ماسٹر مائنڈ
اپنی اور ملک کی عزت کا سوال ایک مضبوط اعصاب کے مالک کو بھی شل کرسکتا تھا۔
دنیا ایک عجیب اسٹیج ہے، تمام کردار جیتے جاگتے ہوئے اس اسٹیج پر آتے ہیں جن میں سے بہت سے کردار ایک چھوٹے سے نام کے ساتھ ابھرتے ہیں اور ملالہ یوسفزئی کی طرح اتنے واضح نظر آتے ہیں کہ دنیا کے سو بااثر شخصیات میں چمکتے رہتے ہیں۔ یہ کردار کن مراحل سے گزرتا آگے بڑھا اس کے ساتھ اور کون کون سے سپورٹنگ رولز تھے، دراصل وہ سپورٹنگ رولز ہی کسی بھی کردار کو اجاگر کرنے میں اہم ہوتے ہیں مثلاً پرویز مشرف کی مثال لیں۔
ایک پڑھی لکھی فیملی کا ایک ہونہار لڑکا جو کسی زمانے میں کراچی کے اس وقت کے ماڈرن اور حالیہ متوسط علاقے ناظم آباد میں عام انداز سے اٹھتا بیٹھتا تھا، وہ بہادر اور شائستہ بھی تھا اور اس میں اس کی خاندانی قدروں کا بھی عمل دخل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت اس بلاک میں جماعت اسلامی کے مرحوم پروفیسر غفور احمد بھی رہائش پذیر تھے۔ شاید دونوں حضرات کو علم ہی نہ تھا کہ مستقبل میں دونوں حضرات اتنی بااثر شخصیات بن کر ابھریں گے۔ پروفیسر غفور احمد اپنی سنجیدہ طبیعت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوصف انتہائی نرم خو تھے۔
شروع سے لے کر ان کی وفات تک ان کی خاندانی قدریں اور نرم مزاج، شائستہ انداز گفتگو ان کی شخصیت میں اجاگر رہا۔ جبکہ پرویز مشرف نے آرمی چیف بننے کے بعد ترقی کا جو سفر طے کیا اس میں ان کی ذہانت کے ساتھ ساتھ کچھ غرور کی آمیزش شامل ہوگئی یہاں تک کہ حکومتی کرسی پر فائز ہوتے ہی ان کے کچھ فیصلے پاکستانی عوام پر بہت بھاری پڑے۔
یہ بھی درست ہے کہ اس وقت بڑی طاقتوں کا ان پر بہت دباؤ تھا۔ اپنی اور ملک کی عزت کا سوال ایک مضبوط اعصاب کے مالک کو بھی شل کرسکتا تھا۔ بہت سے وہ فیصلے بھی انھیں کرنے پڑے جس کا کڑوا پھل آج عوام کو کھانا پڑ رہا ہے، ان بدترین فیصلوں میں دو بار آئین شکنی ، ججز کو نظر بند کرنے ، لال مسجد کا واقعہ اور بلوچستان کے نواب اکبر بگٹی مرحوم کا اہم فیصلہ بھی شامل ہے جس نے پرویز مشرف کے بہت سے کارناموں پر سیاہی پھیر دی۔
ذوالفقار بھٹو ایک ذہین سیاست دان تھے، وہ نہایت بے باک، سمجھدار اور زمانے کی چال کو پہچاننے والے تھے، وہ جانتے تھے کہ عوام کا دل کس طرح سے جیتا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد گو اس وقت ان کا ایک جذباتی فیصلہ تھا لیکن انھیں بھی شاید علم نہ تھا کہ ان کا یہ جذباتی فیصلہ جو یقیناً انھوں نے اس وقت اپنی قوم کی محبت میں کیا تھا اتنا ثمرآور ثابت ہوگا۔ عوام کا جم غفیر تھا جو روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے لگاتا ان کے ساتھ ہولیا تھا، ان کی پارٹی کا نام بھی لوگوں کے حوالے سے ہی تھا جو بعد میں پی پی پی بن کر کچھ پھیکا سا ہوگیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی سطح پر جس بے باکی سے پاکستان کی نمائندگی کی اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اگر ان جیسے کچھ اور بھی بھٹو ہوتے تو ہمارا ملک کہاں سے کہاں پہنچ جاتا، لیکن اس مرکزی کردار کے سپورٹنگ کریکٹرز نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
وہ اپنے فیصلوں میں اتنے خودمختار بھی نہ تھے۔ مشہور مفکر نپولین مل کے مطابق ''ہمارا دماغ اکیلا کسی بڑے مشن پر کام نہیں کرسکتا، ہمیں کچھ مزید دماغ اپنے ساتھ ملانے ہوتے ہیں، اس عمل کو Master Mind کہتے ہیں''۔ یعنی بہت سے ذہین دماغ مل کر سوچتے اور سمجھتے ہیں گو ان پر عمل ایک دماغ کرتا ہے یا کسی ایک مشن کے لیے وہ باہم مشورے اور ریسرچ کرتے ہیں لہٰذا اگر اس مشن میں ناکامی ہو تو وہ کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ اس کے ماسٹر مائنڈ یعنی اس پورے گروپ کی ناکامی ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کے ماسٹر مائنڈ نے انھیں کچھ ایسے فیصلے کرنے پر بھی مجبور کیا جس سے ان کی ناکامی کا سفر شروع ہوا، لیکن جب بات ہتھکڑی اور جیل سے پھانسی تک پہنچی تو ان کا گروپ ماسٹر مائنڈ ایک جانب اور وہ ایک جانب تھے اور ناکامی کا زہر انھیں پینا ہی پڑا۔ دراصل ماسٹر مائنڈ صرف فاتح کی نظر سے دیکھ رہا تھا اس کے منفی اثرات کو یکسر نظرانداز کرکے ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کی ناکامی کا ایک یہ ہی سبب ہے کہ لالچ، حرص، کرسی کا نشہ بڑے بڑے زرخیز ذہنوں کو نگل گیا۔ اگر ان کے سپورٹنگ کردار انھیں خاردار کانٹوں سے بچنے کا مشورہ دیتے تو ایک ذہین شخص جو اس ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتا تھا ایسے ضائع نہ ہوتا۔
ان دنوں چک شہزاد میں ہونے والی سرگرمیاں پورے ملک میں خاصی دلچسپی کی نظروں سے دیکھی جارہی ہیں۔ آرمی چیف کے عہدے سے قید بندی تک ایک جنرل نے کیسے سفر کیا، اس ذہین اور بہادر شخص نے کیا اکیلے بہت سے فیصلے کر ڈالے تھے یا اس کے بھی ماسٹر مائنڈ تھے یا وہ خود اپنے فیصلوں میں خودمختار تھے، ان سے پہلے گزرنے والے آرمی جنرلز میں ایوب خان کا نام سرفہرست آتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے دور میں پاکستان نے بہت ترقی کی، لیکن بہت سے حوالوں سے وہ بھی بدنام رہے، خاص کر روس کی سرزمین پر ہونے والا وہ فیصلہ جب انھوں نے بھارت کے بڑے حصے پر قابض اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا جیت کر ہارنے کے مترادف تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان کے دور میں جس انداز سے سلوک کیا گیا وہ ان کے ہرگز بھی شایان شان نہ تھا۔ پٹھان عورت کی بہت عزت کرتا ہے پھر کیسے ایک عظیم آدمی اور محسن پاکستان کی بہن کے ساتھ ان کے دور میں ایسا سلوک ہوا، کیا اپنے ملک کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے والی وہ عظیم عورت اس لائق تھی، اور کیا ایوب خان ان تمام فیصلوں میں اکیلے شامل تھے؟
پاکستانی جنرلز کی فہرست کا ایک اور نام یحییٰ خان جن کا بدترین اور ناقابل معافی کارنامہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کردینے کا تھا۔ شراب و شباب کی بدترین تاریخ رقم کرنے والے نے سب کچھ شراب کے جام میں لڑھکا دیا، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان نفرتیں کیسے بڑھتی گئیں، بھارت کے زہریلے شکنجے کیسے مشرقی پاکستان کودبوچتے گئے، انھیں کوئی پرواہ نہ تھی، ان کا ماسٹرمائنڈ تو انھیں عیاشیاں فراہم کرنے کے بارے میں سوچتا رہتا تھا، ملک سے انھیں کیا غرض تھی، پھر سب کچھ تباہ ہوگیا ایک بار پھر پاکستان کو بننے کے عمل سے گزرنا پڑا، خون کی ندیاں بہیں اور موصوف مرکزی کردار اپنے آخری وقت میں بڑے مزے سے اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے سگار پیتے ماحول سے لطف اندوز ہوتے رہے، اس وقت کوئی بارودی گاڑی ان کی بالکونی سے نہ ٹکرائی، کسی نے ٹارگٹ کلنگ نہ کی اور جب دنیا سے گزرے تو انھیں پورے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا گو وہ اس قابل ہرگز نہ تھے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے یہاں بہت سے مرکزی کرداروں کو معاف کردیا گیا انھیں ان کی مرضی کی زندگی گزارنے کا موقع دیا گیا، وہ جو مرکز میں تھے اور وہ جو ماسٹر مائنڈ گروپ میں شامل تھے آج میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں سارے چہرے دیر یا بدیر سامنے آہی جاتے ہیں وہ جنہیں کھلا پلا کر سلانے کو کہا جاتا ہے اور وہ جو کھلاتے پلاتے ہیں تاکہ خود سکھی رہیں لہٰذا اس سامنے آنے کے عمل کو ہی پاکستانی قوم اپنے لیے نجات کا راستہ سمجھتی ہے کم ازکم اس کے مجرم چاہے جرم کے بعد ہی سامنے تو آجاتے ہیں اگر پرویز مشرف عوام کے کٹہرے میں خود آہی گئے ہیں تو اس بار ماضی کی ترکیبوں کو نہ دہرایا جائے، ماسٹر مائنڈ کو فرار کا موقع نہ دیا جائے، بس اب بہت ہوچکا ہے۔
ایک پڑھی لکھی فیملی کا ایک ہونہار لڑکا جو کسی زمانے میں کراچی کے اس وقت کے ماڈرن اور حالیہ متوسط علاقے ناظم آباد میں عام انداز سے اٹھتا بیٹھتا تھا، وہ بہادر اور شائستہ بھی تھا اور اس میں اس کی خاندانی قدروں کا بھی عمل دخل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت اس بلاک میں جماعت اسلامی کے مرحوم پروفیسر غفور احمد بھی رہائش پذیر تھے۔ شاید دونوں حضرات کو علم ہی نہ تھا کہ مستقبل میں دونوں حضرات اتنی بااثر شخصیات بن کر ابھریں گے۔ پروفیسر غفور احمد اپنی سنجیدہ طبیعت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوصف انتہائی نرم خو تھے۔
شروع سے لے کر ان کی وفات تک ان کی خاندانی قدریں اور نرم مزاج، شائستہ انداز گفتگو ان کی شخصیت میں اجاگر رہا۔ جبکہ پرویز مشرف نے آرمی چیف بننے کے بعد ترقی کا جو سفر طے کیا اس میں ان کی ذہانت کے ساتھ ساتھ کچھ غرور کی آمیزش شامل ہوگئی یہاں تک کہ حکومتی کرسی پر فائز ہوتے ہی ان کے کچھ فیصلے پاکستانی عوام پر بہت بھاری پڑے۔
یہ بھی درست ہے کہ اس وقت بڑی طاقتوں کا ان پر بہت دباؤ تھا۔ اپنی اور ملک کی عزت کا سوال ایک مضبوط اعصاب کے مالک کو بھی شل کرسکتا تھا۔ بہت سے وہ فیصلے بھی انھیں کرنے پڑے جس کا کڑوا پھل آج عوام کو کھانا پڑ رہا ہے، ان بدترین فیصلوں میں دو بار آئین شکنی ، ججز کو نظر بند کرنے ، لال مسجد کا واقعہ اور بلوچستان کے نواب اکبر بگٹی مرحوم کا اہم فیصلہ بھی شامل ہے جس نے پرویز مشرف کے بہت سے کارناموں پر سیاہی پھیر دی۔
ذوالفقار بھٹو ایک ذہین سیاست دان تھے، وہ نہایت بے باک، سمجھدار اور زمانے کی چال کو پہچاننے والے تھے، وہ جانتے تھے کہ عوام کا دل کس طرح سے جیتا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد گو اس وقت ان کا ایک جذباتی فیصلہ تھا لیکن انھیں بھی شاید علم نہ تھا کہ ان کا یہ جذباتی فیصلہ جو یقیناً انھوں نے اس وقت اپنی قوم کی محبت میں کیا تھا اتنا ثمرآور ثابت ہوگا۔ عوام کا جم غفیر تھا جو روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے لگاتا ان کے ساتھ ہولیا تھا، ان کی پارٹی کا نام بھی لوگوں کے حوالے سے ہی تھا جو بعد میں پی پی پی بن کر کچھ پھیکا سا ہوگیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی سطح پر جس بے باکی سے پاکستان کی نمائندگی کی اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اگر ان جیسے کچھ اور بھی بھٹو ہوتے تو ہمارا ملک کہاں سے کہاں پہنچ جاتا، لیکن اس مرکزی کردار کے سپورٹنگ کریکٹرز نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
وہ اپنے فیصلوں میں اتنے خودمختار بھی نہ تھے۔ مشہور مفکر نپولین مل کے مطابق ''ہمارا دماغ اکیلا کسی بڑے مشن پر کام نہیں کرسکتا، ہمیں کچھ مزید دماغ اپنے ساتھ ملانے ہوتے ہیں، اس عمل کو Master Mind کہتے ہیں''۔ یعنی بہت سے ذہین دماغ مل کر سوچتے اور سمجھتے ہیں گو ان پر عمل ایک دماغ کرتا ہے یا کسی ایک مشن کے لیے وہ باہم مشورے اور ریسرچ کرتے ہیں لہٰذا اگر اس مشن میں ناکامی ہو تو وہ کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ اس کے ماسٹر مائنڈ یعنی اس پورے گروپ کی ناکامی ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کے ماسٹر مائنڈ نے انھیں کچھ ایسے فیصلے کرنے پر بھی مجبور کیا جس سے ان کی ناکامی کا سفر شروع ہوا، لیکن جب بات ہتھکڑی اور جیل سے پھانسی تک پہنچی تو ان کا گروپ ماسٹر مائنڈ ایک جانب اور وہ ایک جانب تھے اور ناکامی کا زہر انھیں پینا ہی پڑا۔ دراصل ماسٹر مائنڈ صرف فاتح کی نظر سے دیکھ رہا تھا اس کے منفی اثرات کو یکسر نظرانداز کرکے ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کی ناکامی کا ایک یہ ہی سبب ہے کہ لالچ، حرص، کرسی کا نشہ بڑے بڑے زرخیز ذہنوں کو نگل گیا۔ اگر ان کے سپورٹنگ کردار انھیں خاردار کانٹوں سے بچنے کا مشورہ دیتے تو ایک ذہین شخص جو اس ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتا تھا ایسے ضائع نہ ہوتا۔
ان دنوں چک شہزاد میں ہونے والی سرگرمیاں پورے ملک میں خاصی دلچسپی کی نظروں سے دیکھی جارہی ہیں۔ آرمی چیف کے عہدے سے قید بندی تک ایک جنرل نے کیسے سفر کیا، اس ذہین اور بہادر شخص نے کیا اکیلے بہت سے فیصلے کر ڈالے تھے یا اس کے بھی ماسٹر مائنڈ تھے یا وہ خود اپنے فیصلوں میں خودمختار تھے، ان سے پہلے گزرنے والے آرمی جنرلز میں ایوب خان کا نام سرفہرست آتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے دور میں پاکستان نے بہت ترقی کی، لیکن بہت سے حوالوں سے وہ بھی بدنام رہے، خاص کر روس کی سرزمین پر ہونے والا وہ فیصلہ جب انھوں نے بھارت کے بڑے حصے پر قابض اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا جیت کر ہارنے کے مترادف تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان کے دور میں جس انداز سے سلوک کیا گیا وہ ان کے ہرگز بھی شایان شان نہ تھا۔ پٹھان عورت کی بہت عزت کرتا ہے پھر کیسے ایک عظیم آدمی اور محسن پاکستان کی بہن کے ساتھ ان کے دور میں ایسا سلوک ہوا، کیا اپنے ملک کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے والی وہ عظیم عورت اس لائق تھی، اور کیا ایوب خان ان تمام فیصلوں میں اکیلے شامل تھے؟
پاکستانی جنرلز کی فہرست کا ایک اور نام یحییٰ خان جن کا بدترین اور ناقابل معافی کارنامہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کردینے کا تھا۔ شراب و شباب کی بدترین تاریخ رقم کرنے والے نے سب کچھ شراب کے جام میں لڑھکا دیا، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان نفرتیں کیسے بڑھتی گئیں، بھارت کے زہریلے شکنجے کیسے مشرقی پاکستان کودبوچتے گئے، انھیں کوئی پرواہ نہ تھی، ان کا ماسٹرمائنڈ تو انھیں عیاشیاں فراہم کرنے کے بارے میں سوچتا رہتا تھا، ملک سے انھیں کیا غرض تھی، پھر سب کچھ تباہ ہوگیا ایک بار پھر پاکستان کو بننے کے عمل سے گزرنا پڑا، خون کی ندیاں بہیں اور موصوف مرکزی کردار اپنے آخری وقت میں بڑے مزے سے اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے سگار پیتے ماحول سے لطف اندوز ہوتے رہے، اس وقت کوئی بارودی گاڑی ان کی بالکونی سے نہ ٹکرائی، کسی نے ٹارگٹ کلنگ نہ کی اور جب دنیا سے گزرے تو انھیں پورے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا گو وہ اس قابل ہرگز نہ تھے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے یہاں بہت سے مرکزی کرداروں کو معاف کردیا گیا انھیں ان کی مرضی کی زندگی گزارنے کا موقع دیا گیا، وہ جو مرکز میں تھے اور وہ جو ماسٹر مائنڈ گروپ میں شامل تھے آج میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں سارے چہرے دیر یا بدیر سامنے آہی جاتے ہیں وہ جنہیں کھلا پلا کر سلانے کو کہا جاتا ہے اور وہ جو کھلاتے پلاتے ہیں تاکہ خود سکھی رہیں لہٰذا اس سامنے آنے کے عمل کو ہی پاکستانی قوم اپنے لیے نجات کا راستہ سمجھتی ہے کم ازکم اس کے مجرم چاہے جرم کے بعد ہی سامنے تو آجاتے ہیں اگر پرویز مشرف عوام کے کٹہرے میں خود آہی گئے ہیں تو اس بار ماضی کی ترکیبوں کو نہ دہرایا جائے، ماسٹر مائنڈ کو فرار کا موقع نہ دیا جائے، بس اب بہت ہوچکا ہے۔