ایں کلیم بے تجلی‘ ایں مسیح بے صلیب
مصنف حسب روایت لکھتا ہے کہ ’’اس کا یہ مطلب نہیں کہ مارکس مکمل طور پر درست تھا‘‘۔
KHAIRABAD:
کارل مارکس نے ''داس کیپٹل'' لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ منافعے کے نام پر سرمایہ دار جو رقم حاصل کرتا ہے، درحقیقت وہ مزدوروں سے زائد محنت کرواتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ کم اجرت دے کر باقی رقم منافعے کے نام پر ہڑپ کر جاتا ہے۔ درحقیقت یہی ''قدرزائد'' ہے۔ پھر طبقاتی کشمکش کو تاریخی پس منظر میں وضاحت کرتے ہوئے ''تاریخی جدلیاتی مادیت'' کو درست ثابت کیا جسے آج تک کوئی بھی رد نہیں کرپایا۔امریکا کا بورژوا (سرمایہ دار) جریدہ ٹائم میں 25 مارچ 2013 کو چھپنے والے ایک مضمون میں جس کا عنوان ہے ''مارکس کا انتقام: طبقاتی جدوجہد کے ہاتھوں بدلتی دنیا'' اس مضمون میں مارکس کی تحریر کی نقل کی گئی ہے کہ ''ایک جانب دولت کا ارتکاز در حقیقت عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتقاز ہے۔''
مصنف لکھتا ہے کہ 1983 اور 2007 کے دوران امریکا میں دولت میں ہونے والے اضافے کا 74 فیصد امیر ترین 5 فیصد کے حصے میں آیا جبکہ غریب ترین 60 فیصد کے پاس جو کچھ تھا اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے''۔
یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ ابھی تک سب کچھ مارکس کے درست ہونے کی نشاندہی کر رہا ہے، مصنف حسب روایت لکھتا ہے کہ ''اس کا یہ مطلب نہیں کہ مارکس مکمل طور پر درست تھا'' ٹائم میگزین کے مضمون میں لکھا کہ ''اس بڑھتی ہوئی نابرابری کا نتیجہ مارکس کی پیش بندی کے عین مطابق ہے یعنی طبقاتی جدوجہد کی واپسی۔ ساری دنیا کے محنت کشوں کا غصہ بڑھ رہا ہے اور وہ عالمی معیشت میں اپنے جائز حصے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے ایوان سے لے کر ایتھینز کی سڑکوں اور جنوبی چین کی پیداواری صنعتوں تک، سرمائے اور محنت کے درمیان کشیدگی، سیاسی اور معاشی واقعات کا تعین کر رہی ہے اور اس کی شدت کی مثال بیسویں صدی کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد نہیں ملتی۔''
اس مضمون میں بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا گیا ہے کہ امریکا میں اوباما اور ری پبلکن کے درمیان جاری لفاظی میں بھی طبقاتی تضاد کا اظہار ہوتا ہے اور اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ بحران کی قیمت کس طبقے سے کس قدر وصول کی جائے۔ جب بھی اوباما امریکی سامراج کے دولت مند حصوں پر ٹیکس بڑھانے کی بات کرتا ہے تو ری پبلکنز اس پر طبقاتی جنگ کرنے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ وہ خود محنت کشوں اور غریبوں کے خلاف طبقاتی جنگ میں مصروف ہیں۔ مصنف لکھتا ہے کہ جن ممالک میں حالیہ برسوں کے دوران قابل ذکر ترقی ہوئی ہے وہاں بھی طبقاتی جدوجہد میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کی بڑی مثال چین ہے۔
وہ لکھتا ہے کہ ''اگرچہ چین کے شہروں میں اجرتوں میں بڑا اضافہ ہورہا ہے لیکن امیر اور غریب کا فرق بہت وسیع ہے۔ پیو (Pew)کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں تقریباً آدھے چینیوں کے خیال میں امیر اور غریب میں فرق بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ 10 میں سے 8افراد اس بات سے متفق ہیں کہ چین میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہورہے ہیں۔ مضمون کے مطابق ایک چینی محنت کش پینک مین کہتا ہے ''باہر کے لوگوں کو ہماری زندگی میں بہت فراوانی نظر آتی ہے لیکن درحقیقت کارخانے کے اندر زندگی اس سے بہت مختلف ہے۔ امیر محنت کشوں کا استحصال کرکے دولت کما رہے ہیں۔
ہم کمیونزم کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ محنت کشوں کو متحد ہونا چاہیے۔ امریکا سے لے کر چین اور اسپین سے لے کر یونان سمیت دیگر کئی ممالک میں طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش کا ایک جائزہ پیش کرنے کے بعد مصنف نتیجہ نکالتا ہے کہ ''ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مستقبل کی بہتری کے مخدوش امکانات کی وجہ سے دنیا بھر کے محنت کشوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ میڈرڈ اور ایتھینز جیسے شہروں میں لاکھوں افراد نے آسمان سے باتیں کرتی بیروزگاری اور حالات کو مزید بگاڑنے والی کٹوتیوں کے اقدامات کے خلاف مظاہرے کیے ہیں''۔
اس کے بعد وہ اسی مضمون کو پڑھنے والے سرمایہ داروں کو تسلی دینے کے لیے لکھتا ہے کہ ''لیکن ابھی تک مارکس کے انقلاب نے عملی جامہ نہیں پہنا''۔ اس بات پر ہم متفق ہوسکتے ہیں۔ لیکن مصنف کو امید ہے کہ ایسا کبھی ہوگا بھی نہیں۔ اس بات سے ہم اتفاق نہیں کرسکتے۔ مصنف محنت کشوں کو اس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ نظام کی تبدیلی نہیں چاہتے بلکہ اس اصلاحات کے خواہاں ہیں۔ اس کام کے لیے وہ یونیورسٹی آف پیرس کے نام نہاد ''ماہرمارکرج'' یاک رانیے کا سہارا لیتا ہے۔ رانیے ان یونیورسٹی پروفیسروں میں سے ہے جو خود کو ترقی پسند ظاہر کرتے ہیں لیکن درحقیقت ہر وقت مارکرج کے بنیادی نظریات کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً جب وہ کہتا ہے کہ
''مظاہرے کرتے ہوئے طبقات موجودہ سماجی و معاشی نظام کا تختہ الٹنے یا اس کی تباہی کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔ آج طبقاتی جدوجہد کا مطالبہ نظام کو درست کرنے کا ہے تاکہ دولت کی ازسرنو تقسیم کرکے اسے طویل مدت کے لیے زیادہ قابل عمل اور پائیدار بنایا جاسکے'' پروفیسر رانسیے کا تجزیہ کہ محنت کش سوشلسٹ انقلاب کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے کے خواہش مندوں کی تسلی کا باعث ہوسکتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ لیبر اور سوشلسٹ پارٹیوں اور ان کی حکومتوں کی کہیں بھی نئی صف بندی اور ان کے ہاتھوں موجودہ معاشی نظام کی تبدیلی کے امکانات بہت ہی محدود ہیں۔ اس استدلال کی بنیاد پر ہر جگہ پر مزدور تحریک اور خصوصاً اس کے لیڈروں کی موجودہ کیفیت ہے۔ اگر عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کے مستقبل کا انحصار ان ہی لیڈروں پر ہے تو پھر پروفیسر صاحب درست ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات ہے کہ لیڈر ساری زندگی لیڈر نہیں رہتے۔ نظام کا بحران تمام نظریات کا امتحان لے رہا ہے۔
نظام میں اصلاحات کے خیال پر اس نظام کے بند گلی میں پھنس جانے سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ اب ماضی کی طرح اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ماضی کی دہائیوں میں طبقاتی جدوجہد کے ذریعے جیتی گئی تمام اصلاحات کو تباہ کیا جارہا ہے۔ ہر جگہ پر محنت کشوں کو دو نسلوں پہلے کے حالات زندگی میں جھونکا جارہا ہے۔ فرانسیسی پروفیسر کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں کہ ابتداء میں محنت کش یہ سوچ لے کر نہیں آتے کہ انقلاب ہی واحد راستہ ہے۔ شروعات میں وہ اجرتوں، حالات زندگی اور فلاح و بہبود پر ہونے والے حملوں کے خلاف لڑتے ہیں۔
وہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی کسی حل کی توقع کرتے ہیں۔ جب اصلاحات ممکن تھیں اور زندگی کچھ قابل برداشت لگتی تھی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ تجربات ان امیدوں کو توڑ ڈالیں گے۔سارے یورپ، امریکا، عرب، افریقہ اور ایشیا میں بڑے پیمانے کا سیاسی عدم استحکام ہے جس کا اظہار ہر انتخابات میں ہورہا ہے۔ ایک وقت میں مضبوط رہنے والی پارٹیاں حالات کے دباؤ کے زیر اثر برباد ہوچکی ہیں جس کی مثال یونان کی پاسوک ہے۔ محنت کش، حکومت میں بیٹھ کر کٹوتی کرنے والی ہر جماعت کے خلاف ہیں۔ یعنی محنت کش یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا نہیں چاہتے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ کٹوتیوں کے خلاف لڑائی کے لیے درکار پالیسیوں اور پروگرام کو نہیں جان پائے۔ ٹائم میگزین کے اس مضمون کا مصنف لکھتا ہے کہ ''اگر پالیسی ساز منصفانہ معاشی نظام کو یقینی بنانے کے طریقے دریافت نہیں کرتے تو پھر دنیا بھر کے محنت کش ایک ہوسکتے ہیں، مارکس کا انتقام حقیقت بن سکتا ہے۔'' کئی برسوں کی کٹوتیوں اور معیار زندگی میں شدید گراوٹ کے بعد یہ بحران جانے والا نہیں اور اس نظام میں کوئی بہتر مستقبل نہیں، محنت کش طبقے کے پاس واحد راستہ اس نظام کا انقلابی طریقے سے خاتمہ ہوگا۔ موجودہ کیفیت اس جانب بڑھ رہی ہے۔ وال اسٹریٹ قبضہ، تحریک اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ ایسا وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔
کارل مارکس نے ''داس کیپٹل'' لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ منافعے کے نام پر سرمایہ دار جو رقم حاصل کرتا ہے، درحقیقت وہ مزدوروں سے زائد محنت کرواتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ کم اجرت دے کر باقی رقم منافعے کے نام پر ہڑپ کر جاتا ہے۔ درحقیقت یہی ''قدرزائد'' ہے۔ پھر طبقاتی کشمکش کو تاریخی پس منظر میں وضاحت کرتے ہوئے ''تاریخی جدلیاتی مادیت'' کو درست ثابت کیا جسے آج تک کوئی بھی رد نہیں کرپایا۔امریکا کا بورژوا (سرمایہ دار) جریدہ ٹائم میں 25 مارچ 2013 کو چھپنے والے ایک مضمون میں جس کا عنوان ہے ''مارکس کا انتقام: طبقاتی جدوجہد کے ہاتھوں بدلتی دنیا'' اس مضمون میں مارکس کی تحریر کی نقل کی گئی ہے کہ ''ایک جانب دولت کا ارتکاز در حقیقت عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتقاز ہے۔''
مصنف لکھتا ہے کہ 1983 اور 2007 کے دوران امریکا میں دولت میں ہونے والے اضافے کا 74 فیصد امیر ترین 5 فیصد کے حصے میں آیا جبکہ غریب ترین 60 فیصد کے پاس جو کچھ تھا اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے''۔
یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ ابھی تک سب کچھ مارکس کے درست ہونے کی نشاندہی کر رہا ہے، مصنف حسب روایت لکھتا ہے کہ ''اس کا یہ مطلب نہیں کہ مارکس مکمل طور پر درست تھا'' ٹائم میگزین کے مضمون میں لکھا کہ ''اس بڑھتی ہوئی نابرابری کا نتیجہ مارکس کی پیش بندی کے عین مطابق ہے یعنی طبقاتی جدوجہد کی واپسی۔ ساری دنیا کے محنت کشوں کا غصہ بڑھ رہا ہے اور وہ عالمی معیشت میں اپنے جائز حصے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے ایوان سے لے کر ایتھینز کی سڑکوں اور جنوبی چین کی پیداواری صنعتوں تک، سرمائے اور محنت کے درمیان کشیدگی، سیاسی اور معاشی واقعات کا تعین کر رہی ہے اور اس کی شدت کی مثال بیسویں صدی کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد نہیں ملتی۔''
اس مضمون میں بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا گیا ہے کہ امریکا میں اوباما اور ری پبلکن کے درمیان جاری لفاظی میں بھی طبقاتی تضاد کا اظہار ہوتا ہے اور اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ بحران کی قیمت کس طبقے سے کس قدر وصول کی جائے۔ جب بھی اوباما امریکی سامراج کے دولت مند حصوں پر ٹیکس بڑھانے کی بات کرتا ہے تو ری پبلکنز اس پر طبقاتی جنگ کرنے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ وہ خود محنت کشوں اور غریبوں کے خلاف طبقاتی جنگ میں مصروف ہیں۔ مصنف لکھتا ہے کہ جن ممالک میں حالیہ برسوں کے دوران قابل ذکر ترقی ہوئی ہے وہاں بھی طبقاتی جدوجہد میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کی بڑی مثال چین ہے۔
وہ لکھتا ہے کہ ''اگرچہ چین کے شہروں میں اجرتوں میں بڑا اضافہ ہورہا ہے لیکن امیر اور غریب کا فرق بہت وسیع ہے۔ پیو (Pew)کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں تقریباً آدھے چینیوں کے خیال میں امیر اور غریب میں فرق بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ 10 میں سے 8افراد اس بات سے متفق ہیں کہ چین میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہورہے ہیں۔ مضمون کے مطابق ایک چینی محنت کش پینک مین کہتا ہے ''باہر کے لوگوں کو ہماری زندگی میں بہت فراوانی نظر آتی ہے لیکن درحقیقت کارخانے کے اندر زندگی اس سے بہت مختلف ہے۔ امیر محنت کشوں کا استحصال کرکے دولت کما رہے ہیں۔
ہم کمیونزم کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ محنت کشوں کو متحد ہونا چاہیے۔ امریکا سے لے کر چین اور اسپین سے لے کر یونان سمیت دیگر کئی ممالک میں طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش کا ایک جائزہ پیش کرنے کے بعد مصنف نتیجہ نکالتا ہے کہ ''ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مستقبل کی بہتری کے مخدوش امکانات کی وجہ سے دنیا بھر کے محنت کشوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ میڈرڈ اور ایتھینز جیسے شہروں میں لاکھوں افراد نے آسمان سے باتیں کرتی بیروزگاری اور حالات کو مزید بگاڑنے والی کٹوتیوں کے اقدامات کے خلاف مظاہرے کیے ہیں''۔
اس کے بعد وہ اسی مضمون کو پڑھنے والے سرمایہ داروں کو تسلی دینے کے لیے لکھتا ہے کہ ''لیکن ابھی تک مارکس کے انقلاب نے عملی جامہ نہیں پہنا''۔ اس بات پر ہم متفق ہوسکتے ہیں۔ لیکن مصنف کو امید ہے کہ ایسا کبھی ہوگا بھی نہیں۔ اس بات سے ہم اتفاق نہیں کرسکتے۔ مصنف محنت کشوں کو اس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ نظام کی تبدیلی نہیں چاہتے بلکہ اس اصلاحات کے خواہاں ہیں۔ اس کام کے لیے وہ یونیورسٹی آف پیرس کے نام نہاد ''ماہرمارکرج'' یاک رانیے کا سہارا لیتا ہے۔ رانیے ان یونیورسٹی پروفیسروں میں سے ہے جو خود کو ترقی پسند ظاہر کرتے ہیں لیکن درحقیقت ہر وقت مارکرج کے بنیادی نظریات کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً جب وہ کہتا ہے کہ
''مظاہرے کرتے ہوئے طبقات موجودہ سماجی و معاشی نظام کا تختہ الٹنے یا اس کی تباہی کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔ آج طبقاتی جدوجہد کا مطالبہ نظام کو درست کرنے کا ہے تاکہ دولت کی ازسرنو تقسیم کرکے اسے طویل مدت کے لیے زیادہ قابل عمل اور پائیدار بنایا جاسکے'' پروفیسر رانسیے کا تجزیہ کہ محنت کش سوشلسٹ انقلاب کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے کے خواہش مندوں کی تسلی کا باعث ہوسکتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ لیبر اور سوشلسٹ پارٹیوں اور ان کی حکومتوں کی کہیں بھی نئی صف بندی اور ان کے ہاتھوں موجودہ معاشی نظام کی تبدیلی کے امکانات بہت ہی محدود ہیں۔ اس استدلال کی بنیاد پر ہر جگہ پر مزدور تحریک اور خصوصاً اس کے لیڈروں کی موجودہ کیفیت ہے۔ اگر عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کے مستقبل کا انحصار ان ہی لیڈروں پر ہے تو پھر پروفیسر صاحب درست ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات ہے کہ لیڈر ساری زندگی لیڈر نہیں رہتے۔ نظام کا بحران تمام نظریات کا امتحان لے رہا ہے۔
نظام میں اصلاحات کے خیال پر اس نظام کے بند گلی میں پھنس جانے سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ اب ماضی کی طرح اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ماضی کی دہائیوں میں طبقاتی جدوجہد کے ذریعے جیتی گئی تمام اصلاحات کو تباہ کیا جارہا ہے۔ ہر جگہ پر محنت کشوں کو دو نسلوں پہلے کے حالات زندگی میں جھونکا جارہا ہے۔ فرانسیسی پروفیسر کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں کہ ابتداء میں محنت کش یہ سوچ لے کر نہیں آتے کہ انقلاب ہی واحد راستہ ہے۔ شروعات میں وہ اجرتوں، حالات زندگی اور فلاح و بہبود پر ہونے والے حملوں کے خلاف لڑتے ہیں۔
وہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی کسی حل کی توقع کرتے ہیں۔ جب اصلاحات ممکن تھیں اور زندگی کچھ قابل برداشت لگتی تھی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ تجربات ان امیدوں کو توڑ ڈالیں گے۔سارے یورپ، امریکا، عرب، افریقہ اور ایشیا میں بڑے پیمانے کا سیاسی عدم استحکام ہے جس کا اظہار ہر انتخابات میں ہورہا ہے۔ ایک وقت میں مضبوط رہنے والی پارٹیاں حالات کے دباؤ کے زیر اثر برباد ہوچکی ہیں جس کی مثال یونان کی پاسوک ہے۔ محنت کش، حکومت میں بیٹھ کر کٹوتی کرنے والی ہر جماعت کے خلاف ہیں۔ یعنی محنت کش یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا نہیں چاہتے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ کٹوتیوں کے خلاف لڑائی کے لیے درکار پالیسیوں اور پروگرام کو نہیں جان پائے۔ ٹائم میگزین کے اس مضمون کا مصنف لکھتا ہے کہ ''اگر پالیسی ساز منصفانہ معاشی نظام کو یقینی بنانے کے طریقے دریافت نہیں کرتے تو پھر دنیا بھر کے محنت کش ایک ہوسکتے ہیں، مارکس کا انتقام حقیقت بن سکتا ہے۔'' کئی برسوں کی کٹوتیوں اور معیار زندگی میں شدید گراوٹ کے بعد یہ بحران جانے والا نہیں اور اس نظام میں کوئی بہتر مستقبل نہیں، محنت کش طبقے کے پاس واحد راستہ اس نظام کا انقلابی طریقے سے خاتمہ ہوگا۔ موجودہ کیفیت اس جانب بڑھ رہی ہے۔ وال اسٹریٹ قبضہ، تحریک اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ ایسا وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔