کے حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ملک میں برسوں سے رائج جاگیردارانہ نظام کے ماتحت کام کرتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے سنجیدگی سے سوچا کہ پاکستان میں جمہوریت کا کھیل کھیلنے والے کون سے لوگ سامنے آتے رہے ہیں؟ آسان الفاظ میں اس بات کو اس طرح اجاگر کیا جاسکتا ہے کہ انتخابات میں 98 فیصد جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار ہی منتخب ہو کر کیوں آتے رہے ہیں؟ آخر ان جاگیرداروں اور وڈیروں، سرداروں کا ماضی کیسا تھا؟ آخر انھیں یہ زمینیں اور خطاب کہاں سے ملے؟ کیا ہزاروں ایکڑ زمین ان کے آباؤ اجداد نے محنت سے بنائی تھی؟ درحقیقت اس کا جواب یہ ہے کہ یہ زمین اور جاگیریں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں نے اپنی محنت کے بجائے انگریزوں کی غلامی اور نظرکرم کے تحت حاصل کی تھیں اور انگریز یہ نظر عنایت ان ہی لوگوں پر رکھتے تھے جو اپنی قوم کے غدار اور ان کے وفادارہوتے تھے۔

یہ بڑے دکھ اور عبرت کا مقام ہے کہ گزشتہ 65 سال سے ان جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں نے اپنی دولت اور طاقت کے ذریعے پاکستان کے 98 فیصد عوام کو حقیقتاً یرغمال بنایا ہوا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ کروڑوں روپے خرچ کرکے ایوانِ اقتدار تک پہنچنے والوں کو اس ملک کے عوام اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ یہاں پر تو سیاست برائے سیاست ہونے کے بجائے سیاست برائے تجارت اور مفادات ہورہی ہے۔ برسوں سے ملک کے جاگیردار اور سرمایہ دار انتخابات میں کروڑوں روپے لگا کر اربوں کھربوں بنانے کے چکر میں ہیں۔ آج ملک کو معاشی طور پر بدحال بنانے کے ذمے داراس ملک میں موجود سات خاندان اور ان کے 30 بچے ہیں جو ملک میں موروثی سیاست کو فروغ دے کر آج اربوں کھربوں روپے کا بینک بیلنس بنا چکے ہیں ، مگر ان کی ہوس ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ یہ تسلسل کے ساتھ اس ہی پریکٹس کا شاخسانہ ہے کہ آزادی کے 65 برس گزرنے کے بعد ہم بحیثیت قوم ا ور ریاست کے، کشکول ہاتھ میں لیے کھڑے نظر آتے ہیں۔

ہمارے یہاں ہر پید ا ہونے والا بچہ پیدائشی مقروض قرار پاتا ہے۔ افسوس، آج ہم اپنی ترقی و خوشحالی کی بھیک ترقی یافتہ ممالک سے، تو کبھی قرضوں کی صورت میں آئی ایم ایف سے مانگنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ برسر اقتدار مراعات یافتہ طبقات نے ہمیشہ پاکستان کے مظلوم و بے کس عوام کا ہر سطح پر استحصال کیا۔ ذاتی مفادات، حکمرانوں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیے ہمیشہ مقدم رہے جبکہ عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے انھوں نے کبھی بھی مخلصانہ کوششیں نہیں کیں۔ سابقہ اتحادی اور مفاہمتی حکومت نے تو کرپشن کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے۔

خیر یہ تو ماضی کی باتیں تھیں۔ آج پھر ایک بار 11 مئی کو انتخابات کے ذریعے اٹھارہ کروڑ عوام کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کے خود مالک بن سکیں۔ بیلٹ کا درست استعمال کرکے ملک کی کایا پلٹی جاسکتی ہے، ملک میں انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوریت دوسری جمہوریت میں منتقل ہونے جارہی ہے، مگر عوام کے حالات بدلنے کے بجائے پہلے سے کہیں زیادہ ابتر ہوچکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں